رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

حیات مسیح - منکرین ختم نبوت (اہل تثلیث ) کی جڑ کا قرآن سے خاتمہ

قرآن، منکرین ختم نبوت (اہل تثلیث) کے عقیده کی بنیاد کو جڑ کاٹ دیتا ہے-منکرین کہتے ہیں کہ؛
’’ہمارے دعوی کی جڑھ حضرت عیسٰی کی وفات ہے‘ اگر حضرت عیسٰی در حقیقت زندہ ہیں تو ہمارے سب دعوے جھوٹے اور سب دلائل ہیچ ہیں اور اگروہ درحقیقت قرآن کے روسے فوت شدہ ہیں تو ہمارے مخالف باطل پر ہیں--- ‘‘
اور جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے حیات و و فات مسیح علیہ السلام کا عقیدہ جماعت احمدیہ اور دیگر مسلمانوں کے مابین ایک فیصلہ کن اور بنیادی اہمیت کا عقیدہ ہے۔ جب تک یہ مسئلہ پوری طرح حل نہ ہوجائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مثیلِ مسیح ہونے کے دعوی کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا۔ اس حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ہمارے دعوی کی جڑھ حضرت عیسٰی کی وفات ہے‘‘ (لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ246)[60]

’’یاد رہے کہ ہمارے اور ہمارے مخالفوں کے صدق و کذب آزمانے کے لئے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی وفات حیات ہے۔ اگر حضرت عیسٰی در حقیقت زندہ ہیں تو ہمارے سب دعوے جھوٹے اور سب دلائل ہیچ ہیں اور اگروہ درحقیقت قرآن کے روسے فوت شدہ ہیں تو ہمارے مخالف باطل پر ہیں ‘‘ (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17صفحہ 264حاشیہ)

ایک شدید غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے کہ تمام نفس ںے موت کا مزه چکھنا ہے- کب؟ کہاں؟ کیسے؟ اس کا علم صرف اللہ تعالی کو ہے- اور اگر کوئی مر جایے تو اس کو دنیا میں واپس لانا بھی الله تعالی کے لئے کوئی مشکل نہیں- ہم لوگ اللہ پر پابندیاں نہیں لگا سکتے کہ وہ کیا کرے یا نہ کرے-  قرآن میں مردوں کو زندگی دینے کی بہت سی مثالیں موجود ہیں-  
وفات مسیح - قادیانیت کی جڑ کا خاتمہ ( دعوی دار مسیح موعود)
وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللهُ واللهُ خَيْرُ الْمَاکِرِيْنَ [’’پھر (عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کے لیے) انہوں نے خفیہ تدبیریں کیں اور اللہ نے بھی (عیسیٰ علیہ السلام کو بچانے کی) خفیہ تدبیریں کیں۔ (یعنی کفار کی تدبیر کا رد کیا) اور اللہ سب خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہترخفیہ تدبیر کرنے والا ہے۔‘‘(آل عمران،3:54]

الله تعالی کا پلان یہود کے پلان کو ناکام کرنا تھا نہ کہ حضرت عیسیٰ مسیح  علیہ السلام کو مار کر یہود کے پلان کو کامیاب کرنا؟  جیسا کہ منکرین ختم نبوت آیات قرآن کے برخلاف دعوی کرتے ہیں - الله تعالی  ۓ اپنا پلان ظاہر کر دیا:-

اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ فِیۡمَا کُنۡتُمۡ فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ ﴿۵۵﴾

"جب اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ اے عیسیٰ! میں تجھے پورا لینے والا ہوں( مُتَوَفِّيْکَ ) اور تجھے اپنی جانب اٹھانے والا ہوں (رَافِعُکَ) اور تجھے کافروں سے پاک کرنے والا ہوں اور تیرے تابعداروں کو کافروں کے اوپر غالب کرنے والا ہوں قیامت کے دن تک ، پھر تم سب کا لوٹنا (مَرۡجِعُکُمۡ ) میری ہی طرف ہے میں ہی تمہارے آپس کے تمام تر اختلافات کا فیصلہ کرونگا   (قرآن 3:55) [تین اہم الفاظ میں سارے مسئلہ کا حل پوشیدہ ہے:  مُتَوَفِّيْکَ، رَافِعُکَ، مَرۡجِعُکُمۡ]

1.موت میں انسان کی روح اور جان (زندگی) چلی جاتی ہے جسم یہیں دنیا میں رہ جاتا ہے- 

2. عربی لفظ "متوفی" کا ایک یہ مطلب یہ کہ: مکمل پوا کا پورا لے لینا - انسان مرکب ہے تین چیزوں کا :  i) جسم ii)روح ، iii)جان(زندگی)- جب یہ تینوں مکمل ہیں اکٹھے ہیں تو انسان زندہ حالت میں ہے ، جیسے نیند میں-  رَافِعُکَ ، بلند کرنے، اونچا کرنے جسمانی طور پر-

3.اگر جسم دنیا میں رہ جاۓ صرف روح اور جان (زندگی) الله تعالی لیتا ہے جیسا کہ عام مشاہدہ ہے، تو اسے 'موت' کہا جاتا ہے- مگر  یہ تاریخی شہادت، ایک حقیقت ہے کہ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کا جسم دنیا میں نہیں رہا جوکسی کو نہیں ملا اس پر داستانیں مشہورہیں- لہذا  ان پر یہ لفظ مُتَوَفِّیْکَ یعنی  'مکمل طور پر پورا کا پورا  حضرت عیسیٰ علیہ السلام مسیح علیہ السلام کو الله تعالی  نے لے لیا' درست طور پر بعین لاگو ہوتا ہے- منکرین نبوت  (مُتَوَفِّيْکَ، رَافِعُکَ) کے غلط معنی نکال کر یہود یہود کا پلان کامیاب کرتے ہیں اور اللہ کو ناکام (استغفراللہ )- 

4. اسی آیات میں الله تعالی فرماتا ہے: ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُکُمْ [پھر تمہیں میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے (قرآن 3:55)] تو حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کو تو الله تعالی نے مکمل اٹھا لیا- توالله کے پاس واپس لوٹ کر وہ اسی صورت میں آسکتے ہیں جب ان کی  دنیا میں (واپسی  (نزول) ہو پھر موت (مَرۡجِعُکُمۡ )  (یہ دنیا میں دوبارہ واپسی یا نزول عیسیٰ علیہ السلام کی طرف بالواسطہ/ indirect اشارہ ہے مگر یہ اور احادیث نزول (قرآن:5:116/117) سے متضاد ہیں، اس کا حل علماء کو نکلالنا ہو گا

لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی 'موت' جو منکرین ختم نبوت عقیده کی جڑھ ہے قطعی طور پر قرآن سے ثابت نہیں بلکہ مکمل طور پر جسم سمیت زندہ اوپر اٹھایا جانا ثابت ہے-

پس منکرین ختم نبوت کی بنیاد اور جڑھ کا ختمہ ہو گیا- ان کو اسلام کی طرف رجوع، واپسی کی دعوت ہے-

مزید ٹفصل درج ذیل ......

https://bit.ly/KhatmeRoot

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~

مردوں کی دنیا میں زندہ واپسی

عام طور پر مردے دنیا میں واپس نہیں آتے لیکن «ان الله علی کل شیء قدیر»

حضرت عزیر علیہ السلام اور ان کے  گدھے کی موت اور سو سال بعد زندہ ہونے کا واقعہ قرآن میں موجود ہے[61] 

اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مردوں کو الله تعالی کے حکم سے زندہ کرنا[62]-  

حضرت ابراہیم علیہ السلام  کا پرندوں کے ٹکڑے کرنا اور اللہ کا زندگی عطا کرنا[63] -

اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ اٹھایا جانا اللہ تعالی کے لئے کوئی مسئلہ نہیں جس کو مرزا صاحب نے اپنے مذھب کی جڑ بنا  رکھا ہے- یہ جڑہی غلط ہے- «ان الله علی کل شیء قدیر» مزید مثالیں:

بنی اسرایئل کی گاۓ اور  مقتول کا زندہ ہونا

 فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا ۚ كَذَٰلِكَ يُحْيِي اللَّهُ الْمَوْتَىٰ وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ‎﴿٧٣﴾

 اُس وقت ہم نے حکم دیا کہ مقتول کی لاش کو اس کے ایک حصے سے ضرب لگاؤ دیکھو اس طرح اللہ مُردوں کو زندگی بخشتا ہے اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو (قرآن: 2:73)[64]

بنی اسرائیل کے ستر افراد کی موت اور زندگی  

بنی اسرائیل کے  ستر منتخب افراد پر بجلی گرا کر انہیں ہلاک کیا گیا اور پھر دوبارہ زندہ کیا گیا تھا۔

حیات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قرآن سے ثبوت 

قرآن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ  حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوالله تعالی نے زندہ  اتھا کر دشمنوں کی سکیم اور پلان کو ناکام کر دیا- الیکن اگر اہل تثلیث ("منکرین ختم نبوت" ) کی یہ بات تسلیم کر لی جایے کہ ان کو موت دی گیئی تو یہ ان کے دشمنوں کا منصوبہ تھا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ کا منصوبہ ناکام رہا (استغفراللہ) ایسا ممکن نہیں-  کیا وہ قیامت سے قبل دنیا میں تشریف لاتے ہیں یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے. لیکن احادیث میں ان کے نزول کا ذکر ہے- اس موضوع  پر علماء اسلام کو قرآن و سنت کی روشنی میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے-

حیات مسیح کا  معامله قرآن ںے حل کردیا: 

اب اس پر مرزا صاحب یا کسی کے لیئے مسیح کی کسی بھی صورت یا نام سے زبردستی  واپسی کا مزید بیانیہ قائم کرنا قرآن کے برخلاف قرارپاتا ہے-اس اختلافی معامله پر مرزا صاحب یا کسی کے لیے بھی دو آپشنز ہیں یا تو قرآن پر چلیں یا احادیث پر- اپنی مرضی سے کچھ قرآن سے اور کچھ احادیث کو کانٹ چھانٹ کر ان سے اپنی پسند کے ٹکڑے نکل  کران میں اپنی خواہش نفس شامل کر کہ ایک  نیا بیانیہ مسیح مثیل، رنگ مسیح ، موعود، مسیح اور مہدی ایک شخصیت ، وغیرہ  بنا کر اس پروحی ، الہام کا لیبل لگا کر یہ سمجھنا کہ یہ مسلمانوں کو قابل قبول ہو گا ناممکن ہے-

رَفَعْ

مسلمانوں کا عقیده ہے کہ حضرت  عیسیٰ علیہ السلام نے وفات نہیں پائی الله تعالی ںے ان کو زندہ اپنے پاس اٹھا لیا جس طرح حضرت ادریس  علیہ السلام کو اور کوہ طور پہاڑ کو فزیکلی (physically) اٹھایا اور تینوں کے لئے ایک عربی لفظ (رَفَعْنَا) استعمال کیا-

رفع کا مطلب ہے بلند کرنا، اونچا کرنا -

 مرزا صاحب کا دعوی ہے کہ لفظ رفع قرآن میں صرف "روحانی بلندی" کے لئے استعمال ہوا ہے- اور اسی وجہ سے لفظ متوفی (موت ، نیند) کو ملا کر وہ وفات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنے مذھب کی جڑھ قرار دیتے ہیں اور اس نظریہ کو قرآن سے باطل ثابت کرنے پر اپنے مذھب کو جھوٹا ماننے کو بظاھر تیار ہیں-

مرزا صاحب کا یہ دعوی قرآن سے باطل  ثابت ہوتا ہے، جیسا کہ ذیل میں آیات قرآن کی مثالوں سے واضح ہے-

لفظ  "رَفَعْ" سے سب مسلمان واقف ہیں "رفع یدین" کا معنی کس کو معلوم نہیں؟ یہ روحانی نہیں جسمانی عمل ہے-

لفظ ؛رفع' قرآن میں تین طرح سے استعمال ہوا ہے:

  1.  اول جسمانی طور پر بلند کرنے
  2.  دوئم روحانی طور پر مرتبہ بلند کرنے اور
  3.  سوئم 'جسمانی و روحانی' دونوں طور پرمرتبہ بلند کرنا- معنی سیاق و ثبات سے واضح ہو جاتا ہے-

 حضرت ادریس علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے 'رفع' دونوں معنی میں ہے جسمانی و روحانی طور پران کو  بلند کیا-

 قرآن میں سہ حرفی جڑ (root) ( ر ف ع)  (رفع) 29 بار چھ (6) اخذ کردہ شکلوں میں آیا ہے: [65]22 بار بطور فارم I فعل رفاع (رَفَعَ)، ایک (1) بار بطور صفت رفیع (رَفِيع)، ایک (1) بار بطور فعال رفیع (رَافِع)، ایک (1) بار بطور فعال رفعِ رَفِعَت (رَّافِعَة)، ایک (1) بار بطور غیر فعال شریک مرفوع (مَرْفُوع)، تین (3) بار غیر فعال شریک مرفوعات (مَّرْفُوعَة)[66].

تیرہ  (13) مرتبہ آیات قرآن میں لفظ "رفع' واضح طور پر جسمانی (physical) طورپر بلندی ، اونچائی کے بیان میں استعمال ہوا ہے(تفصیل ذیل ) زندہ انسان جسم کے ساتھ روح بھی شامل ہوتی ہے- تین مرتبہ دونوں معنی یعنی طبیعیاتی اور روحانی طور پر استعمال ہوا ہے- اور صرف روحانی طور پر بلندی کے لئے بھی مگر یہ سب کچھ سیاق و سباق سے واضح ہو جاتا ہے کہ مراد جسمانی . روحانی یا دونوں سے ہے- جب  زندہ انسان کو اٹھایا جاتا ہے توظاہر ہے کہ جسم کے ساتھ روح بھی شامل ہوتی ہے، تو روحانی و جسمانی بلندی ملنا خاص بات ہے- مردہ جسم کو بلندی پر اٹھانے کا کیا مطلب- ارواح تو سب کی عالم برزخ میں جاتی ہیں تو صرف کسی رسول جیسے حضرت ادریس علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صرف روحانی طور پر اٹھانے کا کوئی مقصد نہیں، رسولوں کو تو پہلے ہے عام لوگوں پر ترجیح اور اعلی رفع مقام حاصل ہوتا ہے-

حضرت ادریس علیہ السلام  اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دونوں کا جسمانی طور پر الله تعالی کے پاس اٹھاۓ جانے کی روایات ہیں (اہل کتاب اور مسلمانوں میں) جو کہ بلا وجہ نہیں-

حضرت ادریس علیہ السلام کے لئے تورات (عربی) میں بھی رفع اور انگریزی میں [he disappeared because God took him away] . اور ان دونوں رسولوں کے لئے قرآن میں رفع کا لفظ استعمال ہوا ہے یہ اتفاق نہیں ہے یہ قرآن کا زندہ معجزہ ہے جواس اختلاف کو آج بھی واضح کر رہا ہے اگر کوئی آیات قرآن کا ہی منکر ہو تواسے کیسے یقین دلایا جا اسکتا ہے؟

رفع:  روحانی اور فزیکل بلندی کے لیے چند مثالیں: 

  1. اِلَیۡہِ یَصۡعَدُ الۡکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الۡعَمَلُ الصَّالِحُ یَرۡفَعُہٗ ؕ (تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے(35:10 قرآن)[67] کلمات، منہ سے فزیکلی ادا کیئے جاتے ہیں-
  2. وَ رَفَعۡنَا لَکَ ذِکۡرَکَ ؕ﴿۴﴾ ) اور تمہارا ذکر بلند کیا (قرآن : 94:4)[68]  رسول اللہ ﷺ کا ذکر روحانی طور پر بھی بلند ہے اور فزیکل طور پر بھی الله تعالی کے نام کے ساتھ اذان ، صَلَاة‎  میں ادا کیا جاتا ہے-
  3. فِیۡ بُیُوۡتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنۡ تُرۡفَعَ وَ یُذۡکَرَ فِیۡہَا اسۡمُہٗ ۙ(ان گھروں میں جن کے بلند کرنے اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالٰی نے حکم دیا ہے(قرآن 24:36)[69] اللہ کے گھر مساجد فزیکل طور پر بھی نمایاں ، بلند ہوتی ہیں ، گنبد ، منارے اور روحانی طور پر بھی ذکر اللہ سے درجہ بلند ہوتا ہے-
رفع :  روحانی طور پر بلندی کی چند مثالیں:

  1. تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللَّهُ ۖ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ ۚ (یہ رسول (جو ہماری طرف سے انسانوں کی ہدایت پر مامور ہوئے) ہم نے ان کو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مرتبے عطا کیے(قرآن 2:253)[70]
  2.  نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّن نَّشَاءُ ۗ ( ہم جس کے چاہتے ہیں درجے بلند کردیتے ہیں۔ (قرآن 6:83)[71]
رفع : فزیکل طور پر بلندی ، اٹھانے کی قرآن سے  تیرہ  (13) مثالیں :  

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ ( اور جب ہم نے تم سے عہد (کر) لیا اور کوہِ طُور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا (قرآن2:63)[72]

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ ( یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے طُور کو تم پر  اٹھا کھڑا کیا تم سے پختہ عہد لیا تھا(قرآن2:93)[73]

وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ‎﴿١٢٧﴾ اور جب ابراہیم اور اسمٰعیل بیت الله کی بنیادیں اونچی کر رہے تھے (تو دعا کئے جاتے تھے کہ) اے پروردگار، ہم سے یہ خدمت قبول فرما۔ بےشک تو سننے والا (اور) جاننے والا ہے (2:127)[74] 

وَرَفَعْنَا فَوْقَهُمُ الطُّورَ بِمِيثَاقِهِمْ ( اور ان سے عہد لینے کو ہم نے ان پر کوہ طور اٹھا کھڑا کیا (4:154)[75]

وَ رَفَعَ اَبَوَیۡہِ عَلَی الۡعَرۡشِ (اور(یوسف ںے) اپنے تخت پر اپنے ماں باپ کو اونچا بٹھایا  (قرآن 12:100)[76]

 وَإِلَى السَّمَاءِ كَيْفَ رُفِعَتْ ‎﴿١٨﴾‏ ( اور آسمان کی طرف کہ کیسا بلند کیا گیا ہے (قرآن :88:18 )[77]

وَ السَّمَآءَ رَفَعَہَا وَ وَضَعَ الۡمِیۡزَانَ ۙ﴿۷﴾ (اسی نے آسمان کو بلند کیا اور اسی نےمیزان رکھی (قرآن 55:7)[78]

 ‏ أَأَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاءُ ۚ بَنَاهَا ‎﴿٢٧﴾‏ رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوَّاهَا ‎﴿٢٨﴾ (بھلا تمہارا بنانا آسان ہے یا آسمان کا؟ اسی نے اس کو بنایا (27) اس کی چھت کو اونچا کیا اور پھر اسے برابر کر دیا (قرآن :79:28 )[79]

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ (اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو(قرآن :49:2)[80]

اَللّٰہُ الَّذِیۡ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیۡرِ عَمَدٍ  (اللہ وہی ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند فرما دیا (قرآن 13:2)[81]

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِدْرِيسَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ‎﴿٥٦﴾‏ وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا ‎﴿٥٧﴾‏ ( اور کتاب میں ادریس کا بھی ذکر کرو۔ وہ بھی نہایت سچے نبی تھے (56) (اور اٹھا لیا ہم نے اس کو ایک اونچے مکان پر (قرآن 19:57)[82]

اِذْ قَالَ اللهُ یٰـعِيْسٰٓی اِنِّيْ مُتَوَفِّيْکَ وَرَافِعُکَ اِلَيَّ وَمُطَهِرُکَ مِنَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰـمَةِ ج ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَيْنَکُمْ فِيْمَا کُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ

’جب اللہ نے فرمایا: اے عیسیٰ! بے شک میں تمہیں پوری عمر تک پہنچانے والا( مُتَوَفِّيْکَ [83]/پورا پورا لینے والا ہوں/ بض کرنے والا ہوں ) ہوں اور تمہیں اپنی طرف (آسمان پر) اٹھانے والا[84] (رَافِعُکَ) ہوں اور تمہیں کافروں سے نجات[85] دلانے والا ہوں اور تمہارے پیروکاروں کو (ان) کافروں پر قیامت تک برتری دینے والا ہوں، پھر تمہیں میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے سو جن باتوں میں تم جھگڑتے تھے میں تمہارے درمیان ان کا فیصلہ کر دوں گاo‘‘  (قرآن 3:55)

“And when Allah said: O Isa, I am going to terminate the period of your stay (on earth) and cause you to ascend unto Me and purify you of those who disbelieve and make those who follow you above those who disbelieve to the day of resurrection; then to Me shall be your return, so l will decide between you concerning that in which you differed” (Quran 3:55) Translation by Shakir 

He told Jesus, "I will save you from your enemies, raise you to Myself, keep you clean from the association with the disbelievers, and give superiority to your followers over the unbelievers until the Day of Judgment. On that day you will all return to Me and I shall resolve your dispute.(Quran 3:55) Translation by Sarwar

تفسیر: ’’اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: (اِنِّي مُتَوَفِّيْکَ) کا معنی یہ ہے کہ (اے عیسیٰ!) میں تیری عمر پوری کروں گا اور پھر تجھے وفات دوں گا۔ پس میں ان یہود کو تیرے قتل کے لیے نہیں چھوڑوں گا بلکہ میں تجھے آسمان اور ملائکہ کے مسکن کی طرف اٹھا لوں گا اور تجھ کو ان کے قابو میں آنے سے بچا لوں گا اور یہ اس آیت کی نہایت احسن تفسیر ہے۔‘‘ (رازی، التفسیر الکبیر) 

اگریھاں 'متوفی' کا مطلب موت ہوتا تو دشمنوں کا  مقصد بھی  یہی تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کرکہ قتل کرنا- تو کیا اللہ یہ کام خود پورا  کرکہ  حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے درجات بلند فرما رہا ہے؟ یا کہ دشمنوں کا مقصد پورا کرنا ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے الله تعالی اپنے نبی رسول کو دشمنوں سے محفوظ کر رہا ہے اپنی تدبر اور پلان کے مطابق-  [یہ محظ ایک قیاس . speculation ہو سکتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اگر خود صلیب پر تھے کوئی اور نہیں تو وہ بیہوش ہوں یا اللہ نے ان پر نیند طاری کی ہو اور بعد میں جیسا کہ مسیحی روایات میں وہ غار سے غائب ہو گئے یعنی الله تعالی نے ان کو زندہ اٹھا لیا؟  واللہ اعلم ]

لفظ مُتَوَفِّيْکَ کا معنی و مفہوم:

اردو زبان میں متوفی مردہ کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن عربی میں اس کا معنی وسیع ہے - لفظِ متوفی وَفیَ، یَفِي، وَفَاءٌ سے مشتق ہے، جس کا معنی ہے پورا دینا یا پورا کرنا۔ قرآنِ حکیم میں یہ لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے مثلاً: وعدہ پورا کرنا، اجر یا بدلہ پورا دینا، عمر پوری کرنا، قبضے میں لے لینا، نذر پوری کرنا، ناپ تول پورا کرنا(ملاحضہ ڈکشنری[86])- چنانچہ’’وفاء یا وفاۃ‘‘کا حقیقی معنی موت نہیں ہے بلکہ پورا کرنا ہے۔ اردو میں بھی وعدہ وفا کرنا اسی معنی میں ہے

 کسی کی موت کو بطورِ مجاز وفات اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ موت آنے پر اس کی عمر پوری ہو چکی ہوتی ہے۔

اب مذکورہ بالا معانی پر بطور دلیل قرآنی آیات: یٰٓـاَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۔ (’’اے ایمان والو! (اپنے) عہد پورے کرو۔‘-المائدہ، 5: 1)؛ وَاُوْفُوْا بِالْعَھْدِ اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُوْلاًo (’’اور وعدہ پورا کیا کرو، بے شک وعدہ کی ضرور پوچھ کچھ ہو گی - الإسراء، 17: 34)

 اَللهُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِھَا وَالَّتِی لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِھَا فَیُمْسِکُ الَّتِيْ قَضٰی عَلَيْھَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلَ الْاُخْرٰٓی اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی۔(الزمر، 39: 42) ’’

˹It is˺ Allah ˹Who˺ calls back the souls ˹of people˺ upon their death as well as ˹the souls˺ of the living during their sleep. Then He keeps those for whom He has ordained death, and releases the others until ˹their˺ appointed time. Surely in this are signs for people who reflect.(Quran:39:42 )[87]،[88]

اللہ ہی جانوں کو ان کی موت ( مَوْتِھَا) کے وقت قبض ( یَتَوَفَّی) کرتا ہے اور ان (جانوں) کو بھی جن پر موت طاری نہیں ہوئی، نیند کے وقت کھینچ لیتا ہے۔ پھر ان (جانوں) کو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم صادر کر چکا ہو اور دوسری (جانوں) کو ایک وقت معین تک چھوڑ دیتا ہے۔‘‘ (قرآن:39:42)

اس آیت میں سا ف واضح ہو رہا ہے کہ  (یَتَوَفَّی) اور (مَوْتِھَا) دو الگ الگ الفاظ ہیں ہم معنی نہیں- جب نیند میں سب کی ارواح الله تعالی کے قبضہ میں واپس چلی جاتی ہیں جن پر موت کا وقت مقرر ہے ان کی ارواح واپس نہیں آتیں اور جن کی زندگی ابھی با قی ہے الله تعالی ان کی ارواح کو واپس بھیج دیتا ہے-  یَتَوَفَّی کا معنی قبضہ کرنا واپس لینا ہے موت لازم نہیں-

ادو زبان میں متوفی مردہ یا فوت شدہ انسان کو کہتے ہیں لیکن یہ قرآن کی کلاسیکل عربی ہے اردو نہیں- عربی میں ایک لفظ کے کئی معنی ہوتے ہیں جو سیاق و سباق سے سمجھے جا سکتے ہیں-

ان آیتِ کریمہ میں بھی ’’وفاء‘‘سے مشتق لفظ ’’یتوفّی‘‘کے معنی موت نہیں بلکہ قبضہ میں لے لینا کے ہیں۔ اور پھر جہاں رفع بھی لگتا ہے تو کوئی شک نہیں رہ جاتا-

موت اور وفات میں فرق

كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۖ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ ‎﴿٥٧﴾‏

 ہر متنفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے۔ پھر تم ہماری ہی طرف لوٹ کر آؤ گے (قرآن: 29:57)

موت اور وفات دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ ’’یَتَوَفّٰکُمْ بِالَّيْلِ‘‘ میں وفات تو ہے مگر موت نہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نیند کی حالت میں روح کو اپنے قبضہ میں لے لیتے ہیں۔ مگر پھر بیداری کے وقت لوٹا دیتے ہیں-

 جبکہ موت میں روح قبضے میں تو لے لی جاتی ہے مگر اسے لوٹایا نہیں جاتا۔

اس سے ثابت ہوا کہ موت کا وقت آنا الگ چیز ہے اور روح کا قبضہ میں آنا اور وفات پانا ایک الگ چیز ہے۔

 پس معلوم ہوا کہ عمر کا پورا ہونا، روح کا قبضے میں لے لینا، قبضے سے واپس لوٹا دینا اور موت کا وقت آنا یا نہ آنا یہ سب جدا جدا حقیقتیں ہیں۔ اپنے قبضہ میں لے لینا یہ بھی وفات کا معنی ہے اور عرصۂ حیات پورا کرنا یہ بھی وفات کا معنی ہے۔ جب قرآن مجید سے وفات کا معنی عمر پوری کرنا اور قبضہ میں لے لینا ثابت ہے تو اب لغت میں اس لفظ سے موت کے معنی تلاش کرنا نصِ قرآنی کو بگاڑنے کے مترادف ہے۔

اِذْ قَالَ اللهُ یٰـعِيْسٰٓی اِنِّيْ مُتَوَفِّيْکَ وَرَافِعُکَ اِلَيَّ وَمُطَهِرُکَ مِنَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰـمَةِ ج ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَيْنَکُمْ فِيْمَا کُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ

’جب اللہ نے فرمایا: اے عیسیٰ! بے شک میں تمہیں پوری عمر تک پہنچانے والا( مُتَوَفِّيْکَ [89]/پورا پورا لینے والا ہوں/ بض کرنے والا ہوں ) ہوں اور تمہیں اپنی طرف (آسمان پر) اٹھانے والا[90] (رَافِعُکَ) ہوں اور تمہیں کافروں سے نجات[91] دلانے والا ہوں اور تمہارے پیروکاروں کو (ان) کافروں پر قیامت تک برتری دینے والا ہوں، پھر تمہیں میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے سو جن باتوں میں تم جھگڑتے تھے میں تمہارے درمیان ان کا فیصلہ کر دوں گا‘‘  (قرآن 3:55)

 پس اس آیتِ کریمہ میں ’’مُتَوَفِّيْکَ‘‘ کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔

1۔ اے عیسیٰ علیہ السلام! میں تیرا عرصۂ حیات پورا کرنے والا ہوں خواہ یہ یہودی جتنے بھی منصوبے بنائیں ان کے باعث تیری موت واقع نہیں ہو گی بلکہ ’’وَرَافِعُکَ اِلَيَّ‘‘ میں اپنی قدرتِ کاملہ سے تجھے اپنی طرف اُٹھا لوں گا۔

2۔ دوسرا معنی یہ ہو گا کہ اے عیسیٰ علیہ السلام میں تجھے اپنے قبضۂ قدرت اور حفاظت میں لے لوں گا وہ اس طرح کہ ’’وَرَافِعُکَ اِلَيَّ‘‘ تجھے اپنی طرف اُٹھا لوں گا۔ یہ جتنی بھی تجھے صلیب پر چڑھانے کی سازشیں تیار کرتے پھریں ناکام و نامراد ہوں گے۔

چنانچہ ثابت ہوا کہ ’’مُتَوَفِّيْکَ‘‘میں وفات بمعنی موت نہیں اور جب وفات موت نہیں تو ’’وَرَافِعُکَ‘‘ سے مراد رفع روح اور رفع درجات نہیں بلکہ اس سے مراد کسی زندہ شخصیت کو معجزةً جسمانی طور پر اُوپر اُٹھا لینا ہے-

 بصورت دیگر لفظ ’’مُتَوَفِّيْکَ‘‘ میں اگر وفات بمعنی موت بھی (بطور مجاز) مراد لے لیا جائے، جس طرح قادنیوں کا موقف ہے تو اس سے بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ اس صورت میں ’’اِنِّيْ مُتَوَفِّيْکَ‘‘ کا معنی یہ ہو گا کہ اے عیسیٰ !بے شک میں موت دینے والا ہوں اور تجھے میں جب چاہوں گا موت دوںگا۔ یہ تجھے قتل کرنے کے چاہے جتنے منصوبے اور سازشیں تیار کریں وہ تجھے موت نہیں دے سکتے۔ (مزید آیات قرآن ملاحضہ  لنک[92] )

وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا ‎﴿١٥٧﴾‏ بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ‎﴿١٥٨﴾

 اور یہ کہنے کے سبب کہ ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ مسیح کو جوالله کے رسول تھے قتل کردیا ہے اور انہوں نے عیسیٰ کو قتل نہیں کیا اور نہ انہیں سولی پر چڑھایا بلکہ ان کو ان کی سی صورت معلوم ہوئی اور جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ ان کے حال سے شک میں پڑے ہوئے ہیں اور پیروئی ظن کے سوا ان کو اس کا مطلق علم نہیں۔ اور انہوں نے عیسیٰ کو یقیناً قتل نہیں کیا (157)  بلکہ اللہ  نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ اور اللہ کے پاس قدرت بھی ہے اور حکمت بھی۔ (4:1قرآن)[93] ----

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر اعلان فرما دیا ہے کہ اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان کی طرف زندہ اُٹھا لیا۔ اس آیت کے بعد کسی تاویل و تفسیر کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

آیات الله تعالی کو جھٹلانے والے ------

اور اے محمدؐ، اِن کے سامنے اُس شخص کا حال بیان کرو جس کو ہم نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا مگر وہ ان کی پابندی سے نکل بھاگا آخرکار شیطان اس کے پیچھے پڑ گیا یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کر رہا (175) اگر ہم چاہتے تو اسے اُن آیتوں کے ذریعہ سے بلندی ( لَرَفَعْنَاهُ ) عطا کرتے، مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا اور اپنی خواہش نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا، لہٰذا اس کی حالت کتے کی سی ہو گئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور اسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے یہی مثال ہے اُن لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں تم یہ حکایات اِن کو سناتے رہو، شاید کہ یہ کچھ غور و فکر کریں (176) بڑی ہی بری مثال ہے ایسے لوگوں کی جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا، اور وہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے ہیں (177) جسے اللہ ہدایت بخشے بس وہی راہ راست پاتا ہے اور جس کو اللہ اپنی رہنمائی سے محروم کر دے وہی ناکام و نامراد ہو کر رہتا ہے (قران : 7:178)

 حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ رفع

تیرہ آیات قرآن سے جب یہ ثابت ہو گیا کہ رفع کا معنی جسمانی ، فزیکل طور پر بلند کرنا، اٹھانا بھی ہے، اب واپس موضوع کی طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ رفع :

طور پہاڑ کا (physically)  اٹھایا جانا

 وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ‎﴿٦٣﴾

اور جب ہم نے تم سے پختہ وعدہ لیا اور تمہارے اوپر(رَفَعْنَا) طور پہاڑ لا کھڑا  کیا کہ جو ہم نے تمہیں دیا ہے اسے مضبوطی کے ساتھ پکڑو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد رکھو تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ (قرآن 2:63)[94]

طور پھر روحانی طور پیر نہیں جسمانی ، فزیکل طور پر ان کے اوپر کیا گیا ، اور پختہ وعدہ لیا گیا-

یہ واقعہ بھی بنی اسرائیل کے اس دور سے تعلق رکھتا ہے۔ جب ان کے ستر منتخب افراد پر بجلی گرا کر انہیں ہلاک کیا گیا اور پھر دوبارہ زندہ کیا گیا تھا۔ ان کو بھی اور ان کے ساتھ بنی اسرائیل کے دوسرے لوگوں کو بھی طور کے دامن میں کھڑا کیا گیا اور طور پہاڑ کو ان پر اس طرح کر دیا گیا جیسے وہ ان کے اوپر ایک سائبان ہے۔ اب پیچھے سمندر تھا اور آگے سروں کے اوپر سائبان کی طرح طور پہاڑ، اس وقت ان سے پوچھا گیا بتاؤ تورات پر عمل کرتے ہو یا نہیں ؟ اور اقرار کرتے ہو تو پھر پوری مضبوطی سے عہد و پیمان کرو، ورنہ ابھی اس پہاڑ کو تمہارے اوپر گرا کر تمہیں کچل دیا جائے گا۔ اس وقت بنی اسرائیل کو اپنی نافرمانیوں اور غلطیوں اور عہد شکنیوں کا احساس ہوا اپنے گناہوں سے توبہ کی اور تورات پر عمل پیرا ہونے کا پختہ اقرار کیا۔ اور یہ اس لیے کیا گیا تھا تاکہ تم لوگوں میں کچھ پرہیزگاری کی صفت پیدا ہو- مرزا صاحب کی تفسیر(صفحہ١٩٢) بھی اس سے ملتی جلتی ہے[95]

حضرت ادریس (حنوک)  علیہ السلام کا زندہ  (physically) اٹھایا جانا (رَفَعْنَا )

حضرت ادریس (حنوک)  علیہ السلام کا قرآن مجید کی دو سورتوں میں ذکر آیا ہے۔ سورۃ مریم کی آیت 55 میں خدا نے آپ کو سچا نبی کہا ہے۔ سورہ الانبیا آیت 86،85 میں اسماعیل علیہ السلام اور ذوالکفل علیہ سلام کے ساتھ آپ کو بھی صبر والا اور نیک بخت کہا گیا ہے۔ بائبل کے مطابق آپ کا نام حنوک تھا اور آپ مع جسم خاکی (physically) آسمان پر اٹھا لیے گئے[96]: اور آپ کی واپسی کی بھی کوئی اطلاع نہیں-

بیضاوی (Bidawai) کے مطابق حضرت ادریس  علیہ السلام کو اسرار الہی  پر خاص علم حاصل تھا - وہ پہلا آدمی تھا جو لکھنا جانتا تھا، اورانہوں نے فلکیات اور ریاضی کے علوم ایجاد کیے- ۔کسسی انسان کو آسمانوں پرزندہ لے جانا، وہاں موت اورابدی برزخی زندگی دینا اللہ کے اختیار میں ہے- جس باتوں کا علم نہیں ان پر قیاس آرایوں  سے گریز بہتر ہے[97]-‮[98]

 اب یہ الله تعالی پر ہے کہ وہ اپنے قانون میں استثنیٰ کرتا ہے . جیسے معجزات بھی الله تعالی کے قانون ( cause and effect) میں استثنیٰ(exception to rule) ہوتا ہے کہ آگ کا کام جلانا ہے مگر حضرت ابراہیم کے لئے الله تعالی کا حکم:  ہم نے کہا "اے آگ، ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیمؑ پر" (قرآن 21:69)-[99] «ان الله علی کل شیء قدیر»

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِدْرِيسَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ‎﴿٥٦﴾‏ وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا ‎﴿٥٧﴾‏

 اور اس کتاب میں ادریسؑ کا ذکر کرو وہ ایک راستباز انسان اور ایک نبی تھا (56) اور اسے ہم نے بلند مقام (رَفَعْنَاهُ[100]) پر اٹھایا تھا (قرآن : 19:57)

مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ :

  1. رفع  کے اس جگہ معنی "موت" کے ہیں... اور قرآن میں ان کی موت ، دفن، نزول کا حکم نہیں پاتے پس بالضرور ثابت ہوا کہ  رفع سے مراد موت ہے (صفحہ٢٦٤)[101]--- الغرض حاصل کالم یہ ہے ہر بات جو قرآن کے مخالف ہو اور اس کے قصوں کے مخالف ہو تو وہ باطل ، جھوٹ اور افتراءکرنے والوں کی  من گھڑت باتیں ہیں(حمامة البشری، روحانی خزائین جلد ٧ صفہ ٢٢٠/ تفسیرصفحہ ٢٦٥[102] )
  2. ---- قرآن شریف میں ہر ایک جگہ رفع] سے مراد رفع روحانی ہے[103 [104]---- زمین پر حضرت ادریس کی قبر بھی موجود ہے جیسا کہ حضرت عیسیٰ کی قبر موجود ہے -

(تفسیر صفحہ 266, کتاب البریہ روحانی خزائیں جلد ١٣صفحہ ٢٣٧،٢٣٨ حاشیہ / تفسیر صفحہ ٢٦٦[105]/ نواب صدیق حسن خان تفسیر فاتح البیان میں بھی روحانی رفع کہتے ہیں/ تفسیر صفحہ ٢٦٧[106])[107]

نوٹ : کوئی قبر بنا کر مشہور کر دے کہ یہ فلاں کی قبر ہے، اس کو کوئی اہمیت انہیں- کتاب الله تعالی اور اس سے مطابقت والی مستند روایات  سے ہی  دلیل، حجت پکڑی جا سکتی ہے-

  1. الله تعالی ہر نبی کو کتاب کے حقائق و معارف اور اسرارو رموز کا کامل علم عطا فرماتا ہے[108]  مرزا صاحب اپنے دعوی میں سچے نہیں ثابت ہوتے لہذا ....
  2. مرزا صاحب کا دعوی باطل ثابت ہے

 تیرہ آیات قرآن دوباره ملاحظه فرمائیں[109]- کوئی کذب کرنے والا شخص نبی نہیں ہو سکتا-

حضرت  ادریس علیہ السلام

بائبل کے مطابق حنوک (ادریس  علیہ السلام) نوح کے سیلاب سے پہلے کے سرپرست ہیں۔ وہ عبرانی بائبل میں (Antidiluvian ) دورمیں تھے۔ پیدائش کی کتاب کا متن کہتا ہے کہ حنوک خدا کی طرف سے اٹھائے جانے سے پہلے 365 سال زندہ رہا۔ متن کے مطابق: حنوک "خدا کے ساتھ چلتا تھا: اور وہ اب نہیں رہا؛ کیونکہ خدا نے اسے لے لیا" (پیدائش 5:21-24)، اسے کچھ یہودی اور عیسائی روایات میں حنوک کے زندہ جنت میں داخل ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے، اور دوسروں میں مختلف طریقے سے تشریح کی گئی ہے۔ . [110]

بائبل / تورات کی متلعقہ آیات کے تراجم سے خاص طور پر عربی تورات جیس میں " ثُمَّ اخْتَفَى، لِأنَّ اللهَ رَفَعَهُ إلَيْهِ " کا ترجمہ [and then he disappeared because God took him away.] واضح کرتا ہے کہ حضرت حضرت ادریس (حنوک)  علیہ السلام کو زندہ جسم کے ساتھ (فزیکلی) اللہ اپنے ساتھ لے گیا- یہی اسرائیلی، مسیحی  روایت میں ہے- مرزا صاحب اہل کتاب کی ان روایات کو قبول کرتے ہیں جو قرآن سے مطابقت رکھتی ہیں اختلاف نہیں. یہ نہیں ہو سکتا کہ اپنے دلائل کے لئے  وہ ان سے استفادہ کریں اور مخالف آراء کو مسترد؟

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے بھی قرآن نے  رَّفَعَهُ کا لفظ استعمال کیا ہے - دونوں کا اللہ کے پاس فزیکل  ہے نہ کہ صرف روحانی:

 بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ‎﴿١٥٨﴾‏

 بلکہ اللہ نے اس (عیسیٰ ابن مریم ) کو اپنی طرف اٹھا لیا ( رَّفَعَهُ) ، اللہ زبردست طاقت رکھنے والا اور حکیم ہے (قرآن :4:158)[111]

21 Enoch was 65 years old when he fathered Methuselah. 22 And after he fathered Methuselah, Enoch walked with God 300 years and fathered other sons and daughters. 23 So Enoch’s life lasted 365 years. 24 Enoch walked with God, and then he disappeared because God took him away. (Genesis 5:21-24 NET Bible)[112]

عربی تورات ؛ پیدائش، تکوین ٥،سِجِلُّ عَائلَةِ آدَم

21 وَعَاشَ أخنُوخُ خَمْسًا وَسِتِّينَ سَنَةً، ثُمَّ أنْجَبَ ابْنًا أسْمَاهُ مَتُوشَالَحَ. 22 وَبَعْدَ وِلَادَةِ مَتُوشَالَحَ سَارَ أخنُوخُ فِي طَرِيقِ اللهِ[c] ثَلَاثَ مِئَةِ سَنَةٍ. وَفِي هَذِهِ الأثْنَاءِ أنْجَبَ أبْنَاءً وَبَنَاتٍ. 23 فَكَانَ مَجْمُوعُ السَّنَوَاتِ الَّتِي عَاشَهَا أخنُوخُ ثَلَاثَ مِئَةٍ وَخَمْسًا وَسِتِّينَ سَنَةً. 24 وَسَارَ أخنُوخُ مَعَ اللهِ،[d] ثُمَّ اخْتَفَى، لِأنَّ اللهَ رَفَعَهُ إلَيْهِ ( تورات ؛ پیدائش، تکوین ٥،سِجِلُّ عَائلَةِ آدَم  4 2-5:21)[113]

اردو  تورات ؛ پیدائش، تکوین ٥،آدم کے خاندان کی تا ریخ

21 حنوک جب پینسٹھ برس کا ہوا تو اسے متوسلح نام کا ایک بیٹا پیدا ہوا۔ 22 متوسلح کی پیدا ئش کے بعد حنوک خدا کی سر پرستی میں خدا کے ساتھ تین سو سال اور رہا۔اِس دوران اسے دوسرے بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہو ئے۔ 23 اس طرح حنوک کل تین سو پینسٹھ سال زندہ رہا۔ 24 حنوک جب خدا کی سر پرستی میں رہ رہا تھا تو خدا نے اسے اپنے پاس بلا یا۔ اس دن سے وہ زمین پر اور نہیں رہا۔ ( تورات ؛ پیدائش، تکوین ٥،آدم کے خاندان کی تا ریخ  4 2-5:21)[114]

حضرت الیاس علیہ السلام 

بائبل کا  ایلیاہ  

حضرت الیاس علیہ السلام کا ذکر بائبل میں  ایلیاہ کے نام سے ہے- ایلیاہ (عبرانی: אֵלִיָּהוּ, ʾĒlīyyāhū) کا  مطلب ہے "میرا خدا یہوواہ ہے"، عبرانی بائبل میں بادشاہوں کی کتابوں کے مطابق، ایک نبی اور معجزہ کار تھا جو اسرائیل کی شمالی بادشاہی میں ایک بادشاہ کے دور میں رہتا تھا۔ (9ویں صدی قبل مسیح)۔ 1 کنگز 18 میں، ایلیاہ نے کنعانی دیوتا بعل کی عبادت پر عبرانی خدا کی پرستش کا دفاع کیا۔ خدا نے ایلیاہ کے ذریعے بہت سے معجزات بھی دکھائے، جن میں قیامت، آسمان سے آگ کا نازل ہونا، اور زندہ آسمان میں داخل ہونا شامل ہے"۔ اسے "انبیاء کے بیٹوں" کے نام سے جانا جانے والے نبیوں کے ایک مکتب کی رہنمائی کے طور پر بھی پیش کیا گیا ہے۔ اس کے معراج کے بعد، الیشا، اس کے شاگرد اور سب سے زیادہ عقیدت مند معاون نے اس مکتب کے رہنما کے طور پر اپنا کردار سنبھال لیا۔ ملاکی نے "خُداوند کے عظیم اور ہولناک دن کے آنے سے پہلے" ایلیاہ کی واپسی کی پیشین گوئی کی، [ملاکی 4:5] اُسے مسیحا اور عبرانی بائبل کی تعظیم کرنے والے مختلف عقائد میں اِسکاٹن کا پیش خیمہ بنا۔

“دیکھو! میں نبی الیاس خداوند کے اس عظیم اور بھیانک دن کے آنے سے پہلے تمہا رے ساتھ بھیج رہا ہوں۔ وہ والدین اور بچوں کو ساتھ لا ئیں گے۔ یہ ضرور ہونا چا ہئے ورنہ میں آؤنگا زمین پر وار کروں گا اور اسے پو ری طرح تبا ہ کردو ں گا۔”[بائبل / عہد نامہ قدیم /ملکی 4:5،6]

ایلیاہ کے حوالہ جات سراچ، نیا عہد نامہ، مشنا اور تلمود، قرآن، مورمن کی کتاب [Doctrine and Covenants]، اور بہائی تحریروں میں ہیں۔  اس طرح، ایلیاہ کا آخری پرانے عہد نامے کا ظہور ملاکی کی کتاب میں ہے-

حضرت الیاس علیہ السلام کا قرآن میں تذکرہ 

وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَىٰ وَعِيسَىٰ وَإِلْيَاسَ كُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِينَ ‎﴿الأنعام: ٨٥﴾‏

اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو بھی۔ یہ سب نیکوکار تھے (قرآن: 6:85)

‏ وَإِنَّ إِلْيَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ ‎﴿١٢٣﴾‏ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَلَا تَتَّقُونَ ‎﴿١٢٤﴾‏ أَتَدْعُونَ بَعْلًا وَتَذَرُونَ أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ ‎﴿١٢٥﴾‏ اللَّهَ رَبَّكُمْ وَرَبَّ آبَائِكُمُ الْأَوَّلِينَ ‎﴿١٢٦﴾‏ فَكَذَّبُوهُ فَإِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ ‎﴿١٢٧﴾‏ إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ ‎﴿١٢٨﴾‏ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ ‎﴿١٢٩﴾‏ سَلَامٌ عَلَىٰ إِلْ يَاسِينَ ‎﴿١٣٠﴾‏ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ‎﴿١٣١﴾‏ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ ‎﴿١٣٢﴾ ‎﴿الصافات: ١٢٣﴾‏

 اور الیاسؑ بھی یقیناً مرسلین میں سے تھا (123) یاد کرو جب اس نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ "تم لوگ ڈرتے نہیں ہو؟ (124) کیا تم بعل کو پکارتے ہو اور احسن الخالقین کو چھوڑ دیتے ہو (125) اُس اللہ کو جو تمہارا اور تمہارے اگلے پچھلے آبا و اجداد کا رب ہے؟" (126)مگر انہوں نے اسے جھٹلا دیا، سو اب یقیناً وہ سزا کے لیے پیش کیے جانے والے ہیں (127) بجز اُن بندگان خدا کے جن کو خالص کر لیا گیا تھا (128) اور الیاسؑ کا ذکر خیر ہم نے بعد کی نسلوں میں باقی رکھا (129) سلام ہے الیاسؑ پر (130) ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں (131) واقعی وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا (قرآن: 37:132)

حضرت الیاس علیہ السلام بھی بنی اسرائیل کے پیغمبروں میں سے تھے-  قرآن کریم میں حضرت الیاس (علیہ السلام) کا ذکر صرف دو مقامات پر آیا ہے، ایک سورة انعام میں اور دوسرے سورة صافات کی انہی آیتوں میں۔ چونکہ قرآن کریم میں حضرت الیاس (علیہ السلام) کے حالات تفصیل سے مذکور ہیں، اور نہ مستند احادیث میں آپ کے حالات آئے ہیں، اس لئے آپ کے بارے میں کتب تفسیر کے اندر مختلف اقوال اور متفرق روایات ملتی ہیں، جن میں سے بیشتر بنی اسرائیل کی روایات سے ماخوذ ہیں۔ ( مرزا صاحب کے مطابق اسرائیلی روایت قابل قبول ہیں اگر قرآن کے برخلاف نہ ہوں)

حضرت الیاس (علیہ السلام) اردن کے علاقہ جلعاد میں پیدا ہوئے تھے، اس وقت اسرائیل کے ملک میں جو بادشاہ حکمران تھا اس کا نام بائبل میں اخی اب اور عربی تواریخ وتفاسیر میں اجب یا اخب مذکور ہے۔ اس کی بیوی ایزبل، بعل نامی ایک بت کی پرستار تھی، اور اسی نے اسرائیل میں بعل کے نام پر ایک بڑی قربان گاہ تعمیر کر کے تمام بنو اسرائیل کو بت پرستی کے راستہ پر لگا دیا تھا۔ حضرت الیاس (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ وہ اس خطے میں جا کر توحید کی تعلیم دیں اور اسرائیلیوں کو بت پرستی سے روکیں

ان کی قوم نے ان کو جھٹلایا اور چند مخلص بندوں کے سوا کسی نے حضرت الیاس علیہ السلام کی بات نہ مانی، اس لئے آخرت میں انہیں ہولناک انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اکثر اسرائیلی روایات کا خلاصہ  یہ ہے کہ حضرت الیاس (علیہ السلام) نے اسرائیل کے بادشاہ اخی اب اور اس کی رعایا کو بعل نامی بت کی پرستش سے روک کر توحید کی طرف دعوت دی، مگر دو ایک حق پسند افراد کے سوا کسی نے آپ کی بات نہیں مانی، بلکہ آپ کو طرح طرح سے پریشان کرنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ اخی اب اور اس کی بیوی ایزبل نے آپ کو شہید کرنے کے منصوبے بنائے۔ آپ نے ایک دور افتادہ غار میں پناہ لی، چناچہ انہیں شدید قحط میں مبتلا کردیا گیا۔ اس کے بعد حضرت الیاس (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے حکم سے اخی اب سے ملے، اور اس سے کہا کہ یہ عذاب اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے ہے، اور اگر تم اب بھی باز آجاؤ تو یہ عذاب دور ہوسکتا ہے۔ میری سچائی کے امتحان کا بھی یہ بہترین موقع ہے، تم کہتے ہو کہ اسرائیل میں تمہارے معبود بعل کے ساڑھے چار سو نبی ہیں، تم ایک دن ان سب کو میرے سامنے جمع کرلو، وہ بعل کے نام پر قربانی پیش کریں گے اور میں اللہ کے نام پر قربانی کروں گا، جس کی قربانی کو آسمانی آگ بھسم کر دے گی اس کا دین سچا ہوگا-  چنانچہ کوہ کرمل کے مقام پر یہ اجتماع ہوا۔ بعل کے جھوٹے نبیوں نے اپنی قربانی پیش کی، مگر کوئی جواب نہ آیا۔ اس کے بعد حضرت الیاس (علیہ السلام) نے اپنی قربانی پیش کی، اس پر آسمان سے آگ نازل ہوئی اور اس نے حضرت الیاس (علیہ السلام) کی قربانی کو بھسم کردیا، یہ دیکھ کر بہت سے لوگ سجدے میں گر گئے، اور ان پر حق واضح ہوگیا لیکن بعل کے جھوٹے نبی اب بھی نہ مانے، اس لئے حضرت الیاس (علیہ السلام) نے ان کو وادی قیشون میں قتل کرا دیا۔ 

لیکن اخی اب کی بیوی ایزبل حضرت الیاس (علیہ السلام) پر ایمان لانے کے بجائے الٹی ان کی دشمن ہوگئی، اور اس نے آپ کو قتل کرانے کی تیاریاں شروع کردیں۔ حضرت الیاس (علیہ السلام) یہ سن کر پھر سامریہ سے روپوش ہوگئے - چند سال بعد آپ دوبارہ اسرائیل تشریف لائے اور یہاں پھر اخی اب اور اس کے بیٹے اخزیاہ کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی، مگر وہ بدستور اپنی بداعمالیوں میں مبتلا رہے، یہاں تک کہ انہیں بیرونی حملوں اور مہلک بیماریوں کا شکار بنادیا گیا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو واپس بلا لیا۔ 

کیا حضرت الیاس (علیہ السلام) حیات ہیں؟ مورخین اور مفسرین کے درمیان یہاں یہ مسئلہ بھی زیر بحث آیا ہے کہ حضرت الیاس (علیہ السلام) زندہ ہیں یا وفات پاچکے؟ تفسیر مظہری میں علامہ بغوی کے حوالہ سے جو طویل روایت بیان کی گئی ہے اس میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت الیاس (علیہ السلام) کو ایک آتشیں گھوڑے پر سوار کر کے آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا تھا اور وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح زندہ ہیں (مظہری ص ١٤١ ج ٨) علامہ سیوطی نے بھی ابن عساکر اور حاکم وغیرہ کے حوالے سے کئی روایات ایسی نقل کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ کعب الاحبار سے منقول ہے کہ چار انبیاء (علیہم السلام) اب تک زندہ ہیں، دو زمین میں، حضرت خضر اور حضرت الیاس اور دو آسمان میں حضرت عیسیٰ اور حضرت ادریس (علیہم السلام) (در منثور، ص ٥٨٢، ٦٨٢، ج ٥) 

 لیکن حافظ ابن کثیر جیسے محقق علماء نے ان روایات کو صحیح قرار نہیں دیا، وہ ان جیسی روایتوں کے بارے میں لکھتے ہیں :۔ ” یہ ان اسرائیلی روایتوں میں سے ہے جن کی نہ تصدیق کی جاتی ہے نہ تکذیب-

حضرت الیاس (علیہ السلام) کے رفع آسمانی کا نظریہ اسرائیلی روایات ہی سے ماخوذ ہے، اسی وجہ سے یہودیوں میں یہ عقیدہ پیدا ہوا تھا کہ حضرت الیاس (علیہ السلام) دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے، چناچہ جب حضرت یحییٰ (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تو انہوں نے ان پر الیاس (علیہ السلام) ہونے کا شبہ ظاہر کیا۔ انجیل یوحنا میں ہے : ” انہوں نے اس سے پوچھا پھر کون ہے ؟ کیا تو ایلیاہ ہے ؟ اس نے کہا میں نہیں ہوں “ (یوحنا۔ ١: ١٢) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کعب الاحبار اور وہب بن منبہ جیسے علماء نے جو اہل کتاب کے علوم کے ماہر تھے، یہی روایتیں مسلمانوں کے سامنے بیان کی ہوں گی، جن سے حضرت الیاس (علیہ السلام) کی زندگی کا نظریہ بعض مسلمانوں میں پھیل گیا، ورنہ قرآن یا حدیث میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس سے حضرت الیاس (علیہ السلام) کی زندگی یا آپ کا آسمان پر اٹھایا جانا ثابت ہوتا ہو- لہٰذا اس معاملے میں سلامتی کی راہ یہ ہے کہ اس میں سکوت اختیار کیا جائے اور اسرائیلی روایات کے سلسلے میں آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیم پر عمل کیا جائے کہ ” نہ ان کی تصدیق کرو نہ تکذیب “ کیونکہ قرآن کریم کی تفسیر اور عبرت و موعظت کا مقصد اس کے بغیر بھی پوری طرح حاصل ہوجاتا ہے، واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم (ماخوز از معارف القرآن ، مفتی  محمد شفیع)

This chapter (Malachi 4) states "Elijah the prophet" not "Elijah the Tishbite" for it is in his official, not his personal capacity, that his coming is here predicted. In this sense, John the Baptist was an Elijah in spirit (Luke 1:16, 17), but not the literal Elijah.

This concept was copied (stolen) by Mirza Ghulam Ahmad Qadiani from Judeo-Chrsitian traditions, to declare himself “Jesus in spirit” not actually physical Jesus and Mehdi. However he forgot that such concept is misfit in Islam due to lack of support from Quran and Traditions of Prophet ﷺ . 

ترجمہ : اس باب (ملاکی 4) میں کہا گیا ہے کہ "ایلیاہ نبی ہیں" لیکن "ایلیاہ ٹشبائٹ" نہیں کیونکہ یہ اس کے سرکاری طور پر آنے کی پیشین گوئی ہے نہ کہ ذاتی طور پر آنے کی- اس لحاظ سے، جان بپتسمہ دینے والا (John the Baptist/ یحییٰ ) روحانی طور پرایلیاہ (الیاس) تھا (لوقا: 17. 1:16)، لیکن لفظی ایلیاہ نہیں۔

اس تصور کو مرزا غلام احمد قادیانی نے یہودی-مسیحی روایات سے نقل کیا (چوری کیا)، اپنے آپ کو "مثیل مسیح " ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ اصل میں جسمانی عیسیٰ اور مہدی نہیں بلکہ مسیح کی مثال ، مسیح اور مہدی کی طرح ہیں۔ تاہم وہ بھول گئے کہ قرآن اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کے نظریات کی بنیاد ، جواز  نہ ہونے کی وجہ سے اس طرح کا تصور اسلام میں قابل قبول نہیں ہو سکتا ، مسترد ہے-

یہ ثابت ہوتا ہے کہ:

  1. انبیاء علیہ السلام کا زندہ جسمانی طور پر رفع کوئی نئی ناممکن بات نہیں ایسا پہلی روایات میں موجود ہے-  

  2. پہلی امتوں میں جھوٹے انبیاء سینکڑوں کی تعداد میں پایے جاتے تھے- (یہود ونصاری کی پیروی میں ممکن ہے)

  3.  روحانی طور پرکسی نبی کی جگہ دوسرے کی آمد کے نظریہ [ایلیاہ (الیاس) تھا لیکن لفظی ایلیاہ نہیں] سے مثیل مسیح کے نظریہ کا جواز گھڑنا-

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ (physically) اٹھایا جانا

بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ‎﴿١٥٨﴾‏

 بلکہ اللہ نے اس (عیسیٰ ابن مریم ) کو اپنی طرف اٹھا لیا ( رَّفَعَهُ) ، اللہ زبردست طاقت رکھنے والا اور حکیم ہے (قرآن :4:158)[115]

إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۖ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ‎﴿٥٥﴾

(وہ اللہ کی خفیہ تدبیر ہی تھی) جب اُس نے کہا کہ، "اے عیسیٰؑ! اب میں تجھے واپس لے لوں گا ( مُتَوَفِّيكَ) اور تجھ کو اپنی طرف اٹھا لوں گا (رَافِعُكَ ) اور جنہوں نے تیرا انکار کیا ہے اُن سے (یعنی ان کی معیت سے اور ان کے گندے ماحول میں ان کے ساتھ رہنے سے) تجھے پاک کر دوں گا اور تیری پیروی کرنے والوں کو قیامت تک ان لوگوں پر بالادست رکھوں گا جنہوں نے تیرا انکار کیا ہے پھر تم سب کو آخر میرے پاس آنا ہے، اُس وقت میں اُن باتوں کا فیصلہ کر دوں گا جن میں تمہارے درمیان اختلاف ہوا ہے (قرآن:3:55)[116]

اللہ تعالی کا اپنے کسی  نبی کو زندہ اٹھا لینا کوئی نیئی بات نہیں یہ پہلے بھی ہوا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے ممکن کیوں نہیں جبکہ فزیکل (physically) اٹھانے کے لئے قرآن نے ایک ہی لفظ  (رَفَعْنَاهُ ) طور پہاڑ، حضرت ادریس علیہ السلام  ،  حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے استعمال کیا-

مرزا صاحب  کا زور متوفی پر ہے جس کے  مسلم علماء کے معنی میں ان کو اختلاف ہے لیکن (رَفَعْنَاهُ ) نے سب کچھ واضح کر دیا -

رفع عیسیٰ کے متعلق غورکریں کہ اہل "تثلیث نبوت" / 'منکرین ختم نبوت'  کا سارا زور لفظ 'توفی' پر ہوتا ہے جس کے لغوی معنی "پورے کا پورا وصول کرلینا"۔ اس لفظ کو قرآن ہی نے نیند اور موت کے موقع پر قبض روح کے لیے استعمال کیا۔ حالانکہ نیند کی حالت میں پوری روح قبض نہیں ہوتی بلکہ جسم میں بھی ہوتی ہے۔ پھر اگر اس لفظ کو روح اور بدن دونوں کو وصول کرنے کے لیے استعمال کیا جائے تو لغوی لحاظ سے یہ معنی اور بھی زیادہ درست ہے ( رَافِعُکَ اِلَیَّ ) کے الفاظ اس معنی کی تائید مزید کرتے ہیں اور دوسرے مقام پر تو اس سے بھی زیادہ واضح الفاظ میں فرمایا :

وَّ قَوۡلِہِمۡ اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِیۡحَ عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ ؕ مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ یَقِیۡنًۢا ﴿۱۵۷﴾ۙ

اور یوں کہنے کے باعث کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ بن مریم کو قتل کر دیا حالانکہ نہ تو انہوں نے اسے قتل کیا نہ سولی پر چڑھایا بلکہ ان کے لئے ( عیسیٰ ) کا شبیہ بنا دیا گیا تھا یقین جانو کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام ) کے بارے میں اختلاف کرنے والے ان کے بارے میں شک میں ہیں انہیں اس کا کوئی یقین نہیں بجز تخمینی باتوں پر عمل کرنے کے اتنا یقینی ہے کہ انہوں نے انہیں قتل نہیں کیا (4:157)[117]

اس آیت میں آپ کی زندگی اور رفع پر تین دلائل دیئے گئے ہیں۔

 ١۔ یہ یقینی بات ہے کہ یہود عیسیٰ (علیہ السلام) کو مار نہ سکے۔

 ٢۔ پھر مزید صراحت یہ فرمائی کہ (بَلۡ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیۡہِ ؕ) اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا[118]

 ٣۔ بعد میں (وَكَان اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِـيْمًا ) (4 ۔ النسآء :158) کہہ کر یہ وضاحت فرما دی کہ یہ رفع روح مع الجسد تھا ورنہ یہاں لفظ (عَزِیْزا) لانے کی کوئی تک نہیں کیونکہ رفع روح تو ہر نیک و بد کا ہوتا ہے اور رفع درجات ہر صالح آدمی کا۔ لہذا لازماً روح مع الجسد کا رفع ہی ہوسکتا ہے۔

 واضح رہے کہ شریعت کے مسلمہ امور کو تسلیم کرنے میں دو چیزیں رکاوٹ کا سبب بنتی ہیں۔ 

(١) فلسفیانہ یا سائنٹیفک نظریات سے مرعوبیت اور

(٢) اتباع ہوائے نفس۔

منکرین معجزات خارق عادت امور کا انکار اور پھر ان کی تاویل اس لیے کرتے ہیں کہ یہ موجودہ زمانہ کے مادی معیاروں پر پوری نہیں اترتیں۔ لہذا سب عقل پرستوں نے حضرت عیسیٰ کے بن باپ پیدائش۔ ان کے دیگر سب معجزات اور آسمانوں پر اٹھائے جانے کی تاویل کر ڈالی۔ البتہ ان میں مرزا غلام احمد قادیانی متنبی منفرد ہیں جو باقی سب معجزات کے تو قائل ہیں۔ البتہ حضرت عیسیٰ کے آسمانوں پر اٹھائے جانے اور پھر قیامت سے پہلے اس دنیا میں آنے کے منکر ہیں وہ اس لیے کہ اس نے خود 

مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا، اور اگر یہ رفع عیسیٰ کو تسلیم کرلیتے تو ان کی اپنی بات نہیں بنتی تھی۔ گویا یہ کام اس نے دوسری وجہ یعنی اتباع ہوائے نفس کے تحت سرانجام دیا ہے۔[119]

بعض حضرات نے اس کا ترجمہ موت دینے سے کیا ہے، جیسا کہ بیان القرآن کے خلاصہ میں مذکور ہے، اور یہی ترجمہ مفسر القرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے اسانید صحیحہ کے ساتھ منقول ہے، مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی منقول ہے کہ معنی آیت کے ہیں کہ حق تعالیٰ نے اس وقت جبکہ یہودی آپ کے قتل کے درپے تھے آپ کی تسلی کے لئے دو لفظ ارشاد فرمائے، ایک یہ کہ آپ کی موت ان کے ہاتھوں قتل کی صورت میں نہیں بلکہ طبعی موت کی صورت میں ہوگی۔ دوسرا یہ کہ اس وقت ان لوگوں کے نرغہ سے نجات دینے کی ہم یہ صورت کریں گے کہ آپ کو اپنی طرف اٹھالیں گے، یہی تفسیر حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے لیکن اس کا ذکر نہیں کیا جاتا- تفسیر در منثور میں حضرت ابن عباس (رض) کی یہ روایت اس طرح منقول ہے : (اخرج اسحاق بن بشر وابن عساکر من طریق جوھر عن الضحاک عن ابن عباس فی قولہ تعالیٰ انی متوفیک ورافعک الی یعنی رافعک ثم متوفیک فی اخرالزمان۔ (درمنثور صفحہ : ٣٦ جلد ٢) |" اسحاق بن بشر اور ابن عساکر نے بروایت جوہر عن الضحاک حضرت ابن عباس (رض) سے آیت انی متوفیک وافعک الی کی تفسیر میں یہ لفظ نقل کئے ہیں کہ میں آپ کو اپنی طرف اٹھا لوں گا، پھر آخر زمانہ میں آپ کو طبعی طور پر وفات دوں گا "-[120] 

اور دوسر نقطۂ کہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ، کیا یہ اللہ تعالی کے لئے مشکل ہے جو  رسول اللہ ﷺ کو معراج پر آسمانوں کی سیر پر لے گئے؟عیسیٰ علیہ السلام کا نزول کیوں نہیں کر سکتے؟ یا یہ کہ ان کو ہمیشہ کے لئے حضرت ادریس علیہ السلام کی طرح عالم بالا میں رکھیں. (واللہ اعلم بالصواب )

دھوکہ و فریب "نبی بغیر شریعت"- متضاد بیانیہ 

ختم نبوت پر چودہ سو سال سے قرآن سنت کی بنیاد پر  اجماع صحابہ و امت ہے کہ : "شریعت محمدی" کے مطابق اسلام میں  محمد رسول اللهﷺ کے بعد کسی  نبی کی آمد نہیں ہو سکتی- جب کوئی یہ دعوی کرے کہ وہ "بغیر شریعت کے نبی" ہے تو وہ "شریعت محمدی" میں بنیادی تبدیلی کر رہا ہے - "بغیر شریعت کے نبی" کا عقیده  قرآن و سنت کے مطابق ایمان اور شریعت محمدی کا حصہ نہیں اسے  شریعت محمدی میں شامل کرنا  شریعت محمدی کو تبدیل کرنا ہے- تثلیث نبوت (منکرین ختم نبوت) والے صاحب کا نقطۂ آغاز ہی تضاد  [Self Contradiction] کا شکار ہے، غلط ہے باطل ہے ان کی اپنے بیانیہ کے مطابق-

کوئی شخص شریعت محمدی کو تبدیل کیئے بغیر اسلام میں نبی نہیں قرار پا سکتا- جیسے ہی وہ اپنے آپ کو مثیل مسیح ، مہدی، 'نبی بغیر شریعت' (Three in One-Triune Prophet) کہتا ہے وہ  'شریعت محمدی' میں تبدیلی کر رہا ہے تو شریعت میں تبدیلی کرنے والا اپنے آپ کو 'نبی بغیر شریعت' نہیں کہہ سکتا وہ عملی طور پر شریعت والا نبی بن بیٹھا ہے-  لیکن یا تو اسے سمجھ نہیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے یا پھر جھوٹ بول کر لوگوں کو دھوکہ دے رہا ہے کہ وہ بغیر شریعت کے نبی ہے!

اگر کسی گھر کے دروازہ پر قفل لگا ہے اور کوئی شخص قفل توڑ کر گھر میں بلا اجازت گھس  جایے اور کہے کہ میں مہمان ہوں، گھر کا مالک تسلیم نہ کرے بلکہ بغیر اجازت گھرداخل ہونے پر قانونی کاروائی کرے تو کون حق بجانب ہے؟ گھر کا ملک یا زبردستی کا مہمان ؟

فرماتے ہیں : "میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی" [ص ٧٠٦، رسله اربعین ٤،خزائین صفحہ٤٣٥،ج ١٧]

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ اٹھاۓ  جانے سے  قادیانی مذھب کی جڑھ ، جو کہ وفات حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر کھڑی ہے قرآن سے باطل ثابت ہو گئی-[121]

’’ہمارے دعوی کی جڑھ حضرت عیسٰی کی وفات ہے‘‘

اور جہاں تک مسلمانوں کاتعلق ہے حیات و و فات مسیح علیہ السلام کا عقیدہ جماعت احمدیہ اور دیگر مسلمانوں کے مابین ایک فیصلہ کن اور بنیادی اہمیت کا عقیدہ ہے۔ جب تک یہ مسئلہ پوری طرح حل نہ ہوجائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مثیلِ مسیح ہونے کے دعوی کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا۔ اس حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ہمارے دعوی کی جڑھ حضرت عیسٰی کی وفات ہے‘‘ (لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ246)[122]

’’یاد رہے کہ ہمارے اور ہمارے مخالفوں کے صدق و کذب آزمانے کے لئے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی وفات حیات ہے۔ اگر حضرت عیسٰی در حقیقت زندہ ہیں تو ہمارے سب دعوے جھوٹے اور سب دلائل ہیچ ہیں اور اگروہ درحقیقت قرآن کے روسے فوت شدہ ہیں تو ہمارے مخالف باطل پر ہیں ‘‘ (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17صفحہ 264حاشیہ)

وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُؕ-اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا(۸۱)

اور کہہ دو کہ حق آگیا اور باطل نابود ہوگیا۔ بےشک باطل نابود ہونے والا ہے (قرآن : 17:81)[123]

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ اٹھے جانے سے  قادیانی مذھب کی جڑ ، جو کہ وفات حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر کھڑی ہے قرآن اور تورات سے باطل ثابت ہو گئی- لہذا اب اسلام کی طرف واپس آ جائیں- الله معاف کرنے والا، بخشش کرنے والا ہے-

تفصیل : 

1 : مسئلہ حیات و ممات مسیح علیہ السلام

2 : مسئلہ نزول مسیح علیہ السلام

3 : مسئلہ ولادت امام مہدی علیہ السلام

References

  1. وفات مسیح- منکرین ختم نبوت کی جڑ کا خاتمہ https://bit.ly/KhatmeRoot
  2. قادیانیت : https://bit.ly/Qadianiat
  3. آخری اینٹ https://bit.ly/LastBrick
  4. ختمِ نبوت https://bit.ly/KhatmeNabuwat
  5. (Trinity of Prophet) تثلیث نبوت https://bit.ly/NabuwatTrinity
  6. https://bit.ly/Al-Mahdi
  7. http://quran1book.blogspot.com/2020/06/Easa.html
  8. https://bit.ly/Tejdeed-Islam رسلالہ تجدید الاسلام
  9. https://bit.ly/AhkamAlQuraan
  10. دعوة دین کامل https://bit.ly/DeenKamil

[66] The triliteral root rā fā ʿayn (ر ف ع) occurs 29 times in the Quran, in six derived forms:22 times as the form I verb rafaʿa (رَفَعَ)، once as the adjective rafīʿ (رَفِيع)، once as the active participle rāfiʿ (رَافِع)، once as the active participle rāfiʿat (رَّافِعَة)، once as the passive participle marfūʿ (مَرْفُوع)، three times as the passive participle marfūʿat (مَّرْفُوعَة)/ ttps://corpus.quran.com/qurandictionary.jsp?q=rfE 

[84] مردہ یا لاش ، میت کو اوپر اٹھانے کا کیا مقصد کیا فائدہ؟ زندھ مکمل پورا پورا اوپر اٹھانے کی بات ہو رہی ہے

[85] کیا کافروں سے نجات موت سے دینا کوئی خاص یا معجزانہ بانت ہے؟ کفا ر سے نجات تو زندہ اٹھانے سے ہے کہ کفار کا مقصد پورا نہ ہو -

[90] مردہ یا لاش ، میت کو اوپر اٹھانے کا کیا مقصد کیا فائدہ؟ زندھ مکمل پورا پورا اوپر اٹھانے کی بات ہو رہی ہے

[91] کیا کافروں سے نجات موت سے دینا کوئی خاص یا معجزانہ بانت ہے؟ کفا ر سے نجات تو زندہ اٹھانے سے ہے کہ کفار کا مقصد پورا نہ ہو -

[97] Hughes, Dictionary of Islam, s.v. Idris;Weil, Biblische Legenden der Muselmänner, pp. 62 et seq.;Mas'udi, Les Prairies d'Or, i. 73./ https://www.jewishencyclopedia.com/articles/5772-enoch / https://www.britannica.com/topic/Idris-Islamic-mythology

[98]  اس کی "موت" کی کہانی مختلف طرح سے جڑی ہوئی ہے۔ جب آسمان کے دورے پر اس کی ملاقات چوتھے آسمان پر موت کے فرشتے سے ہوئی، جس نے اسے بتایا کہ اسے اپنے انجام کو پہنچانے کا حکم ہے۔ اس کے بعد ادریس آسمان کے فرشتے کے گلے لگ گئے اور چوتھے آسمان پروفات اورفوری زنگی پائی اور پھر وہیں رہے، (ان روایات یا قصوں کی حقیقت واللہ اعلم)۔

[100] اد کرو وہ وقت، جب ہم نے طُور کو تم پر اٹھا کر تم سے پختہ عہد لیا تھا / https://tanzil.net/#search/quran/رَفَعْنَا / Physically lifting mountain

[104] [  نوٹ : یہ بیان درست نہیں ملاحضہ (قرآن 2:63) اور  بارہ ریفرنسزقبل ]

[107] [ مرزا صاحب کی تفسیر ابن عربی اور نواب صدیق حسن خان (1823-1890) اہل الحدیث / کے حوالہ جات سے بھری پڑی ہے لگتا ہے کہ  ان دو حضرات کے علاوہ دوسرے مسلمان علماء ریفرنس کے قبل نہیں؟ ]

[108] پاکٹ بک صفحہ 821/ راضی تفسیر کبیر

[109]  https://bit.ly/KhatmeRoot / وفات مسیح - ااہل ثلیث (منکرین ختم نبوت) کی جڑ کا خاتمہ

[110] Enoch is a biblical figure and patriarch prior to Noah's flood and the son of Jared and father of Methuselah. He was of the Antediluvian period in the Hebrew Bible. The text of the Book of Genesis says Enoch lived 365 years before he was taken by God. The text reads that Enoch "walked with God: and he was no more; for God took him" (Gen 5:21–24), which is interpreted as Enoch's entering heaven alive in some Jewish and Christian traditions, and interpreted differently in others. / https://en.wikipedia.org/wiki/Enoch 

[119]  https://trueorators.com/quran-tafseer/3/55/ (Taiseer ul Quran، by Abdul Rehman Kilani)

[120] https://trueorators.com/quran-tafseer/3/55 / [Maarif ul Quran، by Mufti Muhammad Shafi]

[121]  اور تورات


☆☆☆ 🌹🌹🌹📖🕋🕌🌹🌹🌹☆☆☆
رساله تجديد الاسلام
وَمَا عَلَيۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ (القرآن  36:17)
اور ہمارے ذمہ صرف واضح پیغام پہنچا دینا ہے
   Our mission is only to convey the message clearly

پوسٹ لسٹ