کچھ حضرات کا خیال ہے کہ مچھلی مردہ ہوتی ہے اور مردار کو قرآن نے حرام قرار دیا ہے- اب ہم مچھلی کھاتے ہیں کیونکہ یہ رسول اللہ ﷺ نے حلال قرار دیا ، اس سے ان کے مطابق یہ ثابت ہوتا ہے کہ حدیث قرآن کی کسی آیت کو مسوخ کر سکتی ہے- اور یہ کہ احادیث کے بغیر قرآن کو سمجھنا ممکن نہیں-
تحقیق و تجزیہ
قرآن. سنت اور احادیث اسلام میں بلترتیب تین ذرائع ہیں- قرآن الله تعالی کا کلام ہے اور سنت و احادیث رسول اللہ ﷺ سے منسوب عمل اور فرامین ہیں جو مختلف طریقہ سے ہم تک پہنچے- قرآن کی کسی آیت میں کوئی شک نہیں مگر احادیث کی درجہ بندیاں ہیں- سب کی اپنی اپنی درجہ بدرجه اہمیت ہے، لیکن قرآن سب پرسپریم محفوظ ترین کتاب اللہ ہے بلا کسی شک و شبہ کے، فرقان ہے جو حق اور باطل میں فرق کر تا ہے-
یہ بات درست نہیں کہ مچھلی کو قرآن نے حلال نہیں کیا ۚ (سورة المائدة، آیت 96) موجود ہے-
کچھ احادیث :
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى السُّدِّيُّ، حَدَّثَنَا سَيْفُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ السَّمْنِ وَالْجُبْنِ وَالْفِرَاءِ، قَالَ: الْحَلَالُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ، وَالْحَرَامُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ، وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ مِمَّا عَفَا عَنْهُ.(سنن ابن ماجہ, حدیث نمبر: 3367)
ترجمہ:
سلمان فارسی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے گھی، پنیر اور جنگلی گدھے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
حلال وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے، اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے، اور جس کے بارے میں چپ رہے وہ معاف (مباح) ہے (سنن ابن ماجہ, حدیث نمبر: 3367)
Reference: https://quran1book.blogspot.com/2021/06/Hadith-Set.html
وَعَنْہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم
کَلَامِیْ لَا یَنْسَخُ کَلَامَ اﷲِ وَ کَلَامُ اﷲِ یَنْسَخُ کَلَامِیْ وَ کَلَامُ اﷲِ یَنْسَخُ بَعْضُہ، بِعْضًا (مشکوٰۃ المصابیح : حدیث نمبر: 189)
ترجمہ:
اور حضرت جابر ؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا میرا کلام، کلام اللہ کو منسوخ نہیں کرتا اور کلام اللہ میرے کلام کو منسوخ کردیتا ہے اور کلام اللہ کا بعض کو منسوخ کرتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح : حدیث نمبر: ، 189) ( (سنن دارقطنی:۱؍۱۱۷)
جو اکیلے اللہ چاہتا ہے (وہی ہوتا ہے)
عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- أن رجلا قال للنبي -صلى الله عليه وسلم-: ما شاء الله وشِئْتَ، فقال: «أجعلتني لله نِدًّا؟ ما شاء الله وَحْدَه». [إسناده حسن.] - [رواه أحمد.]
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آپ ﷺ سے کہا جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں (وہی ہوتا ہے)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تم نے مجھے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرا دیا؟!“ (ایسا نہیں بلکہ یوں کہا کرو کہ) جو اکیلے اللہ چاہتا ہے (وہی ہوتا ہے)۔ [اس حديث کی سند حَسَنْ ہے۔] - [اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ، نبی صلے الله علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ میری طرف سے کچھ اختلافی احادیث آئینگی، ان میں سے جو "کتاب الله" اور "میری سنّت" کے موافق ہونگی، وہ میری طرف سے ہونگی. اور جو "کتاب الله" اور "میری-سنّت" کے خلاف ہونگی وہ میری طرف سے نہیں ہونگی.،
[الرئيسية الكفاية في علم الرواية للخطيب البغدادي الكفاية في علم الرواية للخطيب البغدادي باب الكلام في أحكام الأداء وشرائطه، حديث رقم 1303] [(١)سنن الدارقطني: كِتَابٌ فِي الأَقْضِيَةِ وَالأَحْكَامِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، كتاب عمر رضي الله عنه إلى أبي موسى الأشعري،٣٩٢٦(٤٤٢٧)؛#الكفاية في علم الرواية للخطيب:التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ، ٣١١(٥٠٠٤)؛#ذم الكلام وأهله لعبد الله الأنصاري:الْبَابُ التَّاسِعُ، بَابٌ : ذِكْرُ إِعْلَامِ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ ...٥٨٩(٦٠٦)؛#الأباطيل والمناكير والمشاهير للجورقاني: كِتَابُ الْفِتَنِ، بَابُ : الرُّجُوعِ إِلَى الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ٢٧٧(٢٩٠)]
تحقیقی جائزہ: قرآن کا مثل ؟ آسودہ آدمی اپنے تخت پر ابوداؤد، حدیث نمبر: 4604]
حضرت علیؓ سے مروی ایک طویل حدیث میں نبی کریم نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص غیر قرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، وہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط رسی ہے اور وہ ایک محکم اور مضبوط ذکر ہے اور وہ ایک سیدھا راستہ ہے …‘‘(ترمذی 2906)
حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ ، سَمِعْتُ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيَّ يَقُولُ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ : إِنَّ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ، وَأَحْسَنَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَإِنَّ مَا تُوعَدُونَ لَآتٍ وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ. (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 7277 )
ترجمہ:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم کو عمرو بن مرہ نے خبر دی، کہا میں نے مرۃ الہمدانی سے سنا، بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا کہ سب سے اچھی بات کتاب اللہ اور سب سے اچھا طریقہ رسول اللہﷺ کا طریقہ ہے اور سب سے بری نئی بات (بدعة ) پیدا کرنا ہے (دین میں) اور بلاشبہ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ آ کر رہے گی اور تم پروردگار سے بچ کر کہیں نہیں جاسکتے۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 7277 )
Reference: https://quran1book.blogspot.com/2021/06/Hadith-Set.html
مچھلی کا قرآن سے حلال ہونے کا ثبوت
اُحِلَّ لَکُمۡ صَیۡدُ الۡبَحۡرِ وَ طَعَامُہٗ مَتَاعًا لَّکُمۡ وَ لِلسَّیَّارَۃِ ۚ (سورة المائدة، آیت 96)
ترجمہ :
تمہارے لئے سمندر (دریا) کا کا شکار پکڑنا اور اس کا کھانا حلال کیا گیا ہے تمہارے فائدے کے واسطے اور مسافروں کے واسطے (سورة المائدة، آیت 96)
--------------
لفظی ترجمہ :
اُحِلَّ : حلال کیا گیا ہے
لَکُمۡ : تمہارے لیے
صَیۡدُ : شکار
الۡبَحۡرِ : سمندر کا
وَطَعَامُہٗ : اور کھانا اس کا (اب کوئی یہ کہے کہ یھاں ذبح کرنے اور پکانے کا ذکر کیوں نہیں؟ جبکہ "طَعَامُہٗ" مکمل طور پر کھانے کی غیر مشروط اجازت دیتا ہے- اور یہ اب کو معلوم ہے کہ مچھلی ذبح نہیں کی جاسکتی اور پانی کے باھر مرجاتی ہے-
مَتَاعًا : فائدہ مند ہے
لَّکُمۡ : تمہارے لیے
وَلِلسَّیَّارَۃِ : اور قافلے کے لیے
الله تعالی نے سمندر ، دریا یا پانی کے جانوروں کو حلال کر دے - کس کو معلوم نہیں کہ مچھلی اور کئی دوسرے پانی کے جانور پانی کو بھر زندہ نہیں رہ سکتے؟
اور یہ کہ ان کوخشکی کے جانوروں کی طرح ذبح کرنا ممکن نہیں-
اس لئے الله تعالی نے زیادہ تفصیل کی بجایے ایک عام حکم جاری کر دیا جو تمام بحری جانوروں کو حلال کر دیتا ہے- سمندر میں لاکھوں قسم کی مخلوق ہے اس لحاظ سے وہ سب حلال ہو گۓ- اس سے زیادہ تفصیل کو ضرورت نہیں - یہود گاۓ کے معامله میں تفصیلات میں پر کر مشکلات کا شکار ہو گئے تھے-
کچھ تفاسیر سے اقتباسات درج ذیل ہیں جو اس آیت قرآن پر مرکوز ہیں- بہت سی احادیث میں تفصیلات موجود ہیں- سنت اور احادیث کی اہمیت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ الله تعالی نے کتاب کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کو بھی بھیجا جن کا اسوہ حسنہ مسلمانوں کے لیے رول ماڈل ہے- رسول اللہ ﷺ کو قرآن کا عملی تمونہ بھی کہا جاتا ہے- لیکن قرآن سب پرسپریم محفوظ ترین کتاب اللہ ہے بلا کسی شک و شبہ کے، فرقان ہے جو حق اور باطل میں فرق کر تا ہے-
---------------
تفسیر انوار البیان
(5:96) طعامہ۔ اس کا کھانا۔ اس میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب صید البحر کی طرف راجع ہے۔ یعنی تمہارے لئے پانی کے جانوروں کا کھانا بھی جائز۔ یعنی ان کا جن کو تم شکار نہیں کرتے بلکہ انہیں سمندر خود بخود زندہ یا مردہ خود بخود باہر پھینک دے۔ وللسیارۃ۔ مسافروں کے لئے۔ یعنی تمہارے لئے بھی جو حالت احرام میں ہو اور ان کے لئے بھی جو مسافر ہیں اور حالت احرام میں نہیں ہیں۔
تفسیر ابن کثیر ماخوز
طعام اور شکار میں فرق اور حلال کی مزید تشریحات دریائی شکار سے مراد تازہ پکڑے ہوئے جانور اور طعام سے مراد ہے ان کا جو گوشت سکھا کر نمکین بطور توشے کے ساتھ رکھا جاتا ہے-
ابن جریر میں ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن ابو ہیرہ نے ایک مرتبہ حضرت ابن عمر سے سوال کیا کہ سمندر نے بہت سی مردہ مچھلیاں کنارے پر پھینک دی ہیں تو آپ کیا فرماتے ہیں؟ ہم انہیں کھا سکتے ہیں یا نہیں؟ ابن عمر نے جواب دیا نہیں نہ کھاؤ ، جب واپس آئے تو.....
[قرآن نے واضح کر دیا ]
*حضرت عبداللہ رضی اللہ عالی عنہ نے قرآن کریم کھول کر تلاوت کی اور سورہ مائدہ کی اس آیت پر نظر پڑی تو ایک آدمی کو دوڑایا اور کہا جاؤ کہدو کہ وہ اسے کھا لیں یہی بحری طعام ہے*
جمہور علماء کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ پانی کا جانور خواہ مردہ ہی ہو حلال ہے
تفسیر عبدالسلام بھٹوی ماخوز
اُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ ۔۔ :” الْبَحْرِ “ سے مراد پانی ہے، اس میں سمندر اور غیر سمندر سب پانی برابر ہیں اور اس میں وہ تمام جانور شامل ہیں جو پانی سے باہر زندہ نہیں رہ سکتے، وہ مچھلی ہو یا کوئی اور جانور۔ زندہ بھی پکڑے جائیں تو ذبح کی ضرورت ہی نہیں۔ قرآن و حدیث میں پانی کے شکار کو حلال کہا گیا ہے- قرآن و حدیث میں پانی کے شکار کو حلال کہا گیا ہے-
قرآن و حدیث دونوں کا زکر مفسر کر رہا ہے- قرآن میں پانی کے شکار کو حلال کہا گیا ہے- اور حدیث میں پانی کے شکار کو حلال کہا گیا ہے-
دونوں کو ملا دیں تو: قرآن و حدیث میں پانی کے شکار کو حلال کہا گیا ہے-
وقال تعالی: هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل/ 116] ( ح ل ل ) الحل اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ حل ( ض ) اشئی حلا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز کے حلال ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة/ 88] اور جو حلال طیب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ ۔ هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل/ 116] کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے-
تفسیر احکام القرآن
سمندر کا شکار قول باری ہے (احل لکم صید البحر و طعامہ ، تمہارے لئے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کردیا گیا) حضرت ابن عباس ، حضرت زید بن ثابت، سعید بن جبیر، سعید بن المسیب، قتادہ ، سدی اور مجاہد کا قول ہے کہ سمندر کے شکار سے مراد وہ شکار ہے جو جال کے ذریعے تازہ پکڑا جائے-
قول باری (وطعامہ) کے متعلق حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت ابن عباس اور قتادہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد وہ مردہ جانور ہے جسے سمندر باہر پھینک دے۔ حضرت ابن عباس، سعید بن جبیر، سعید بن المسیب، قتادہ اور مجاہد سے یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد نمکین شکار ہے۔ لیکن پہلا قول زیادہ واضح ہے اس لئے کہ یہ دونوں صنف یعنی شکار شدہ اور غیر شکار شدہ جانوروں پر مشتمل ہے-
نمکین شکار قول باری (صید البحر) میں داخل ہے۔ اس صورت میں قول باری (وطعامہ) سے اس چیز کا دوبارہ ذکر لازم آئے گا جسے پہلا لفظ (صید البحر) شامل ہے۔
تفسیر ابن عبّاس
قوم بنی مدلج دریائی شکار کرتی تھی، انہوں نے دریائی شکار کے بارے میں اور اس کے بارے میں جو دریا پھینک دے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا، اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ
تمہارے لیے دریائی شکار اور وہ شکار جس کو پانی اوپر پھینک دے، سب حلال کردیا گیا ہے (احرام کی حالت میں) تمہارے اور راہ گزروں کے فائدہ کے لیے البتہ خشکی کا شکار حالت حدود احرام میں اور حرم میں تمہارے اوپر حرام کیا گیا ہے ان باتوں میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ [ یہ سب قرآن سے اخذ ہے ]
گزارش ہے کہ قرآن کےمطعلق کی قسم کا دعوی کرننے سے پہلے تحقیق کرنا ضروری ہے - اکثر لوگ فرقہ وارانہ لڑیچر پڑھ کر اس پر اندھا دھند یقین کر لیتے ہیں جو کہ بہت خطرناک رجحان ہے- رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ بولنے پر جہنم / آگ ہے تو کلام اللہ پر جھوٹ یا غلط بیانی پر کیا ہو گا؟
حدیث میں جھوٹ کے بےدریغ استعمال کا اقرار محدثین نے بھی کیا ہے (مسلم حدیث:40)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو (49:6)
~~~~~~~~
حدیث :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سمندر کے بارے میں فرمایا کہ سمندر کا پانی سمندر کا پانی پاک کرنے والا ہے اور اس کا مردہ حلال ہے قرآن کی آیت اور حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے سمندر کا شکار اور اور اس کا جانور حلال قرار دیئے ہیں چاہے وہ زندہ ہوں یا مردار۔یعنی اسے ذبح کرنا ضروری نہیں ۔
مچھلی کو ذبح نہ کرنے سے متعلق سائنس سے نے واضح جواب دے دیا ہے- جب مچھلی کا شکار کیا جاتا ہے یا جب مچھلی پانی سے باہر آتی ہے تو اس میں بہنے والا خون اپنی ڈائریکشن چینج کر لیتا ہے اور اس میں اور اس میں موجود خون مچھلی کے منہ میں موجود ایپیگلوٹس میں جمع ہو جاتا ہے۔ اس عمل سے مچھلی کا جسم خون سے پاک اور حلال ہو جاتا ہے۔ جب مچھلی کا گوشت بنايا جاتا ہے تو ايپيگلوٹس بھی نکال ديا جاتا ہے۔اور يوں مچھلی کو ذبح کرنے کی ضرورت باقی نہيں رہتی۔کيونکہ جلال کا مطلب اسلام ميں جانور کے گوشت کو خون سے پاک کرنا ہے۔ واللہ اعلم
~~~~~~~~~
"آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لیے بحیثیت دین، اسلام کو پسند کیا ہے" (قرآن :5:3)- یہ "آیت کمال دین " حجتہ آلودا ع پر نازل ہوئی، کمال کے بعد زوال شروع ہوا- بدعات اور فرقہ واریت اسلام میں داخل ہوتی گیئں- دین اسلام کی بنیاد اللہ کی آخری کتاب، قرآن پر ہے جورسول اللہ ﷺ بہترین نمونہ کی اطاعت کا حکم دیتا ہے- رسول اللہ ﷺ کی سنت اوراحادیث موجود ہیں- حدیث کا میعار اورطریقه بیان رسول الله ﷺ نے مقرر فرمایا- قرآن مستند ترین محفوظ کتاب الله ہی راہ هدایت ہے- آیئں ہم دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے اسلام "احیاء دین کامل" کی جدوجہد کریں >>>>>>