اس آئیت میں ایک بڑی گہری حکمت اور فلسفے کی بات بیان کی گئی ہے جو آج نگاہوں سے بالکل اوجھل ہوچکی ہے۔ وہ یہ کہ ہم دنیا میں آنے سے پہلے مردہ تھے کُنْتُمْ اَمْوَاتًا۔ اس کے کیا معنی ہیں ؟
پہلی روحانی زندگی، پہلی روحانی موت
وَ اِذۡ اَخَذَ رَبُّكَ مِنۡۢ بَنِىۡۤ اٰدَمَ مِنۡ ظُهُوۡرِهِمۡ ذُرِّيَّتَهُمۡ وَ اَشۡهَدَهُمۡ عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ ۚ اَلَسۡتُ بِرَبِّكُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰى ۛۚ شَهِدۡنَا ۛۚ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنۡ هٰذَا غٰفِلِيۡنَ ۞
ترجمہ:
اور یاد کرو جب نکالا آپ ﷺ کے رب نے تمام بنی آدم کی پیٹھوں سے ان کی نسل کو اور ان کو گواہ بنایا خود ان کے اوپر (اور سوال کیا) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں ! ہم اس پر گواہ ہیں مبادا تم یہ کہو قیامت کے دن کہ ہم تو اس سے غافل تھے(القرآن - سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 172)
یہ روحانی زندگی تھی جسم کے بغیر .... اور پھر سلا دیا گیا ،موت ... ارواح اپنے اپنے وقت پر دنیا میں آتی گیئں- جسم کے ساتھ اس دنیا کی (1) زندگی اور پھر موت، پھر (2) بروز قیامت زندہ کرکہ بدن کے ساتھ روح دوسری مرتبہ اس کے بعد موت نہیں ابدی زندگی ،مومن جنت یا سزا کاٹ کر جنت مگر کافر ہمیشہ جہنم میں۔ (پہلی موت سے مراد عدم ، نیست نہ ہونا بھی کہا جاتا ہے)
یہ مضمون سورة غافر؍سورۃ المؤمن میں زیادہ وضاحت سے آیا ہے ‘ جو سورة البقرۃ سے پہلے نازل ہوچکی تھی۔ لہٰذا یہاں اجمالی تذکرہ ہے۔ وہاں اہل جہنم کا قول بایں الفاظ نقل ہوا ہے :
رَبَّنَا اَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَاَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَھَلْ اِلٰی خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ
”اے ہمارے ربّ ! تو نے دو مرتبہ ہم پر موت وارد کی اور دو مرتبہ ہمیں زندہ کیا ‘ اب ہم نے اپنے گناہوں کا اعتراف کرلیا ہے ‘ تو اب یہاں سے نکلنے کا بھی کوئی راستہ ہے ؟“
اس سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ انسان کی تخلیقِ اوّل عالم ارواح میں صرف ارواح کی حیثیت سے ہوئی تھی۔ احادیث میں الفاظ وارد ہوئے ہیں :
اَلْاَرْوَاحُ جُنُوْدٌ مُجَنَّدَۃٌ [ متفق علیہ ] یعنی ارواح جمع شدہ لشکروں کی صورت میں تھیں۔ ان ارواح سے وہ عہد لیا گیا جو ”عہد الست“ کہلاتا ہے ( قبل ملاحضہ القرآن سورۃ 7 الأعراف، آیت 172))۔ پھر انہیں سلا دیا گیا۔ یہ گویا پہلی موت تھی جو ہم گزار آئے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ مردہ معدوم نہیں ہوتا ‘ بےجان ہوتا ہے ‘ ایک طرح سے سویا ہوا ہوتا ہے۔ قرآن حکیم میں موت اور نیند کو باہم تشبیہہ دی گئی ہے۔ ()
پھر دنیا میں عالم خلق کا مرحلہ آیا ‘ جس میں تناسل کے ذریعے سے اجساد انسانیہ کی تخلیق ہوتی ہے اور ان میں ارواح پھونکی جاتی ہیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رض سے مروی متفق علیہ حدیث کے مطابق رحم مادر میں جنین جب چار ماہ کا ہوجاتا ہے تو اس میں وہ روح لا کر پھونک دی جاتی ہے۔ یہ گویا پہلی مرتبہ کا زندہ کیا جانا ہوگیا۔
ہم اس دنیا میں اپنے جسد کے ساتھ زندہ ہوگئے ‘ ہمیں پہلی موت کی نیند سے جگادیا گیا۔
اب ہمیں جو موت آئے گی وہ ہماری دوسری موت ہوگی اور اس کے نتیجے میں ہمارا جسد وہیں چلا جائے گا جہاں سے آیا تھا یعنی مٹی میں اور ہماری روح بھی جہاں سے آئی تھی وہیں واپس چلی جائے گی۔
یہ فلسفہ و حکمت قرآنی کا بہت گہرا نکتہ ہے۔ (بیان القرآن، مفسر: ڈاکٹر اسرار احمد)
حَتّٰٓى اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الۡمَوۡتُ قَالَ رَبِّ ارۡجِعُوۡنِۙ ۞ لَعَلِّىۡۤ اَعۡمَلُ صَالِحًـا فِيۡمَا تَرَكۡتُؕ كَلَّا ؕ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآئِلُهَاؕ وَمِنۡ وَّرَآئِهِمۡ بَرۡزَخٌ اِلٰى يَوۡمِ يُبۡعَثُوۡنَ ۞
ترجمہ:
یہاں تک کہ جب پہنچے ان میں کسی کو موت کہے گا اے رب مجھ کو پھر بھیج دو ۞ شاید کچھ میں بھلا کام کرلوں اس میں جو پیچھے چھوڑ آیا ہرگز نہیں یہ ایک بات ہے کہ وہی کہتا ہے اور ان کے پیچھے پردہ ہے اس دن تک کہ اٹھائے جائیں۔ ۞ (القرآن - سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 99-100)
تفسیر:
رَبِّ ارْجِعُوْنِ ، یعنی موت کے وقت کافر پر جب آخرت کا عذاب سامنے آنے لگتا ہے تو وہ تمنا کرتا ہے کہ کاش میں پھر دنیا میں لوٹ جاؤں اور نیک عمل کر کے اس عذاب سے نجات حاصل کرلوں۔ ابن جریر نے بروایت ابن جریج نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ موت کے وقت مومن جب رحمت کے فرشتے اور رحمت کے سامان سامنے دیکھنے لگتا ہے تو فرشتے اس سے پوچھتے ہیں کہ کیا تم چاہتے ہو کہ پھر تمہیں دنیا میں واپس کردیا جائے تو وہ کہتا ہے کہ میں اس غموں اور تکلیفوں کے عالم میں جا کر کیا کروں گا مجھے تو اب اللہ کے پاس لے جاؤ اور کافر سے پوچھتے ہیں تو وہ کہتا ہے رَبِّ ارْجِعُوْنِ یعنی مجھے دنیا میں لوٹا دو۔لیکن اب وہ دنیا میں واپس نہیں جا سکتے یہ اللہ کی سنت ، قانون ہے جو تبدیل نہیں ہوتا۔
مسئلہ آیت مذکورہ سے ثابت ہوا کہ جو شخص رسول کریم ﷺ کی رسالت کا منکر ہو یا قرآن کے کلام الہی ہونے کا منکر ہو وہ اگرچہ بظاہر خدا کے وجود و عظمت کا انکار نہ کرے مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ منکرین خدا ہی کی فہرست میں شمار ہے
حیات برزخی
اس آیت میں دنیا کی زندگی اور موت کے بعد صرف ایک حیات کا ذکر ہے جو قیامت کے روز ہونے والی ہے قبر کی زندگی قبر کا سوال و جواب اور قبر میں ثواب و عذاب ہونا قرآن کریم کی متعدد آیات اور حدیث کی متواتر روایات سے ثابت ہے اس کا ذکر نہیں وجہ یہ ہے کہ یہ برزخی زندگی اس طرح کی زندگی نہیں ہے جو انسان کو دنیا میں حاصل ہے یا آخرت میں پھر ہوگی بلکہ ایک درمیانی صورت مثل خواب کی زندگی کے ہے اس کو دنیا کی زندگی کا تکملہ بھی کہا جاسکتا ہے اور آخرت کی زندگی کا مقدمہ بھی اس لئے کوئی مستقل زندگی نہیں جس کا جداگانہ ذکر کیا جائے۔ (معارف قرآن، مفتی محمد شفیع)
اور اس موت کے بعد دنیا میں واپسی ممکن نہیں، اب بروز قیامت ہی زندہ کئے جائیں گے اور موت کو مینڈھے کی شکل ذبح کرکہ ختم کردیا جائیے گا۔ وہ زندگی ابدی یوگی نیک لوگ جنت میں اور کافر و بدکار ہمیشہ کے لئے جہنم میں---
اس سب کا عمدہ خلاصہ :
زندگی اور موت کے چار مراحل :۔
انسان پر وارد ہونے والی چار کیفیات کا ذکر ہے۔ پہلے موت، پھر زندگی، پھر موت، پھر زندگی۔
روح اور جسم کے اتصال کا نام زندگی اور ان کے انفصال کا نام موت ہے۔
(1) پہلی حالت موت ہے یعنی جملہ انسانوں کی ارواح تو پیدا ہوچکی تھیں۔ لیکن جسم اپنے اپنے وقت پر عطا ہوئے، اسی عرصہ میں عہد الست لیا گیا تھا۔
(7:172)(2) دوسری حالت انسان کی پیدائش سے لے کر اس کے مرنے تک ہے، جس میں وہ اچھے یا برے اعمال کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
(3) تیسری حالت موت سے لے کر حشر تک اور
(4) چوتھی اور آخری حالت دوبارہ جی اٹھنے (حشر) کے بعد لامتناہی زندگی ہے۔
یاد رہے کہ جن حالتوں کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ان میں بھی زندگی کی کچھ نہ کچھ رمق موجود ہوتی ہے۔ مگر چونکہ غالب اثرات موت کے ہوتے ہیں۔ لہذا انہیں موت سے تعبیر کیا گیا۔ کیونکہ پہلی موت کے درمیان ہی عہد الست لیا گیا تھا اور دوسری موت میں ہی انسان کو قبر کا عذاب ہوتا ہے اور دنیا میں بھی یہ حالت خواب سے سمجھا دی گئی ہے۔ کیونکہ خواب کی حالت میں انسان پر بیشتر اثرات موت کے غالب ہوتے ہیں۔ تاہم وہ عالم خواب میں چلتا پھرتا، کھاتا پیتا اور کئی طرح کے کام کرتا ہے اور خواب یا نیند کو حدیث میں موت کی بہن قرار دیا گیا ہے، زندگی کی نہیں، نیز سونے کے وقت یہ دعا سکھائی گئی ہے۔ اللھم باسمک أموت وأحییٰ نیز قرآنی تصریحات سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ موت سلبی چیز نہیں بلکہ ایجابی ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے موت کو پہلے پیدا کیا تھا اور زندگی کو بعد میں جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے : آیت (الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً ) 72 ۔ 2) اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اعمال کے اعتبار سے اچھا ہے اور زیر مطالعہ آیت میں انسان کی توجہ اس طرف مبذول کرائی گئی ہے کہ جو ہستی تمہاری ذات پر اتنے وسیع تصرفات کی قدرت رکھتی ہے تم اس کا انکار کیسے کرسکتے ہو- (تیسسر القرآن ، مولانا عبدالرحمان کیلانی ) منکر خاتم النبیین حضرت عیسی علیہ السلام کو فوت شدہ کہتے ہیں مطلب نکالتے، تو فوت ہونے والا دنیا میں واپس نہیں آسکتا وہ الم برزخ سے بروز قیامت زندہ کیا جایے گا- تو کیوں وہ عیسی مسیح کا دعوی کرتے ہیں؟ یہ ان کے اپنے عقیدہ وفات مسیح کی نفی ہے۔ اگر وہ یہ کہیں کہ روح مسیح کس کے جسم میں حلول کر گئی تو یہ کافروں، ہندوں کا عقیدہ ہے اسلام میں ہر انسان کی روح اس کے اپنے جسم میں ہوتی ہے یا عالم ارواح برزِخ میں ، ایک جسم میں دو روحیں نہیں۔
بحرحال احادیث کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام واپس آئیں گہ لہذا مسلمانوں کا حیات مسیح کا عقیدہ درست ثابت ہوتا ہے -
خلاصہ : منکرین ختم نبوت کے تضادات (Paradoxes)
1.اگر حضرت عیسٰی علیہ السلام
فوت ہو چکے ہیں تو پھر نزول / آمد/ پیدائش کیوں؟ قرآن کے مطابق فوت شدہ انسان دنیا میں واپس نہیں آسکتا وہ بروز قیامت ہی زندہ ہو گا- تو کیوں اپنا نام بدل کر "عیسٰی ابن مریم" بننے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں؟ کسی ایک جگہ پر رک جائیں!
2.حضرت عیسٰی علیہ السلام اگر زندہ ہیں تو ہی دنیا می نازل ہو سکتنے ہیں ، جیسا کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے حدیث میں فرمآیا، پھروہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے امتی کی حثیت سے عدل و انصاف سے حکومت کریں اور قدرتی وفات پائیں، الله تعالی کی بات پوری ہو: کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ ؕ (ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے(3:185) اور رسول اللہ ﷺ کے پاس دفن ہوں-
3.اگر منکرین ختم نبوت کی بات مانیں تو حضرت محمد رسول اللهﷺ کا انکار ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی بات مانیں تومنکرین ختم نبوت کا انکار ہوتا ہے-
.4.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا
مسیح موعود ہونا قرآن و حدیث کے کس فرمان سے ثابت ہے؟ اصل مسئلہ حیات و وفاتِ مسیح کا نہیں بلکہ مرزا کا دعویٰ نبوت ہے۔ پس مسلمانوں سے جب بھی کوئی قادیانی مبلغ حیات و مماتِ مسیح کی بحث چھیڑے تو اس موضوع پر گفتگو کی بجائے اصل موضوع یعنی مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٰ نبوت کے ردّ کی طرف پلٹنا چاہیے۔
(مزید تفصیل لنک ...)الله تعالی اوررسول اللہ ﷺ کا انکار ابدی جہنم یعنی کفر ہے- "منکرین ختم نبوت " کو الله تعالی اور رسول اللہ ﷺ کی بات قبول کرنے میں ہی فلاح ہے-
مزید تفصیل 》》》》