رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

دو موتوں اور دو زندگیوں کی حقیقت اور منکرین ختم نبوت کے (Paradoxes) تضادات


موت کے بعد اس دنیا عام واپسی ناممکن، بروز قیامت ابدی زندگی.. جنت میں یا جہنم میں !
كَيۡفَ تَكۡفُرُوۡنَ بِاللّٰهِ وَڪُنۡتُمۡ اَمۡوَاتًا فَاَحۡيَاکُمۡ‌ۚ ثُمَّ يُمِيۡتُكُمۡ ثُمَّ يُحۡيِيۡكُمۡ ثُمَّ اِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ ۞
ترجمہ:
تم کیسے کفر کرتے ہو اللہ کا حالانکہ تم مردہ تھے پھر اس نے تمہیں زندہ کیا۔ ُ پھر وہ تمہیں مارے گا پھر زندہ کرے گا پھر تم اسی کی طرف لوٹا دیے جاؤ گے۔ ُ (سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 28)
اس آئیت میں ایک بڑی گہری حکمت اور فلسفے کی بات بیان کی گئی ہے جو آج نگاہوں سے بالکل اوجھل ہوچکی ہے۔ وہ یہ کہ ہم دنیا میں آنے سے پہلے مردہ تھے کُنْتُمْ اَمْوَاتًا۔ اس کے کیا معنی ہیں ؟
پہلی روحانی زندگی، پہلی روحانی موت
وَ اِذۡ اَخَذَ رَبُّكَ مِنۡۢ بَنِىۡۤ اٰدَمَ مِنۡ ظُهُوۡرِهِمۡ ذُرِّيَّتَهُمۡ وَ اَشۡهَدَهُمۡ عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ‌ ۚ اَلَسۡتُ بِرَبِّكُمۡ‌ ؕ قَالُوۡا بَلٰى‌ ۛۚ شَهِدۡنَا ‌ۛۚ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنۡ هٰذَا غٰفِلِيۡنَ ۞
ترجمہ:
اور یاد کرو جب نکالا آپ ﷺ کے رب نے تمام بنی آدم کی پیٹھوں سے ان کی نسل کو اور ان کو گواہ بنایا خود ان کے اوپر (اور سوال کیا) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں ! ہم اس پر گواہ ہیں مبادا تم یہ کہو قیامت کے دن کہ ہم تو اس سے غافل تھے(القرآن - سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 172)
یہ روحانی زندگی تھی جسم کے بغیر .... اور پھر سلا دیا گیا ،موت ... ارواح اپنے اپنے وقت پر دنیا میں آتی گیئں- جسم کے ساتھ اس دنیا کی (1) زندگی اور پھر موت، پھر (2) بروز قیامت زندہ کرکہ بدن کے ساتھ روح دوسری مرتبہ اس کے بعد موت نہیں ابدی زندگی ،مومن جنت یا سزا کاٹ کر جنت مگر کافر ہمیشہ جہنم میں۔ (پہلی موت سے مراد عدم ، نیست نہ ہونا بھی کہا جاتا ہے)
یہ مضمون سورة غافر؍سورۃ المؤمن میں زیادہ وضاحت سے آیا ہے ‘ جو سورة البقرۃ سے پہلے نازل ہوچکی تھی۔ لہٰذا یہاں اجمالی تذکرہ ہے۔ وہاں اہل جہنم کا قول بایں الفاظ نقل ہوا ہے :
رَبَّنَا اَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَاَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَھَلْ اِلٰی خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ
”اے ہمارے ربّ ! تو نے دو مرتبہ ہم پر موت وارد کی اور دو مرتبہ ہمیں زندہ کیا ‘ اب ہم نے اپنے گناہوں کا اعتراف کرلیا ہے ‘ تو اب یہاں سے نکلنے کا بھی کوئی راستہ ہے ؟“
اس سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ انسان کی تخلیقِ اوّل عالم ارواح میں صرف ارواح کی حیثیت سے ہوئی تھی۔ احادیث میں الفاظ وارد ہوئے ہیں :
اَلْاَرْوَاحُ جُنُوْدٌ مُجَنَّدَۃٌ [ متفق علیہ ] یعنی ارواح جمع شدہ لشکروں کی صورت میں تھیں۔ ان ارواح سے وہ عہد لیا گیا جو ”عہد الست“ کہلاتا ہے ( قبل ملاحضہ القرآن سورۃ 7 الأعراف، آیت 172))۔ پھر انہیں سلا دیا گیا۔ یہ گویا پہلی موت تھی جو ہم گزار آئے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ مردہ معدوم نہیں ہوتا ‘ بےجان ہوتا ہے ‘ ایک طرح سے سویا ہوا ہوتا ہے۔ قرآن حکیم میں موت اور نیند کو باہم تشبیہہ دی گئی ہے۔ ()
پھر دنیا میں عالم خلق کا مرحلہ آیا ‘ جس میں تناسل کے ذریعے سے اجساد انسانیہ کی تخلیق ہوتی ہے اور ان میں ارواح پھونکی جاتی ہیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رض سے مروی متفق علیہ حدیث کے مطابق رحم مادر میں جنین جب چار ماہ کا ہوجاتا ہے تو اس میں وہ روح لا کر پھونک دی جاتی ہے۔ یہ گویا پہلی مرتبہ کا زندہ کیا جانا ہوگیا۔
ہم اس دنیا میں اپنے جسد کے ساتھ زندہ ہوگئے ‘ ہمیں پہلی موت کی نیند سے جگادیا گیا۔
اب ہمیں جو موت آئے گی وہ ہماری دوسری موت ہوگی اور اس کے نتیجے میں ہمارا جسد وہیں چلا جائے گا جہاں سے آیا تھا یعنی مٹی میں اور ہماری روح بھی جہاں سے آئی تھی وہیں واپس چلی جائے گی۔
یہ فلسفہ و حکمت قرآنی کا بہت گہرا نکتہ ہے۔ (بیان القرآن، مفسر: ڈاکٹر اسرار احمد)

حَتّٰٓى اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الۡمَوۡتُ قَالَ رَبِّ ارۡجِعُوۡنِۙ ۞ لَعَلِّىۡۤ اَعۡمَلُ صَالِحًـا فِيۡمَا تَرَكۡتُ‌ؕ كَلَّا‌ ؕ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآئِلُهَا‌ؕ وَمِنۡ وَّرَآئِهِمۡ بَرۡزَخٌ اِلٰى يَوۡمِ يُبۡعَثُوۡنَ ۞
ترجمہ:
یہاں تک کہ جب پہنچے ان میں کسی کو موت کہے گا اے رب مجھ کو پھر بھیج دو ۞ شاید کچھ میں بھلا کام کرلوں اس میں جو پیچھے چھوڑ آیا ہرگز نہیں یہ ایک بات ہے کہ وہی کہتا ہے اور ان کے پیچھے پردہ ہے اس دن تک کہ اٹھائے جائیں۔ ۞ (القرآن - سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 99-100)
تفسیر:
رَبِّ ارْجِعُوْنِ ، یعنی موت کے وقت کافر پر جب آخرت کا عذاب سامنے آنے لگتا ہے تو وہ تمنا کرتا ہے کہ کاش میں پھر دنیا میں لوٹ جاؤں اور نیک عمل کر کے اس عذاب سے نجات حاصل کرلوں۔ ابن جریر نے بروایت ابن جریج نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ موت کے وقت مومن جب رحمت کے فرشتے اور رحمت کے سامان سامنے دیکھنے لگتا ہے تو فرشتے اس سے پوچھتے ہیں کہ کیا تم چاہتے ہو کہ پھر تمہیں دنیا میں واپس کردیا جائے تو وہ کہتا ہے کہ میں اس غموں اور تکلیفوں کے عالم میں جا کر کیا کروں گا مجھے تو اب اللہ کے پاس لے جاؤ اور کافر سے پوچھتے ہیں تو وہ کہتا ہے رَبِّ ارْجِعُوْنِ یعنی مجھے دنیا میں لوٹا دو۔لیکن اب وہ دنیا میں واپس نہیں جا سکتے یہ اللہ کی سنت ، قانون ہے جو تبدیل نہیں ہوتا۔
مسئلہ آیت مذکورہ سے ثابت ہوا کہ جو شخص رسول کریم ﷺ کی رسالت کا منکر ہو یا قرآن کے کلام الہی ہونے کا منکر ہو وہ اگرچہ بظاہر خدا کے وجود و عظمت کا انکار نہ کرے مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ منکرین خدا ہی کی فہرست میں شمار ہے
حیات برزخی
اس آیت میں دنیا کی زندگی اور موت کے بعد صرف ایک حیات کا ذکر ہے جو قیامت کے روز ہونے والی ہے قبر کی زندگی قبر کا سوال و جواب اور قبر میں ثواب و عذاب ہونا قرآن کریم کی متعدد آیات اور حدیث کی متواتر روایات سے ثابت ہے اس کا ذکر نہیں وجہ یہ ہے کہ یہ برزخی زندگی اس طرح کی زندگی نہیں ہے جو انسان کو دنیا میں حاصل ہے یا آخرت میں پھر ہوگی بلکہ ایک درمیانی صورت مثل خواب کی زندگی کے ہے اس کو دنیا کی زندگی کا تکملہ بھی کہا جاسکتا ہے اور آخرت کی زندگی کا مقدمہ بھی اس لئے کوئی مستقل زندگی نہیں جس کا جداگانہ ذکر کیا جائے۔ (معارف قرآن، مفتی محمد شفیع)
اور اس موت کے بعد دنیا میں واپسی ممکن نہیں، اب بروز قیامت ہی زندہ کئے جائیں گے اور موت کو مینڈھے کی شکل ذبح کرکہ ختم کردیا جائیے گا۔ وہ زندگی ابدی یوگی نیک لوگ جنت میں اور کافر و بدکار ہمیشہ کے لئے جہنم میں---
اس سب کا عمدہ خلاصہ :
زندگی اور موت کے چار مراحل :۔
انسان پر وارد ہونے والی چار کیفیات کا ذکر ہے۔ پہلے موت، پھر زندگی، پھر موت، پھر زندگی۔
روح اور جسم کے اتصال کا نام زندگی اور ان کے انفصال کا نام موت ہے۔
(1) پہلی حالت موت ہے یعنی جملہ انسانوں کی ارواح تو پیدا ہوچکی تھیں۔ لیکن جسم اپنے اپنے وقت پر عطا ہوئے، اسی عرصہ میں عہد الست لیا گیا تھا۔ (7:172)
(2) دوسری حالت انسان کی پیدائش سے لے کر اس کے مرنے تک ہے، جس میں وہ اچھے یا برے اعمال کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
(3) تیسری حالت موت سے لے کر حشر تک اور
(4) چوتھی اور آخری حالت دوبارہ جی اٹھنے (حشر) کے بعد لامتناہی زندگی ہے۔
یاد رہے کہ جن حالتوں کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ان میں بھی زندگی کی کچھ نہ کچھ رمق موجود ہوتی ہے۔ مگر چونکہ غالب اثرات موت کے ہوتے ہیں۔ لہذا انہیں موت سے تعبیر کیا گیا۔ کیونکہ پہلی موت کے درمیان ہی عہد الست لیا گیا تھا اور دوسری موت میں ہی انسان کو قبر کا عذاب ہوتا ہے اور دنیا میں بھی یہ حالت خواب سے سمجھا دی گئی ہے۔ کیونکہ خواب کی حالت میں انسان پر بیشتر اثرات موت کے غالب ہوتے ہیں۔ تاہم وہ عالم خواب میں چلتا پھرتا، کھاتا پیتا اور کئی طرح کے کام کرتا ہے اور خواب یا نیند کو حدیث میں موت کی بہن قرار دیا گیا ہے، زندگی کی نہیں، نیز سونے کے وقت یہ دعا سکھائی گئی ہے۔ اللھم باسمک أموت وأحییٰ نیز قرآنی تصریحات سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ موت سلبی چیز نہیں بلکہ ایجابی ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے موت کو پہلے پیدا کیا تھا اور زندگی کو بعد میں جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے : آیت (الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً ) 72 ۔ 2) اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اعمال کے اعتبار سے اچھا ہے اور زیر مطالعہ آیت میں انسان کی توجہ اس طرف مبذول کرائی گئی ہے کہ جو ہستی تمہاری ذات پر اتنے وسیع تصرفات کی قدرت رکھتی ہے تم اس کا انکار کیسے کرسکتے ہو- (تیسسر القرآن ، مولانا عبدالرحمان کیلانی )

منکر خاتم النبیین حضرت عیسی علیہ السلام کو فوت شدہ کہتے ہیں مطلب نکالتے، تو فوت ہونے والا دنیا میں واپس نہیں آسکتا وہ الم برزخ سے بروز قیامت زندہ کیا جایے گا- تو کیوں وہ عیسی مسیح کا دعوی کرتے ہیں؟ یہ ان کے اپنے عقیدہ وفات مسیح کی نفی ہے۔ اگر وہ یہ کہیں کہ روح مسیح کس کے جسم میں حلول کر گئی تو یہ کافروں، ہندوں کا عقیدہ ہے اسلام میں ہر انسان کی روح اس کے اپنے جسم میں ہوتی ہے یا عالم ارواح برزِخ میں ، ایک جسم میں دو روحیں نہیں۔

بحرحال احادیث کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام واپس آئیں گہ لہذا مسلمانوں کا حیات مسیح کا عقیدہ درست ثابت ہوتا ہے -

خلاصہ : منکرین ختم نبوت کے تضادات (Paradoxes)

1.اگر حضرت عیسٰی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں تو پھر نزول / آمد/ پیدائش کیوں؟ قرآن کے مطابق فوت شدہ انسان دنیا میں واپس نہیں آسکتا وہ بروز قیامت ہی زندہ ہو گا- تو کیوں اپنا نام بدل کر "عیسٰی ابن مریم" بننے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں؟ کسی ایک جگہ پر رک جائیں!
2.حضرت عیسٰی علیہ السلام اگر زندہ ہیں تو ہی دنیا می نازل ہو سکتنے ہیں ، جیسا کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے حدیث میں فرمآیا، پھروہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے امتی کی حثیت سے عدل و انصاف سے حکومت کریں اور قدرتی وفات پائیں، الله تعالی کی بات پوری ہو: کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ ؕ (ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے(3:185) اور رسول اللہ ﷺ کے پاس دفن ہوں-
3.اگر منکرین ختم نبوت کی بات مانیں تو حضرت محمد رسول اللهﷺ کا انکار ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی بات مانیں تومنکرین ختم نبوت کا انکار ہوتا ہے-
.4.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا مسیح موعود ہونا قرآن و حدیث کے کس فرمان سے ثابت ہے؟ اصل مسئلہ حیات و وفاتِ مسیح کا نہیں بلکہ مرزا کا دعویٰ نبوت ہے۔ پس مسلمانوں سے جب بھی کوئی قادیانی مبلغ حیات و مماتِ مسیح کی بحث چھیڑے تو اس موضوع پر گفتگو کی بجائے اصل موضوع یعنی مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٰ نبوت کے ردّ کی طرف پلٹنا چاہیے۔(مزید تفصیل لنک ...)
الله تعالی اوررسول اللہ ﷺ کا انکار ابدی جہنم یعنی کفر ہے- "منکرین ختم نبوت " کو الله تعالی اور رسول اللہ ﷺ کی بات قبول کرنے میں ہی فلاح ہے-
مزید تفصیل 》》》》

روح کا سلسلہ جب روزانہ ہی بدن کے ساتھ قائم و دائم ہے تو پھر قیامت کے دن روح کو جسم کی طرف واپس کر دیا جانا کیا معنی رکھتا ہے ....اور آیات جس میں الله دو موتوں اور دو زندگیوں کا تذکرہ کرتا ہے؟

كَيْفَ تَكْفُرُ‌ونَ بِاللَّـهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْ‌جَعُونَ ﴿سورة البقرة:٢٨﴾ تم اللہ کے ساتھ کیسے کفر کرتے ہو؟ حاﻻنکہ تم مرده تھے اس نے تمہیں زنده کیا، پھر تمہیں مار ڈالے گا، پھر زنده کرے گا، پھر اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے [سورة البقرة:28] قَالُوا رَ‌بَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَ‌فْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُ‌وجٍ مِّن سَبِيلٍ ﴿سورة غافر:١١﴾ وه کہیں گے اے ہمارے پروردگار! تو نے ہمیں دو (2) بار مارا اور دو (2) بار ہی جلایا، اب ہم اپنے گناہوں کے اقراری ہیں، تو کیا اب کوئی راه نکلنے کی بھی ہے؟ [سورة غافر:11] اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کے روح الله کے پاس پوھنچنے کے بعد واپسی کا مطالبہ کرتی ہے تو جواب ملتا ہے کے نہیں، آیت ملاحظہ کیجئے! حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَ‌بِّ ارْ‌جِعُونِ ﴿٩٩﴾ لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَ‌كْتُ ۚ كَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِن وَرَ‌ائِهِم بَرْ‌زَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴿١٠٠﴾ یہاں تک کہ جب ان میں کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے پروردگار! مجھے واپس لوٹا دے (99) کہ اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جا کر نیک اعمال کر لوں، ہرگز ایسا نہیں ہوگا، یہ تو صرف ایک قول ہے جس کا یہ قائل ہے، ان کے پیچھے ایک برزخ (آڑ) حایل ہے، ان کے دوباره جی اٹھنے کے دن تک [سورة المؤمنون 100)
مرنے کے بعد انسانی روح کا ٹھکانہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً ۭﱑ اِذَا جَاۗءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُوْنَ 61؀ ثُمَّ رُدُّوْٓا اِلَى اللّٰهِ مَوْلٰىهُمُ الْحَقِّ ۭ اَلَا لَهُ الْحُكْمُ ۣ وَهُوَ اَسْرَعُ الْحٰسِبِيْنَ 62؀ ’’اور وہ( اللہ)اپنے بندوں پر قادر ہے ، اور تم پر نگرانی کرنے والے (فرشتے)بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی ایک کی موت کا وقت آجاتا ہے ، تو ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے )اس ( اسکی روح) کو قبض کر لیتے ہیں اور وہ کوئی کوتاہی ( غلطی ) نہیں کرتے۔ پھر سب اللہ کی طرف لوٹا ئے جاتے ہیں جو کہ سب کا مالک حقیقی ہے ۔آگاہ رہو کہ حکم اسی کا ہے اور وہ بہت ہی جلد حساب لینے والا ہے‘‘۔ ( سورہ انعام ) وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰي كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّتَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَاۗءَ ظُهُوْرِكُمْ ۚ وَمَا نَرٰي مَعَكُمْ شُفَعَاۗءَكُمُ الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّهُمْ فِيْكُمْ شُرَكٰۗؤُا ۭ لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنْكُمْ مَّا كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ 94؀ۧ ’’ اور تم تن تنہاہمارے پاس پہنچ گئے جیسا کہ ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اور تم چھوڑ آئے ہو جو کچھ ہم نے تمہیں دیا تھا ، اور ہم نہیں دیکھتے تمہارے ساتھ تمہارے شریکوں کو جن کا تمہیں زعم تھا کہ یہ تمہارے معاملے میں شریک ہیں، اور یقینا ٹوٹ گئے ہیں تمہارے آپس کے رابطے اور گم ہوگیا ہے تم سے جن کا تمہیں بڑا گھنڈ تھا ‘‘۔ ( الانعام ) حَتّيٰٓ اِذَا جَاۗءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ 99۝ۙ لَعَلِّيْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِيْمَا تَرَكْتُ كَلَّا ۭ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَاۗىِٕلُهَا ۭ وَمِنْ وَّرَاۗىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ ١٠٠؁ ’’ یہاں تک کہ جب ان میں کسی ایک کی موت کا وقت آتا ہے (تو) کہتا ہے اے میرے رب لوٹا دے مجھے،تاکہ میں نیک عمل کر سکوں اس میں جسے میں چھوڑ آیا ہوں، ہرگز نہیں! یہ تو محض ایک بات ہےجو وہ کہتا ہے، اور ان کے پیچھے ایک آڑ ( برزخ )حائل ہے اٹھائے جانے والے دن تک ‘‘۔ ( المومنوں ) اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ 42؀ ’’اللہ روحوں کو قبض کرلیتا ہے ان کی موت کے وقت، جن کی موت نہیں آئی ان کی سوتے میں، پھر روک لیتا ہے اس کی روح جس پر موت کا فیصلہ ہو اور چھوڑ دیتا ہے باقی کو ایک خاص وقت تک کے لئے ، بے شک اس میں نشانیاں ہیں ان کے لئے جو غور و فکر کرتے ہیں ‘‘۔ ( الزمر) لاریب قر آن میں اللہ کا فیصلہ آگیا کہ جن کو موت آجائے ان کی روح قبض کرکے اللہ کے پاس لے جائی جاتی ہے، رب کائنات اس کی روح کو روک لیتا ہے اور قیامت تک اب روح واپس اس دنیا میں نہیں آسکتی۔ اللہ تعالی نے ہر انسان کے لئے دو موتیں اور دو زندگیاں بیان فرمائی ہیں: كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ ۚ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ 28؀ ’’ تم کیسے کفر کرتے ہو اللہ کے ساتھ حالانکہ تم مرے ہوئے تھے تو اس نے تمہیں زندگی دی پھر وہی تمہیں موت دیتا ہے اور وہی تمہیں زندہ کرے گا،پھر اسی کی طرف تم لو ٹائے جاتے ہو‘‘۔ (البقرہ) قَالُوْا رَبَّنَآ اَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَاَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَهَلْ اِلٰى خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِيْلٍ 11؀ ’’ وہ کہیں گے اے ہمارے رب واقعی تو نے ہم کو دو مرتبہ موت بھی دے دی اور دو مرتبہ زندگی بھی، سو ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں تو کیا اب کوئی صورت ہے نکلنے کی ؟‘‘۔ ( المومن ) قرآن بتایا کہ ایک انسان کے لئے دو موتیں اور دو زندگیاں ہیں۔ پہلی موت : اس کی روح موجود لیکن اس کو یہ دنیاوی جسم نہیں ملا، یعنی موت کا دور وہ ہوتا ہے کہ جب یہ روح اور جسم جدا جدا ہوں۔ پہلی زندگی : جب اللہ نے ایک جسم بنا کر اس میں روح ڈالدی تو یہ انسان کی پہلی زندگی ہوئی۔ دوسری موت : جس کا ذکر اوپر بیان کردہ آیات میں موجود ہے کہ اس جسم سے روح نکال کر اللہ کے پاس پہنچادی جاتی ہے اور اب روح قیامت تک اس جسم میں واپس نہیں آئے گی یعنی روح اور جسم میں جدائی رہے گی یہ ہے انسان کی دوسری موت۔ دوسری زندگی : قرآن اور حدیث کے بیان کے مطابق قیامت کے دن ان دنیاوی جسموں کو دوبارہ بنا کر ان میں روح ڈال کر انہیں زندہ کیا جائے گا، اور پھر اس کے بعد کوئی موت نہیں۔ واضح ہوا کہ یہ عقیدہ رکھنا کہ قبض ہونے والی روح مرنے کے بعد قیامت سے پہلے اس جسم میں لوٹادی جاتی ہے قرآن کا انکار اور ایک تیسری زندگی پر ایمان رکھنا ہے۔ سورہ المومنون میں اسی بات کو مزید واضح کیا گیا : وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـةٍ مِّنْ طِيْنٍ 12 ؀ۚ ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ 13۝۠ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَـلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَـلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْــمًا ۤ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ ۭفَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ 14؀ۭ ثُمَّ اِنَّكُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ لَمَيِّتُوْنَ 15؀ۙ ثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ 16؀ ’’ اور بلاشبہ ہم نے انسان کوپیدا کیا مٹی کے خلاصے سے۔ پھر ہم نے اسے نطفے کی صورت میں ایک محفوظ جگہ رکھا ،پھر اس نطفے کو ہم نے ایک لوتھڑا بنا دیا، پھر ہم نے اس لوتھڑے کو گوشت بنا یا، پھر ہم نے اس گوشت کی ہڈیاں بنائیں، پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت چڑھا دیا۔ پھر اس کو ہم نے اسےایک دوسری صورت میں اٹھا کھڑا کیا، سو بڑا ہی برکت والا ہے وہ اللہ جو سب سے بہتر بنانے والا ہے۔پھر اس کے بعد تم سب کوموت آ جائے گی، پھر تم سب قیامت کے دوبار زندہ کرکے اٹھاو جاوگے ‘‘۔ ( المومنون ) اس آیت میں انسانی زندگی کا ایک مکمل نقشہ بیان کردیا گیا ہے کہ کس طرح اس کی تخلیق ہوئی اور اسے دنیا میں لاکھڑا کیا اور بتایا کہ اس زندگی کے بعد تمام انسانوں کو موت آ جا تی ہے اور موت کا یہ دور قیامت کے دن ہی ختم ہوگا جب انہیں دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے گا۔ اسی بات کو سورہ نحل میں اس طرح بیان کیا گیا : وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَيْـــًٔـا وَّهُمْ يُخْلَقُوْنَ 20۝ۭ اَمْوَاتٌ غَيْرُ اَحْيَاۗءٍ ۚ وَمَا يَشْعُرُوْنَ ۙ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ 21۝ۧ

وفات مسیح - قادیانیت کی جڑ کا خاتمہ ( دعوی دار مسیح موعود)
وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللهُ واللهُ خَيْرُ الْمَاکِرِيْنَ [’’پھر (عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کے لیے) انہوں نے خفیہ تدبیریں کیں اور اللہ نے بھی (عیسیٰ علیہ السلام کو بچانے کی) خفیہ تدبیریں کیں۔ (یعنی کفار کی تدبیر کا رد کیا) اور اللہ سب خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہترخفیہ تدبیر کرنے والا ہے۔‘‘(آل عمران،3:54]

الله تعالی کا پلان یہود کے پلان کو ناکام کرنا تھا نہ کہ حضرت عیسیٰ مسیح  علیہ السلام کو مار کر یہود کے پلان کو کامیاب کرنا؟  جیسا کہ منکرین ختم نبوت آیات قرآن کے برخلاف دعوی کرتے ہیں - الله تعالی  ۓ اپنا پلان ظاہر کر دیا:-

اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ فِیۡمَا کُنۡتُمۡ فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ ﴿۵۵﴾

"جب اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ اے عیسیٰ! میں تجھے پورا لینے والا ہوں( مُتَوَفِّيْکَ ) اور تجھے اپنی جانب اٹھانے والا ہوں (رَافِعُکَ) اور تجھے کافروں سے پاک کرنے والا ہوں اور تیرے تابعداروں کو کافروں کے اوپر غالب کرنے والا ہوں قیامت کے دن تک ، پھر تم سب کا لوٹنا (مَرۡجِعُکُمۡ ) میری ہی طرف ہے میں ہی تمہارے آپس کے تمام تر اختلافات کا فیصلہ کرونگا   (قرآن 3:55) [تین اہم الفاظ میں سارے مسئلہ کا حل پوشیدہ ہے:  مُتَوَفِّيْکَ، رَافِعُکَ، مَرۡجِعُکُمۡ]

1.موت میں انسان کی روح اور جان (زندگی) چلی جاتی ہے جسم یہیں دنیا میں رہ جاتا ہے- 

2. عربی لفظ "متوفی" کا ایک یہ مطلب یہ کہ: مکمل پوا کا پورا لے لینا - انسان مرکب ہے تین چیزوں کا :  i) جسم ii)روح ، iii)جان(زندگی)- جب یہ تینوں مکمل ہیں اکٹھے ہیں تو انسان زندہ حالت میں ہے ، جیسے نیند میں-  رَافِعُکَ ، بلند کرنے، اونچا کرنے جسمانی طور پر-

3.اگر جسم دنیا میں رہ جاۓ صرف روح اور جان (زندگی) الله تعالی لیتا ہے جیسا کہ عام مشاہدہ ہے، تو اسے 'موت' کہا جاتا ہے- مگر  یہ تاریخی شہادت، ایک حقیقت ہے کہ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کا جسم دنیا میں نہیں رہا جوکسی کو نہیں ملا اس پر داستانیں مشہورہیں- لہذا  ان پر یہ لفظ مُتَوَفِّیْکَ یعنی  'مکمل طور پر پورا کا پورا  حضرت عیسیٰ علیہ السلام مسیح علیہ السلام کو الله تعالی  نے لے لیا' درست طور پر بعین لاگو ہوتا ہے- منکرین نبوت  (مُتَوَفِّيْکَ، رَافِعُکَ) کے غلط معنی نکال کر یہود یہود کا پلان کامیاب کرتے ہیں اور اللہ کو ناکام (استغفراللہ )- 

4. اسی آیات میں الله تعالی فرماتا ہے: ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُکُمْ [پھر تمہیں میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے (قرآن 3:55)] تو حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کو تو الله تعالی نے مکمل اٹھا لیا- توالله کے پاس واپس لوٹ کر وہ اسی صورت میں آسکتے ہیں جب ان کی  دنیا میں (واپسی  (نزول) ہو پھر موت (مَرۡجِعُکُمۡ )  (یہ دنیا میں دوبارہ واپسی یا نزول عیسیٰ علیہ السلام کی طرف بالواسطہ/ indirect اشارہ ہے مگر یہ اور احادیث نزول (قرآن:5:116/117) سے متضاد ہیں، اس کا حل علماء کو نکلالنا ہو گا

لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی 'موت' جو منکرین ختم نبوت عقیده کی جڑھ ہے قطعی طور پر قرآن سے ثابت نہیں بلکہ مکمل طور پر جسم سمیت زندہ اوپر اٹھایا جانا ثابت ہے-

پس منکرین ختم نبوت کی بنیاد اور جڑھ کا ختمہ ہو گیا- ان کو اسلام کی طرف رجوع، واپسی کی دعوت ہے-

مزید ٹفصل درج ذیل ......

https://bit.ly/KhatmeRoot


☆☆☆ 🌹🌹🌹📖🕋🕌🌹🌹🌹☆☆☆
رساله تجديد الاسلام
وَمَا عَلَيۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ (القرآن  36:17)
اور ہمارے ذمہ صرف واضح پیغام پہنچا دینا ہے
   Our mission is only to convey the message clearly

پوسٹ لسٹ