2-Q يهود اور مسيحت كي كتب كا تجزيه
Abdul Samee Jessar* said:
یہود اور مسیحت میں کتاب الله کے ساتھ دوسری کتب
یہود اور مسیحت میں کتاب الله کے ساتھ دوسری کتب سے کتاب اللہ کی اہمیت کم ہو گیی ، اس كو سب نظر انداز كر ديتے ہين.. كوئي اس پر بات نہين كرتا كيون؟
" نقط أول مين واضح كيا ہے كے يہ قول حضرت عمر رضي الله عنه مروي ہے۰ حضرت عمر كو خدشه تها جس كي وجه سے كتابت سنن نہين كئي يہ ايک فقيهی قاعدة ہے ظروف (حالات) كے تبديل ہونے سے فتواى (حكم) بهي تبديل ہو جاتا ہے اگر ایک سو سال رہتے صحابہ قلت کو دیکھتے تو حديث لکھوانے کام کرواتے جس طرحہ قرآن پاک جمع کرنے کا مشورا حضرت ابو بکر کو دیا تھا آپ هي كا قول ہے
*قَيِّدُوا الْعِلْمَ بِالْكِتَابِ* علم كو قيد (حفاظت) كرو كتابت (لكهني) كي ذريعه (مستدرك الحاكم (1\105) 329.
حديث سنت علم علم ہى علم ہے
كتابت علم كي تأييد قرآن حكيم سے ملتي ہے ارشاد باري تعالى ہے
قُلْ أَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ ائْتُونِي بِكِتَابٍ مِنْ قَبْلِ هَذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ* سورة الأحقاف:4، کہو کہ تم نے ان چیزوں کو دیکھا ہے جن کو تم خدا کے سوا پکارتے ہو (ذرا) مجھے بھی تو دکھاؤ کہ انہوں نے زمین میں کون سی چیزین پیدا کی ہے۔ یا آسمانوں میں ان کی شرکت ہے۔ اگر سچے ہو تو اس سے پہلے کی کوئی کتاب میرے پاس لاؤ۔ یا علم (انبیاء میں) سے کچھ (منقول) چلا آتا ہو (تو اسے پیش کرو)
"أَوْ أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ" كي تفسير حصرت ابن عباس بيان كرتين هين كي "هُوَ الْخَطُّ" كه لكهنا }مستدرك الحاكم (2\493) 394، قال: "هَذَا حَدِيثٌ نہ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ" قال الذهبي: على شرط البخاري ومسلم{.
---------------------------------------
Response
مکالہ کا پیرا # 14 3, 4 …. دوبارہ دیکھیں ….. یہ سب کو معلوم ہے کہ کتابت سے علم محفوظ ہوتا ہے .. قرآن کو کیا ..مگر حدیث کو نہیں …. پہلو بھی جواب دے چکا ہو … پڑہ لیں
10. کتاب الله کو نظر انداز کرکہ دوسری کتب کی طرف رجحان
حضرت موسی علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی مگر تلمود یہودیوں کی مقدس کتاب بن چکی ہے جو کہ توریت کی تفسیر ہے اور یہودیوں کی من پسند بہت ساری بحثیں اس میں موجود ہیں جو توریت میں نہیں ہیں یہودیوں کے نزدیک ایک خاص اہمیت کی حامل ہے حتیٰ کہ یہودی تلمود کے مطالعہ کو توریت کی تلاوت پر ترجیح دیتے ہیں اور اس پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ تلمود ، میسورہ پبلی کیشنز (73 جلدوں) کا اسکاٹسٹن ایڈیشن۔
تورات میں 304,805 الفاظ ہیں اور تلمود 10 ملین الفاظ ، ایک کروڑ تک الفاظ ہیں ..
یہود ونصاریٰ نے اپنے علماء کو بذات خود احکام وضع کرنے کا اختیار دے رکھا تھا کہ وہ آسمانی کتاب کی تشریح کے طور پر نہیں،؛ بلکہ اپنی مرضی سے جس چیز کو چاہیں، حلال اور جس چیز کو چاہیں، حرام قرار دے دیں، خواہ ان کا یہ حکم اللہ کی کتاب کے مخالف ہی کیوں نہ ہو- ان کی تحریروں کورسول کی وحی کے ساتھ مقدس کتب میں شامل رکھا ہے-
چار اناجیل کےساتھ سینٹ پال کے 13 اوردوسرے رہنماؤں سے 10 منسوب کتب اور خطوط کو "عہد نامہ جدید" [New Testament] کہا جاتا ہے- چارانجیل اور حواریوں سے منسوب 23 دوسری کتب اور خطوط ملا کر عہد نامہ جدید میں ٹوٹل 27 کتب ہیں-
تحقیق کے مطابق "عہد نامہ جدید" میں 7،959 آیات ہیں ، جن میں سے صرف 1،599 مسیح علیہ السلام کے اقوال ہیں, یعنی صرف 20 فیصد ، باقی 80 فیصد حواریوں سے منسوب مواد ہے
نئے عہد نامے میں الفاظ کی تعداد 181،253 ہے۔ ان میں سے صرف 36،450 الفاظ مسیح کے الفاظ ہیں - بمشکل 20 فیصد سے زیادہ۔
امریکی صدر تھامس جیفرسن نے 1820 میں چاروں ا نجیلوں سے حصرت عیسی علیہ السلام کے ارشادات کو اکٹھا کیا تواسے کیا ملا ؟ سرخ الفاظ والی بائبل آپ بھی پڑھ سکتے ہیں ... بغیر کسی کی مدد کے آپ کو معلوم ہو گا مسیح علیہ السلام آپ سے کچھ کہ رہے ہیں ..
یہود و نصاری کی نافرمانیوں کا ذکر ملسمانوں کے لے باعث عبرت ہے-
ایک اندازہ کے مطابق
قرآن مجید کی آیات: 6236
قرآن حرف: 320015
قرآن کے الفاظ: 77439
قرآن مجید کے ابواب: 114
اب صرف قرآن ہی، محفوظ کتاب ہدایت ہے
الله نے قرآن کو بہترین حدیث کہا (الأعراف 7:185) اور قرآن کے علاوہ کسی اور حدیث پر ایمان سے تین مرتبہ منع فرمایا ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)، (قرآن 39:23)- خلفاء راشدین نے قرآن کے بعد احادیث کی کتابت سے منع کر دیا اور اس حکم پر پہلی صدی تک عمل ہوا -
احادیث کی کل تعداد کا صحیح اندازہ کرنا مشکل ہے، اور محدثین کے اس میں مختلف اقوال بھی ہیں، ایک اندازہ کے مطابق احادیث کی تعداد پچیس ہزار سے بھی زائد ہوسکتی ہے- اگر 25000 ہزار احادیث کےاتحریری مواد 125000 آیات کے تحریری مواد کے قریب برابرہے، توقرآن و احادیث کے مجموعہ کو[ 6236 +125000] 131000 آیات کے قریب تحریری مواد سمجھ سکتے ہیں-
نتیجہ, قرآن و حدیث کے مجموعی تحریری مواد کےمشمولات میں قرآن صرف 5%, اور احادیث 95% ہیں, یہ ایک اندازہ کی حد تک حساب کتاب ہے-
اسی طرح قرآن کی آیات کا تناسب اگر متواتر احدیث / سنت متواتر (113) سے کریں تو ٹوٹل تحریری مواد کا 8%, اور قرآن 92% بنتا ہے جو کہ حقیقت پسندانہ تناسب ہے -
ایک طرف کتاب الله ، قرآن اور اس کے ساتھ 51/75 کتب احادیث، اس کی تفصیل بیان کرنے اور سمجھانے کے لیے- یہ تناسب بائبل میں مسیح علیہ السلام سے منسوب اقوال, یعنی صرف 20 فیصد ، باقی 80 فیصد حواریوں سے منسوب مواد سے بھی کم ہے-
اللہ قرآن میں فرماتے ہیں :
" اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ہے تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے؟" (54:17,22,32,40)
" ہم نے اس (قرآن) کو تمہاری زبان میں آسان کردیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت پکڑیں" ( 44:58)
اوو قرآن اور سنت کی طرف >>> پڑہیں >>>>
Total verse in Quran = 6236
One Parah = 208
Jews related verses = 401 About 2 Parahs
Christians related = 169 About 0.8 Parah
Jews, Christian Combined= [401+169]-29=541 =2.6 Parah
جب الله نے قرآن میں یہود و نصاری کو اتنی اہمیت دی تو ان سے سبق بھی ہم نے حاصل کرنا ہے کہ وہ غلطیاں نہ دہرائیں
قرآن میں پہلی امتوں کا تذکرہ ہے جو کتاب الله کو چھوڑ کر صراط مستقیم سے بھٹک گیئں ان میں یہود کا بہت ذکر ہے تقریبا 400 آیات (دو پارہ کے برابر ) میں ان کا مختلف طریقہ سے تزکرہ ہے- سورہ بنی اسرائیل (١١١ آیات ) کے علاوہ البقرہ، آل عمران اور دوسری سورہ میں ان کا تذکرہ ہے-مسیحیت پر کم از کم 179 آیات ہیں ، سورہ مریم (٩٨ آیات )- اتنی بڑی تعداد میں قرآن آیات قرآن میں ان کے تذکرہ سے مسلمانوں کو تنبیہہ ہے کہ وہ ان امتوں سے سبق حاصل کریں اور وہ گمراہی کے کام نہ کریں جن کی وجہ سے وہ مغضوب ہوے: >>> تفصیل >> https://quransubjects.blogspot.com/2020/01/jews.html
------------------
ASJsaid:
Q-3- مقالہ"قرآن کے طرف واپسي" محور مركز قرآن پاک مگر واضح تاثر حديث مین شک پیدا کرنا
وقت كي كمی کی وجه سے اور تاريخي پیش نظر كو مد نظر مين نے ايک كتاب كي فوٹو كي اس مین کافی جوابات مل جاتے ہین،
آپ نے جو مقالہ لكها ہے"قرآن کے طرف واپسي comeback to Quran" اور محور مركز قرآن پاک ہی ركها مگر اس تحرير سے واضح تاثر ملتا ہے حديث مین شک پیدا کرکے حجت كو ختم كر كے پهر تراث (ميراث) اسلامي مسلمانون كي بنا كر پيش کرنا ايک غلطي ہے قرآن اور سنت كي منافي ہے ہم پر لازم ہے كيے اس كي نشاندگي كرين لازمي نهين كے آپ منكر هون مگر مختلف افكار واسطه بلا واسطه انسان ارادي طور پر غير ارادي طور پر متأثر هوتا ہے اس لئے تاريخي علمي منطقي واضح بيان ضروری ہے.
……………………
Reponse
آپ کی فوٹو کاپی کا اس تھیم سے کوئی واسطہ نہیں … سوال شمال …. جواب مغرب … زبرستی دوسروں کے تھیم کا دفاع میرا ذمہ نہیں .. میں قرآن اور سنت اور احادیث اور تاریخ کتابت کے حوالہ سے بات کرتا ہوں .. قرآن و سنت کے منفی بیان کر دیا پہیلے جوابات دہرانے کی ضرورت نہیں … مقالہ میں بھی جواب موجود ہے .
محترم !
میں جو کچھ بھی کہ رہا ہوں اس کی بنیاد قرآن , ارشادات رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اور سنت الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ: ہے ، میرے نفس کا اس میں اتنا کردار ہے کہ میں قرآن , ارشادات رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اور الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ: کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہوں ،آپ اور ١٢٠٠ سال سے ان کے احکام کے خلاف چلنے والوں اور قرآن , ارشادات رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اور الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ کے خلاف کھڑے ہیں ,. اسلام وہ ہے جو قرآن , رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اور الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ سے ثابت ہے نہ کہ نفس کے غلاموں کا ,. جن کے پاس کوئی دلیل نہیں ماسوا فتوے لگانے کے - یہ چکر اللہ کے سامنے بروز قیا مت نہیں چلے گا -- لْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ نے حدیث کی کتابت سے منع فرمایا تھا ، زبانی بیان سے نہیں ، اور ایک ڈیڑھ صدی تک ایسا ہی ہوا اور چلتا رہتا ,. صرف خالص احادیث ہم تک پہنچتیں نہ کہ ہزاروں اقسام کی , قرآن مکمل ہدایت ہے تو جو عملی کام تھے جیسے نماز زکات وغیرہ وہ سنت تواتر اور احادیث تواتر سسے ہم تک پہنچ جاتے اور الله تعالی کی کتاب قرآن کے ساتھ آج ٧٥ کتب احدیث نہ کھڑی ہوتیں --
جن لوگوں کو قرآن , رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اور الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ کی بات پر اعتماد نہیں تو ہمارا اور اسلام کا ایسے لوگوں سے واسطہ ؟
یہ لوگ اسلام کے ٹھیکدار بن گیے قرآن , رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اور الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ سے زیادہ نفس کے غلام .
مجہھے قرآن , رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اور الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ سے محبت ہے جس کا ثبوت یہ کتاب ہے جو تحریر کر دی ہے ، بروز قیامت میرا مقدمہ قرآن , رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اور الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ لڑیں گے ,. اور یہ میرے گواہ بھی ہیں آپ کے پاس ابھی بھی وقت ہے کہ اس آزمائش میں آپ قرآن ,رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اور الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ کے ساتھ کھڑے ہوں نہ کےان کے مخالفین کے .. ,. الله تعالی آپ کو قرآن , رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اور الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ کی سنت کے اتباع کی توفیق عطا فرمایے- آمین
أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ
حدیث کے بیان و ترسیل کا مجوزہ طریقہ
کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے- ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83] رسول اللہ ﷺ ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89 اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ جب تک "اجماع" قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]