رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

خبردار! احادیث شئیر کرنے سے پہلے- وارننگ

"مجھ پر جھوٹ مت باندھو جو شخص میری طرف جھوٹ منسوب کرے گا وہ جہنم میں داخل ہوگا"۔ (فرمان رسول اللہ ﷺ ، صحیح مسلم, :حدیث 2)
ہم نے نیک لوگوں کا کذب فی الحدیث سے بڑھ کر کوئی جھوٹ نہیں دیکھا [رواہ محمد بن ابی عتاب، عفان، حضرت سعید بن قطان :صحیح مسلم,  حدیث : 40]
جو شخص غیر قرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، وہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط رسی ہے اور وہ ایک محکم اور مضبوط ذکر ہے اور وہ ایک سیدھا راستہ ہے …‘‘( حضرت علیؓ سے مروی ایک طویل حدیث میں نبی کریم  ﷺ  سے اقتباس:ترمذی 2906)
جس شخص نے کتاب اللہ کی پیروی کی تو نہ وہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ آخرت میں بدبخت ہوگا (یعنی اسے عذاب نہیں دیا جائے گا) اس کے بعد عبداللہ ابن عباس ؓ نے یہ آیت تلاوت فرمائی فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي جس آدمی نے میری ہدایت ( قرآن) کی پیروی کی نہ وہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ (آخرت میں) بدبخت ہوگا۔( قرآن 20:123) (مشکوٰۃ المصابیح ,حدیث نمبر 185)
علم دین اسلام کے ماخز صرف تین ہیں باقی زائد (extra) ہیں- 1) آیت محکمہ اور 2) سنت ثابتہ اور 3) فریضہ عادلہ-
(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 239، رواہ ابوداؤد (2558) و ابن ماجہ (54) الذھبی فی تلخیص المستدرک (۴/ ۳۳۲)۔



~~~~~~~~~~~

قرآن، سنت اور حدیث کی اہمیت

وہ مسلمان جن کو دین میں دلچسپی ہے، قرآن کی روزانہ تلاوت کرتے ہیں اور کچھ لوگ ترجمہ اور تفسیر بھی پڑھتے ہیں۔ اس طرح سے ایک دو سال مں میں قرآن کی تعلیمات سے بخوبی آگاہی حاصل کر لیتے ہیں۔ 
عوام احادیث کی کتب کا مطالعہ شائید ہی کرتے ہوں مگر سوشل میڈیا ہر شئیر بہت شوق سے کرتے ہیں۔ یہ ایک احسن عمل ہے مگر یہ ضروری ہے کہ جو مواد شئیر کریں وہ مصدقہ ہو یہ آپ کی زمہ داری ہے، کیونکہ علم حدیث بذات خو ایک گہرا علم ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، خلفاء راشدین ، اور صحابہ اکرام کی آراء تیسری صدی حجرہ کے کتب احدیث مدون کرنے والے علماء سے مختلف ہیں( یہ ایک علیحدہ طویل موضوع ہے جس پر تحقیق کا مطالعہ لنک پر کیا جا سکتا ہے) جبکہ قرآن کی حقانیت پر سب متفق ہیں اور اللہ کا تصدیق نامہ بھی قرآن میں موجود ہے۔ 

رسول اللہ ﷺ سے غیر مصدقہ "علم حدیث" کی بنیاد پر ذخیرہ احادیث کو، قرآن کے برابریا نزدیک کیسے ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ 

اس سوال کے جواب کی تلاش میں کئی سال لگ گئیے، بالآخر اللہ تعالی نے حقیقت تک پہنچنے کا موقع دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر طرح سے ہماری  راہنمائی فرمائی:
آپ نے فرمایا :
 میں نے تم کو ایک ایسے صاف اور روشن راستہ پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے، اس راستہ سے میرے بعد صرف ہلاک ہونے والا ہی انحراف کرے گا (ماجہ ٤٣)

علم حدیث پر بھی آپ () کی ہدایات موجود ہیں جو بہت تلاش کے بعد حاصل ہو گئیں، ان کو اکٹھا کرکہ احقر نے ایک جگہ کردیا ہے، ملاحضہ فرما سکتے ہیں :
علم الحديث کے سنہری اصول : 
 https://bit.ly/Hadith-Basics

اہم ترین نقاط میں حدیث کا بمطابق قرآن، سنت کے مطابق  اور عقل کو قابل قبول ہونا ہے۔ 
جو مسلمان قرآن با ترجمہ پڑھتا ہے وہ قرآن کے احکامات سے آگاہ ہے- سنت اور حدیث زو معنی نہیں ، رسول ﷺ نے ان میں فرق رکھا جسے علماء نظر انداز کرتے ہیں -
 سنت ایک عملی چیز ہے جو سینہ بہ سینہ نسل در نسل ہم تک پہنچی اورمعمولی تحقیق سے کنفرم کی جاسکتی ہے۔ سنت  عموما عبادات اور اہم اعمال و احکام سے متعلق ہیں جو قرآن سے بھی حاصل ہوتے ہیں۔ مثال صلاہ (نماز ) قرآن میں حکم ہے اور سنت میں ادا کرنے کا طریقہ جو ہم تک اپنے والدین اور مساجد میں بچپن سے عملی طور دیکھ کر پہنچا۔ (مزید : سنت , حدیث اور متواتر حدیث)
 تیسری صدی حجرہ میں جب کتب آحادیث مدون ہوئیں توعلماء نے اپنے عقیدہ و ترجیحات و تحقیق کے مطابق اپنی کتب میں شامل کر دیا-  مگر اصل بات عملی ہے نہ کہ تھیوریٹیکل- سنت کا مشاہدہ لا تعداد لوگوں نے کیا، عمل کیا جس کا مشاہدہ لاتعداد لوگوں  نے کیا، عمل کیا اور اس طرح سے سنت  نسل در نسل منتقل ہوئی جس میں غلطی کا امکان بہت کم یا معمولی ہے-
جبکہ تھیوری، کتب احادیث تیسری صدی حجرہ میں مختلف افراد نے انفرادی طور پر تحقیق کرکہ لکھیں ان میں غلطی کا امکان یکسر مسترد نہیں کے جا سکتا  اورلکھنے والے کے زاتی عقائید و نظریات کے اثرات (bias) بھی ہو سکتے ہیں- مثلا البخاری میں شافعی طریقہ نماز(رفع یدین) پر ترجیح ملتی ہے کیونکہ مصنف شافعی طریقہ پر مائل تھے- رفع یدین پر حنفی طریقہ کی احادیث دوسری کتب میں ہیں- ایک معمولی فرق سے اختلاف بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے-
شیطانی مداخلت اور رکاوٹ
 شیطان نے تو قرآن میں  بھی  مداخلت  کرنے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالی نے اس کو مٹا کر آیات کو مستحکم کردیا (ملاحظہ ۔۔ قرآن22:52) لیکن تیسری صدی حجرہ میں کتب احادیث کی تدوین کے متعلق شیطان کی مداخلت کے خلاف کوئی گارنٹی، یقین دہانی نہیں ملتی- (اس کا حل رسول اللہ ﷺ نے اصولوں میں بتلا دیا جسے چھوڑ کر علماء نے اپنی ایجاد کی) کتب احادیث کو تاویلات کے زور پر وحی غیر متلو قرار دے کرقرآن کے برابر کرنا ایک انتہائی نامناسب کوشش ہے- 
ایسی عجیب و غریب احادیث ملتی ہیں جو قرآن کے احکام کو مسترد کرتی نظرآتی ہیں- اللہ کی رحمت میں غلو سے قران کی بنیادی تعلیمات "عمل صالح، حساب کتاب، جزا سزا" پر حاوی ہو کر معاشرہ میں بداعمالی، گناہ، اخلاقیات کی تباہی، بددیانتی، کرپشن کو فروغ دیتی ہیں،جو کہ قرآن کی تعلیمات کے منافی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شیطان قرآن میں مداخلت میں ناکام ہو کر علم حدیث میں گھس کر اپنے مقاصد کر رہا ہے-

جب ہزاروں لوگ ایک عمل تسلسل سے کرتے ہیں تو ٹرانسمشن ، منتقلی میں غلطی، شیطانی مداخلت کا امکان بہت کم ہے۔ اسی لئیے سنت (عمل) کو  حدیث (کلام) پر آہمیت دی جاتی ہے۔ قرآن زبانی اور عملی طور پر مصدقہ کتاب (تدوین خلفاء راشدین و صحابہ)  دونوں صورتوں میں منتقل ہوتا چلا آرہا ہے، اور اللہ کی حفاظت کا زمہ بھی ہے جس کا مقابلہ کوئی کتاب نہیں کر سکتی۔ 

بہت تلاش کیا مگر احقر کو کوئی ایسا حدیث کا مجموعہ یا کتاب نہیں مل سکی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین پر اصولوں کے مطابق مرتب کی گئی ہو۔ کیسے ملتی جبکہ یہ اصول احقر نے تلاش کرکہ اکٹھا کیا اور اب مرتب کیے ہیں!
چودہ سو سال میں یہ کام کیوں نہیں ہوا؟
 علماء کی قرآن سے لاتعلقی بلکہ  یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ قرآن دشمنی، فرقہ واریت ، خودساختہ نظریات، بدعات، نفسانی خواہشات کے زیر اثر علم حدیث کی بنیاد اپنے معیار پر رکھی بجائیے معیار قرآن و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
کوشش جاری ہے کہ اہل علم کی ٹیم بلکہ کئی ٹیمیں الگ الگ یہ کام کریں ، ورنہ احقر اکیلا ہی یہ کام شروع کردے گا ختم وہ کرے گا جس کو اللہ چاہے۔  بلکہ تحقیق کے دوران دو مجموعہ احادیث بن چکے ہیں اردو  اور انگریزی میں۔  (https://bit.ly/Hadiths )

قرآن کے ساتھ ساتھ احادیث سے بھی فائیدہ اٹھائیں لیکن موجودہ ذخیرہ احادیث میں فرامین رسول اللہ ﷺ کو نظر انداز کرکہ علماء نے اپنے خود ساختہ معیار سے درجات بنا لئیے- "صحیح" کا مطلب یہ نہیں کہ متن صحیح ہے جیسا کہ بظاہر سمجھا جاتا ہے- بلکہ "صحیح" کا مطلب حدیٹ کے راویان (chain of narrators) کا سلسلہ صحیح ہے، یعنی متن (text, contents) پر تحقیق نہ کی گیی جس طرح سلسلہ رویان پر ہوئی۔ یہ ایک عجیب وغریب ناقابل فہم غلطی ہے یا دھوکہ، گمراہی ؟ ( واللہ اعلم )

راوی حدیث انسان تھے، کوئی انسان کتنا بھی نیک ہرہیز گار ، عمدہ یاداشت رکھتا ہو ، کیا اس سے غلطی ممکن نہیں ؟ شیطان تو ہر جگہ رکاوٹیں ڈالتا پھرتا ہے۔ مگر اللہ نے قرآن کو محفوظ رکھا ، اس کی حفاظت کا زمہ خود لیا ہے (الحجر15:9)- اور اللہ شیطان کی ڈالی ہوئی کسی رکاوٹ کو مٹا کرآیات قرآن کو مستحکم کرتا ہے:

وَمَا اٴَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَسُولٍ وَلاَنَبِیٍّ إِلاَّ إِذَا تَمَنَّی اٴَلْقَی الشَّیْطَانُ فِی اٴُمْنِیَّتِہِ فَیَنْسَخُ اللهُ مَا یُلْقِی الشَّیْطَانُ ثُمَّ یُحْکِمُ اللهُ آیَاتِہِ وَاللهُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ ”اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی ایسا رسول یا نبی نہیں بھیجا ہے کہ جب بھی اس نے کوئی نیک آرزو کی تو شیطان نے اس کی آرزو کی راہ میں رکاوٹ ڈال دی تو پھراللہ نے شیطان کی ڈالی ہوئی رکاوٹ کو مٹا دیا اور پھر اپنی آیات کو مستحکم بنا دیا کہ وہ بہت زیادہ جاننے والا اور صاحب حکمت ہے“، اور پیغمبر اور دوسرے مومنین کو تاکید کی گئی ہے ۔(قرآن ، الحج 22:52) لِیَجْعَلَ مَا یُلْقِی الشَّیْطَانُ فِتْنَةً لِلَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ وَالْقَاسِ قُلُوبُہُمْ ”تاکہ وہ شیطانی القا کو ان لوگوں کے لئے آزمائش بنادے جن کے قلوب میں مرض ہےاور جن کے دل سخت ہوگئے ہیں“۔(الحج 22:53)
 وَ مَاۤ اَنۡسٰٮنِيۡهُ اِلَّا الشَّيۡطٰنُ اَنۡ اَذۡكُرَهٗ‌ ‌ۚ وَاتَّخَذَ سَبِيۡلَهٗ فِىۡ الۡبَحۡر‌ِ ‌ۖعَجَبًا ۞ 
یہ شیطان ہی تھا جس نے مجھے آپ سے مچھلی کا ذکر کرنا بھلا دیا (القرآن، الكهف، 18:63)
قرآن کو تو الله نے محفوظ بنادیا اور اعلان بھی کر دیا مگر احادیث میں کسی شیطانی ملاوٹ کونظرانداز نہیں کیا جاسکتا یہ ہماری ذمہ داری ہے ہمارا امتحان ، آزمائش ہے۔(الحج 22:53)
اس لئیے احادیث کو بغیر تحقیق کے شئیر کرنے سے قبل (text, contents) متن کو رسول اللہ ﷺ کے فرامین سے ماخوز "علم حدیث کے سنہری اصولوں" کے مطابق چیک کرکہ شئیر کریں، الله کا حکم ہے:
اے مومنو اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو (قرآن ، الحجرات 49:6)
اصول علم الحديث , دین کامل اسلام کی طرح بہت سادہ ہیں جنہیں عام مسلمان بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے، اہم ترین نقاط میں حدیث : قرآن، سنت کے مطابق  اور عقل کو قابل قبول ہونا ہے۔ 
اس طرح آپ غلطی سے محفوظ ہو جائیں گے۔ یاد رکھیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مجھ پر جھوٹ مت باندھو جو شخص میری طرف جھوٹ منسوب کرے گا وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ (صحیح مسلم, :حدیث : 2 )
گزارش یہ ہے کہ آحادیث کو شئیر کرنے سے پہلے معیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر چیک کر لیا کریں، اگر نہیں کرسکتے تو آیات قرآن شئیر کریں (جزاک اللہ)
📖 📚 🕋
ضمیمہ -الف " صحیح حدیثِ "   کی مروجہ روایتی تعریف
"هو ما اتصل سنده بنقل عدلٍ تامّ الضبط، غیر معلّلٍ و لا شاذٍّ، فالحدیث المجمع علی صحته عند المحدثین هو ما اجتمع فیه خمسة شرائط." (المدخل إلی أصول الحدیث :۹۶، ط: دارالکتب) حدیث  ِ صحیح وہ ہوتی ہے جس میں کم از کم  5 شرائط پائی جاتی ہوں: ۱) اس کی سند متصل ہو(منقطع نہ ہو)۔ ۲) تمام راوی عادل ہوں۔ ۳)تام الضبط ہوں (یعنی  ان تمام راویوں کا حافظہ بھی قوی ہو)۔ ۴) حدیث معلل نہ ہو ۔ ۵) حدیث شاذ نہ ہو۔ فقط واللہ اعلم/ فتوی نمبر : 144209201097/ دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن https://www.banuri.edu.pk/readquestion/hadees-e-sahih-ki-sharait-144209201097/27-04-2021
حدیث کی تعریف #2 1. اتصال سند یعنی سند کی ابتداءسے انتہاءتک ہر راوی نے دوسرے سے بلاواسطہ حدیث حاصل کی ہو اور کسی جگہ بھی کوئی راوی ساقط نہ ہو۔ 2.راویوں کا عادل ہونا یعنی ہر راوی مسلمان ہو‘عاقل بالغ ہو اور اس میں فسق و فجور نہ پایا جائے بالفاظ دیگر پاکیزہ کردار کا شخص ہو۔ 3 راویوں کا حافظہ راویوں میں ہر راوی کا حافظہ بہت پختہ اور مضبوط ہو‘ اور وہ حدیث کو یاد رکھنے میں کسی قسم کی غفلت یا بے احتیاطی کا مظاہرہ نہ کرتاہو 4.حدیث میں کوئی علت نہ ہو یعنی منفی قسم کا عیب یا نقص نہ پایا جاتا ہو 5.شاذ نہ ہو یعنی کوئی ثقہ راوی اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کے خلاف روایت نہ کرے“ (ریفرنس - وکی ) اس میں متن ، text , contents پر کوئی تحقیق نہیں جبکہ ---- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین میں متن، contents پر زور ہے-
احادیث کے متن میں کسی انسانی غلطی یا شیطانی مداخلت کا علاج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلا دیا ، جسے نظر انداز کرنے کی کوئی گنجائیش نہیں۔ اس کو نظرانداز کرنا گویا شیطانی وسوسوں کے لئیے سہولت پیدا کرنا ہے۔
علم الحديث کے سنہری اصولhttps://bit.ly/Hadith-Basics
----------------------
لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَهَا ‌ؕ لَهَا مَا كَسَبَتۡ وَعَلَيۡهَا مَا اكۡتَسَبَتۡ‌ؕ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِيۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا ‌ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحۡمِلۡ عَلَيۡنَاۤ اِصۡرًا كَمَا حَمَلۡتَهٗ عَلَى الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا ‌‌ۚرَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ‌ ۚ وَاعۡفُ عَنَّا وَاغۡفِرۡ لَنَا وَارۡحَمۡنَا ۚ اَنۡتَ مَوۡلٰٮنَا فَانۡصُرۡنَا عَلَى الۡقَوۡمِ الۡكٰفِرِيۡنَ ۞ (القرآن - سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 286)
ترجمہ:
اللہ کسی بھی شخص پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے۔ اس کا پھل اسی کے لئے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے اس کا وبال اسی پر ہے۔ (ایمان والو تم یوں دعا کیا کرو)
 اے ہمارے رب ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہوجائیں ان پر گرفت نہ کرنا، اے مالک ! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈالنا جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے پروردگار جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ۔ ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے درگزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے اور کافروں کے مقابلہ میں ہماری مدد کر-
اصول المعرفة الإسلامية (Fundaments of Islamic Knowledge)
    1. .مسلمانوں میں گمراہی کے اسباب
    2. .مصادر الإسلام
    3. .شاه کلید قرآن: محکم اور متشابھات  (قرآن : 3:7)
    4. سنت , حدیث اور متواتر حدیث
    5. حدیث ِجبرائیل - اُمّ السنۃ
    6. علم الحديث کے  (7) سات سنہری اصول
    7. علماء  کو رب بنانا
    8. کتمان حق : آیات قرآن اور علم حق کو چھپانا سنگین جرم 
    9. قرآن  ترک العمل  ( مھجور)
    10. قرآن اور عقل و شعور
    11. .صرف مسلمان  بنو اور مسلمان کہلاؤ
    12. .بدعة،  گمراہی (ضَلَالَۃٌ)
    13. قرآن کا تعارف قرآن سے
    14. احکام القرآن
قرآن کو نظر انداز کرنے والے بدترین علماء
وَعَنْ عَلِیِّ رَضِیَ اﷲُعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ یُوْشِکُ اَنْ یَّاْتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَبْقَی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اسْمُہۤ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ اِلَّا رَسْمُہ، مَسَاجِدُ ھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی عُلَمَآءُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ اٰدِیْمِ السْمَآءِ مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان)
" اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ عنقریب لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اسلام میں صرف اس کا نام باقی رہ جائے گا اور قرآن میں سے صرف اس کے نقوش باقی رہیں گے۔ ان کی مسجدیں (بظاہر تو) آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے کی مخلوق میں سے سب سے بدتر ہوں گے۔ انہیں سے (ظالموں کی حمایت و مدد کی وجہ سے ) دین میں فتنہ پیدا ہوگا اور انہیں میں لوٹ آئے گا (یعنی انہیں پر ظالم) مسلط کر دیئے جائیں گے۔" (بیہقی)
یہ حدیث اس زمانہ کی نشان دہی کر رہی ہے جب عالم میں اسلام تو موجود رہے گا مگر مسلمانوں کے دل اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہوں گے، کہنے کے لئے تو وہ مسلمان کہلائیں گے مگر اسلام کا جو حقیقی مدعا اور منشاء ہے اس سے کو سوں دور ہوں گے۔ قرآن جو مسلمانوں کے لئے ایک مستقل ضابطۂ حیات اور نظام علم ہے اور اس کا ایک ایک لفظ مسلمانوں کی دینی و دنیاوی زندگی کے لئے راہ نما ہے۔ صرف برکت کے لئے پڑھنے کی ایک کتاب ہو کر رہ جائے گا۔ چنانچہ یہاں " رسم قرآن" سے مراد یہی ہے کہ تجوید و قرأت سے قرآن پڑھا جائے گا، مگر اس کے معنی و مفہوم سے ذہن قطعاً نا آشنا ہوں گے، اس کے اوامر و نواہی پر عمل بھی ہوگا مگر قلوب اخلاص کی دولت سے محروم ہوں گے۔
مسجدیں کثرت سے ہوں گی اور آباد بھی ہوں گی مگر وہ آباد اس شکل سے ہوں گی کہ مسلمان مسجدوں میں آئیں گے اور جمع ہوں گے لیکن عبادت خداوندی، ذکر اللہ اور درس و تدریس جو بناء مسجد کا اصل مقصد ہے وہ پوری طرح حاصل نہیں ہوگا۔
اسی طرح وہ علماء جو اپنے آپ کو روحانی اور دنی پیشوا کہلائیں گے۔ اپنے فرائض منصبی سے ہٹ کر مذہب کے نام پر امت میں تفرقے پیدا کریں گے، ظالموں اور جابروں کی مدد و حمایت کریں گے۔ اس طرح دین میں فتنہ و فساد کا بیج بو کر اپنے ذاتی اغراض کی تکمیل کریں گے۔ (مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 263)
افتراق کی سبب دو چیزیں ہیں، عہدہ کی محبت یا مال کی محبت۔ سیدنا کعب بن مالک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا:
”ماذئبان جائعان أرسلا في غنم بأفسد لھا من حرص المرء علی المال و الشرف لدینہ”
دو بھوکے بھیڑئیے ، بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیئے جائیں تو وہ اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال اور عہدہ کی حرص کرنے والا اپنے دین کے لئے نقصان دہ ہے۔   (الترمذی:۲۳۷۶ وھو حسن)

My Hadith Notes Urdu (اردو ) :  https://bit.ly/Hadiths

☆☆☆ 🌹📖🕋🕌🌹☆☆☆

رساله تجديد الاسلام
وَمَا عَلَيۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ (القرآن  36:17)
اور ہمارے ذمہ صرف واضح پیغام پہنچا دینا ہے
   Our mission is only to convey the message clearly

پوسٹ لسٹ