1.میری تشویش مذہبی معاملات میں نتائج اخذ کرنے کا یہ منطقی نمونہ ہے۔
2.شرعی دائرے (domain) میں تحقیق کی اپنی ضروریات ہیں جو جدید دور کی تحقیق سے بالکل مختلف ہیں۔
اس میں کچھ مخصوص اصولوں کو اپنانے کی ضرورت ہے
3. نہ ہی قرآنی احکامات اور نہ ہی احادیث کو ان کے لفظی معانی سے سمجھنا چاہئے۔
4. کلاسیکی عربی کا حکم ایک اور ضرورت ہے۔
5. حالیہ دہائیوں میں جی اے پرویز ، جے اے غامدی اور شیخ محمد ، بڑے پیمانے پرلوگوں کے ان کی پیروی کرنے کے باوجود ،انہوں نے "عقل" کو مرکزی اصول کےطورپراستعمال کرکے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اور مجموعی طور پر ان تینوں حضرت نے احدیث کی ساکھ کو کم کرنے کی کوشش کی-
6. اگر ہم صدیوں پہلے طے پانے والی چیزوں کے بارے میں تحقیق کے جذبے کے ساتھ بھی سوالات پیدا نہیں کرتے تو یہ بات بہت منطقی ہوگی -
7. ہم ان احکامات پر بھی عمل نہیں کرسکے ہیں جن پر تمام مکاتب فکر نے اتفاق کیا ہے پھر ... پھر کیوں نئے مسائل کھڑے کرنے پر وقت اور توانائیاں کیوں ضائع کی جائیں؟
ان سولات کے جوابات مقالہ میں کافی حد تک موجود ہیں … اوپر ایک جواب بھی دیکھ لیں … مگر آپ کے تمام اہم سوالات کے جوابات دینا بھی لازم ہے .. ان شاء الله
………………
AAK’s Response :
1, 2مذہبی معاملات میں منطق
سوالات 1&2
1.میری تشویش مذہبی معاملات میں نتائج اخذ کرنے کا یہ منطقی نمونہ ہے۔
2.شرعی دائرے (domain) میں تحقیق کی اپنی ضروریات ہیں جو جدید دور کی تحقیق سے بالکل مختلف ہیں۔
اس میں کچھ مخصوص اصولوں کو اپنانے کی ضرورت ہے
جواب 1&2:
تحقیق کا سادہ طریقه اختیار کیا گیا ہے کہ یہ مقالہ عام مسلمانوں کے لیے قابل فہم ہو- حقائق بہت سادہ اور سیدھے ہیں ، جن کو سمجھنا مشکل نہیں- اگر اس پر کوئی اعتراض ہو تو جب علماء کو پیش کریں گے تو وہ اپنے دلائل سے اس کو دیکھ سکتے ہیں-
……………………..
3,4 سوالات 3 &4
3. نہ ہی قرآنی احکامات اور نہ ہی احادیث کو ان کے لفظی معانی سے سمجھنا چاہئے۔
4. کلاسیکی عربی کا حکم ایک اور ضرورت ہے۔
جواب 3&4:
الله نے قرآن کو آسان کہا ہے ، ہم نے اس کو مشکل بنا دیا:
" ہم نے اس (قرآن) کو تمہاری زبان میں آسان کردیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت پکڑیں" ( 44:58) (54:17,22,32,40)
کیا قرآن آسان ہے یا مشکل ترین؟
مولانا عبدالرحمن کیلانی (پیدائش 1923ء) ماہر خطاط، عالم دین اور مصنف تھے۔ آپ کا تعلق کیلیانوالہ کے اہل حدیث اور خطاط سپرا (قوم) گھرانے سے تھا۔ آپ نے پورے قرآن کی خطاطی کی. اور خط نسخ میں مہارت تامہ رکھتے تھے.آپ نے قرآن مجید کی تفسیر تیسر القرآن کے نام سے کی. آپ اپنی تصانیف کی کتابت خود کرتے- عبد الرحمن كيلانى اسلامى اور دينى ادب كے پختہ كار قلم كار ہیں، ان كى بيشتر تاليفات اہل علم وبصيرت سے خراج تحسين پا چکی ہیں۔ ان كے محققانہ خيالات اكثر اخبارات وجرائد كى زينت بنتے ہیں- آپ لکھتے ہیں :
اللہ نے تو واقعی قرآن کو آسان ہی بنایا تھا لیکن ہمارے فرقہ باز علماء نے اسے مشکل ترین کتاب بنادیا ہے اور یہی کچھ عوام کو ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ اس کی دلیل درس نظامی کا وہ نصاب ہے جو دینی مدارس میں چھ، سات، آٹھ حتیٰ کہ نو سال میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس نصاب میں قرآن کے ترجمہ اور تفسیر کی باری عموماً آخری سال میں آتی ہے۔ پہلے چند سال تو صرف و نحو میں صرف کئے جاتے ہیں۔ ان علوم کو خادم قرآن علوم کہا جاتا ہے۔ ان علوم کی افادیت مسلم لیکن جس طالب علم کو فرصت ہی دو چار سال کے لیے ملے اسے کیا قرآن سے بےبہرہ ہی رکھنا چاہئے؟
پھر اس کے بعد فقہ پڑھائی جاتی ہے۔ تاکہ قرآن اور حدیث کو بھی فقہ کی مخصوص عینک سے ہی دیکھا جاسکے۔ تقلید شخصی کے فوائد بھی بیان کئے جاتے ہیں۔ جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ جس فرقہ کے مدرسہ میں طالب علم داخل ہوتا ہے۔ ٹھیک اسی سانچہ میں ڈھل کر نکلتا ہے۔ اسی طرح فرقہ بازی کی گرفت کو تو واقعی مضبوط بنادیا جاتا ہے۔ مگر حقیقتاً ان طالب علموں کو قرآن کریم کی بنیادی تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے۔ اور کہا یہ جاتا ہے کہ جب تک ان ابتدائی علوم کو پڑھا نہ جائے اس وقت تک قرآن کی سمجھ آہی نہیں سکتی۔ اور اس طرح عملاً اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تردید کی جاتی ہے کہ ہم نے قرآن کو آسان بنادیا ہے، تاکہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔
قرآن کریم شرک کا سخت دشمن ہے۔ کوئی سورت اور کوئی صفحہ ایسا نہ ہوگا جس میں شرک کی تردید یا توحید کے اثبات میں کچھ نہ کچھ مذکور نہ ہو۔ مگر ہمارے طریقہ تعلیم کا یہ اثر ہے کہ شرک کی کئی اقسام مسلمانوں میں رواج پا گئی ہیں اور انہیں عین دین حق اور درست قرار دیا جاتا ہے۔ بلکہ شرک سے روکنے والوں کو کافر کہہ کر ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا جاتا ہے۔ لہذا ہمارا مشورہ یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی اولین فرصت میں قرآن کریم کا ترجمہ خود مطالعہ کرنا چاہئے اور سیکھنا چاہئے اور اس کے لیے کسی ایسے عالم کے ترجمہ کا انتخاب کرنا چاہئے۔ جو متعصب نہ ہو اور کسی خاص فرقہ سے تعلق نہ رکھتا ہو۔ یا ایسے عالم کا جس کی دیانت پر سب کا اتفاق ہو اور یہ ترجمہ بالکل خالی الذھن ہو کر دیکھنا چاہئے۔ قرآن سے خود ہدایت لینا چاہئے۔ اپنے سابقہ یا کسی کے نظریات کو قرآن میں داخل نہ کرنا چاہئے۔ نہ اس سے اپنے نظریات کھینچ تان کر اور تاویلیں کرکے کشید کرنا چاہئیں۔ یہی طریقہ ہے جس سے قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ [تفسیر عبدالرحمان کیلانی ]
قرآن فہمی کا اصول ال عمران آیت 7 میں موجود ہے ، جسے احدیث یا کسی بھی کتاب پر لاگو کرکہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ..
ترجمہ: " وہی اللہ ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی ہے جس کی کچھ آیتیں تو محکم ہیں جن پر کتاب کی اصل بنیاد ہے اور کچھ دوسری آیتیں متشابہ ہیں ۔ اب جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ ان متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں تاکہ فتنہ پیدا کریں اور ان آیتوں کی تاویلات تلاش کریں ، حالانکہ ان آیتوں کا ٹھیک ٹھیک مطلب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، اور جن لوگوں کا علم پختہ ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ : ہم اس ( مطلب ) پر ایمان لاتے ہیں ( جو اللہ کو معلوم ہے ) سب کچھ ہمارے پروردگار ہی کی طرف سے ہے ، اور نصیحت وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں" (قرآن 3:7)
جو چار آیات "حدیث " کی ممانعت سے تعلق ریفر کی ہیں ، ترجمہ میں نے نہیں کیا ، مستند مفسرین نے کیا ، حدیث کو کلام ، بات کھا میں نے حدیث لکھا اور تفصیل بھی… انگریزی اترجمہ میں 4 نے حدیث ہی لکھا- اس میں کوئی مسلہ نہیں حدیث کا لفظ نزول قرآن کےوقت بھی موجودہ معنی مستعمل تھا -
Q 5 --- عقل اور دین
حالیہ دہائیوں میں جی اے پرویز ، جے اے غامدی اور شیخ محمد ، بڑے پیمانے پرلوگوں کے ان کی پیروی کرنے کے باوجود ،انہوں نے "عقل" کو مرکزی اصول کےطورپراستعمال کرکے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اور مجموعی طور پر ان تینوں حضرت نے احدیث کی ساکھ کو کم کرنے کی کوشش کی-
جواب 5 - قرآن اور عقل
ان حضرات نے عقل اور دین کو کیسے استعمال کر کہ نقصان پہنچایا، اس پیر مجھے کوئی تبصرہ نہیں کرنا-
قرآن عقل کو استعال کرنے کا حکم دیتا ہے … ہم کو وحی کو عقل سے پرکھنے کی ضرورت نہیں مگر عقل کو وحی کے تابع رکھنا ہو گا .
قرآن اور عقل و شعور
عقلمندوں کے سوا کوئی نصیحت قبول نہیں کرتا۔ (قرآن 2:269)
یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (8:22)
جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً خدا سُننے والا اور جاننے والا ہے (8:42)
لفظ عقل جسے ہم عقل عام Common Sense یا انسانی ذہانت بھی کہہ سکتے ہیں، قرآن کا لفظ ہےجو کتاب اللہ میں تقریباً اُنتالیس مرتبہ، اور مخلتف انداز میں 49 مرتبہ استعمال ہوا ہے- کلام اللہ میں بار بار جو الفاظ آتے ہیں لعلکم تعقلون، افلا تعقلون، لقوم یعقلون، فہم لا یعقلون، اکثرہم لا یعقلون، ان الفاظ پر مشتمل آیتیں انسانی عقل کو بھی اور انسانی ذہانت Intellect کو بھی دعوت دیتی ہیں، تاکہ ہم میں سوچ کا عمل جاری و ساری ہوجائے۔ کامن سنس کے استعمال کی ہماری عادت بنے۔ اس طرح ہم انسانی عقل کی قدر و قیمت کے ساتھ اس کے استعمال کا سلیقہ بھی سیکھ لیں۔ انسانی سوچ کا یہ عمل دراصل اس کی ساری ترقیات کا ضامن ہے۔ دنیوی ترقی کا دارومدار بھی اسی پر ہے اور اپنی ہمیشہ کی زندگی کی ترقی کے رازہائے دست بستہ بھی اسی فکر و عمل کے ذریعے کھلنے شروع ہوں گے۔ شرط یہ ہے کہ عقل کو کتاب اللہ اوراسوة الرسول صلى الله علیہ وسلم کی روشنی میں استعمال کیا جائے، چاہے معاملاتِ دنیا ہوں کہ معاملاتِ دینی۔ تفصیل اس لنک پر …
قرآن مجید میں ایک ہزار سے زیادہ آیات سائنس کے متعلق گفتگو کرتی ہیں۔ قرآن میں موجود آیات کے متعلق حقائق جدید سائنس سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں-قرآن اور سائنس ایک طویل موضوع ہے جس پر کتابیں لکھی جا چکی ہیں-
https://quransubjects.blogspot.com/2019/11/quran-on-intellect.html
Q 6- حدیث کی ساکھ
حدیث کی ساکھ کون کم کر سکتا ہے … جبکہ حدیث خود کیا کہتی ہے :
صرف قرآن کہتا ہے کہ … اس کتاب میں کوئی شک نہیں .. (٢:٢)
اور حدیث ….
مسند احمد میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جب تم میری کسی حدیث کو سنو جسے تمہارے دل پہچان لیں تمہارے جسم اس کی قبولیت کے لئے تیار ہو جائیں اور تمہیں یہ معلوم ہو کہ وہ میرے لائق ہے تو میں اس سے بہ نسبت تمہارے زیادہ لائق ہوں اور جب تم میرے نام سے کوئی ایسی بات سنو جس سے تمہارے دل انکار کریں اور تمھارے جسم نفرت کریں اور تم دیکھو کہ وہ تم سے بہت دور ہے پس میں بہ نسبت تمھارے بھی اس سے بہت دور ہوں ۔ اس کی سند بہت پکی ہے [صحیح مسند احمد 497/3, شیخ البانی صحیح السلسلہ الصحیحہ 732/2 تفسیرکثیر١١:٨٨].
اس حدیث کی بنیاد پر کوئی مسلمان کسی حدیث کو قبول یا نہ قبول کرنے کا اختیار رکھتا ہے ، تو بحث اور جھگڑا کیسا ؟
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : ” سَيَأْتِيكُمْ عَنِّي أَحَادِيثُ مُخْتَلِفَةٌ، فَمَا جَاءَكُمْ مُوَافِقًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَهُوَ مِنِّي، وَمَا جَاءَكُمْ مُخَالِفًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي ”
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی صلے اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ میری طرف سے کچھ اختلافی احادیث آئینگی، ان میں سے جو “کتاب اللہ” اور “میری سنّت” کے موافق ہونگی، وہ میری طرف سے ہونگی۔ اور جو “کتاب اللہ” اور “میری سنّت” کے خلاف ہونگی وہ میری طرف سے نہیں ہونگی۔
[سنن الدارقطني: كِتَابٌ فِي الأَقْضِيَةِ وَالأَحْكَامِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، كتاب عمر رضي اللہ عنہ إلى أبي موسى الأشعري، رقم الحديث: 3926(4427) الكفاية في علم الرواية للخطيب:التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ، رقم الحديث: 311(5٠٠4)؛ذم الكلام وأهلہ لعبد اللہ الأنصاري:الْبَابُ التَّاسِعُ، بَابٌ : ذِكْرُ إِعْلَامِ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ ۔.۔ رقم الحديث: 589(٦٠٦)؛الأباطيل والمناكير والمشاهير للجورقاني: كِتَابُ الْفِتَنِ، بَابُ : الرُّجُوعِ إِلَى الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ رقم الحديث:2٧٧(29٠5) الكامل في ضعفاء الرجال » من ابتدا أساميهم صاد » من اسمہ صالح؛ رقم الحديث: 4284٦) التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ » التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ؛ رقم الحديث: 311]
23/01/2020, 12:05 am - AftabKhan: سوال 6:
اگر ہم صدیوں پہلے طے پانے والی چیزوں کے بارے میں تحقیق کے جذبے کے ساتھ بھی سوالات پیدا نہیں کرتے تو یہ بات بہت منطقی ہوگی -
جواب :
جناب کیوں سوال نہ اٹھائیں جہاں شک و شبہ ہو … قرآن پر کوئی مسلمان سوال نہیں اٹھاتا -
اگر کسی دوائی پر لیبل مشہور برانڈ کا ہو اور دوائی اثر نہ کرے تو دوائی کو چیک کریں کہ نقلی تو نہیں ؟ اگر نقلی ہو اصل دوائی حاصل کریں - اکثر فارمسوٹیکل کمپنیاں اپنی دوایوں کو منسوخ کر دیتے ہیں جن کے اثرات درست نہیں ہوتے ایسی ادویات کو استعمال کرنا مضر صحت ہے ، کمپنی کو مورد الزام نہیں ٹھیرا سکتے - منسوخ ادویات فائدہ بھی پہنچاتی ہیں اور نقصان بھی … پیکنگ ، حفاظت بھی ضروری ہے-
سب سے اہم بات ہے کہ کمپنی ، اتھارٹی کیا کہتی ہے ؟
احادیث کی کتابت خلفاء راشدین نے نہ کی …
…………………….
7 Q سوال عمل میں کمزوری
ہم ان احکامات پر بھی عمل نہیں کرسکے ہیں جن پر تمام مکاتب فکر نے اتفاق کیا ہے پھر ... پھر کیوں نئے مسائل کھڑے کرنے پر وقت اور توانائیاں کیوں ضائع کی جائیں؟
جواب :
آپ سے متفق … عمل کرنا ضروری ہے… مگر دیکھنا ہے کہ جو ہم کو عمل کرنے کو کہ رہے ہیں کیا انہوں نے مجاز اتھارٹی کا حکم مانا ؟ نہیں مانا تو کیوں ؟
تمام مکاتب فکر کا اتفاق کاغذی ہے ، الله کرے کہ وہ اس کو عملی بنا دیں ..
کوئی اپنے نظریات ہم پر رسول الله کا نام لے کر کیوں ٹھونسے؟ کنفیوزن پھیلے ہم اس کو چیک کریں ، الله کا حکم واضح ہے :
یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (8:22)
عمل میں کمی ہے … الله کے کلام اور رسول الله کی سنت پر عمل کرنا ضروری ہے بلا شک و شبہ … ہم کو مذہبی پیشواووں نے فضولیات فرقہ واریت میں الجھا رکھ ہے ، صفائی کی ضرورت ہے .. اسلام پہلی صدی ہجری والا ملاوٹ سے پاک … کوشش کر سکتے ہیں … اچھے علماء بھی موجود ہیں تلاش سے مل جاتے ہیں --
جزاک الله ..