يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ ﴿٢٠﴾ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ قَالُوا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ ﴿٢١﴾ إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّـهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ﴿٢٢﴾ وَلَوْ عَلِمَ اللَّـهُ فِيهِمْ خَيْرًا لَّأَسْمَعَهُمْ ۖ وَلَوْ أَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّوا وَّهُم مُّعْرِضُونَ ﴿٢٣﴾ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّـهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ ﴿٢٤﴾ وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةً ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿٢٥﴾
اے ایمان لانے والو، اللہ اور اُس کے رسُول کی اطاعت کرو اور حکم سُننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو (20) اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے کہا کہ ہم نے سُنا حالانکہ وہ نہیں سُنتے (21) یقیناً اللہ کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (22) اگر اللہ کو معلوم ہوتا کہ ان میں کچھ بھی بھلائی ہے تو وہ ضرور انہیں سُننے کی توفیق دیتا (لیکن بھلائی کے بغیر) اگر وہ ان کو سُنواتا تو وہ بے رُخی کے ساتھ منہ پھیر جاتے (23) اے ایمان لانے والو، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جبکہ رسُول تمہیں اس چیز کی طرف بُلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے، اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے (24) اور بچو اُس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف اُنہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے (8:25)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّـهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٢٧﴾
اے ایمان لانے والو، جانتے بُوجھتے اللہ اور اس کے رسُولؐ کے ساتھ خیانت نہ کرو، اپنی امانتوں میں غداری کے مرتکب نہ ہو (8:27)
جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً خدا سُننے والا اور جاننے والا ہے (8:42)
عقلمندوں کے سوا کوئی نصیحت قبول نہیں کرتا۔ (قرآن 2:269)
واضح رہے کہ انکار حدیث اور اس کی ٣٠٠ سال بعد یا پہلے تدوین یا حفاظت یھاں زیر بحث نہیں نہ ہی مقالہ ایا ڈسکشن کا موضوع ہیں لہٰذایہ پوائنٹس یہاں قابل اطلاق نہیں ہیں- لیکن کیونکہ اسے پیش کیا گیاہے تو قاری کی سہولت کے لئے کمنٹس کیے ہیں :
براؤن کلر میں کتاب کی فوٹو پیج کی تحریر ہے ، جواہات نیلے کلر میں:
سنت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے محفوظ ہونے کے بارے میں شک پھیلانے کے لیے منکرین حدیث نے بالکل ایک بے بنیاد اعتراضات اٹھایا ، انہوں نے نے کہنا شروع کر دیا کہ حدیث تو دو نہیں تین سو سال بعد مدون ہوئی ہیں اسے پہلے عام لوگوں کے درمیان میں ہر طرح کی تحریف اور تبدیلی کا نشانہ بنتی رہی ایسا کہتے ہوئے انہوں نے نہ تو قرآن مجید کی ان آیات کا کوئی لحاظ کیا جو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہیں اور نہ ہی یہ دیکھنے کی زحمت گوارا کی کے صحابہ کرام اور ان کے بعد آنے والوں نے دین کو محفوظ کرنے کے لیے کیا کچھ اسباب اختیار کیے یے قرآن مجید کی آیات وہی ہیں جو سنت رسول صلی اللہ وسلم کی اہمیت کے سلسلے میں پچھلے شمارے میں بیان ہو چکی ہیں ان کے مطابق سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی قرآن مجید کی طرح اللہ کی جانب سے وحی ہے اور یہ اصول دین میں سے ہے یعنی شریعت دلیل ہے اور اس سے لینا فرض اور واجب ہیں اور اس کا انکار کفر ہے ہے ان سب کی حفاظت میں شک کرنا دراصل یہ کہنا ہے کہ اللہ تعالی نے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مقام اور مرتبہ کیا تھا وہ محفوظ ہیں نہ رہ سکیں معاذاللہ
اہم نکات : منکرین حدیث کے اعتراضات مشتمل ہیں -
کمنٹس :
سنت اور حدیث کو لکھنے والے نے بہت عیاری سے متبادل کے طور پر لکھا ہے ..ان کو بولڈ کیا ہے کہ صرف غور سے پڑھنے پر سب کچھ خلفاء کر سمجھا جا سکتا ہے - قرآن کے ریفرنس پر لفظ " سنت" استعمال کیا اور دلیل دے رہے ہیں حدیث پر … قرآن میں سنت ، رسول الله صلی الله علیہ وسلم اللہ کے لیے استعمال نہیں ہوا (ملاحضہ -ریفرنس لنک) مگر "اسوۂ حسنہ" سے سنت کا مطلب لیا جاسکتا ہے-
سنت اور حدیث میں فرق ہے ، سنت ، صرف سنت ہوتی ہے یا نہیں ، سنت میں صحیح ، ضعیف ، حسن وغیرہ کے درجات نہیں ہوتے، احادیث میں ہوتے ہیں- سنت کا درجہ قرآن کے قریب ترین ہے ، جو ایک شخص نہیں ہزاروں لوگوں نے عمل رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا اور عمل کیا جو تواتر سے نسل در نسل منتقل ہوتا رہا - حدیث وحی ہوتی تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس کی کتابت کا اہتمام فرماتے اور خلفاء راشدین منع نہ فرماتے- انہوں نے کھل کر حکم جاری کیا کہ "کتابت حدیث" نہیں ہو گی صرف ایک کتاب قرآن ہے- خلفاء راشدین کو اس وحی کا علم نہیں تو کس کو ہو سکتا ہے - جو لوگ خلفاء راشدین کی حکم عدولی کرتے ہیں اور علماء یہود، کی طرح تاویلیں بھی گھڑتے ہیں وہ اصحاب سبت کے انجام کو یاد رکھیں- اصول دین، الله تعالی ، رسول الله صلی الله علیہ وسلم ،خلفاء راشدین کی سنت و احکام سے ماورا نہیں ہو سکتے . مذہبی پیشواؤں کو اس دائرہ کار کے اندر اصول وظع کرنا ہوں گے - قرآن میں آیات احکام بلکل واضح ہیں جو" ام الکتاب " ہیں [آل عمران ٧] یہ لوگ آیات سے اپنے مطلب مت نکالیں اور کفر کے فتووں کے زور پراپنے منع گھڑت نظریات کا دفاع نہ کریں ، دلیل دیں قرآن کی واضح آیات سے -
اگراحادیث تین سو سال بعد مدون ہویں مگر ہمشہ سے لکھی جا رہی تھیں اور زبانی بھی حفظ تھیں-خلفاء راشدین کے حکم کی جس نے حکم عدولی کی اس نے اللہ اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حکم کا انکار کیا ، وہ جو کوئی بھی ہو ..
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴿٤:٥٩﴾
اے لوگو جو ایمان لائے ہوئے، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے (4:59)
یہ آیت مکمل طور پرتین طریقہ سے احادیث کی کتابت کرنے لکھنے والوں پر لاگو ہوتا ہے- فتوی بازی کی ضرورت نہیں ان کا معامله اللہ کے سپرد -
صحابہ اکرام حکم عدولی نہیں کر سکتے - کسی کی اپنی کوتاہی سے بچنے کے لیے دوسروں پر الزام تراشی کرنا عام وطیرہ ہے- پہلی صدی میں جب تک صحابہ زندہ رہے احدیث کی کتب لکھنے کا کوئی خاص ثبوت نہیں ملتا .. اب کوئی جرمنی یا یورپ سے نسخے نکا لے تو ہم یقین کر لیتے ہیں کہ یہ ہمارے نفس کی خواہش اور غلط اقدام کو جواز مہیا کر سکے - کافروں کو ہم سے کیا ہمدردی ہے وہ کل کلاں قرآن کا بھی نسخہ نکال کر کہیں کہ دیکھو یہ مختلف قرآن ہے تو ہم یقین کر لیں گے ؟ [ یہ یھاں موضوع نہیں، بحث لا حاصل ہے ، جب قرآن ، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اتھارٹی سے خلفاء راشدین نے احادیث کی کتابت سے منع کر دیا تو تاویلوں کی کنجائش نہیں ]
قرآن وحی ہے دلیل ہے قرآن کی طرف سے حکم لینا فرض اور واجب ہے ہے اور اس کا انکار کفر ہے- [ بلاشک درست ]
ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یہ حدیث یاد کر لیں … ” فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بعدی فَسَيَرَى اخْتِلافًا كَثِيرًا ، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ، فَتَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ ۔” (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة)
” تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔ پس میری سنت اور خلفائے راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑو ۔ اس سے تمسک کرو اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو۔ خبردار ( دین میں ) نئی باتوں سے بچنا کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ہے۔” (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة)
ان سب کےہوتے ہوئے یے سنت رسول کی حفاظت میں شک کرنا اصل میں یہ کہنا ہے کہ اللہ نے جس سنت کا مقام مرتبہ جائے کیا وہ محفوظ بھی نہیں [قرآن میں سنت کا لفظ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لیے استعمال نہیں ہوا ، یہ اصطلاح قرآن کی نہیں ہے ، قرآن پرغلط بیانی کریں ] رہ سکیں معازاللہ [ کیا یہ بات "خلفاء راشدین مھدین" کو نہ تھی جن کی سنت کو جبڑوںسےپکڑنےکا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا تھا …یہ بعد والے رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور "خلفاء راشدین مھدین" سے بھی زیادہ با خبر تھے معازاللہ ].
یہ اس آیت کے بھی خلاف ہے کہ : ہم نے یہ ذکر نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ہیں (الحجر ٩) ان سے مراد قرآن و سنت دونوں ہے-
کمنٹس :
قرآن و سنت دونوں محفوظ ہیں مگر حدیث نہیں [احادیث میں ان کو قرآن و سنت سے چیک کرنا اور جس پر شک ہو مسترد کرانا مفھوم ہے ، مگر سنت پر اطلاق نہیں ]… سنت اور حدیث ایک بات نہیں پہلے واضح کر دیا ہے- سنت کا لفظ قرآن میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نسبت استعمال نہیں ہوا ، یہ روایتی طور پر ہے ، احادیث میں استعمال ہو ہے- سنت تواتر کی وجہ سے قرآن کے قریب ترین ہے .. خبر واحد حدیث کیسے ہو سکتی ہے ؟ ہاں حدیث متواتر یہ درجہ حاصل کرتی ہے جو ١١٣ ہیں امام سیوطی کے حساب سے - لفظی ہرا پھیری سے دھوکہ دینے کی لا حاصل کوشش کر رہا ہے اس کتاب کو لکھنے والا-
اور اس آیت کا انکار ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ نبی انہیں کتاب اور حکمت سے کھاتے ہیں ہیں (العمران١٤٦)
[ کیا یہ بات "خلفاء راشدین مھدین" کومعلوم نہ تھی جن کی سنت کو دانتوں سےپکڑنےکا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا تھا …یہ بعد والے رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور "خلفاء راشدین مھدین" سے بھی زیادہ با خبر تھے معازاللہ ].
قرآن ، سنت اور حدیث ایک نہیں مخلتف ہیں .. اس کو سمجھنا ضروری ہے ..
کیونکہ ایسا کہنے والا کتاب کے محفوظ رہنے کو تو مانتا ہے ہے لیکن سنت کے محفوظ کرنے کو نہیں مانتا اس طرح وہ دراصل ٹھیک ہو جاتا ہے ہے لئے اختیار کرنے والے کی حدیث کی حقیقت سے واقف ہوتے تو وہ جانتے کہ سنت کو غیر محفوظ سمجھنا قرآن کو غیر محفوظ سمجھنا ہے ہے کیونکہ وہ بھی لکھے جانے کے ساتھ زبانی یاد کرنے نے اور اسے آگے بیان کرنے کے مراحل سے گزر کر کر یعنی اکٹھے ایک جگہ لکھنے جانے آنے تک پہنچا کرنے حدیث محفوظ ہونے کو لکھے جانے کے ساتھ گڈ مڈ کر دیتے ہیں ہیں کسی بات کو یاد رکھنا پھر اس بات کو آگے روایت کرنا اور لکھ لینا دہی دہی جمانے اور ضرورت کے لحاظ سے تبدیل ہوتے رہتے ہیں-
جواب --- سنت اور حدیث ایک نہیں … سنت ، عمل ہے تواتر سے محفوظ ہے ، کتاب صرف ایک ہے ، اگر کوئی سنت محو ہو گیی تو کیا احادیث ساری مکمل ہیں ، لاکھوں احادیث سے چند ہزار منتخب کیں ، تو باقی؟ جتنا ضروری تھا وہ مل جاتا ہے-
ا مام شافعی رح نے کہا:
“میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو تمام سنت اور احادیث کو جانتا ہو۔ اگر احادیث کا علم رکھنے والے علما کے علم کو یکجا کیا جاۓ تو صرف اسی حالت میں تمام سنت آشکار ہوسکتی ہے۔ چونکہ ماہرین حدیث دنیا کے ہر گوشے میں پھیلے ہیں اس وجہ سے بہت سی احادیث ایسی ہوں گی جن تک ایک عالم حدیث کی رسائی نہ ہوگی لیکن اگر ایک عالم ان سے نا آشنا ہے تو دوسروں کو ان کا علم ہوگا”
یہ محض الزام ہے ہے کہ حدیث کی تدوین تین سو سال سال بعد شروع ہوئی ایسا کہنے والے دراصل یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہ کے لکھے جانے سے پہلے احادیث کس حال میں اور کہاں تھی کسی کو اس کی خبر نہیں نہیں جبکہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ہے صرف اتنا ہے کہ ابتدا میں مسلمانوں کا زیادہ انحصار زبانی یاد رکھنے پر تھا تھا اگرچہ قرآن لکھا جا رہا تھا لیکن صحابہ کرام زیادہ تر ایسے بھی زبانی یاد کرتے تھے اور اس طرح رنگوں میں بہت سے الفاظ کی شہادت اور قرآن مجید کے پڑھنے میں اختلافات جیسے واقعات کے بعد وہ اس طرف متوجہ ہوئے انہوں نے حفاظت کی آیت آیت بے شک ہم نے ہی یہ ذکر نازل کیا ہے اور "ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں " کو محض خبر، پیش گوئی کے طور پر نہیں لیا ہوئے وہ تمام اقدامات کیے جو دین کی حفاظت کے لیے ضروری تھے جن صحابہ کرام اس آیت کا یہی مہفوم جانتے تھے کہ اب انہیں ہر وہ عمل کرنا ہے جس سے دین قیامت تک آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ ہو جائے وہ وہ اس سلسلے میں میں سب سے پہلے انہوں نے قرآن مجید کی تدوین کا کام مکمل کیا -
کمنٹس :
جواب پہلے دیا جا چکا ہے اب دھرا دیتے ہیں …… اگراحادیث تین سو سال بعد مدون ہویں مگر ہمشہ سے لکھی جا رہی تھیں اور زبانی بھی حفظ تھیں-خلفاء راشدین کے حکم کی جس نے حکم عدولی کی اس نے اللہ اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حکم کا انکار کیا ، وہ جو کوئی بھی ہو ..
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴿٤:٥٩﴾
اے لوگو جو ایمان لائے ہوئے، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے (4:59)
یہ آیت مکمل طور پرتین طریقہ سے احادیث کی کتابت کرنے لکھنے والوں پر لاگو ہوتا ہے- فتوی بازی کی ضرورت نہیں ان کا معامله اللہ کے سپرد -
صحابہ اکرام حکم عدولی نہیں کر سکتے - کسی کی اپنی کوتاہی سے بچنے کے لیے دوسروں پر الزام تراشی کرنا عام وطیرہ ہے- پہلی صدی میں جب تک صحابہ زندہ رہے احدیث کی کتب لکھنے کا کوئی خاص ثبوت نہیں ملتا .. اب کوئی جرمنی یا یورپ سے نسخے نکا لے تو ہم یقین کر لیتے ہیں کہ یہ ہمارے نفس کی خواہش اور غلط اقدام کو جواز مہیا کر سکے - کافروں کو ہم سے کیا ہمدردی ہے وہ کل کلاں قرآن کا بھی نسخہ نکال کر کہیں کہ دیکھو یہ مختلف قرآن ہے تو ہم یقین کر لیں گے ؟ [ یہ یھاں موضوع نہیں، بحث لا حاصل ہے ، جب قرآن ، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اتھارٹی سے خلفاء راشدین نے احادیث کی کتابت سے منع کر دیا تو تاویلوں کی کنجائش نہیں ]
لیکن قرآن مجید کے محفوظ ہونے کا مطلب صرف ان کے متن کا محفوظ ہونا نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے…….
بلکہ اس کا مطلب یہ ہے……. کہ اس کے ساتھ ساتھ وہ ہر شہر بھی محفوظ ہو جو اسے پڑھنے سمجھنے اور انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی نفاذ کرنے کے لیے ضروری ہے یعنی وہ بھی شامل ہیں جس میں یہ نازل ہوا زبان رسم الخط سمیت عرب شعراء کے کلام کی شکل میں محفوظ ہے اور اس کے ساتھ ہی اس میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہے جسے خود قرآن نے اپنا شارخ اشارے یعنی کھل کر بیان ان کرنے والا کہاں ہے ہے اس کی موجودگی میں رہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال سنتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال اور اعمال کو دیکھتے رہے بعد میں جب انہیں کسی آیت کے سمجھنے میں کوئی مشکل پیش آتی وہ ان کا اس کی تفسیر پر یا اس کے احکام میں سے کسی حکم پر اختلاف ہوتا تو وہ اس کی وضاحت کے لئے انہی احادیث کی طرف رجوع کرتے جو ان کے درمیان زیادہ تر زبانی روایات کی شکل میں موجود تھی تھی قوم کے دستور اور قوانین کا زبانی حالت میں رہنا کوئی ایسی انہونی بات نہیں ہے جو آج کے نام نہاد جدت طراز ذہن میں داخل ہوئی نہ ہوسکے برطانیہ میں صدیوں تک میگنا کارٹا ایک ایسے دستور کےطورپرنافذ چکا ہے جس کی کوئی لکھی ہوئی دستاویز موجود نہیں تھی اس کے باوجود کسی کا اس بات پر اختلاف نہیں تھا کہ اسلام دستور میں موجود ہے یا نہیں بہرحال اس وقت تک مسلمانوں کا ارادہ انحصار سفر تھا پھر جب اسلام پھیلا اسلامی ریاست توسیع ہوگئی اسلامی ریاست توسیع ہوگئی اور صحابہ کرام دور دور اور بکھر گئے اور ان میں اکثر وفات پا گئے تو حدیث کی تدوین کی ضرورت پیش آئی یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ حدیث کی تدوین کا کام صدیوں بعد شروع ہوا لکھا کرتے تھے جبکہ میں لکھتا نہیں تھا-
کمنٹس :
کیا حدیث کو محفوظ کرنے کی اہمیت اور مطلب خلفاء راشدین کو معلوم نہ تھا ؟ صرف بعد کے مذہبی پیشواؤں کو کیا الہام ہواتھا جو خلفاء راشدین کو نہ ہوا ؟ یہ مطلب اس لیے اخذ کر رہے ہیں کہ ان مذہبی پیشواؤں کو اپنی اہمیت قائم کرنے کا جواز مہیا ہو جایے اور یہ من مانی تاویلیں نکال سکیں - قرآن نازل ہوا تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس کی تفسیر سمجھا دی اور عملی نمونہ سنت میں پسش کر دیا - اب کوئی نیا اسلام ایجاد تو نہیں کرنا کہ قرآن کے ساتھ یہود علماء کی طرح تلمود بنا ڈالیں - پہلی مرتبہ تفصیل رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بتلا دی اب قرآن موجود ہے اور سنت کا نمونہ بھی تواتر سے منتقل ہوتا ہے - اب یہ حالت ہے کہ مخلتف احادیث سے نماز کی ادائیگی کے کئی طریقه پر بحث ہوتی ہے جو کہ فروعی نوعیت کے ہین-
میگنا کارٹا اور دنیاوی باتیں دین اسلام کے اصولوں جو قرآن سنت رسول الله صلی الله علیہ وسلم سنت خلفاء راشدین اور صحابہ کرام کی سنت کے مطابق ہے ان سے مقابلہ کرنا نادانی ہے -
حضرت ابوبکر صدیق کے متعلق بھی روایات ملتی ہیں اور حضرت علی علی کے متعلق بھی ایسی روایات ملتی ہیں کہ ان کے پاس بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث تحریری صورت میں موجود تھیں ---
کمنٹس :
خدا کا خوف کرو بھائی ایک طرف کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق (رضی الله) نے اپنی پانچ سو احادیث جلا دیں اور حضرت علی (رضی الله) کہتے ہیں کہ مٹا دو احادیث ، پہلی قومیں برباد ہویں کتاب اللہ کے ساتھ دوسری کتب ملا کر … اب کس پر یقین کریں ؟ آسان جواب ہے کہ ان کی سنت کو دیکھ لیں … حضرت ابوبکر صدیق (رضی الله) اور حضرت علی (رضی الله) نے کیا کتابت حدیث کی ؟ دونوں خلیفہ بھی رہے … جواب .. نہیں کی کتابت حدیث … بات ختم … اب سنت کی مضبوطی کا اندازہ بھی ہو گیا ہو گا … اور یہ بھی کہ حدیث ، اقوال ، مضبوط نہیں ہوتے ، سنت ، عمل مظبوط سند ہوتی ہے-
حضرت عمر (رضی الله) خلیفہ بنے تو سوچ بچار کےبعد احادیث کی کتابت نہ کرنے کافیصلہ کیا -
حدیث کی کتابت نہ کرنے کے فیصلے کی وجہ یہ تھی کہ صرف ایک کتاب ہو گی کتاب الله … کہ پہلی امتیں برباد ہوئیں کتاب الله کو چھوڑ کر دوسری کتب میں مشغول ہو گیئں- حضرت علی (رضی الله) بھی کتابت احادیث کے مخالفین میں شامل تھے کیونکہ پچھلی قومیں میں اس وقت ہلاک ہوئی جب وہ اپنے رب کی کتاب کو چھوڑ کر اپنے علماء کی قیل و قال میں پھنس گئیں - حضرت عمر (رضی الله) کے فیصلہ پر خلفاء راشدین نے بھی عمل کیا اور یہ پہلی صدی حجرہ تک یہی سنت رہی-
سوال - اتنا ہے کہ ابتدا میں حدیث لکھنے کی عام اجازت نہیں تھی کہ ایک لوگ قرآن کو حدیث کے ساتھ غلط ملط نہ کر دیں دی اور دوسرے کہیں قرآن لکھنے سے غافل نہ ہو جائیں لیکن بعد میں جب یہ خطرات رات نہ رہے تو عام اجازت دے دی گئی لیکن چونکہ صحابہ میں لکھنے والے کم تھے اس لیے زیادہ انحصار لفظ پر ہی رہا ہاں ہاں صحابہ حدیث کی پہچان میں انتہائی احتیاط کرتے تھے وہ کسی حدیث کو اس وقت تک نہیں لیتے تھے جب تک یہ واضح نہ ہو جائے کہ رسول اللہ سے جاری ہوئی ہے اور وہ اس سلسلے میں ہر طرح کی ہڈیاں تک محدود رکھتے تھے یہ کیفیت خلفائے راشدین کے پورے دور میں نظر آتی ہے جو امت کے تمام امور میں قرآن کے ساتھ سنت رسول اللہ صلی اللہ وسلم ہی کو لے کر چل رہے تھے تھے-
کمنٹس :
یھاں خلفاء راشدین کا تذکرہ اور وہ حکم جو تدوین حدیث کو ممنوع قرار دیا اور پہلی صدی تک جس پر عمل ہوا اور
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا حکم :
فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بعدی فَسَيَرَى اخْتِلافًا كَثِيرًا ، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ، فَتَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ ۔” (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة)
” تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔ پس میری سنت اور خلفائے راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑو ۔ اس سے تمسک کرو اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو۔ خبردار ( دین میں ) نئی باتوں سے بچنا کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ہے۔” (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة) ---
علمی خیانت کہ سچ اور حقیقت کو چھپایا جائے ، یہ علماء یہود کا طریقه ہے …
پھر جب آسمان ان کے بغاوت کے فتنوں نے سر اٹھایا اور سیاسی گروہ ظاہر ہوئے دوبئی بے شمار احادیث جس کی ہر ممکن احتیاط صرف کر ڈالی یہاں تک کہ کا پیچھا کرنے اور ان کے احوال کی پہچان حاصل کرنے مطالعہ تحقیق اور چھان بین کے لیے موضوع حدیث کو الگ کرنے غرض کے کسی بھی روایت کی جانچ کے لیے جس میں آج تک نہیں ملتی حدیث کے ساتھ جڑے ہوئے علوم و فنون ترتیب پائے جیسے علوم آل آل ممالک علم وفیات معروف البلدان ان المعول انبیاء یا کتابت میں مخصوص اصطلاحات اصول حدیث وغیرہ نہ کا ایک ایک ایک کرکے پیچھا کیا گیا یا یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ بعض کمزوری کمزوریاں گھڑی ہوئی احادیث کی موجودگی اس بات کی دلیل نہیں بنتی کہ تمام احادیث کا انکار کر دیا جائے اس کی مثال آج کے میڈیا کی ہے سب جانتے ہیں جو خرید لیتا ہے یہ اسی کی رائے کو عام کرنے پر لگ جاتا ہے اس پر آپ یہ تو نہیں کرتے کہ میڈیا پر آنے والی تمام کی تمام خبروں کو رد کرتے ہیں اس میں استعمال کرتے ہیں ہیں جس میں سب سے زیادہ سادہ طریقہ ہے جس خبر کی کئی ذرائع سے تصدیق ہو جائے اس پر اعتبار کر لیا جاتا ہے-
کمنٹس :
یہ بات کہ "جس میں سب سے زیادہ سادہ طریقہ ہے جس خبر کی کئی ذرائع سے تصدیق ہو جائے اس پر اعتبار کر لیا جاتا ہے" ----- اسے حدیث متواتر کہتے ہیں جو سنت کا درجہ حاصل کرتی ہے کہ ایسا عمل بہت صحابہ نے دیکھا … تیسری صدی ہجرہ میں اگرمشہور کتب احادیث مدون نہ بھی ہوتیں تودین پر عمل ہو رہا تھا - دین اسلام کے اہم رکن، تماز (صلاه ) کا قرآن میں بہت ذکرہے مگر ادا کرنے کا طریقہ نبی صلی اللہ و علیہ وسلم کی سنت سے معلوم ہوتا ہے، اسی طرح دوسرے اہم احکام جن کی تفصیل قرآن میں نہیں وہ نبی صلی اللہ و علیہ وسلم کی "سنت تواتر" سے معلوم ہوئے اوردین اسلام پر عمل مکمل ہوتا چلا آ رہا ہے- "متواتراحادیث" کی تعداد بہت کم ہے۔ شیخ رشید ردہ - محمد عبدو کے طالب علم اور جامعہ الازہر (مصر) کے ڈائریکٹر نے تقریبا سوسال قبل احادیث کے ذخیرے پر تحقیق کی اور صرف 50 احادیث کو سامنے لایا جس نے متواتر ہونے کی شرائط کو مطمئن کیا- مشہور اسلامی اسکالر جلال الدین سیوطی نے "قطب الازہر الموتنا فی فی الاخبار المتوترا" کے عنوان سے ایک کتاب میں 113 متواتر احادیث کو جمع کیا۔ انہوں نے ایک حدیث کو متواتر کی طرح سمجھا اگر اس کے ہر لنک میں کم از کم 10 راوی ہوتے۔ ان متواتر احادیث کی اکثریت صلوات ، حج اور دیگر اسلامی رسومات سے متعلق ہے۔ ..
احادیث کی حفاظت کا کام مسلمانوں میں مسلسل جاری رہا یہاں تک کہ ہجرت کے 100 سال ہونے کے قریب جب حضرت عمر بن عبدالعزیز کا زمانہ آیا تو انھوں نے سرکاری طور پر باقاعدہ حدیث حکم جاری کیا آپ کے حکم پہلے حدیث کی تدوین کرنے والے محمد بن مسلم الزہری تھے اس کے بعد دین کا کام پھیلتا گیا اور اس کے جمع کرنے والوں میں مکہ میں ابن سن ہجری مدینہ میں مالک بصرہ میں ہم او کوفہ میں اور شام میں جیسے نام نام سامنے آئے آئیے اس کے علاوہ جب امام ابو حنیفہ امام مالک امام احمد بن حنبل اور امام شافعی شفا جیسے ائمہ مجتہدین نے حدیث کو جہاد کے لیے استعمال کیا یہ حدیث بھی ان کے اتحاد کے ساتھ محفوظ ہوگی یہاں تک کہ امام بخاری کا ظہور ہوا اور انہوں نے علم حدیث میں کمال حاصل کیا اور اپنی مشہور کتاب صحیح بخاری تالیف کی اس میں وہ سب کچھ آگیا جس کی صحت واضح ہوچکی تھی اور ان کا اثر ان کے شاگرد مسلم بن حجاج تک گیا اور مشہور کتاب صحیح مسلم تالیف کی کی ان تمام حقائق کو سامنے رکھیں تو نظر آتا ہے اس پورے دور میں حدیث کبھی بھی امت کی نگاہوں سے اوجھل نہیں رہی بلکہ باقاعدہ ضبط تحریر میں آتی رہی اور یہاں تک کہ آخری ادوار میں مدفن ہونے والی کتابوں میں یہ تمام احادیث اکٹھی ہوگئی -
کمنٹس :
امام ابو حنیفہ نے فقہ تشکیل دیا ، محدث بھی تھے مگر حدیث کی کوئی کتاب نہ لکھی وہ خلفاء راشدین کی سنت پر کاربند تھے ، باقی جنہوں نے لکھیں ان کا معامله اللہ کے سپرد ہے -
………………………….
AAK Response :
قران کی طرف واپسی - تحقیقی مقالہ Q & A-2
https://quransubjects.blogspot.com/2020/01/why-quran.html
گزارش ہے کہ تحقیق کو بغور پڑھا جائے… تو اس تفصیل کی ضرورت نہ پڑتی ۔۔۔ نہ حدیث کا انکار موضوع ہے نہ تیسری صدی میں تحریر .. پر تنقید ۔۔۔ صرف ضمنی ذکر آتا ہے کہ تیسری صدی میں مشہور کتب احادیث مدون ہوئیں ۔۔۔ جو ایک تاریِخی حقیقت ہے ۔۔ اس مضمون پر تحقیق اور بحث پھر کبھی ۔۔۔
آخری پیراگراف #20 " اب کیا کریں ؟" کا ذیلی پیرا (2)... دوبارہ پیش ہے جو میرے خیالات کا مظہر ہے :
(2) .احادیث کا ذخیرہ علمی خزانہ ہے ، اسوہ حسنہ، سنت اور اس دور کی تاریخ ،قرآن کی تفسیر، بہت کچھ موجود ہے اس سے مثبت طور پرمسلمانوں کی یکجہتی، محبت ، اخلاق ، بہتری کے لیے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے- حدیث اگر قابل اعتراض نہ ہو، ضعیف بھی ہو تو قابل احترام ہے کہ رسول صلی الله علیہ وسلم سے منسوب ہے ممکن ہے کہ درست ہو اور اصول و ضوابط پر پوری نہ اتر سکی ہو-
اب آتے ہیں اصل مضمون کی طرف….
"قران کی طرف واپسی - تحقیقی مقالہ" کا اصل مضمون "کتابت حدیث" ۔۔۔ کچھ اس طرح ہے ۔۔۔ پیرا #18
18.کتابت حدیث کی ممانعت کی نسبت بلا واسطہ اور بالواسطہ الله کی طرف جاتی ہے:
(1).الله اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت ….
(2).رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت الله کی اطاعت …
(3).رسول صلی الله علیہ وسلم کا ابوبکرصدیق حضرت عمر اور خلفاء راشدین (رضی الله عنھم) کی اطاعت کاحکم …
(4).حضرت عمر (رضی الله ) کا احادیث کی کتابت نہ کرنے کا حکم ایسا ہے کہ …..یعنی اللہ اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا حکم .(1,2,3)..کے مطابق.
(5).خلفاء راشدین (رضی الله عنھم) کا حضرت عمر (رضی الله ) کے حکم و سنت کو برقرار رکھنا …. احادیث کی کتب کی شکل میں قرآن کی طرح کتابت نہ کرنا ۔۔۔
(6).مسلم حکمرانوں کا خلفاء راشدین (رضی الله عنھم) کی اس سنت پر کاربند رہنا۔
(7).تیسری صدی میں انفرادی، ذاتی طور پر احادیث کی مشہور کتب کی کتابت..…
(8) بلاواسطہ اور بالواسطہ الله اور رسول ، خلفاء راشدین کی صریح نافرمانی ….
19#. رسول صلی الله علیہ وسلم کی نافرمانی کا انجام - رُسوا کُن عذاب جہنّم :
وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا ۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿4:14﴾
اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا ، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے ۔ ﴿4:14﴾
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّـهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۗ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ (2:170)
اور ان سے جب کبھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا، گو ان کے باپ دادے بےعقل اور گم کرده راه ہوں(2:170)
وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ ﴿۱۰﴾
اور جن لوگوں نے انکار کیا اور اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو ایسے ہی لوگ اہل دوزخ ہیں (5:10)
مَّنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ
جو کوئی راہ راست اختیار کرے اس کی راست روی اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، اور جو گمراہ ہو اس کی گمراہی کا وبا ل اُسی پر ہے کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا (17:15)
کچھ گناہ اور کوتاہیاں انفرادی ہوتی ہیں ، جیسے نماز میں سستی ، کسی سے بدکلامی کرنا وغیرہ ، لیکن ایسے اقدام جن کے اثرات نسل در نسل لاکھوں ، کروڑوں افراد کے مذھبی نظریات اوراعمال پر اثر انداز ہوں تو یہ بہت سنجیدہ معامله ہے، خاص طور پر جب حقیقت کا علم ہو جایے تو اپنی بزرگوں سے محبت میں ان کے غلط اقدام کا دفاع کرنا اس میں شامل ہونا ہے:
أَن تَعْتَدُوا ۘ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿٢﴾
نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو, اللہ سے ڈرو، اس کی سز ا بہت سخت ہے (5:2)
مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا ﴿٨٥﴾
جو بھلائی کی سفارش کریگا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا، اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے (4:85)
أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ
حدیث کے بیان و ترسیل کا مجوزہ طریقہ
کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے- ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83] رسول اللہ ﷺ ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89 اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ جب تک "اجماع" قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]