رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

قادیانیت اور "فنا فی الرسول" کا غیر قرانی نظریہ

"وہ (مرزا قادیانی) فنا فی الرسول تهے، یہ ان کا اپنا کمال تها، وہ عین محمد ہوگئے تهے[2] مرزا طاہر قادیانی (مرزا غلام احمد قادیانی کے پوتے اور چوتھے قادیانی سربراہ) نے پاکستان قومی اسمبلی میں بحث کے دوران ایک سوال کے جواب میں یہ بیان دیا  جو قومی اسمبلی کے 1974کے ریکارڈ کا حصہ ہے (معاذ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی اس سے زیادہ توہین کیا ہوسکتی تهی )]
مرزا قادیانی کی تحریریں قادنیت کی بنیاد ہیں، قادنیوں سے مکالمہ میں مرزا کی تحریروں سے انکار پر قادنیت کا کذب خود بخود کھل کر ظاہر ہوجاتا ہے- "جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے" مشہورمحاورہ قادیانوں پر بعین لاگو ہوتا ہے- مرزا صاحب اپنے آپ کو الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ اپنے آپ کو "فنا فی  رسول" قرار دے کر (معاز الله) بطور"  محمد (بن عبداللہ رسول اللهﷺ) کے پیش کرتا ہے اور یہ دعوی کرتا ہے کہ اس طرح سے  محمد رسول اللهﷺ خاتم النبیین کی مہر نہیں ٹوٹتی کیونکہ محمد ہی دوبارہ واپس آ گئے[1] (استغفرالله) کوئی نیا نبی نہیں آیا- یہ ان کے متعدد باطل دلائل میں سے ایک ہے-

اگر "فنا فی  رسول" ہونے سے کوئی رسول بن سکتا ہے تو "فنا فی اللہ"[1] ہونے سے اللہ کیوں نہیں بن سکتا؟

یہ ایک سوال قادیانی حضرات سے کیا گیا جسے وہ ہضم نہیں کر پائے- ضروری ہے  "فنا فی  رسول" سمجھنے سے قبل مرزا قادیانی کی زبانی  "فنا فی اللہ' کی تعریف پر نظر ڈالی جایے:

 فنا فی اللہ

مرزا غلام قادیانی ایک جگہ لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ فنا کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک فنا حقیقی ہوتی ہے جیسے وجودی (وحدہ الوجود) مانتے ہیں کہ سب کچھ خدا ہی ہیں ۔ یہ تو بالکل باطل اور غلط ہے اور یہ شرک ہے لیکن دوسری قسم فنا کی "فنا نظری" ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایسا شدید اور گہرا تعلق ہو کہ اس کے بغیر ہم کچھ چیز ہی نہیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی میں ہستی ہو باقی سب ہیچ اور فانی ہو ۔ یہ فنا اتم کا درجہ توحید کے اعلیٰ مرتبہ پر حاصل ہوتا ہے اور توحید کامل ہی اس درجہ پر ہوتی ہے ۔ جو انسان اس درجہ پر پہنچتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں کچھ ایسا کھویا جاتا ہے ۔ کہ اس کا اپنا وجود بالکل نیست و نابود ہو جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے عشق اور محبت میں ایک نئی زندگی حاصل کرتا ہے جیسے ایک لوہے کا ٹکڑا آگ میں ڈالا جاوے اور وہ اس قدر گرم کیا جاوے کہ سرخ آگ کے انگارے کی طرح ہو جاوے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح پر جب ایک راستباز بندہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور وفاداری کے اعلیٰ درجہ پر پہنچ کر’’ فنا فی اللہ ‘‘ہو جاتا ہے اور کمال درجہ کی نیستی ظہور پاتی ہے اس وقت وہ ایک نمونہ خدا کا ہوتا ہے اور حقیقی طور پر وہ اس وقت کہلاتا ہے ’’انت منی‘‘[3](ملفوظات ج 5ص5اولڈ ایڈیشن)

ایک مقام پر مرزا کہتا ہے ’’(مرزا)خدا کی مانند۔[4]‘‘(اربعین نمبر3ص25،خزائن 17ص413)

پھرایک اور مقام پر کہتا ہے ۔’’میں نے خواب میں دیکھا کہ میں خدا ہوں ۔ میں نے یقین کر لیا کہ میں وہی(یعنی خدا ) ہوں[5] ۔‘‘(آئینہ کمالات ص564،خزائن 5ص564)

ایک اور مقام پر کہتا ہے ۔’’اس دن بادلوں میں تیرا خدا آئے گا ۔ یعنی انسانی مظہر(مرزا قادیانی) کے ذریعہ اپنا جلال ظاہر کرے گا[6]‘‘(حقیقت الوحی ص 54،خزائن ج 22ص158)

’’اے مرزا تو میری اولاد جیسا ہے[7] ۔‘‘(اربعین نمبر4ص19ص خزائن 17ص452)

’’انت منی بمنزلۃ بروزی‘‘’’تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میں ہی ظاہر ہو گیا۔[8]‘‘(سرورق آخیر ریویو ج 5نمبر3،مارچ 1906 ؁ء)

مزید کہتا ہے ۔

’’مجھے خدا کی طرف سے مارنے اور زندہ کرنے کی صفت دی گئی ہے[9] ۔‘‘(خطبہ الہامیہ ص 55-56،خزائن 16ص ایضاً)

’’تو مجھ سے میری توحید کی مانند ہے[10] ۔‘‘(تذکرہ الشہادتین ص 3خزائن ج 20ص5)

’’(اے مرزا) تیری یہ شان ہے کہ تو جس چیز کو کن کہہ دے وہ فوراً ہو جاتی ہے[11] ۔‘‘(حقیقت الوحی ص 105خزائن ج 22ص108)

’’اے چاند اے خورشید تو مجھ سے ظاہر ہو اور میں تجھ سے[12]‘‘۔(حقیقت الوحی ص 74خزائن ج 22ص77)

’’تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں ۔ تیرا ظہور میرا ظہور ہے [13]۔‘‘(تذکرہ ص 704)

اور تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میں ہی ظاہر ہوگیا ۔ یعنی تیرا ظہور بعینہ میرا ظہور ہو گیا[14] ۔ (تذکرہ ص 604)

’’خدا قادیان میں نازل ہوگا[15]‘‘(البشریٰ اوّل ج 56تذکرہ ص 437)

تیرے پر میرے انعام کامل ہیں ۔۔۔۔ آواہن(خدا تیرے اندر اُتر آیا )[16] (کتاب البریہ ص 84-83خزائن 13ص101-102تذکرہ ص311)

فنا فی الرسول

اب ان تحریروں کے ساتھ مرزا غلام قادیانی کی اس تحریر کو بھی ملائیں ۔۔۔۔۔۔

ہم اس آیت پر سچا اور کامل ایمان رکھتے ہیں جو فرمایا کہ ’’ولکن رسول اللہ وخاتم النبین‘[17]‘ اور اس آیت میں ایک پیشگوئی ہے جس کی ہمارے مخالفوں کو خبر نہیں اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد پیشگوئیوں کے دروازے قیامت تک بند کر دئیے گئے اور ممکن نہیں کہ اب کوئی ہندو یا یہودی یا عیسائی یا کوئی رسمی مسلمان نبی کے لفظ کو اپنی نسبت ثابت کر سکے ۔ نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں ۔ مگر ایک کھڑکی سیرت صدیقی کی کھلی ہے یعنی ’’فنا فی الرسول‘‘ کی ۔ پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے ۔ اس پر ظلی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے ۔ اسلئے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے اور نہ اپنے لئے بلکہ اسی کے جلال کے لئے ۔ اس لئے اس کا نام آسمان پر محمد اور احمد ہے ۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ محمد کی نبوت آخر محمد کو ہی ملی گو بروزی طور پر مگر نہ کسی اور کو ۔ پس یہ آیت کہ ’’ماکان محمد ابا احمد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبین‘‘ اس کے معنی یہ ہیں کہ ۔۔۔۔۔ میری نبوت اور رسالت باعتبار محمد اور احمد ہونے کے ہے نہ میرے نفس کے رو سے اور یہ نام بحیثیت ’’فنا فی الرسول‘‘ مجھے ملا لہٰذا خاتم النبین کے مفہوم میں فرق نہ آیا ۔ (خزائن ج 18ص208 ایک غلطی کا ازالہ)

ظلی خدا

ان عبارتوں کو سامنے رکھ کر کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ مرزا غلام قادیانی ظلی طور پر خدا بھی تھا ؟

اور یہ کہ مرزا کا خدا ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ خدا کے چشمہ سے لیتا ہے اور نہ اپنے جلال کے لئے بلکہ خدا کے جلال کے لئے اور مرزا کا ہی آسمانی نام اللہ یا یلش ہے اور اس طرح کی خدائی کا یہ معنی سمجھا جائے کی اللہ کی خدائی اللہ ہی کو ملی گو بروزی طور پر نہ کسی اور کو جیسے مرزا غلام قادیانی کا دعویٰ ہے کہ ’’محمد رسول اللہ ﷺ کے تمام کمالات مرزا قادیانی میں آ گئے[18] ۔‘‘(ایک غلطی کا ازالہ ص 8خزائن ج 18ص312) اور وہ محمد بن گیا(نعوذ باللہ)

اسی طرح خدا کے تمام کمالات بھی مرزا غلام قادیانی میں آ موجود ہوئے

 جیسا کہ اوپر حوالہ جات سے ثابت کر آیا ہوں اسلئے مرزا خدا بھی بن گیا اور اس طرح کی خدائی سے لا الہ الا اللہ کے مفہوم میں فرق نہیں آتا ؟ اسلئے کلمہ پڑھتے وقت اللہ سے مُراد مرزا اور محمد سے بھی مراد مرزا ہی ہوتا ہے مرزائیوں کے نزدیک؟

فقط یہ سوال تھا جب یہ سوال مرزائیوں سے فیس بک پر کیا گیا تو مرزائیوں سے کچھ جواب بن نہ پڑا اور آخر اُنہوں نے یہ کذب بیانی انتہائی ڈھتائی کے ساتھ شروع کی کہ:

وہ مرزا کو نہ محمد سمجھتے ہیں نہ ہی محمد ﷺ سے مُراد مرزا لیتے ہیں 

حالانکہ جو شخص مرزائیت سے تھوڑی بہت بھی واقفیت رکھتا ہے وہ بخوبی سمجھتا ہے کہ مرزا غلام قادیانی کا دعویٰ نعوذ باللہ محمد ﷺ ہونے کا تھا ۔ اور یہی عقیدہ مرزا کے اولین مریدوں کا مرزا کے متعلق تھا ورنہ خاتم النبین کی مہر ٹوٹتی ہے جیسا کہ ایک غلطی کا ازالہ میں یہ دعویٰ زور و شور سے مذکور ہے ۔ اور فیصلہ مرزا اور اولین مرزائیوں کے عقیدے پر ہی ہوگا ۔ اور یہی بات انصاف کی ہے ۔

 جیسا کہ پہلے بیان کیا کہ مرزا طاہر قادیانی (مرزا غلام احمد قادیانی کے پوتے اور چوتھے قادیانی سربراہ) نے پاکستان قومی اسمبلی میں بحث کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا : "وہ (مرزا قادیانی) فنا فی الرسول تهے، یہ ان کا اپنا کمال تها، وہ عین محمد ہوگئے تهے[19] [یہ بیان قومی اسمبلی کے 1974کے ریکارڈ کا حصہ ہے]

قادیانوں کی تکذیب مرزا

لیکن آجکل کے مرزائیوں کا یہ کہنا کہ مرزا نے ایسی تعلیم نہیں دی کہ مجھے محمد سمجھا جائے یا کہا جائے تو یہ خود مرزا غلام قادیانی کی تکذیب ہے اور مرزائیوں کا یہ کہنا کے وہ مرزا کو محمد ﷺ نہیں سمجھتے خود تردید مرزائیت ہے ۔

لیکن بعض مرزائی یہ تو کہتے ہیں کہ مرزا خود کو (نعوذ باللہ) محمد کہتا تھا اور یہ تعلیم بھی اُس نے دی کہ اُسے ایسا سمجھا بھی جائے ۔ لیکن ہم کلمے میں محمد سے مراد مرزا کو نہیں لیتے

اُن سے سوال ہے کہ کیا اس بارے کوئی وحی ان  لوگوں پر نازل ہو گئی ہے کہ بعض مقامات پر مرزا کو محمد سمجھا جائے اور بعض مقامات پر نہ سمجھا جائے؟

اور یہ بھی سوال ہے کہ اگر قادیانی  لوگ کلمے میں محمد سے مُراد "مرزا" لیں گے تو کیا ان کا کلمہ مکروہ ہو جائے گا؟

اگر مکروہ ہو جائے گا تو اس کے مکروہ ہونے کی کیا دلیل ہے؟

اگر نہیں ہوگا تو ہمارا اعتراض برحق ہے اورقادیانوں کا جواب ناحق ہے

جبکہ مرزا کی تحریروں میں اس بات کی تصریح موجود ہے جیسا کہ چند حوالے بطور دلیل کے درج  ذیل ہیں"

1۔ ’’اگر کوئی انسان ’’فنا فی الرسول‘‘ ہو جائے تو درحقیقت وہ وہی بن جاتا ہے[20]‘‘۔ (سیرت المہدی حصہ سوئم روایت نمبر :642)

2۔’’ اصل میں جو عاشق ہوتا ہے ۔ آخر کار ترقی کرتے کرتے وہ معشوق بن جاتا ہے[21]‘‘۔ (ملفوظات جلد 5ص174اوّلڈ ایڈیشن)

پھر جب وہ وہی بن جاتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اُسے وہی نہ سمجھا جائے اور وہی مُراد نہ لی جائے؟

3۔ ’’مسیح موعود(مرزا غلام قادیانی) کا آنا گویا آنحضرت ﷺ ہی کا آنا ہے جو بروزی رنگ رکھتا ہے ۔ اگر کوئی اور شخص آتا تو اس سے دوئی لازم آتی اور غیرت نبوی کے تقاضے کے خلاف ہوتا۔ اگر کوئی غیر شخص آ جاوے تو غیرت ہوتی ہے ۔ لیکن جب وہ خود ہی آوے تو پھر غیرت کیسی؟ اس کی مثال ایسی ہے کہ اگر ایک شخص آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھے اور پاس اس کی بیوی بھی موجود ہو تو کیا اس کی بیوی آئینہ والی تصویر کو دیکھ کر پردہ کرے گی۔ اور اس کو یہ خیال ہوگا کہ کوئی نامحرم شخص آگیا ہے اس لئے پردہ کرنا چاہیے اور یا خاوند کو غیرت محسوس ہوگی کہ کوئی اجنبی شخص گھر میں آ گیا ہے اور میری بیوی سامنے ہے ۔ نہیں بلکہ آئینہ میں انہیں خاوند بیوی کی شکلوں کا بروز ہوتا ہے اور کوئی اس بروز کو غیر نہیں جانتا اور نہ ان میں کسی قسم کی دوئی ہوتی ہے[22]‘‘ (ملفوظات جلد 5ص390اوّلڈ ایڈیشن)

مرزا کے قول نمبر1,2,3سے یہ بات ثابت ہے کہ مرزا خود کو(نعوذباللہ) عین محمد ﷺ کہتا تھا- اور تفریق نہیں کرتا تھا جب وہ خود تفریق کا قائل نہیں توقادیانوں کو یہ حق کس نے اور کیونکر دے دیا کہ وہ تفریق کریں؟ لیکن اگر قادیانی  تفریق کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے بھی دلیل چاہیے؟ یا بلادلیل ہی مان لیں؟

مزید مرزا کا صاحبزادہ کہتا ہے:

’’مسیح موعود (مرزا غلام قادیانی) خود محمد رسول اللہ ہے جو اشاعت اسلام کے لئے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے اس لئے ہم کو کسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں ہاں اگر محمد رسول اللہ کی جگہ کوئی اور آتا تو ضرورت پیش آتی‘‘[23] ۔(کلمتہ الفصل،ص158)

ایسی بے شمار کفریہ تحریریں قادیانی لٹریچر میں موجود ہیں لیکن مضمون کی  طوالت سے بچنے کے لئے صرف چند کو نقل کیا ہے لیکن یہ سوال ہے کہ ان تحریروں کو پڑھ کر کیا کوئی صاحب علم و عقل و فہم  یہ رائے قائم کر سکتا ہے کہ مرزائیوں کے نزدیک مرزا کو " محمد (رسول اللهﷺ)" مراد لینے کے علاوہ کوئی اور بھی مفہوم ان کے عقیدے میں موجود ہے؟

اور یہ تو حکم شرعی ہے کہ الفاظ موہمہ سے احتراز واجب ہے چنانچہ اسی بنا پر ’’لا تقولو راعنا‘‘ فرمایا گیا ہے اور احادیث میں بہت سے الفاظ کی ممانعت اسی بناء پر وارد ہے ۔ اسلئے جس جگہ اس قسم کا الہام اور دعویٰ ہو جس کے مغلط اور مفسد کا احتمال ہوگا وہ غلط اور حرام سمجھا جائے گا یہی مرزا کے الہاموں اور دعووں کے حرام اور فاسد ہونے کی دلیل ہے-

۔لیکن چونکہ مرزا نے تفریق نہیں کی تو اس میں کوئی اور بھی تفریق نہیں کر سکتا ۔ اور مرزائیوں نے مرزا کے دعوے کو خود باطل اور تسلیم نہ کر کے خود کذب ثابت کر دیا ۔

لیکن اس کے علاوہ یہ نقطۂ اہم ہے کہ اگر لفظ "بروز" کے بڑھا دینے سے رسالت و نبوت کا دعویٰ جائز ہے اور بندہ وہی بن جاتا ہے جس میں وہ فنا ہوتا ہے تو اسی قید سے خدائی کے دعویٰ میں بھی اجازت چاہیے۔ لیکن اگر خدائی کا دعویٰ گوارا نہیں تو رسالت کا دعویٰ بھی گوارا نہیں ہو سکتا۔ ان کا اسلام بھی بروزی ،ظلی  سے اصلی نہیں، اسلام نہیں کفر ہے ہر چیز نقلی ہے-

(ماخوزبشکریہ مرتضیٰ مہر)[24] 

وما علینا الا البلاغ المبین

شرک کا انکار 
فَلَمۡ تَقۡتُلُوۡہُمۡ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَہُمۡ ۪ وَ مَا رَمَیۡتَ اِذۡ رَمَیۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی ۚ وَ لِیُبۡلِیَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡہُ بَلَآءً حَسَنًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۱۷﴾
سو تم نے انہیں قتل نہیں کیا لیکن اللہ تعالٰی نے ان کو قتل کیا ۔ اور آپ نے خاک کی مٹھی نہیں پھینکی بلکہ اللہ تعالٰی نے وہ پھینکی اور تاکہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے ان کی محنت کا خوب عوض دے بلاشبہ اللہ تعالٰی خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے ۔( قران سورہ انفال: 8:17)
یہ اشارہ ہے اس واقعہ کی طرف جو حافظ ابن کثیر نے علی بن طلحہ عن ابن عباس (رض) کی حسن سند سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن دونوں ہاتھ اٹھائے اور کہا : ” یا رب ! اگر یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر زمین میں تیری عبادت کبھی نہیں ہوگی۔ “ تو جبریل (علیہ السلام) نے کہا : ” آپ مٹی کی ایک مٹھی لیں اور ان کے چہروں پر پھینکیں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مٹی کی ایک مٹھی پکڑی اور ان کے چہروں کی طرف پھینکی تو جو بھی مشرک تھا اس کی آنکھوں، نتھنوں اور منہ میں اس مٹھی کا کچھ حصہ جا پہنچا تو وہ پیٹھ دے کر بھاگ گئے۔ گویا مٹی پھینکی آپ نے لیکن اس کو نشانے تک اللہ نے پہنچایا، ابتدائی کام پھینکنا آپ کا تھا اور انتہا نشانے پر لگانا اللہ کا فعل تھا۔ ویسے تو ہر کام میں فاعل حقیقی اللہ ہی ہے ‘ ہم جو کام بھی کرتے ہیں وہ اللہ ہی کی مشیت سے ممکن ہوتا ہے ‘ اور جس شے کے اندر جو بھی تاثیر ہے وہ بھی اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ عام حالات کے لیے بھی اگرچہ یہی قاعدہ ہے (لَا فَاعِلَ فِی الْحَقِیْقَۃِ وَلَا مُؤَثِّرَ الاَّ اللّٰہ ) لیکن یہ تو مخصوص حالات تھے جن میں اللہ کی خصوصی مدد آئی تھی۔ اس لیے فرمایا گیا کہ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم نے انھیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انھیں قتل کیا، کیونکہ نہ تمہاری تعداد زیادہ تھی اور نہ تمہارے پاس اتنا سروسامان تھا کہ تم کافروں کے ہر طرح سے مسلح اور عظیم لشکر کو شکست دے سکتے۔ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” یہ اس لیے فرمایا کہ مسلمان یہ سمجھیں کہ فتح ہماری قوت سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہے، لہٰذا ان کو چاہیے کہ کسی بات میں اپنا دخل نہ دیا کریں۔ (موضح) (وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ ) یعنی وہ مٹھی جو آپ نے پھینکی، درحقیقت آپ نے نہیں پھینکی، کیونکہ اگر وہ آپ کی پھینکی ہوئی ہوتی تو اتنی دور ہی جاسکتی جتنی ایک آدمی کے پھینکنے سے جاسکتی ہے، اس کو اتنا بڑھانا اور ٹھیک نشانے پر پہنچانا کہ ہر مشرک کی آنکھ میں پہنچ جائے صرف اللہ تعالیٰ کا کام تھا۔

وحدت الوجود کا انکار 

اگر درحقیقت خود آپ ہی اللہ تعالیٰ تھے تو دونوں فعل آپ کے ہوئے، آپ سے ایک فعل (نشانے پر لگانے) کی نفی کیوں کی گئی؟ بعض لوگ ” وَمَا رَمَيْتَ “ سے ثابت کرتے ہیں کہ درحقیقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود ہی پروردگار عالم تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے پھینکنے کو اپنا پھینکنا قرار دیا، مگر اس صورت میں تو لازم آئے گا کہ ” وَلٰكِنَّ اللّٰهَ قَتَلَهُمْ “ سے بدری مسلمان بھی خود اللہ تعالیٰ ہی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے کفار کے قتل کرنے کو اپنا کام قرار دیا ہے۔ مگر یہ نہایت کفریہ بات ہے جس سے دین اسلام کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے۔ وہ صحابہ کرام (رض) کچھ بدر ہی میں شہید ہوئے، کچھ بعد میں فوت یا شہید ہوئے، خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زہر کے اثر سے وفات پائی اور اللہ تعالیٰ تو ہمیشہ زندہ حی و قیوم ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی ہستی تو ایک ہی ہے، فرمایا : (قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ) ان لوگوں کا رب عجیب ہے، جو ایک نہیں بلکہ بڑی تعداد میں ہے اور وہ شہید ہوتا اور مرتا بھی ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ ہندوؤں کی طرح ہر چیز کو رب مانتے ہیں اور اسے وحدت الوجود کہتے ہیں۔ جس کا نتیجہ قرآن و حدیث کے احکام کا خاتمہ اور اسلام و کفر اور جنت و دوزخ سب کے وجود کا انکار ہے۔ [ نَعُوْذُ باللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ ] وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِيْنَ مِنْهُ بَلَاۗءً حَسَـنًا : ” لِيُبْلِيَ “ یہ ” بَلَاءٌ“ سے مشتق ہے، از باب افعال، آزمانا، جو سختی اور مصیبت کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور نعمت عطا فرما کر بھی، اس لیے ” بَلَاءٌ“ کا معنی مصیبت بھی ہے اور انعام بھی۔ یہاں مراد انعام یا احسان اور عطا کے ساتھ آزمانا ہے۔ یعنی باوجود یہ کہ مسلمانوں کا سامان اور لشکر کافروں کے مقابلے میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں فتح دی، تاکہ وہ اس نعمت کو پہچانیں اور اس کا شکر بجا لائیں-

حلول کا غیر اسلامی نظریہ  اور احسان 

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کی اکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اورکوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے (یعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہیں جیسے نماز ، روزہ، حج ، زکوٰۃ ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کرکے مجھ سے اتنا نزدیک ہوجاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں ۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے ۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتاہے۔ [صحیح بخاری حدیث نمبر: 6502] [یہ حدیث صحیح بخاری کے علاوہ [صحيح ابن حبان:348]، [السنن الكبريٰ للبيهقي:346/3،219/10]، [حلية الاولياء:5،4/1]، [شرح السنة للبغوي:19/5ح 1248، وقال: هذا حديث صحيح] اور [الصححيه للالباني:1640] میں موجود ہے۔]

شرع-1:موسوعة القرآن و حدیث 

اس حدیث میں سماعت، بصارت، ہاتھ اور پاؤں بننے سے دو چیزیں مراد ہیں:

➊ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی حاجات پوری فرماتا ہے۔

➋ بندے کی آنکھ، کان، ہاتھ اور پاؤں وہی کام کرتے ہیں جو اللہ کو محبوب ہیں۔ دیکھئے: [شرح السنه:ج5، ص20]

اس حدیث سے حلولیت کا عقیدہ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ:

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور دیتا ہوں۔“

اس سے ثابت ہوا کہ اللہ علیحدہ ہے اور بندہ علیحدہ ہے، دونوں ایک نہیں ہیں نیز دوسرے قطعی دلائل سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔

انور شاہ کشمیری دیوبندی کا علمائے شریعت پر رد کرنا اور اس حدیث سے حلولیوں کا فناء فی اللہ کا عقیدہ کشید کرنا ديكھئے: [فيض الباري:ج4،ص428] واضح طور پر غلط ہے۔ اگر بندہ خود خدا ہو جاتا ہے تو پھر ”مجھ سے سوال کرے اور مجھ سے پناہ مانگے“ کیا معنی رکھتا ہے؟

تنبيه 1: روایت مذکورہ بالاِ خالد بن مخلد کی وجہ سے حسن لذاتہ (اور شواہد کے ساتھ) صحیح لغیرہ ہے۔ «والحمدلله»

تنبيه 2: منکر حدیث معترض نے لکھا ہے:

شرع-2: شیخ  محمد صالح المنجد (اسلام سوال و جواب )

حدیث کے اس جزء کا معنی یہ ہے کہ بندہ جب فرائض سے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر اس کے بعد نوافل کے ساتھ بھی قرب چاہتا ہے تو اللہ سبحانہ وتعالی اسے اپنا مقرب بنا کر اسے ایمان کے درجہ سے احسان کے درجہ پر فائز کر دیتا ہے تو بندہ اس طرح ہوتا ہے جس طرح کہ وہ اللہ تعالی کو دیکھ رہا ہو ۔ جس کی بنا پر اس کا دل اللہ تعالی کی محبت ، معرفت ، تعظیم ۔ اس کے خوف وڈر اور عظمت وجلال سے بھر جاتا ہے ۔

حب دل اس سے بھر جائے تو اللہ تعالی کے علاوہ ہر چیز سے تعلق منقطع ہو جاتا اور بندے کا اس کی خواہشات سے تعلق باقی نہیں رہتا اور نہ ہی وہ اپنے ارادے سے کچھ کرتا ہے بلکہ وہ اپنے مولا اور رب کی چاہت پر عمل کرتا اور اس کی زبان سے اللہ تعالی کے ذکر کے علاوہ کچھ نکلتا ہی نہیں اس کی حرکات وسکنات اللہ تعالی کے حکم سے ہوتی ہیں اور اس کا بولنا اور سننا اور نظر کے ساتھ دیکھنا یہ سب کچھ اللہ تعالی کی توفیق سے ہے ۔

تو پھر بندہ وہ کچھ سنتا ہے جو کہ اس کے رب اور مولا کو پسند ہے اور دیکھتا وہ اس چیز کو جو اللہ کو راضی کرے اور ہاتھ سے وہ پکڑتا اور پاؤں سے اس طرف جاتا ہے جس میں اس کے رب اور مولا کی رضا پنہاں ہوتی ہو ۔

اور اس حدیث کا یہ معنی نہیں کہ اللہ تعالی ہی اس کا ہاتھ اور پاؤں اور اس کی آنکھ و کان ہے - اللہ تعالی بلند اللہ سبحانہ وتعالی اپنے عرش پر مستوی اور اپنی ساری مخلوق سے بلند وبالا ہے لیکن اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی اس کے دیکھنے وسننے اور پکڑنے اور چلنے میں اسے یہ توفیق دیتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کے پسندیدہ کاموں کے علاوہ کچھ نہیں کرتا۔

اسی لۓ دوسری روایت میں اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

( تو وہ میرے ساتھ سنتا اور دیکھتا اور پکڑتا اور چلتا ہے ) یعنی اللہ عزوجل اسے اس کے اعمال واقوال اور سمع وبصر میں توفیق دے دیتا ہے ۔

اس حدیث کا معنی اہل سنت والجماعت کے ہاں یہی ہے جو مندرجہ بالا سطور میں بیان کیا گیا ہے تو اس توفیق کے ساتھ اللہ تعالی اس کی دعا کو قبول فرماتا اور اگر وہ سوال کرتا ہے تو اسے عطا فرماتا اور مدد طلب کرنے پر اس کی مدد فرماتا اور جب پناہ طلب کرتا ہے تو اسے پناہ دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ا ھـ ( اس عبارت میں اختصار کیا گیا ہے تفصیل کے لۓ ) دیکھۓ کتاب :جامع العلوم الحکم (2 / 347), اور شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا فتوی ( نور علی الدرب ) کیسٹ نمبر 10

جو بھی اس معنی کے علاوہ عرب کی بھی مخالفت کی اور اس طرح کے عبارات سے جو کچھ سمجھا جاتا ہے اس کی بھی مخالفت کرتا ہے ۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا قول ہے :

( آپ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے بندے اور معبود اور تقرب حاصل کرنے والے اور جس کا تقرب حاصل کیا جا رہا ہے محب اور محبوب اور اسی طرح سائل اور مسئول حاجت مند اور حاجت پوری کرنے والے پناہ طلب کرنے والے اور پناہ دینے والے کا ذکر کیا ہے ۔

حدیث تو دو مختلف اور جدا چیزوں پر دلالت کرتی ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے سے جدا ہے تو جب ایسا ہی ہے تو اللہ تعالی کے اس فرمان کہ ( میں اس کا کان اور آنکھ پاؤں ہوتا ہوں ) کا ظاہر یہ نہیں کہ خالق مخلوق کا جزء یا وصف ہو اللہ تعالی اس سے بلند و بالا ہے ۔

بلکہ اس کا ظاہر اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی اس بندے کی سمع وبصر اور پکڑ درست کر دیتا ہے تو اس کی سمع میں اللہ تعالی کے لۓ اخلاص پیدا ہو جاتا ہے اور اسی سے استعانت طلب کرتا اور اسی کی اتباع کرتا اور اسی کی شریعت پر عمل کرتا ہے اور اس طرح اس کی بصر اور پکڑ اور چال میں بھی اخلاص پیدا ہو جاتا ہے (اھـمجموع فتاوی ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی ( 1/ 145) واللہ اعلم

صوفیاء کی تاویلیں

ماخوز از "شریعت وطریقت"کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ

وحی کی کیفیت اور کشف والہام

ہوتا یہ ہے کہ انبیا ءعلیہم الصلوۃ والسلام نے بھی ساری شریعت کشف وا لہام سے ، وحی سے حاصل فرمائی - وحی کی کیفیت بھی صرف نبی پہ ظاہر ہوتی ہے کوئی دوسرا جو پاس بیٹھا ہوا اور وحی نازل ہو رہی ہوتو دوسرے کو سمجھ نہیں آتی۔اس طرح کشف و الہام بھی صاحب کشف والہام پہ وارد ہوتاہے کوئی ساتھ دوسرا بیٹھا ہواسے سمجھ نہیں آتی۔

لیکن نبی کریم ﷺ پر جو وارد ہوتااس میں دوباتیں یقینی تھیں۔

اس میں ایک تو حضور ﷺ پہ جوکچھ واردہوتاوہ حق ہوتا تھا۔اس میں شیطان مداخلت نہیں کرسکتا تھا۔

دوسری بات یہ حق ہوتی تھی کہ جو کچھ حضور پہ وحی یا کشف سے ‘ یا نبی کا خواب بھی وحی الہیٰ ہوتاہے ‘ خواب سے اگر کوئی بات نبی پہ وارد ہوتی ہے تو وہ بھی وحی ہوتی ہے اور وہ بھی برحق ہوتی ہے نہ اس میں شیطان مداخلت کرتاہے اورنہ اللہ کے نبی کوسمجھنے میں غلطی لگتی ہے۔

صوفیا ء اور انبیا ء کے کشف اور مجاہدہ میں فرق :

جو کشف اور مجاہدہ صوفیاء کو ہوتاہے وہ بھی وہی ہوتاہے جو نبی کو ہوتا ہے۔ اس لئے کہ باتباع نبی اور نبی کی اطاعت میں فنا ہونے سے وہ برکات نصیب ہوتی ہیں۔ لیکن یہاں بہت بڑا فرق ہے۔ صوفی کے مشاہدے یا اس کے القایا کشف میں شطان بھی مداخلت کرسکتاہے۔

یہ دونوں خطرات ولی کے ساتھ موجود ہیں جو نبی کے ساتھ نہیں ہیں، لہٰذاہر ولیٰ االلہ کا کشف ومشاہدہ محتاج ہے نبی کے ارشادات عالیہ کا۔ اگر حضور ﷺ کے احکام کی حدود کے اندر ہے ،اس کے مطابق ہے تو درست ہے اگر متصادم ہے تو باطل ہے۔

دوسری بات یہ ہوتی ہے کہ جو کشف نبی کو ہوتوہے ،جوا لہام نبی ہوتا ہے ،جو وحی نبی پہ آتی ہے، جو خواب اللہ کا نبی دیکھتا ہے ساری امت اس کی مکلف ہوتی ہے، پوری امت کو وہ ماننا پڑتا ہے۔ مگر جو مشاہدہ ولی کو ہوتا ہے کو ئی دوسرا بندہ اس کا مکلف نہیں۔ 

صاحب مشاہدہ اگر اس کا مشاہدہ شرعی حدود کے اندر ہے تو اس پر عمل کرنے کا پابند نہیں ہے کہ فلاں کو یہ کشف ہوااس لئے میں یہ عمل کروں۔

یہ شان صرف انبیاءعلیہم الصلوۃوالسلام کی ہے تو لہذا کو ئی بھی نظریہ ہو یا اسے آپ اصطلاح کہیں یا کشف کہیں یا مشاہدہ کہیں تو بنیاد شریعت مطہرہ ہے اور ارشادات نبوی ﷺاور قرآن اور حدیث ہے اور سنت ہے اس کے اندر اندر اس کی تشریحات اس کی تفصیلات علماء کو اللہ کریم علم کے راستے بتا دیتا ہے ،علم کے ذریعے سے سمجھادیتا ہے اور بڑی بڑی بحثیں علماء حضرات نے فرمائی ہیں اور علما ہی کو مشاہدات بھی نصیب ہوتے ہیں۔ جو اس طرف آجائے اس اللہ کریم کشف اور مشاہدے سے سرفراز فرماتے ہیں ان کے کشف سے کوئی نیا حکم جاری نہیں ہو سکتا اور شرعی حدود سے باہر بھی نہیں ہو سکتیں-

اسلام تو ارشادات نبویﷺ کا نام ہے ، اسلام تو اعمال نبوی کا نام ہے ،اسلام تواخلاق نبوی ﷺکا نام ہے۔جو حضو ر ﷺ نے سکھادیا وہ اسلام ہے۔(بحوالہ ماہنامہ المرشد فروری اور مارچ 2007)

https://knooz-e-dil.blogspot.com/2015/08/blog-post.html

مزید تفصیل: حدیث ِجبرائیل اُمّ السنۃ :  https://bit.ly/Hadis-Jibril

 References/Links

[1]  (خزائن ج 18ص208 ایک غلطی کا ازالہ)

[3] (ملفوظات ج 5ص5اولڈ ایڈیشن)

[4] ‘(اربعین نمبر3ص25،خزائن 17ص413)

[5] (آئینہ کمالات ص564،خزائن 5ص564)

[6] (حقیقت الوحی ص 54،خزائن ج 22ص158)

[7] ‘(اربعین نمبر4ص19ص خزائن 17ص452)

[8] (سرورق آخیر ریویو ج 5نمبر3،مارچ 1906 ؁ء)

[9] ‘‘(خطبہ الہامیہ ص 55-56،خزائن 

[10] ‘‘(تذکرہ الشہادتین ص 3خزائن ج 20ص5)

[11] ‘‘(حقیقت الوحی ص 105خزائن ج 22ص108)

[12] (حقیقت الوحی ص 74خزائن ج 22ص77)

[13] ‘‘(تذکرہ ص 704)

[14] (تذکرہ ص 604)

[15] ‘(البشریٰ اوّل ج 56تذکرہ ص 437)

[16]  (کتاب البریہ ص 84-83خزائن 13ص101-102تذکرہ ص311)

[17] 33:40

[18] (ایک غلطی کا ازالہ ص 8خزائن ج 18ص312)

[20] (سیرت المہدی حصہ سوئم روایت نمبر :642)

[21] (ملفوظات جلد 5ص174اوّلڈ ایڈیشن)

[22]  (ملفوظات جلد 5ص390اوّلڈ ایڈیشن)

[23] ۔(کلمتہ الفصل،ص158)

☆☆☆ 🌹🌹🌹📖🕋🕌🌹🌹🌹☆☆☆
رساله تجديد الاسلام
وَمَا عَلَيۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ (القرآن  36:17)
اور ہمارے ذمہ صرف واضح پیغام پہنچا دینا ہے
   Our mission is only to convey the message clearly

پوسٹ لسٹ