رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

حب رسول اللہ ﷺ - مبالغہ آرائی، غلو

بعض لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے اظہار میں اور آپ کے اوصاف بیان کرنے میں بے اعتدالی کا شکار ہوجاتے ہيں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایسی صفات تک کا ذکر کرجاتے ہیں جو صرف اللہ تعالی کے لیے خاص ہیں- اور قرآن کریم میں اس چيز کو 'غلو" کہا گیا ہے- یہود و نصاری کی گمراہی کا اہم سبب مبالغہ آرائی اور غلو تھا- الله تعالی کا فرمان ہے:

"کہو، اے اہل کتاب! اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور اُ ن لوگوں کے تخیلات کی پیروی نہ کرو جو تم سے پہلے خود گمراہ ہوئے اور بہتوں کو گمراہ کیا، اور "سَوَا٫ السّبیل" سے بھٹک گئے- بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی اُن پر داؤدؑ اور عیسیٰ ابن مریمؑ کی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ وہ سرکش ہوگئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے- اُنہوں نے ایک دوسرے کو برے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا، برا طرز عمل تھا جو اُنہوں نے اختیار کیا (79 /5:77)

رسول اللہ ﷺ  ںے سختی سے  یہود و نصاری کے تقش قدم پر چلنے سے منع فرمایا-

ابن عباس ؓ نے  عمر ؓ کو منبر پر یہ کہتے سنا تھا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا"

"مجھے میرے مرتبے سے زیادہ نہ بڑھاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم (علیہما السلام) کو نصاریٰ نے ان کے رتبے سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے یہی کہا کرو (میرے متعلق) کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔"[البخاری 3445]

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”غلو کرنے والے ہلاک ہو گئے، آپ ﷺ نے یہ تین بار فرمایا“۔  [صحیح مسلم ]

" محمدؐ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں، اُن سے پہلے اور رسول بھی گزر چکے ہیں، پھر کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ یاد رکھو! جو الٹا پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا، البتہ جو اللہ کے شکر گزار بندے بن کر رہیں گے انہیں وہ اس کی جزا دے گا"(قرآن 3:144)

ایک مومن ہر اس چيز سے محبت کرتا ہے جو اللہ تعالی کو مجبوب ہو اور ہر وہ چيز مومن کو محبوب ہوگی جو اللہ کی قربت کا باعث بنے- محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے آخری رسول ہیں- امام النبیاء اور خلیل اللہ ہیں، اس لیے ہمیں سب سے زیادہ محبت نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہونی چاہیے، اللہ تعالی فرماتا ہے:

" کہ دو اگر تمہارے باپ، بیٹے، بھائی، بیویاں، خاندان کے آدمی، مال جو تم کماتے ہو، تجارت جس کے بند ہونے سے ڈرتے ہو اور مکانات جن کو پسند کرتے ہو تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز ہوں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم (یعنی عذاب) بھیجے اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا-" (التوبہ: 9:24)

اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے اولاد اور اولاد سے زیادہ پیارا نہ ہوجاؤں- (صحیح بخاری)

آپ نے یہ بھی فرمایا:

"کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے اہل، مال، اور سب لوگوں سے زیادہ پیارا نہ ہوجاؤں" (صحیح مسلم)

اہل ایمان کے لیے یہ خشخبری ہے کہ جو شخص دنیا میں ایمان کے حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرے گا قیامت کے دن وہ آپ ہی کے ساتھ ہوگا-

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں غلو درست نہیں- خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس قول میں اسکی ممانعت فرمائی ہے: تم لوگ میری شان میں اس طرح مبالغہ آرائی مت کرو، جس طرح کے عیسائیوں نے حضرت عیسی ابن مريم کی شان میں مبالغہ آرائی کی ہے۔

حبّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تقاضا:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے کا تقاضا ہے کہ آپ کے احکام کی تعمیل اور آپ کی منع کردہ باتوں سے اجتناب کیا جائے، آپ کی یہ شان ہے- اس لیے آپ کی محبت اور اتباع شرط ایمان ہے فرمایا:

" کہدو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تمہیں دوست رکھے گا"- ( آل عمران: 3:31)

توحید اور  کفر و شرک 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو کفر و شرک کی تاریکیوں سے نکال کر توحید کی طرف بلایا جائے- غیر اللہ کی بندگی سے لوگوں کو ہٹا کر اللہ کی بندگی پر لگایا جائے- مگر کچھ  لوگ کفر و شرک کو توحید جانتے ہیں- اور جو توحید پر زور دے اسے گستاخ رسول کہتے ہیں- یہ سراسر ظلم ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد بعثت کو پہچان کر اس کے مطابق عمل کرنے والوں کو گستاخ رسول کہا جائے اور محبت کے دعوے کو ڈھال بنا کر شرک کو عین اسلام ثابت کیا جائے-

حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" میری تعریف میں اس طرح مبالغہ نہ کرنا جس طرح نصرانیوں نے ابن مریم علیہ السلام کی تعریف میں مبالغہ آرائی کی- میں تو اللہ کا بندہ ہوں تم کہو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول"- (بخاری)

لہذا آپ  رسول اللہ ﷺ  کی سچی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ توحید سے محبت کی جائے اور اس طرح کی جائے جس طرح اس مثالی سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی جسے اللہ تعالی نے رسالت کے لیے چنا- آج بہت سے عشق رسول کے دعویداروں نے ایسی تحریریں سپرد قلم کر رکھی ہیں جن میں بظاہر عشق رسول کے جذبات ابھار کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے محبوب شئے توحید کی شدید مخالفت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی ناپسندیدہ شے شرک کی وکالت کرتے ہوئے اسی کو اصل دین ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں-

قبر پرستی 

 محمدؐ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں، اُن سے پہلے اور رسول بھی گزر چکے ہیں، پھر کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ یاد رکھو! جو الٹا پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا، البتہ جو اللہ کے شکر گزار بندے بن کر رہیں گے انہیں وہ اس کی جزا دے گا (3:144)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ '' اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنا کہ لوگ اس کو پوجنے لگیں۔ پھر فرمایا: اس قوم پر اللہ کا غضب نازل ہوا جس نے اپنے انبیا کی قبروں کو مساجد بنا لیا۔'' (مسند أحمد)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ میری قبر کو عید (میلا گاہ) نہ بننے دینا (کہ سب لوگ وہاں اکٹھا ہوں)۔ “ 

[ ابوداؤد، كتاب المناسك : باب زيارة القبور : 2042 ]

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( اللہ تعالی یہود و نصاری پر لعنت فر مائے، کہ انہوں نے اپنے انبیائے کرام کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا) *عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: آپ انکے عمل سے اپنی امت کو خبر دار فرما رہے تھے، مزید کہتی ہیں کہ: اگر یہی خدشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے ساتھ نہ ہوتا تو آپ کی قبر مبارک سب کے سامنے عیاں ہوتی"*

(صحيح البخاري 1330 ، صحيح مسلم 529)

قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حیرہ آیا، تو دیکھا کہ لوگ اپنے سردار کو سجدہ کر رہے ہیں تو میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں سجدہ کیا جائے، میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ سے کہا کہ میں حیرہ شہر آیا تو میں نے وہاں لوگوں کو اپنے سردار کے لیے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تو اللہ کے رسول! آپ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بتاؤ کیا *اگر تم میری قبر کے پاس سے گزرو گے، تو اسے بھی سجدہ کرو گے؟ وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ایسا نہ کرنا*، اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں اس وجہ سے کہ شوہروں کا حق اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے ۔ ( ابو داؤد 2140)

ابوواقد لیثی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین کے لیے نکلے تو آپ کا گزر مشرکین کے ایک درخت* کے پاس سے ہوا جسے *ذات انواط* کہا جاتا تھا، *اس درخت پر مشرکین اپنے ہتھیار لٹکاتے تھے، *صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط مقرر فرما دیجئیے جیسا کہ مشرکین کا ایک ذات انواط ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللہ! یہ تو وہی بات ہے جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہی تھی کہ ہمارے لیے بھی معبود بنا دیجئیے جیسا ان مشرکوں کے لیے ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم گزشتہ امتوں کی پوری پوری پیروی کرو گے“(سنن الترمذي 2180)

ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

(یقینا لوگوں میں سب سے برے اور شریر وہ لوگ ہیں جنہیں زندگي کی حالت میں ہی قیامت آدبوچے گی اور وہ لوگ بھی جنہوں نے قبروں کومسجدیں بنا لیا) اسے مسند احمد 1 / 405/ صحیح بخاری کتاب الفتن باب ظہورالفتن حدیث 7067)

مردوں سے کلام 

امام ابو حنیفہ سے روایت کیا جاتا ہے کہ امام ابوحنیفہ نے ایک شخص کو کچھ نیک لوگوں کی قبروں کے پاس آکر سلام کر کے یہ کہتے سنا کہ اے قبر والو! تم کو کچھ خبر بھی ہے اور کیا تم پر اس کا کچھ اثر بھی ہے کہ میں تمہارے پاس مہینوں سے آرہا ہوں اور تم سے میرا سوال صرف یہ ہے کہ میرے حق میں دعا کر دو - بتاؤ! تمہیں میرے حال کی کچھ خبر بھی ہے یا تم بلکل غافل ہو - ابو حنیفہ نے اس کا یہ قول سن کر اس سے دریافت کیا کہ کیا قبر والوں نے کچھ جواب دیا؟ وہ بولا نہیں دیا - امام ابو حنیفہ نے یہ سن کر کہا کہ تجھ پر پھٹکار - تیرے دونوں ہاتھ گرد آلود ہو جائیں تو ایسے جسموں سے کلام کرتا ہے جو نہ جواب ہی دے سکتے ہیں اور وہ نہ کسی چیز کے مالک ہی ہیں اور نہ آواز ہی سن سکتے ہیں - پھر امام ابو حنیفہ نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی کہ:

"اور زندے اور مردے برابر نہیں ہو سکتے اللہ تعالٰی جس کو چاہتا ہے سنا دیتا ہے اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں" ۔ (سورة الفاطر:35:22)

 یہاں زندہ سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے دل اور ضمیر زندہ ہیں۔ جو بدی کو بدی ہی سمجھتے ہیں اور نیکی کی راہ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ پھر اس پر عمل پیرا بھی ہوتے ہیں۔ اور مردہ سے مردہ دل لوگ یا کافر ہیں۔ ان کے ضمیر اور ان کے دل اس قدر مرچکے ہیں کہ ہدایت کی بات ان کے دل تک پہنچتی ہی نہیں۔ نہ وہ اسے سننا گوارا کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آپ کا ایسے لوگوں کو نصیحت کرنا بےسود ہے۔

سماع موتی کا رد 

 ربط مضمون کے لحاظ سے یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ قبروں میں پڑے لوگوں سے مراد یہی مردہ دل کافر لوگ ہیں مگر الفاظ کے ظاہری معنوں کا اعتبار کرنا زیادہ صحیح ہوگا۔ یعنی جو لوگ قبروں میں جاچکے ہیں انہیں اللہ تو سنا سکتا ہے آپ نہیں سنا سکتے۔ کیونکہ قبروں میں پڑے ہوئے لوگ عالم برزخ میں جا پہنچے ہیں۔ عالم دنیا میں نہیں ہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک سویا ہوا شخص اپنے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کی گفتگو نہیں سن سکتا۔ اس لیے عالم خواب الگ عالم ہے۔ اور عالم بیداری الگ عالم ہے۔ حالانکہ یہ دونوں عالم، عالم دنیا سے ہی متعلق ہیں مگر عالم برزخ دنیا سے متعلق نہیں بالکل الگ عالم ہے۔ 

[شفاء الصدور للنيلوي ص ٤٤،احكام الموتي والقبور ص ٩٢،غرائب فی تحقیق المذاہب و تفہیم المسائل ، صفحہ ٩١ صفحہ ١٧٢ ، محمد بشیر الدین قنوجی بحوالة جهود العلماء الحنفية ص ٨٦٨]

عالم برزخ 

برزخ دو چیزوں کے درمیان روک اور آڑ کو کہتے ہیں۔ اصطلاح شریعت میں اس سے مراد موت سے قیامت تک کا درمیانی عرصہ ہے۔ مرنے کے بعد تمام جن و انس حسب مراتب برزخ میں رہیں گے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

ترجمہ : ’’یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آ جائے گی (تو) وہ کہے گا اے میرے رب! مجھے (دنیا میں) واپس بھیج دے۔ تاکہ میں اس (دنیا) میں کچھ نیک عمل کر لوں جسے میں چھوڑ آیا ہوں ہرگز نہیں، یہ وہ بات ہے جسے وہ (بطور حسرت) کہہ رہا ہو گا اور ان کے آگے ایک دن تک ایک پردہ (حائل) ہے (جس دن) وہ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے‘‘[المومنون، 23 : 98 - 100]

عالم برزخ کا کچھ تعلق دنیا کے ساتھ ہوتا ہے اور کچھ آخرت کے ساتھ۔ دنیا کے ساتھ تعلق اس طرح ہے جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے عزیز و اقارب میت کے ثواب کیلئے صدقہ و خیرات اور ذکر و اذکار کرتے ہیں۔ اس سے میت کو ثواب پہنچتا ہے اور راحت و آرام ملتا ہے۔ آخرت کے ساتھ تعلق اس طرح ہے کہ جو عذاب یا آرام برزخ میں شروع ہوتا ہے۔ وہ آخرت میں ملنے والے عذاب یا آرام کا ہی حصہ ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

ترجمہ : ’’(اور عالم برزخ میں بھی) ان لوگوں کو دوزخ کی آگ کے سامنے صبح و شام لایا جاتا ہے۔‘‘[غافر،40:46]

لہذا قبروں میں پڑے ہوئے لوگ بدرجہ اولیٰ دنیا والوں کی بات براہ راست سن نہیں سکتے۔ یہ آیت سماع موتی کا کلیتاً رد ثابت کرتی ہے۔ رہا قلیب بدر کا واقعہ جو احادیث صحیحہ میں مذکور ہے۔ کہ جنگ بدر میں ستر مقتول کافروں کی لاشیں بدر کے کنوئیں میں پھینک دی گئیں۔ تو تیسرے دن رسول اللہ نے اس کنوئیں کے کنارے کھڑے ہو کر فرمایا : تمہارے مالک نے جو سچا وعدہ تم سے کیا تھا وہ تم نے پالیا ؟ لوگوں نے عرض کیا : یارسول اللہ! کیا آپ مردوں کو سناتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : تم کچھ ان سے زیادہ نہیں سنتے، البتہ وہ جواب نہیں دے سکتے (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب قتل ابی جھل۔۔ بخاری کتاب الجنائز۔ باب ماجاء فی عذاب القبر) اور سیدنا قتادہ نے اس حدیث کی تفسیر میں کہا کہ اللہ نے اس وقت ان مردوں کو جلا دیا تھا ان کی زجز و توبیخ، ذلیل کرنے، بدلہ لینے اور شرمندہ کرنے کے لیے (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب قتل ابی جھل) گویا یہ ایک معجزہ تھا اور فی الحقیقت سنانے والا اللہ تعالیٰ ہی تھا۔ اور یہ اس آیت کا مفہوم ہے۔[ مولانا عبدلرحمان کیلانی]

"بیشک آپ نہ مُردوں کو سنا سکتے ہیں اور نہ بہروں کو اپنی پکار سنا سکتے ہیں، جبکہ وه پیٹھ پھیرے روگرداں جا رہے ہوں اور نہ آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے ہٹا کر رہنمائی کر سکتے ہیں آپ تو صرف انہیں سنا سکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان ﻻئے ہیں پھر وه فرمانبردار ہوجاتے ہیں (27:80,81) 

روحانی موت اور روحانی بہرے پن کو جسمانی موت اور جسمانی بہرے پن کے ساتھ تشبیہ سے ظاہر ہے کہ مردوں کو کوئی بات سنائی نہیں جاسکتی۔ یہ نفی عام ہے، اس سے صرف وہ مواقع مستثنیٰ ہیں جو دلیل (کتاب و سنت) سے ثابت ہوں اور وہ صرف دو ہیں، ان کے علاوہ کسی آیت یا صحیح حدیث سے مردوں کا سننا ثابت نہیں۔ ایک موقع وہ ہے جو انس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ترجمہ : ” بندہ جب قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس سے رخ پھیرلیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی واپس چل دیتے ہیں، یہاں تک کہ وہ ان کے جوتوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے، تو اس کے پاس دو فرشتے آجاتے ہیں، اسے بٹھا دیتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں : ” اس شخص یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں تو کیا کہتا ہے ؟ “ وہ جواب دیتا ہے : ” میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ “ تو اس سے کہا جاتا ہے : ” جہنم میں اپنے ٹھکانے کی طرف دیکھ، اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں تیرے لیے ایک ٹھکانا جنت میں بنادیا ہے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” پھر اس بندۂ مومن کو جنت و جہنم دونوں دکھائی جاتی ہیں۔ اور رہا کافر یا منافق تو وہ (اس سوال کے جواب میں) کہتا ہے : ” مجھے نہیں معلوم، میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے سنا تھا، وہی میں بھی کہتا رہا۔ “ تو اسے کہا جاتا ہے : ” نہ تو نے کچھ سمجھا اور نہ (اچھے لوگوں کی) پیروی کی۔ “ اس کے بعد ہتھوڑے کے ساتھ اس کے دونوں کانوں کے درمیان (یعنی سر پر) بڑی زور سے مارا جاتا ہے اور وہ اتنے بھیانک طریقے سے چیختا ہے کہ انسان اور جن کے سوا اردگرد کی تمام مخلوق اس چیخ چیخ پکار کو سنتی ہے۔ [ بخاري، الجنائز، باب المیت یسمع ۔۔ : ١٣٣٨]

دوسرا موقع ابو طلحہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن قریش کے سرداروں میں سے چوبیس آدمیوں کے متعلق حکم دیا تو وہ بدر کے کنوؤں میں سے ایک خبیث گندگی والے کنویں میں پھینک دیے گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی قوم پر فتح پاتے تو میدان میں تین دن ٹھہرتے تھے۔ جب بدر میں تیسرا دن ہوا تو آپ نے اپنی اونٹنی کے متعلق حکم دیا تو اس پر اس کا پالان کسا گیا، پھر آپ چل پڑے اور آپ کے پیچھے آپ کے اصحاب بھی چل پڑے اور کہنے لگے، ہمارا خیال یہی ہے کہ آپ اپنے کسی کام کے لیے جا رہے ہیں، یہاں تک کہ آپ اس کنویں کے کنارے پر کھڑے ہوگئے اور انھیں ان کے اور ان کے باپوں کے نام لے لے کر پکارنے لگے :ترجمہ : ” اے فلاں بن فلاں ! اور اے فلاں بن فلاں ! کیا تمہیں پسند ہے کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی، کیونکہ ہم نے تو جو ہمارے رب نے ہم سے وعدہ کیا اسے حق پایا، تو کیا تم نے بھی جو تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا، حق پایا ؟ “ تو عمر (رض) نے کہا : ” یا رسول اللہ ! آپ ان جسموں سے کیا بات کرتے ہیں جن میں روحیں نہیں ہیں۔ “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے ! تم ان سے زیادہ وہ باتیں سننے والے نہیں جو میں انھیں کہہ رہا ہوں۔ “ [ بخاري، المغازي، باب قتل أبي جھل : ٣٩٧٦ ]

 ہمارا ایمان ہے کہ ان دونوں موقعوں پر مردے وہ بات سنتے ہیں جس کا حدیث میں ذکر ہے، ان کے سوا مردے زندوں کی کوئی بات نہیں سنتے، مگر ان دو احادیث کو بنیاد بنا کر بعض لوگوں نے عقیدہ بنا لیا کہ تمام مردے سنتے ہیں اور ہر بات ہر وقت سنتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ مردہ پرستی اور غیر اللہ کو پکارنے اور ان سے فریاد کرنے کی بنیاد یہی عقیدہ ہے کہ مردے سنتے ہیں، ورنہ اگر یقین ہو کہ وہ سنتے ہی نہیں تو پاگل ہی ہوگا جو انھیں پکارے گا۔ قرآن مجید میں مردوں کے نہ سننے کا مضمون متعدد جگہ بیان ہوا ہے۔ دیکھیے سورة روم (٥٢) اور فاطر (١٩ تا ٢٢) بلکہ مردوں کو خبر ہی نہیں کہ کوئی انھیں پکار رہا ہے۔ دیکھیے سورة نحل (٢٠، ٢١) ، فاطر (١٣، ١٤) اور احقاف (٤ تا ٦) اور قیامت سے پہلے فوت شدہ لوگ واپس بھی نہیں آتے۔ دیکھیے سورة یٰس (٣١) اور انبیاء (٩٥) عزیر (علیہ السلام) اور جن حضرات کا دنیا میں زندہ ہونا قرآن یا صحیح حدیث سے ثابت ہے، وہ اس سے مستثنیٰ ہیں۔ قبر پرستوں کے برعکس کچھ لوگوں نے ان دو مواقع پر بھی مردوں کے سننے سے انکار کردیا، پھر ان میں سے بعض نے تو صاف ان حدیثوں کا انکار کردیا، حالانکہ یہ صحیح بخاری کی احادیث ہیں جن کی صحت پر امت کا اتفاق ہے اور بعض نے ان کی ایسی لغو تاویلیں کیں جو انکار سے بھی بدتر ہیں، حالانکہ حق افراط و تفریط کے درمیان ہے۔ [مولانا عبدالسلام بھٹوی]

قبروں کو سجدہ گاہ بنانا 

سیّدنا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری بات یہ تھی:

‘وَاعْلَمُوا أَنَّ شِرَارَ النَّاسِ الَّذِینَ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَائِہِمْ مَسَاجِدَ’ .

”جان لو! بلاشبہ سب سے برے لوگ وہ ہیں،جنہوں نے اپنے انبیاء ِکرام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔”

(مسند الإمام أحمد : 196/1، وسندہ، حسنٌ)

سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

” اے اللہ! میری قبر کو بت نہ بنانا، اس قوم پراللہ کی لعنت ہو،جس نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ۔”(مسند الحمیدي : 1025، وسندہ، حسنٌ)

اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ برکوی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

”بت پرستی میں سب سے بڑا فتنہ قبر پرستوں کا ہے اور یہی بت پرستی کی بنیاد بنا، جیسا کہ سلف صالحین میں سے صحابہ کرام اور تابعین عظام نے فرمایا ہے۔ شیطان ایک ایسے آدمی کی قبر ان کے سامنے کرتا ہے، جس کی وہ تعظیم کرتے ہیں، پھر اُسے عبادت خانہ بنا دیتا ہے،بعد ازاں شیطان اپنے دوستوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالتا ہے کہ جو لوگ ان کی عبادت کرنے، ان کی قبر کو میلہ ،عرس گاہ اور عبادت خانہ بنانے سے روکتے ہیں،وہ ان کی گستاخی اور حق تلفی کرتے ہیں۔ اس پر جاہل لوگ ایسے (حق گو) لوگوں کو قتل کرنے، انہیں پریشان کرنے اور ان کو کافر قرار دینے کے درپے ہو جاتے ہیں-  واللہ اعلم

زیارتِ قبوکی اجازت ہے مگر شرعی طریقہ سے 

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’میں نے تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا تھا اب تم اُن کی زیارت کیا کرو کیونکہ وہ تمہیں موت کی یاد دلاتی ہے۔‘‘ [حاکم، المستدرک، 1 : 531، رقم : 1388][اس موضوع پر مزید 1. نسائي، السنن، کتاب الضحايا، باب الإذن في ذلک، 7 : 234، رقم : 4429، 2. حاکم، المستدرک، 1 : 532، رقم : 1391، 3. ابن حبان، الصحيح، 12 : 212، رقم : 5390، 4. أبو عوانة، المسند، 5 : 84، رقم : 7882، 5. بيهقي، السنن الکبري، 4 : 76، رقم : 6986]

زِیارتِ قبور کے حوالے سے احادیثِ مبارکہ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تین اہم سنن ثابت ہوتی ہیں :

1)زیارتِ قبور کو جانا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مستقل معمول تھا۔ 2) مؤمنوں اور مسلمانوں کے قبرستان میں جاکر اُنہیں سلام کرنا، اپنے لئے، اُن کے لئے اور پہلے گزرنے والوں کے لئے عافیت، رحمت اور مغفرت کی دعا۔ 3)اہلِ قبرستان کو مخاطب ہوکر اس بات کا اعادہ کرنا کہ آپ ہم سے پہلے قبور میں پہنچے ہیں، ہم بھی آپ کے پیچھے آنے والے ہیں۔

زیآرت قبور میں شرعی اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیئے جن کے  تحت توحید ، شرک ، جائز ناجائز اور حلال حرام میں حدِ فاصل رکھی گئی ہے اور غلو سے پرہیز کرتے ہونے قبور کو بت کی طرح پرستش کی جگہ نہ بنا لیں-

مسلمان یہود و نصاری کے گمراہی کے راستہ سے بچتے ہونے، رسول اللہ ﷺ سے محبت کا بہترین اظھار قرآن اور سنت  رسول اللہ ﷺ پر عمل پیرا ہونے سے کریں اور ان سے محبت واحترام مین غلو سے بچ کر رہیں- آمین  

 محمدؐ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں، اُن سے پہلے اور رسول بھی گزر چکے ہیں، پھر کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ یاد رکھو! جو الٹا پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا، البتہ جو اللہ کے شکر گزار بندے بن کر رہیں گے انہیں وہ اس کی جزا دے گا (3:144)

☆☆☆ 🌹🌹🌹📖🕋🕌🌹🌹🌹☆☆☆
رساله تجديد الاسلام
وَمَا عَلَيۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ (القرآن 36:17)
اور ہمارے ذمہ صرف واضح پیغام پہنچا دینا ہے
Our mission is only to convey the message clearly
تحقیق انتقادیCritical Inquiry


پوسٹ لسٹ