حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "عنقریب لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اسلام میں صرف اس کا نام باقی رہ جائے گا اور قرآن میں سے صرف اس کے نقوش باقی رہیں گے۔ ان کی مسجدیں (بظاہر تو) آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے کی مخلوق میں سے سب سے بدتر ہوں گے۔ انہیں سے (ظالموں کی حمایت و مدد کی وجہ سے ) دین میں فتنہ پیدا ہوگا اور انہیں میں لوٹ آئے گا (یعنی انہیں پر ظالم) مسلط کر دیئے جائیں گے۔"(رواہ البیہقی فی شعب الایمان) [5] (مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 263)
جبکہ اسلام کی تعلیمات کا محور"ایمان،عمل صالح، حق اور صبر کی تلقین"[6] ہے اور یہی نجات، بخشش اور جنت کی چابی ہے-
جنت کے سبز باغ کیوں؟
جب قرآن برسرعام ستائیس مرتبہ "استغفار"[7] کی عام پیشکش (offer) کرتا ہے تو"استغفار اور ”توبہٴ نصوح“[8] کی پیشکش سے فائدہ اٹھانے کی بجائے، لوگ شفاعت کے ذریعہ جنت کے سبز باغ کیوں دیکھاتے ہیں؟
اس لیے کہ شفاعت کی آڑ میں مفاد پرست اپنا کاروبار چلا سکیں- اپنے مریدوں سے نذرانے وصول کریں تاکہ وہ وہ فسق و فجور، گناہ ، ظلم جاری رکھیں اوراس اجرت کے بدلہ ان کویوم آخر میں شفاعت کا یقین دلاسکیں جبکہ شفاعت کا کلی اختیار الله تعالی نے کسی کو نہیں دیا، اپنے محبوب محمد رسول اللهﷺ کو بھی نہیں دیا اس کو "اذن اللہ" سے مشروط کردیا -
لیکن الله تعالی اپنے بندوں پربہت مہربان ہے اور رسول اللہ ﷺ اپنی امت کے خیرخواہ جو اکثر امت کے لیےاستغفارکرتے رہتے تھے- الله تعالی نے توبہ و استغفار کے دروازے موت تک کھلے رکھے ہیں- الله تعالی سے سچا وعدہ کس کا ہو سکتا ہے؟
توبہٴ
تَنزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ﴿٢﴾ غَافِرِ الذَّنبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ ذِي الطَّوْلِ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ ﴿٣﴾
اِس کتاب کا نزول اللہ کی طرف سے ہے جو زبردست ہے، سب کچھ جاننے والا ہے گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے، سخت سزا دینے والا اور بڑا صاحب فضل ہے کوئی معبود اس کے سوا نہیں، اُسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے (قرآن :40:2/3)
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴿٥٣﴾
پیغمبر آپ پیغام پہنچادیجئے کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ہے رحمت خدا سے مایوس نہ ہونا اللہ تمام گناہوں کا معاف کرنے والا ہے اور وہ یقینا بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے (39:53قرآن)
"جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا- قیامت کے روز اس کو مکرّر عذاب دیا جائے گا اور اسی میں وہ ہمیشہ ذلت کے ساتھ پڑا رہے گا اِلّا یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کر چکا ہو اور ایمان لا کر عمل صالح کرنے لگا ہو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا اور وہ بڑا غفور رحیم ہے- جو شخص توبہ کر کے نیک عملی اختیار کرتا ہے وہ تو اللہ کی طرف پلٹ آتا ہے جیسا کہ پلٹنے کا حق ہے [(69-71):25]
ایک بدکار عورت کی توبہ
ایک عورت حضرت ابوہریرہ ؓ کے پاس آئی اور دریافت فرمایا کہ مجھ سے بدکاری ہوگئی اس سے بچہ ہوگیا میں نے اسے مار ڈالا اب کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اب نہ تیری آنکھیں ٹھنڈی ہوسکتی ہے نہ اللہ کے ہاں تیری بزرگی ہوسکتی ہے تیرے لئے توبہ ہرگز نہیں وہ روتی پیٹتی واپس چلی گئی۔ صبح کی نماز حضور ﷺ کے ساتھ پڑھ کر میں نے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا تو نے اس سے بہت ہی بری بات کہی کیا تو ان آیتوں کو قرآن میں نہیں پڑھتا:
وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا
ترجمہ: اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور جن جاندار کو مار ڈالنا اللہ نے حرام کیا ہے اس کو قتل نہیں کرتے مگر جائز طریق پر (یعنی شریعت کے مطابق) اور بدکاری نہیں کرتے۔ اور جو یہ کام کرے گا سخت گناہ میں مبتلا ہوگا (القرآن - سورۃ نمبر 25 الفرقان، آیت 68)
"مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اچھے کام کئے تو ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا۔ اور اللہ تو بخشنے والا مہربان ہے"(القرآن - سورۃ نمبر 25 الفرقان، آیت نمبر 70)
مجھے بڑا ہی رنج ہوا اور میں لوٹ کر اس عورت کے پاس پہنچا۔ اور اسے یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں وہ خوش ہوگئی اور اسی وقت سجدے میں گر پڑی اور کہنے لگی اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میرے لئے چھٹکارے کی صورت پیدا کردی (طبرانی) اور روایت میں ہے کہ اس نے اللہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے میرے لئے چھٹکارے کی صورت بنائی اور میری توبہ کو قبول فرمایا یہ کہہ کر اس کے ساتھ جو لونڈی تھی اسے آزاد کردیا اور سچے دل سے توبہ کرلی۔ (ابن کثیر)
شعبی کی روایت ہے کہ ایک لڑکی سے زنا کا ارتکاب ہوگیا اس پر حد قائم کی گئی پھر لوگوں نے اس کی طرف مطلق توجہ نہ دی جس کا اثر یہ ہوا کہ کہ عورت نے توبہ کی اور اس کی توبہ خوب رنگ لائی چنانچہ اس کے چچا کو پیغام نکاح بھیجا جاتا اور وہ اس کو ناپسند کرتا، حتیٰ کہ وہ اس کے معاملہ کی خبرنہ کردے لیکن اس کا افشا اسے ناپسند تھا۔ چنانچہ حضرت عمر ؓ سے اس کا معاملہ بیان کیا۔ آپ ؓ نے فرمایا: اس عورت کی شادی اسی طرح کراؤ، جس طرح تم اپنے نیک و صالح بیٹیوں کی شادی کراتے ہو۔ رواہ سعید بن المنصور والبیہقی(کنزالعمال، حدیث: 45773)
”توبہٴ نصوح“
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يُكَفِّرَ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يَوْمَ لَا يُخْزِي اللَّهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ ۖ نُورُهُمْ يَسْعَىٰ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿٦٦:٨﴾[9]
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے توبہ کرو، خالص توبہ (تَوْبَةً نَّصُوحًا) بعید نہیں کہ اللہ تمہاری برائیاں تم سے دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل فرما دے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی یہ وہ دن ہوگا جب اللہ اپنے نبی کو اور اُن لوگوں جو اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں رسوا نہ کرے گا اُن کا نور اُن کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا اور وہ کہہ رہے ہوں گے کہ اے ہمارے رب، ہمارا نور ہمارے لیے مکمل کر دے اور ہم سے درگزر فرما، تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے (قرآن:68:8)[10]
”توبہٴ نصوح“ جس میں ندامت اور شرمندگی ہو جس سے گناہ معاف ہوتا ہے، سچے دل سے ہونی چاہئے، اس توبہ کی چارشرائط ہیں، جن میں حقوق الله اور حقوق العباد شامل ہیں:
(1) گناہ سے باز آئے
(2) سچے دل سے اپنے برے فعل پرنادم ہو
(3) عزم کرے کہ گناہ کی طرف کبھی نہ پلٹیں گے
(4) جس انسان کا مجرم ہواس سے جرم / گناہ معاف کروائے، اگر مال لیا ہو تو اس کو واپس کردے، اگر تہمت وغیرہ کی کوئی سزا اس پرواجب ہوتی ہے تواس کو موقع دے یا معاف کرائے یا غیبت کی ہے، تو اس سے معاملہ صاف کرلے- اگران شرائط میں سے کوئی فوت ہوگئی تو. توبہ صحیح نہیں ہے۔ ( امام نووی، ریاض الصالحین، ص:۱۱)[11] اگر مظلوم فوت ہو چکا تو اس کے لواحقین کو ازالہ کرے اگر یہ بھی ممکن نہیں یا تلاش نہیں کیا جا سکتا تو اس کی طرف سے صدقہ و خیرات کردے اور الله تعالی سے معافی کی دعا کرتا رہے-
شریعت کیا ہے؟
’’بندوں کے لئے زندگی گزارنے کا وہ طریقہ جسے اللہ تعالیٰ نے تجویز کیا اور بندوں کو اس پر چلنے کا حکم دیا(جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰہ اور جملہ اعمال صالحہ)۔‘‘[ابن منظور، لسان العرب، 8 : 175]
’’شریعت سے مراد وہ احکام ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے بطور ضابطہ حیات جاری فرمائے ہیں۔‘‘[عبدالقادر الرازی، مختار الصحاح : 473]
نفاذ شریعت ایک سیاسی نعرہ بن چکا ہے جو دینی سیاسی رہنما گاہے بگاہے بلند کرتے رہتے ہیں- مگر شریعت کا دوسری حصہ جس پر مسلمانوں نے عمل کرکہ ایک اسلامی معاشرہ قائم کرنا ہے اس کا ذکر ناپید ہے، اس حصہ میں عبادات پر زور ہے اور معاشرتی زمہ داریوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے، جوانحطاط کی اہم وجہ ہے۔ شریعت پر مکمل طور پر عمل کے بغیر صرف ریاست سے قانوں شریعت کے نفاذ کی توقع کرنا ایک سراب ہے۔
پیو ریسرچ سنٹر(Pew Research Center) نے 39 مسلمان ممالک کے کے سروے میں مسلمانوں سے پوچھا کہ کیا وہ شرعی قانون ، قرآن اور دیگر اسلامی کتب پر مبنی قانونی ضابطہ چاہتے ہیں ، تاکہ ان کے ملک کا سرکاری قانون ہو۔ افغانستان میں تقریبا تمام مسلمان (%99) اور عراق میں زیادہ تر (%91) اور پاکستان ( %84) سرکاری قانون کے طور پر شریعت کے قانون کی حمایت کرتے ہیں۔ مگر جب کرپشن انڈکس پر نظر ڈالتے ہیں تو مسلم ممالک آگے نظر آتے ہیں- افغانستان کرپشن میں دنیا میں (سکور 16) ساتویں نمبر پر ہے اور پاکستان (سکور32) جبکہ ٹاپ دس کرپشن فری ممالک میں مغربی ممالک ہیں کوئی مسلمان ملک نہیں- یہ ہے مسلمانوں کا شریعت (حصہ دوئم کے جزو 2) پر عمل نہ کرنے کی وجہ سےاخلاقی میعار! (تضاد Paradox)
شرع اور شریعت سے مراد دین کے وہ معاملات و احکامات ہیں جو اللہ نے بندوں کے لئے بیان فرما دیے اور جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ ضابطہ حیات سے ثابت ہیں۔ شریعت سے:
- اوامر و نواہی
- حلال و حرام
- فرض، واجب، مستحب، مکروہ، جائز و ناجائز اور
- سزا و جزا کا ایک جامع نظام استوار ہوتا ہے۔
- شریعت ثواب و عذاب، حساب و کتاب کا علم ہے۔
- شریعت کے اعمال دین کے اندر ظاہری ڈھانچے اور جسم کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مسلم تضادات کا المیہ (Paradoxes)
مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ، ہماری بربادی، تنزلی، معاشرتی بدعنوانی ، کریپشن، بے راہروی، فحاشی، ظلم اور انحطاط کی وجہ یہ ہے کہ جب کسی معاشرہ میں قانون کی حکمرانی نہ ہو، سزا، جزا، انصاف کا نظام نہ ہو،سفارش،اقربا پروری، کسی خاص طاقتور سیاسی، مذہبی، مالدار شخصیت سے تعلقات کی بنا پر احتساب (accountability) کا خوف نہ ہو توپھر معاشرہ کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے- آج پاکستان اور مسلم ممالک میں کرپشن کی یہی وجہ ہے جس کے خلاف عوام اور دانشور(intelligentsia) طبقہ شور مچاتا رہتا ہے-
ایک طرف ہم اپنے ملک، معاشرہ میں ظلم و نا انصافی کا خاتمہ بزریعہ احتساب و انصاف کا تقاضا کرتے ہیں مگر اللہ کی طرف سے دی گیئی رعایت یعنی گناہوں سے توبہ کرنے کو تیار نہیں اور آخری دم تک اپنے نفس پر ظلم کرنا چاہتے ہیں اور اس نافرمانی کے بعد احتساب سے گلوخلاصی بذریعه شفاعت عام کی توقع بھی رکھتے ہیں- ہم سے بڑا احمق شاید ہی دنیا میں کوئی ہو! (تضاد Paradox)
"یقیناً الله کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے" (قرآن:8:22)
أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ
ہم فوری طور پر ابھی ”توبہٴ نصوح“ کریں اور پھر معاملات اللہ پر چھوڑ دیں امید ہے کہ ہماری کمزوریوں پر صرف نظر کرکہ الله تعالی ہمیں معاف کرے گا اور اپنا وعدہ پورا کرے گا:
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے توبہ کرو، خالص توبہ (تَوْبَةً نَّصُوحًا) بعید نہیں کہ اللہ تمہاری برائیاں تم سے دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل فرما دے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی یہ وہ دن ہوگا جب اللہ اپنے نبی کو اور اُن لوگوں جو اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں رسوا نہ کرے گا اُن کا نور اُن کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا اور وہ کہہ رہے ہوں گے کہ اے ہمارے رب، ہمارا نور ہمارے لیے مکمل کر دے اور ہم سے درگزر فرما، تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے" (قرآن:68:8)[12]
خالص توبہ (تَوْبَةً نَّصُوحًا) سے نہ صرف یہ کہ ہمارا معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ بن سکتا ہے بلکہ خلفاء راشدین کے دور کی طرف واپسی کی بتدریج کوشش بھی شروع کی جاسکتی ہے-
تجديد ایمان :
کیا آپ کو علم ہے کہ آپ کا ایمان ویسا ہی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ اکرام کا تھا ؟ نہیں ملاوٹ ہو چکی ہے ! ابھی چیک کر لیں ، ایمان سلامت تو سب کچھ سلامت .... http://bit.ly/Aymaan
شفاعت اور شریعت : https://bit.ly/Shfaat
ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے رہن ہے (كُلُّ نَفۡسِۭ بِمَا كَسَبَتۡ رَهِینَةٌ)
Every soul is held in pledge for its deeds: https://bit.ly/Haqoq-ul-Ibaad
زوال پذیرمعاشرہ میں ہمارا کردار: https://bit.ly/Zowal
لاالہ الا اللہ پر جنت؟ بخشش ، مغالطے: https://bit.ly/KalmahPerJannat
مقصد حیات: کامیاب اور ناکام کون؟ https://bit.ly/DunyaKaMaqsid
مزید پڑھیں :
قرآن کا قانون عروج و زوال اقوام
https://salaamone.com/quran-nations
شفاعت اور شریعت : مفصل مضمون
eBook pdf: https://bit.ly/Shafaat-pdf
تحریف قرآن اور قصے کہانیوں کی بنیاد پر گمرہ کن عقائد
حقوق العباد کی تلافی کے بغیر کوئی شفاعت نہیں
ضعیف احادیث کی بنیاد پر گمرہ کن عقائد
"اور جو لوگ جو خوف رکھتے ہیں کہ اپنے پروردگار کے روبرو حاضر کئے جائیں گے (اور جانتے ہیں کہ) اس کے سوا نہ تو ان کا کوئی وَلِيٌّ (دوست) ہوگا اور نہ (شَفِيعٌ) شفاعت کرنے والا ان کو اس (قرآن) کے ذریعے سے نصیحت کر دو تاکہ پرہیزگار بنیں " (قرآن 6:51)
نصیحت ہمیشہ ان لوگوں کے لیے کارگر ہوتی ہے جو اندیشہ کی نفسیات میں جیتے ہوں۔ جس کو کسی چیز کا کھٹکا لگا ہوا ہواسی کو اس کے خطرے سے آگاہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ بے خوفی کی نفسیات میں جی رہے ہوں وہ کبھی نصیحت کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتے، اس لیے وہ نصیحت کو قبول کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے۔
بے خوفی کی نفسیات پیدا ہونے کا سبب عام طور پر دو چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک دنیا پرستی، دوسرے اکابر پرستی۔ جو لوگ دنیا کی چیزوں میں گم ہوں یا دنیا کی کوئی کامیابی پا کر اس پر مطمئن ہوگئے ہوں، حتی کہ انہیں یہ بھی یاد نہ رہتا ہو کہ ایک روز ان کو مر کر خالق و مالک کے سامنے حاضر ہونا ہے، ایسے لوگ آخرت کو کوئی قابل لحاظ چیز نہیں سمجھتے، اس لیے آخرت کی یاد دہانی ان کے ذہن میں اپنی جگہ حاصل نہیں کرتی۔ ان کا مزاج ایسی باتوں کو غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کردیتا ہے۔
دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو آخرت کے معاملہ کو سفارش کا معاملہ سمجھ لیتے ہیں۔ وہ فرض کرلیتے ہیں کہ جن بڑوں کے ساتھ انہوں نے اپنے کو وابستہ کر رکھا ہے وہ آخرت میں ان کے مددگار اور سفارشی بن جائیں گے اور کسی بھی ناموافق صورت حال میں ان کی طرف سے کافی ثابت ہوں گے۔ ایسے لوگ اس بھروسہ پر جی رہے ہوتے ہیں کہ انہوں نے مقدس ہستیوں کا دامن تھام رکھا ہے، وہ خدا کے محبوب و مقبول گروہ کے ساتھ شامل ہیں اس لیے اب ان کا کوئی معاملہ بگڑنے والا نہیں ہے۔ یہ نفسیات ان کو آخرت کے بارے میں نڈر بنا دیتی ہے، وہ کسی ایسی بات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے جو آخرت میں ان کی حیثیت کو مشتبہ کرنے والی ہو۔
جو لوگ مصلحتوں کی رعایت کرکے دولت و مقبولیت حاصل کیے ہوئے ہوں وہ کبھی حق کی بے آمیز دعوت کا ساتھ نہیں دیتے۔ کیونکہ حق کا ساتھ دینا ان کے لیے یہ معنی رکھتا ہے کہ اپنی مصلحتوں کے بنے بنائے ڈھانچہ کو توڑ دیا جائے۔ پھر جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ حق کے گرد معمولی حیثیت کے لوگ جمع ہیں تو یہ صورت حال ان کے لیے اور زیادہ فتنہ بن جاتی ہے۔ ان کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کا ساتھ دے کر وہ اپنی حیثیت کو گرا لیں گے۔ وہ حق کو حق کی کسوٹی پر نہ دیکھ کر اپنی کسوٹی پر دیکھتے ہیں اور جب حق ان کی اپنی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا تو وہ اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔[ تذکیر القرآن - مولانا وحید الدین خان]
نصیحت ہمیشہ ان لوگوں کے لیے کارگر ہوتی ہے جو اندیشہ کی نفسیات میں جیتے ہوں۔ جس کو کسی چیز کا کھٹکا لگا ہوا ہواسی کو اس کے خطرے سے آگاہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ بے خوفی کی نفسیات میں جی رہے ہوں وہ کبھی نصیحت کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتے، اس لیے وہ نصیحت کو قبول کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے۔
بے خوفی کی نفسیات پیدا ہونے کا سبب عام طور پر دو چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک دنیا پرستی، دوسرے اکابر پرستی۔ جو لوگ دنیا کی چیزوں میں گم ہوں یا دنیا کی کوئی کامیابی پا کر اس پر مطمئن ہوگئے ہوں، حتی کہ انہیں یہ بھی یاد نہ رہتا ہو کہ ایک روز ان کو مر کر خالق و مالک کے سامنے حاضر ہونا ہے، ایسے لوگ آخرت کو کوئی قابل لحاظ چیز نہیں سمجھتے، اس لیے آخرت کی یاد دہانی ان کے ذہن میں اپنی جگہ حاصل نہیں کرتی۔ ان کا مزاج ایسی باتوں کو غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کردیتا ہے۔
دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو آخرت کے معاملہ کو سفارش کا معاملہ سمجھ لیتے ہیں۔ وہ فرض کرلیتے ہیں کہ جن بڑوں کے ساتھ انہوں نے اپنے کو وابستہ کر رکھا ہے وہ آخرت میں ان کے مددگار اور سفارشی بن جائیں گے اور کسی بھی ناموافق صورت حال میں ان کی طرف سے کافی ثابت ہوں گے۔ ایسے لوگ اس بھروسہ پر جی رہے ہوتے ہیں کہ انہوں نے مقدس ہستیوں کا دامن تھام رکھا ہے، وہ خدا کے محبوب و مقبول گروہ کے ساتھ شامل ہیں اس لیے اب ان کا کوئی معاملہ بگڑنے والا نہیں ہے۔ یہ نفسیات ان کو آخرت کے بارے میں نڈر بنا دیتی ہے، وہ کسی ایسی بات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے جو آخرت میں ان کی حیثیت کو مشتبہ کرنے والی ہو۔
جو لوگ مصلحتوں کی رعایت کرکے دولت و مقبولیت حاصل کیے ہوئے ہوں وہ کبھی حق کی بے آمیز دعوت کا ساتھ نہیں دیتے۔ کیونکہ حق کا ساتھ دینا ان کے لیے یہ معنی رکھتا ہے کہ اپنی مصلحتوں کے بنے بنائے ڈھانچہ کو توڑ دیا جائے۔ پھر جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ حق کے گرد معمولی حیثیت کے لوگ جمع ہیں تو یہ صورت حال ان کے لیے اور زیادہ فتنہ بن جاتی ہے۔ ان کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کا ساتھ دے کر وہ اپنی حیثیت کو گرا لیں گے۔ وہ حق کو حق کی کسوٹی پر نہ دیکھ کر اپنی کسوٹی پر دیکھتے ہیں اور جب حق ان کی اپنی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا تو وہ اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔[ تذکیر القرآن - مولانا وحید الدین خان]
شفاعت کا بہت غلط تصور لوگوں میں رائج تھا۔ بت پرست یہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی نہ بھی ہو تو ان کے بت انہیں چھوڑا لیں گے اور جس کو چاہیں گے بخشوالیں گے اور یہود ونصاریٰ اس زعم میں مبتلا تھے نحن ابناء اللہ واحباء ہ ہم تو اللہ کے فرزند اور اس کے لاڈلے ہیں۔ ہمارے اعمال کیسے ہی ہوں ہم بخشے جائیں گے۔ تو اس غلط تصور کی نفی کر دی۔ اس سے انبیا کرام کی شفاعت کی نفی نہیں کیونکہ وہ اذن الٰہی سے ہوگی۔ تو گویا حقیقۃ اللہ تعالیٰ ہی شفیع ہوگا۔ شفاع الرسول لہم تکون باذن اللہ فھو الشفیع حقیقۃ اذن (قرطبی) [تفسیر ضیاء القرآن]
گناہ اور استغفار
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ پڑجاتا ہے، پھر جب وہ گناہ کو چھوڑ دیتا ہے اور استغفار اور توبہ کرتا ہے تو اس کے دل کی صفائی ہوجاتی ہے (سیاہ دھبہ مٹ جاتا ہے) اور اگر وہ گناہ دوبارہ کرتا ہے تو سیاہ نکتہ مزید پھیل جاتا ہے یہاں تک کہ پورے دل پر چھا جاتا ہے، اور یہی وہ «ران» ہے جس کا ذکر اللہ نے اس آیت «كلا بل ران علی قلوبهم ما کانوا يکسبون» یوں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ (چڑھ گیا) ہے (المطففین: ١٤) ، میں کیا ہے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ١٤١ (٤١٨)، سنن ابن ماجہ/الزہد ٢٩ (٤٢٤٤) (حسن) قال الشيخ الألباني: حسن، التعليق الرغيب (2 / 268) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 3334
أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ
اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کی علامت اتباع شریعت ہے
اگر کوئی آدمی اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کی تعمیل کرتا ہے اور شریعت کے احکام پر عمل کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنے اللہ اور رسول ﷺ سے محبت کرتا ہے لیکن جو آدمی اللہ اور رسول کے احکام و فرمان کی تابعداری نہ کرتا ہو تو اس کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ نعوذ باللہ اس کا دل اللہ و رسول کی پاک محبت سے بالکل خالی ہے۔
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ پڑجاتا ہے، پھر جب وہ گناہ کو چھوڑ دیتا ہے اور استغفار اور توبہ کرتا ہے تو اس کے دل کی صفائی ہوجاتی ہے (سیاہ دھبہ مٹ جاتا ہے) اور اگر وہ گناہ دوبارہ کرتا ہے تو سیاہ نکتہ مزید پھیل جاتا ہے یہاں تک کہ پورے دل پر چھا جاتا ہے، اور یہی وہ «ران» ہے جس کا ذکر اللہ نے اس آیت «كلا بل ران علی قلوبهم ما کانوا يکسبون» یوں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ (چڑھ گیا) ہے (المطففین: ١٤) ، میں کیا ہے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ١٤١ (٤١٨)، سنن ابن ماجہ/الزہد ٢٩ (٤٢٤٤) (حسن) قال الشيخ الألباني: حسن، التعليق الرغيب (2 / 268) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 3334
اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کی علامت اتباع شریعت ہے
اگر کوئی آدمی اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کی تعمیل کرتا ہے اور شریعت کے احکام پر عمل کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنے اللہ اور رسول ﷺ سے محبت کرتا ہے لیکن جو آدمی اللہ اور رسول کے احکام و فرمان کی تابعداری نہ کرتا ہو تو اس کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ نعوذ باللہ اس کا دل اللہ و رسول کی پاک محبت سے بالکل خالی ہے۔
*********
رسول اللہ ﷺ پر استغفار کروانا آپ کی زندگی کے ساتھ خاص تھا
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ 0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِـيُـطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰهِ ؕ وَلَوۡ اَنَّهُمۡ اِذْ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ جَآءُوۡكَ فَاسۡتَغۡفَرُوا اللّٰهَ وَاسۡتَغۡفَرَ لَـهُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِيۡمًا ۞
اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی فرماں برداری کی جائے اور اگر واقعی یہ لوگ، جب انھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، تیرے پاس آتے، پھر اللہ سے بخشش مانگتے اور رسول ان کے لیے شفاعت فرمایے بخشش مانگتا ( وَاسۡتَغۡفَرَ لَـهُمُ الرَّسُوۡلُ) تو اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت مہربان پاتے۔(سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 64)
"استغفر" کا ترجمہ مندرجہ بالا (4:64) ایک ہی آیت میں "معافی" (درست) اور پھر شفاعت فرمایے (غلط) تحریف ہے- عربی میں ش ف ع سے شفیع شفاعت کے معنی میں موجود ہے جو مذکورہ آیت میں موجود نہیں- اس تحریف کا مقصد رسول اللہ ﷺ کی شفاعت کو قرآن سے ثابت کرکہ اور دوسرے قصہ / داستان سے جوڑ کر قبروں پر مدفون شخصیات سے شفاعت کا جواز پیدا کرنا ہے-
آیت الکرسی میں نظریہ شفاعت کی بنیاد اور صاف مثال ہے :
مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ [کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس سے (کسی کی) سفارش کر سکے] (سورة البقرة 155)
تفسیر:
وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِـيُـطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰهِ ؕ : اطاعت رسول کی دوبارہ ترغیب دی ہے۔ یعنی اللہ کے رسول دنیا میں اس لیے آتے ہیں کہ تمام معاملات میں اللہ کے حکم کے مطابق ان کی اطاعت کی جائے۔ ”باذن اللہ“ کا معنی اللہ کی توفیق و اعانت بھی کیا گیا ہے، وہ بھی درست ہے، معلوم ہوا ہر رسول واجب الاطاعت ہوتا ہے۔
وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا :
اپنی جان پر ظلم کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ کے پاس آنا اور آپ سے استغفار کروانا آپ کی زندگی کے ساتھ خاص تھا، آپ کی وفات کے بعد کسی صحابی سے ثابت نہیں کہ وہ آپ کی قبر مبارک پر آیا ہو اور آپ سے دعا کرنے کی درخواست کی ہو۔ایک حکایت \ قصہ \ ایک داستان حافظ ابن کثیر ؓ نے یہاں ایک بدوی کی حکایت نقل کی ہے، جس نے رسول اللہ ﷺ کی قبر کے پاس آکر یہ آیت پڑھتے ہوئے کچھ شعر پڑھے اور کہا کہ میں اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور آپ کو سفارشی بناتا ہوں، اس پر قبر انور کے پاس بیٹھنے والے ایک شخص نے کہا، خواب میں آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا ہے : ”اس بدوی کو بخش دیا گیا ہے۔“ لیکن یہ ایک حکایت ہے جو آیت کی مناسبت سے ذکر کردی گئی ہے، یہ نہ آیت کی تفسیر ہے نہ حدیث ہے۔
الصارم المنکی (ص : 238)“ میں لکھا ہے کہ اس حکایت کی سند نہایت کمزور ہے۔ اور نبی کے خواب کے علاوہ کسی کا خواب دین میں دلیل بھی نہیں بنتا۔ آیت سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں آپ سے دعائے مغفرت کروائی جاسکتی تھی، مگر آپ کی وفات کے بعد اس آیت کی رو سے قبر پر جا کر سفارش اور دعا کی درخواست کرنا کسی طرح صحیح نہیں۔
جَاۗءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ : اللہ تعالیٰ کی بخشش حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی جناب میں توبہ و استغفار ضروری اور کافی ہے، لیکن یہاں جو کہا گیا ہے کہ اے پیغمبر ! وہ تیرے پاس آتے اور اللہ سے بخشش مانگتے اور تو بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتا، تو یہ اس لیے کہ چونکہ انھوں نے جھگڑے کے فیصلے کے لیے دوسروں کی طرف رجوع کر کے آپ کی شان کے نا مناسب حرکت کی تھی، اس لیے اس کے ازالے کے لیے انھیں آپ ﷺ کے پاس آنے کی تاکید فرمائی۔
(تفسیر القرآن الکریم، مفسر: حافظ عبدالسلام بھٹوی)
تفسیر ابنِ کثیر
اطاعت رسول ﷺ ہی ضامن نجات ہے
مطلب یہ ہے کہ ہر زمانہ کے رسول کی تابعداری اس کی امت پر اللہ کی طرف سے فرض ہوتی ہے منصب رسالت یہی ہے کہ اس کے سبھی احکامات کو اللہ کے احکام سمجھا جائے-
پھر اللہ تعالیٰ عاصی اور خطاکاروں کو ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہیے اور خود رسول سے بھی عرض کرنا چاہیے کہ آپ ہمارے لئے دعائیں کیجئے جب وہ ایسا کریں گے تو یقینا اللہ ان کی طرف رجوع کرے گا انہیں بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا-
ابو منصور صباغ نے اپنی کتاب میں جس میں مشہور قصے لکھے ہیں لکھا ہے کہ عتبی کا بیان ہے میں حضور ﷺ کی تربت کے پاس بیٹھا ہوا تھا جبکہ ایک اعرابی آیا اور اس نے کہا اسلام علیکم یا رسول اللہﷺ میں نے قرآن کریم کی اس آیت کو سنا اور آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ آپ کے سامنے اپنے گناہوں کا استغفار کروں اور آپ کی شفاعت طلب کروں پھر اس نے یہ اشعار پڑھی
باخیر من دفنت بالقاع اعظمہ
فطاب من طیبھن القاع والا کم
نفسی الفداء لقبر انت ساکنہ
فیہ لعاف وفیہ الجودو الکرم
[ترجمہ : جن جن کی ہڈیاں میدانوں میں دفن کی گئی ہیں اور ان کی خوشبو سے وہ میدان ٹیلے مہک اٹھے ہیں اے ان تمام میں سے بہترین ہستی، میری جان اس قبر پر سے صدقے ہو جس کا ساکن تو ہے جس میں پارسائی سخاوت اور کرم ہے]
پھر اعرابی تو لوٹ گیا اور مجھے نیند آگئی خواب میں کیا دیکھتا ہوں حضور ﷺ مجھ سے فرما رہے ہیں جا اس اعرابی کو خوش خبری سنا اللہ نے اس کے گناہ معاف فرما دئیے
[ نوٹ:یہ خیال رہے کہ نہ تو یہ کسی حدیث کی کتاب کا واقعہ ہے نہ اس کی کوئی صحیح سند ہے، بلکہ آیت کا یہ حکم حضور ﷺ کی زندگی میں ہی تھا وصال کے بعد نہیں جیسے کہ جاءوک کا لفظ بتلا رہا ہے اور مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ ہر انسان کا ہر عمل اس کی موت کے ساتھ منقطع ہوجاتا ہے [ رواه مسلم 5/73, الادب المفرد ,ابو داؤد و نسائى احمد بيهقى ) واللہ اعلم۔]
ایک زیادہ غریب روایت میں شان نزول یہ مروی ہے کہ دو شخص اپنا جھگڑا لے کر دربار محمد رسول اللهﷺ میں آئے آپ نے فیصلہ کردیا لیکن جس کے خلاف فیصلہ تھا اس نے کہا حضور ﷺ آپ ہمیں حضرت عمر ؓ کے پاس بھیج دیجئے آپ نے فرمایا بہت اچھا ان کے پاس چلے جاؤ جب یہاں آئے تو جس کے موافق فیصلہ ہوا تھا اس نے ساراہی واقعہ کہہ سنایا حضرت عمر ؓ نے اس دوسرے سے پوچھا کیا یہ سچ ہے؟ اس نے اقرار کیا آپ نے فرمایا اچھا تم دونوں یہاں ٹھہرو میں آتا ہوں اور فیصلہ کردیتا ہوں تھوڑی دیر میں تلوار تانے آگئے اور اس شخص کی جس نے کہا تھا کہ حضرت ہمیں عمر ؓ کے پاس بھیج دیجئے گردن اڑا دی دوسرا شخص یہ دیکھتے ہی دوڑا بھاگا آنحضرت ﷺ کے پاس پہنچا اور کہا حضور ﷺ میرا ساتھی تو مار ڈالا گیا اور اگر میں بھی جان بچا کر بھاگ کر نہ آتا تو میری بھی خیر نہ تھی، آپ نے فرمایا میں عمر کو ایسا نہیں جانتا تھا کہ وہ اس جرات کے ساتھ ایک مومن کا خون بہا دے گا اس پر یہ آیت اتری اور اس کا خون برباد گیا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر ؓ کو بری کردیا، لیکن یہ طریقہ لوگوں میں اس کے بعد بھی جاری نہ ہوجائے اس لئے اس کے بعد ہی یہ آیت اتری( 4۔ النسآء :66)(ابن ابی حاتم) ابن مردویہ میں بھی یہ روایت ہے جو غریب اور مرسل ہے اور ابن لہیعہ راوی ضعیف ہے واللہ اعلم۔
دوسری سند سے مروی ہے دو شخص رسول مقبول ﷺ کے پاس اپنا جھگڑا لائے آپ نے حق والے کے حق میں ڈگری دے دی لیکن جس کے خلاف ہوا تھا اس نے کہا میں راضی نہیں ہوں آپ نے پوچھا تو کیا چاہتا ہے ؟ کہا یہ کہ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس چلیں دونوں وہاں پہنچے جب یہ واقعہ جناب صدیق ؓ نے سنا تو فرمایا تمہارا فیصلہ وہی ہے جو حضور ﷺ نے کیا وہ اب بھی خوش نہ ہوا اور کہا حضرت عمر ؓ کے پاس چلو وہاں گئے پھر وہ ہوا جو آپ نے اوپر پڑھا (تفسیر حافظ ابو اسحاق)
تو اس آیت کا سیاق و ثبات (context), نزول سے بھی واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سےاستغفار کروانا صرف آپ کی زندگی تک محدود تھا-(واللہ اعلم )
شفاعت ، اہل بدعہ ، کفر ، حوض کوثر حیات بعد از موتوعن سهل بن سعد قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إني فرطكم على الحوض من مر علي شرب ومن شرب لم يظمأ أبدا ليردن علي أقوام أعرفهم ويعرفونني ثم يحال بيني وبينهم فأقول إنهم مني . فيقال إنك لا تدري ما أحدثوا بعدك ؟ فأقول سحقا سحقا لمن غير بعدي . متفق عليه . ( متفق عليه )ترجمہاور حضرت سہل بن سعد ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ میں حوض کوثر پر تمہارا امیر سامان ہونگا ( یعنی وہاں تم سب سے پہلے پہنچ کر تمہارا استقبال کروں گا) جو شخص بھی میرے پاس سے گزرے گا وہ اس حوض کوثر کا پانی پئے گا اور جو شخص بھی اس کا پانی پی لے گا وہ کبھی پیاسا نہیں رہے گا۔ وہاں میرے پاس ( میری امت کے) کچھ ایسے لوگ بھی آئیں گے جنہیں میں پہچان لوں گا اور وہ مجھے پہچان لیں گے لیکن پھر میرے اور ان کے درمیان کوئی چیز حائل کردی جائے گی ( تاکہ وہ مجھ سے اور حوض کوثر سے دور رہیں )۔ میں ( یہ دیکھ کر) کہوں گا کہ یہ لوگ تو میرے اپنے ہیں!؟ ( یعنی یہ لوگ میری امت کے افراد ہیں، یا یہ کہ یہ وہ لوگ ہیں جو میرے صحابی رہے ہیں، پھر ان کو میرے پاس آنے سے کیوں روکا جارہا ہے!؟ ) اس کے جواب میں مجھے بتایا جائے گا کہآپ ﷺ کو نہیں معلوم، انہوں نے آپ ﷺ کے بعد کیا کیا نئی باتیں پیدا کیں ہیں ( یہ سن کر) میں کہوں گا کہ وہ لوگ دور ہوں مجھ سے اللہ کی رحمت سے دور، جنہوں نے میری وفات کے بعد دین وسنت میں تبدیلی کی۔ ( بخاری ومسلم ) (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب: حوض اور شفاعت کا بیان، باب: مرتدین کو حوض کوثر سے دور رکھا جائے گا، حدیث نمبر: 5483)تشریح اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وفات کے بعد رسول اللہ ﷺ کو دنیا کے واقعات و حالات کا کچھ علم نہیں کہ عالم برزخ دنیا سے علیحدہ ہے۔ اس سے حیات بعد وفات کی نفی ہوتی ہے جو کہ قرآن کے مطابق ہے- اس طرح جو لوگ اولیا اللہ کو بھی قبروں میں زندہ سمجھ کر ان سے منتیں مانگتے یا دعایئں کرتے / کرواتے ہیں وہ اگر ان سے مانگیں تو شرک ورنہ غلط عقیدہ ہے جومفاد پرست گدی نشین اپنے مفادات کے لیے پروموٹ کرتے ہیں- إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴿٥﴾ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں (1:5) احتمال ہے کہ اس حدیث میں مذکورہ لوگوں سے مراد وہ لوگ جو فتنوں میں مبتلا ہو گئے یا اہل بدعت جو دین میں نئی باتیں نکالتے ہیں، معمولی بدعات کے علاوہ اگر بدعت کا تعلق دین وملت میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرنے سے ہو جس سے اصول دن کی نفی ہوتی ہو اور نبوت و شریعت پر براہ راست اس طرح کی زد پڑتی ہو کہ اس پر کفر کا اطلاق ہوجائے تو اس درجہ کے اہل بدعت یقینا مرتد ہی کہلائیں گے اور ان لوگوں کو اس حدیث کا محمول قرار دیا جاسکتا ہے (واللہ اعلم)
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ 0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِـيُـطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰهِ ؕ وَلَوۡ اَنَّهُمۡ اِذْ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ جَآءُوۡكَ فَاسۡتَغۡفَرُوا اللّٰهَ وَاسۡتَغۡفَرَ لَـهُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِيۡمًا ۞
اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی فرماں برداری کی جائے اور اگر واقعی یہ لوگ، جب انھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، تیرے پاس آتے، پھر اللہ سے بخشش مانگتے اور رسول ان کے لیے شفاعت فرمایے بخشش مانگتا ( وَاسۡتَغۡفَرَ لَـهُمُ الرَّسُوۡلُ) تو اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت مہربان پاتے۔(سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 64)
"استغفر" کا ترجمہ مندرجہ بالا (4:64) ایک ہی آیت میں "معافی" (درست) اور پھر شفاعت فرمایے (غلط) تحریف ہے- عربی میں ش ف ع سے شفیع شفاعت کے معنی میں موجود ہے جو مذکورہ آیت میں موجود نہیں- اس تحریف کا مقصد رسول اللہ ﷺ کی شفاعت کو قرآن سے ثابت کرکہ اور دوسرے قصہ / داستان سے جوڑ کر قبروں پر مدفون شخصیات سے شفاعت کا جواز پیدا کرنا ہے-
آیت الکرسی میں نظریہ شفاعت کی بنیاد اور صاف مثال ہے :
مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ [کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس سے (کسی کی) سفارش کر سکے] (سورة البقرة 155)
تفسیر:
وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِـيُـطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰهِ ؕ : اطاعت رسول کی دوبارہ ترغیب دی ہے۔ یعنی اللہ کے رسول دنیا میں اس لیے آتے ہیں کہ تمام معاملات میں اللہ کے حکم کے مطابق ان کی اطاعت کی جائے۔ ”باذن اللہ“ کا معنی اللہ کی توفیق و اعانت بھی کیا گیا ہے، وہ بھی درست ہے، معلوم ہوا ہر رسول واجب الاطاعت ہوتا ہے۔
وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا :
حافظ ابن کثیر ؓ نے یہاں ایک بدوی کی حکایت نقل کی ہے، جس نے رسول اللہ ﷺ کی قبر کے پاس آکر یہ آیت پڑھتے ہوئے کچھ شعر پڑھے اور کہا کہ میں اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور آپ کو سفارشی بناتا ہوں، اس پر قبر انور کے پاس بیٹھنے والے ایک شخص نے کہا، خواب میں آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا ہے : ”اس بدوی کو بخش دیا گیا ہے۔“ لیکن یہ ایک حکایت ہے جو آیت کی مناسبت سے ذکر کردی گئی ہے، یہ نہ آیت کی تفسیر ہے نہ حدیث ہے۔
الصارم المنکی (ص : 238)“ میں لکھا ہے کہ اس حکایت کی سند نہایت کمزور ہے۔ اور نبی کے خواب کے علاوہ کسی کا خواب دین میں دلیل بھی نہیں بنتا۔ آیت سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں آپ سے دعائے مغفرت کروائی جاسکتی تھی، مگر آپ کی وفات کے بعد اس آیت کی رو سے قبر پر جا کر سفارش اور دعا کی درخواست کرنا کسی طرح صحیح نہیں۔
جَاۗءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ : اللہ تعالیٰ کی بخشش حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی جناب میں توبہ و استغفار ضروری اور کافی ہے، لیکن یہاں جو کہا گیا ہے کہ اے پیغمبر ! وہ تیرے پاس آتے اور اللہ سے بخشش مانگتے اور تو بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتا، تو یہ اس لیے کہ چونکہ انھوں نے جھگڑے کے فیصلے کے لیے دوسروں کی طرف رجوع کر کے آپ کی شان کے نا مناسب حرکت کی تھی، اس لیے اس کے ازالے کے لیے انھیں آپ ﷺ کے پاس آنے کی تاکید فرمائی۔
(تفسیر القرآن الکریم، مفسر: حافظ عبدالسلام بھٹوی)
تفسیر ابنِ کثیر
اطاعت رسول ﷺ ہی ضامن نجات ہے
مطلب یہ ہے کہ ہر زمانہ کے رسول کی تابعداری اس کی امت پر اللہ کی طرف سے فرض ہوتی ہے منصب رسالت یہی ہے کہ اس کے سبھی احکامات کو اللہ کے احکام سمجھا جائے-
پھر اللہ تعالیٰ عاصی اور خطاکاروں کو ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہیے اور خود رسول سے بھی عرض کرنا چاہیے کہ آپ ہمارے لئے دعائیں کیجئے جب وہ ایسا کریں گے تو یقینا اللہ ان کی طرف رجوع کرے گا انہیں بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا-
ابو منصور صباغ نے اپنی کتاب میں جس میں مشہور قصے لکھے ہیں لکھا ہے کہ عتبی کا بیان ہے میں حضور ﷺ کی تربت کے پاس بیٹھا ہوا تھا جبکہ ایک اعرابی آیا اور اس نے کہا اسلام علیکم یا رسول اللہﷺ میں نے قرآن کریم کی اس آیت کو سنا اور آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ آپ کے سامنے اپنے گناہوں کا استغفار کروں اور آپ کی شفاعت طلب کروں پھر اس نے یہ اشعار پڑھی
باخیر من دفنت بالقاع اعظمہ
فطاب من طیبھن القاع والا کم
نفسی الفداء لقبر انت ساکنہ
فیہ لعاف وفیہ الجودو الکرم
[ترجمہ : جن جن کی ہڈیاں میدانوں میں دفن کی گئی ہیں اور ان کی خوشبو سے وہ میدان ٹیلے مہک اٹھے ہیں اے ان تمام میں سے بہترین ہستی، میری جان اس قبر پر سے صدقے ہو جس کا ساکن تو ہے جس میں پارسائی سخاوت اور کرم ہے]
پھر اعرابی تو لوٹ گیا اور مجھے نیند آگئی خواب میں کیا دیکھتا ہوں حضور ﷺ مجھ سے فرما رہے ہیں جا اس اعرابی کو خوش خبری سنا اللہ نے اس کے گناہ معاف فرما دئیے
[ نوٹ:یہ خیال رہے کہ نہ تو یہ کسی حدیث کی کتاب کا واقعہ ہے نہ اس کی کوئی صحیح سند ہے، بلکہ آیت کا یہ حکم حضور ﷺ کی زندگی میں ہی تھا وصال کے بعد نہیں جیسے کہ جاءوک کا لفظ بتلا رہا ہے اور مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ ہر انسان کا ہر عمل اس کی موت کے ساتھ منقطع ہوجاتا ہے [ رواه مسلم 5/73, الادب المفرد ,ابو داؤد و نسائى احمد بيهقى ) واللہ اعلم۔]
ایک زیادہ غریب روایت میں شان نزول یہ مروی ہے کہ دو شخص اپنا جھگڑا لے کر دربار محمد رسول اللهﷺ میں آئے آپ نے فیصلہ کردیا لیکن جس کے خلاف فیصلہ تھا اس نے کہا حضور ﷺ آپ ہمیں حضرت عمر ؓ کے پاس بھیج دیجئے آپ نے فرمایا بہت اچھا ان کے پاس چلے جاؤ جب یہاں آئے تو جس کے موافق فیصلہ ہوا تھا اس نے ساراہی واقعہ کہہ سنایا حضرت عمر ؓ نے اس دوسرے سے پوچھا کیا یہ سچ ہے؟ اس نے اقرار کیا آپ نے فرمایا اچھا تم دونوں یہاں ٹھہرو میں آتا ہوں اور فیصلہ کردیتا ہوں تھوڑی دیر میں تلوار تانے آگئے اور اس شخص کی جس نے کہا تھا کہ حضرت ہمیں عمر ؓ کے پاس بھیج دیجئے گردن اڑا دی دوسرا شخص یہ دیکھتے ہی دوڑا بھاگا آنحضرت ﷺ کے پاس پہنچا اور کہا حضور ﷺ میرا ساتھی تو مار ڈالا گیا اور اگر میں بھی جان بچا کر بھاگ کر نہ آتا تو میری بھی خیر نہ تھی، آپ نے فرمایا میں عمر کو ایسا نہیں جانتا تھا کہ وہ اس جرات کے ساتھ ایک مومن کا خون بہا دے گا اس پر یہ آیت اتری اور اس کا خون برباد گیا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر ؓ کو بری کردیا، لیکن یہ طریقہ لوگوں میں اس کے بعد بھی جاری نہ ہوجائے اس لئے اس کے بعد ہی یہ آیت اتری( 4۔ النسآء :66)(ابن ابی حاتم) ابن مردویہ میں بھی یہ روایت ہے جو غریب اور مرسل ہے اور ابن لہیعہ راوی ضعیف ہے واللہ اعلم۔
دوسری سند سے مروی ہے دو شخص رسول مقبول ﷺ کے پاس اپنا جھگڑا لائے آپ نے حق والے کے حق میں ڈگری دے دی لیکن جس کے خلاف ہوا تھا اس نے کہا میں راضی نہیں ہوں آپ نے پوچھا تو کیا چاہتا ہے ؟ کہا یہ کہ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس چلیں دونوں وہاں پہنچے جب یہ واقعہ جناب صدیق ؓ نے سنا تو فرمایا تمہارا فیصلہ وہی ہے جو حضور ﷺ نے کیا وہ اب بھی خوش نہ ہوا اور کہا حضرت عمر ؓ کے پاس چلو وہاں گئے پھر وہ ہوا جو آپ نے اوپر پڑھا (تفسیر حافظ ابو اسحاق)
تو اس آیت کا سیاق و ثبات (context), نزول سے بھی واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سےاستغفار کروانا صرف آپ کی زندگی تک محدود تھا-(واللہ اعلم )
شفاعت ، اہل بدعہ ، کفر ، حوض کوثر حیات بعد از موت
أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ
آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل (perfect) کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)
[1] اسلام, دین کامل کے بنیادی اصول و ارکان جن کی بنیاد قرآن اور حدیث جبرئیل ہے ان میں قرآن اور تمام پہلی کتب انبیاء پر ایمان ضروری ہے، کسی اور کتاب کا کوئی زکر نہیں یہود کی تلمود اور مسیحیوں کی انجیل کے علاوہ تیئیس کتب کا بھی ذکر نہیں اور "کتب حدیث" پر بھی ایمان کا ذکر نہیں. بلکہ قرآن نے اپنے علاوہ کسی اور "کتاب حدیث" پر ایمان سے منع کردیا : اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے(قرآن 39:23)، فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟) ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)،(الأعراف 7:185)
[2] اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اپنے ان رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو پہلے اتاردی اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا (قرآن :4:136) (2:285)
[3] رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "کیا تم الله کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس سے پہلے قومیں (یہود و صاری) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں" [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]
[4] خلفاء راشدین نے بھی کتب حدیث مدون نہ کیں، صرف قرآن مدون کیا ، رسول اللہ ﷺ نے وصیت میں سنت خلفا راشدین پر سختی سے کاربند رہنے اور بدعة سے بچنے کا حکم فرمایا (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )
یہ کہنا کہ حدیث کی کتب تو بعد میں لکھی گیئں تو پھر بدعت کیا ہوتی ہے؟ کیا اللہ کو مستقبل کا علم نہیں؟ علم ہے، اسی لیے قرآن، سنت و حدیث میں قرآن کے علاوہ کسی کتاب سے منع کر دیا گیا- یہ ہے قرآن کا معجزہ !
[5] افسوس کہ قرآن ، سنت و حدیث رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین کے برخلاف پہلی صدی کے بعد حدیث کی کتب لکھ کر نافرمانی و بدعة سے کامل دین اسلام کو "نا کامل" کرنے (زوال) کی کوششوں کا آغاز ہوا، نفاق ، فرقہ واریت نے مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا - یہ اللہ کی رسی قرآن کو نظر انداز کر انے سے ہوا: "اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا" (سورة الفرقان،25:30﴾
لہذا تجديد الإسلام: ، بدعة سے پاک اسلام وقت کی اہم، ضرورت ہے تاکہ اسلام اپنی مکمل فکری، روحانی ، اخلاقی طاقت سے امت مسلمہ اور بنی نوع انسان کی رہنمائی کر سکے- دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے اسلام "احیاء دین کامل" کی جدوجہد کریں-
حدیث کے بیان و ترسیل کا مجوزہ طریقہ
کلام الله، قرآن کو اس کی اصل حیثیت کے مطابق ترجیح کی بحالی کا مطلب یہ نہیں کہ حدیث کی اہمیت نہیں- “تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے- ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) سے بھی محبت رکھتا ہے لیکن حقیقی محبت کا اظہار اطاعت رسول اللہ ﷺ ہے نہ کہ نافرمانی! قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث” کی ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیارکے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ جب تک "اجماع" قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُو) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر) وضع موجود (statues-que) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیارکے مطابق علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعہ درست احادیث کی ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں- جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے-
Endnotes/ Links
[11] http://www.darululoom-deoband.com/urdu/articles/tmp/1464755706
أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرّسُولَ ﷺ
https://Quran1book.blogspot.com