رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

حدیث اور قرآن و سنت میں اختلاف اور موافقت



جی بھائی : تو یہ آپ نے وہ اصول وضع کیا ہے جو 'حدیث اور سنت میں (قول اور عمل میں) بظاہر نظر آنے والے اختلاف کو ختم کرنے کا طریقہ ہے'۔ اور اس اصول کی بنیاد ایک حدیث ہے جو دارقطنی سے لی گئی ہے۔ امید ہے کہ اس حدیث سے معنی اخذ کرتے ہوئے آپ نے اجماع امت کا خیال رکھا ہو گا جو سینہ بہ سینہ ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی رہی کہ 'قول اور فعل (حدیث اور سنت) میں زیادہ سے زیادہ موافقت تلاش کرنی ہے اور اس ہی طرح حدیث اور قرآن میں زیادہ سے زیادہ موافقت تلاش کرنی ہے' ۔ جب موافقت تلاش کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو جائیں تب رد کی صورت بنتی ہے ۔ چنانچہ 'حدیث اور قرآن و سنت میں موافقت تلاش کرنے کی کوشش بنیادی شرط ہے'۔ یعنی اس حدیث مبارکہ کی بنیاد پر اگر آپ کسی حدیث کو نہ لینے (رد حدیث) کے حکم پر پہنچ رہے ہیں تو اس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی تمام تر توانائی 1) حدیث اور قرآن اور 2) حدیث اور سنت کے درمیان موافقت تلاش کرنے میں صرف کر چکے ہیں ۔ اور یوں یہ حدیث کے رد کرنے کی 'شرط' ہوئی۔ان مانوں میں اس میں امت کا اجماع پایا جاتا ہے۔ امت اسی پر ہمیشہ سے قائم نظر آتی ہے کہ امت کے عروج میں اس کے بہترین افراد جو اس کے آئمہ ہوا کرتے ہیں اس ہی اصول پر کاربند رہے۔ علاوہ عزیں یہ ایک بہترین اصول ہے اگر یہ حدیث بطور نص لینے کے دیگر پیمانوں پر بھی پوری اترتی ہے کہ رد کے لئے موافقت تلاش کرنا شرط ہے۔[Professor/ Dr GA raised this question ]

--------------------

AAK’s Response :


برادر محترم !

آپ سے اتفاق ہے کہ حدیث کو قبول یا رد کرنے کا تفصیلی کا م تو محدثین کا ہے جو علم حدیث  ایکسپرٹ ہیں .. یھاں ایک عام بات کی جو کہ صرف یہ ثابت کرتی ہے کہ حدیث کی حثیت  مظبوط قرانی دلیل کی طرح نہیں ہے ، کسی  بھی حدیث کا تجزیہ کرکہ اس کا درجہ تبدیل ہو سکتا ہے ، البانی اور دوسرے ایکسپرٹس ایسا کرتے چلے آ رہے ہیں - 


الله تعالی نے ابدی دین اسلام سادہ ، آسان رکھا ، مگر ہمارے مذھبی پیشواؤں نے مشکلات پیدا کر دین ، ایک کتاب کے مقابلہ میں 75 کتابیں ، تاکہ مذہبی پیشواؤں کی اہمیت قائم رہے ، اور اس طرح کی مشکلات کا حل وہ نکالیں جو شاید مزید مشکل ہو :


" تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی" (22:78)

اللہ تعالی تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اوروہ تمہیں مشکل اورسختی میں نہیں ڈالنا چاہتا ( البقرۃ 2:185 )

یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمۡ وَ یَہۡدِیَکُمۡ سُنَنَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَ یَتُوۡبَ عَلَیۡکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۲۶﴾ وَ اللّٰہُ یُرِیۡدُ اَنۡ یَّتُوۡبَ عَلَیۡکُمۡ ۟ وَ یُرِیۡدُ الَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الشَّہَوٰتِ اَنۡ تَمِیۡلُوۡا مَیۡلًا عَظِیۡمًا ﴿۲۷﴾ يُرِيدُ اللَّـهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُمْ ۚ وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا ﴿٢٨﴾

اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں کو واضح کرے اور انہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے ۔ وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجّہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی- ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ. اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے (4:26,27,28] 

جمع بین الصلاتین : یہ ایک مثال ہے کہ کس طرح ہمارے علماء آسانی کو مشکل میں بدل دیتے ہیں  : 

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مدینہ منورہ میں ظہر وعصر کو ملاکر پڑھا؛ حالانکہ یہ کسی خطرہ یا سفر کی حالت نہ تھی۔ حضرت ابو الزبیر  کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید سے پوچھا کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایسا کیوں کیا؟ حضرت سعید نے جواب دیا کہ میں نے بھی یہ بات حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھی تھی تو انہوں نے بتایا کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا مقصد تھا کہ لوگ تنگی میں مبتلا نہ ہوں۔ (صحیح مسلم، الجمع بین الصلاتین فی الحضر)

اس حدیث میں جمع بین الصلاتین سے مراد "ظاہری جمع" ہے یعنی ظہر کو اس کے آخر وقت میں اور عصر کو اس کے اول وقت میں پڑھا۔ (یہ سہولت توعام پہلے ہی موجود ہے) محدثین کرام حتی کہ علامہ شوکانی  نے بھی اس حدیث سے جمع صوری ہی مراد لیا ہے۔ جو لوگ اس حدیث سے "جمع کو مطلقاً جائز" سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ جائز ہے بشرطیکہ عادت نہ بنا لے۔ فتح الباری میں ہے کہ ابن سیرین رحمہ اللہ، ربیعہ، ابن منذر اور فقال الکبیر کا یہی مذہب تھا۔ خطابی رحمہ اللہ نے بعض اہل حدیث کی طرف منسوب کیا ہے۔ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ بغیر کسی عزر کے جائز نہیں ہے۔  

اب غور فرمایئں کہ عام مسلمان کدھر جایے ؟ اسی طرح کسی حدیث کو رد کرنا  بھی مشکل بنا دیا … مطلب ، سپرٹ کو الفاظ کے پیچ و خم سے مشکل کر دیتے ہیں -

صحیح بخاری میں ایک حدیث کچھ یوں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو ایک بیماری کے علاج کے طور پراونٹ کا پیشاب اور دودھ تجویز کیا (صحیح بخاری ۔ باب الدواء بابوال الابل) سعودی عرب کے مشہور مصنف جناب محمد بن عبداللطیف آل الشیخ نے اس موضوع پر ایک مضمون (التداوی ببول الابل) تحریر کیا ہے-انہوں نے ابتداء میں تحریر کیا کہ باوجودیکہ میں قرآن وحدیث پر مکمل طور پر ایمان لایا ہوں اور اس بات پر بھی میرا مکمل یقین ہے کہ قرآن کریم کے بعد صحیح بخاری وصحیح مسلم دو اہم ومستند صحیح کتابیں ہیں، مگر صحیح بخاری میں وارد اُس حدیث کے الفاظ سے مکمل طور پر مطمئن نہیں ہوں جس میں اونٹ کے پیشاب سے علاج کا ذکر وارد ہوا ہے۔ زیادہ بہتر معلوم ہوتا کہ ہم اس حدیث کے تعلق سے جلیل القدر فقیہ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ والا موقف اختیار کریں- ...نیز اس حدیث میں کچھ شک وشبہات بھی ہیں کیونکہ اس سے قبل والی حدیث میں اسی واقعہ پر صرف اونٹ کے دودھ سے علاج مذکور ہے اور اس میں دور دور تک کہیں بھی اونٹ کے پیشاب کا ذکر نہیں ہے (ریفرنس لنک  ).. 

صحیح مسلم میں وارد حدیث جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ کو حکم دیا تھا کہ وہ حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے (نوجوان) غلام حضرت سالم کو دودھ پلادیں جس سے دونوں کے درمیان حرمت ثابت ہوجائے، حالانکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ دو سال کے بعد دودھ پلانے سے حرمت ثابت نہیں ہوگی یعنی ماں بیٹے کا رشتہ نہیں بن سکتا۔ ۔(خلاصہ مضمون: التداوی ببول الابل از محمد بن عبداللطیف آل الشیخ، ویب سائٹ العربیہ)- اب کوئی تبتیق کرتا ہے کہ غیر محرم کو دودھ ؟ اچھا تو پیالہ میں پلایا ہوگا .. ایک مرتبہ .. پانچ مرتبہ ..یا دس مرتبہ … دین کو مزاق بنا دیا … کیا ٢٠٠ سال سے راوی یہ حدیث یاد رکھ کر نسل در نسل پاس کر کہ اسلام کی خدمت کر رہے تھے؟

لاکھوں  احادیث سے یہ انتخاب کرنےوالے کی ذہنی حالت اور انٹلیکچوئل لیول کااندازہ لگانا مشکل نہیں … رسول الله صلی الله علیہ وسلم   کی ذاتی زندگی بھی نہیں چھوڑی  سیکس اوربہت ساری اور چیزیں انسان اور جانوروں کی فطرت میں ہیں-  بچہ ماں کا دودھ  پیتا ہے پرندہ اڑتا ہے مچھلی تیرتی ہے-  جوضروری ہدایت تھیں وہ موجود ہیں ..   رسول الله صلی الله علیہ وسلم   کی ذاتی زندگی بھی نہیں چھوڑی .. روزہ رکھ کر اپنی ازواج کے بوسے لیتے اور ان سے مباشرت فرمایا کرتے تھے (بخاری)۔  روزہ رکھ کر مجھے چومتے اور میری زبان چوستے (ابوداؤد) حیض کی حالت میں تہ پوش پہننے کا حکم دیتے اور اس کے بعد مجھ سے مباشرت کرتے (بخاری)۔ اس معاملہ میں قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ ''لوگ آپ سے حیض کے متعلق پوچھتے ہیں تو کہہ دیجیے کہ حیض ایک قسم کی غلاظت ہے، اس لیے دوران حیض میں بیویوں سے دور رہیے۔'' روایت کرتے ہیں کہ عورت، گدھا اور کتا سامنے آ جائیں تو نماز ٹوٹ جاتی ہے (مسلم)، لیکن دوسری طرف ارشاد ہے کہ ''میں نماز میں حضور کے سامنے پاؤں پھیلا کر لیٹ جاتی تھی۔ جب وہ سجدہ کرتے تو مجھے آنکھ سے اشارہ کرتے، چنانچہ میں پاؤں سمیٹ لیتی اور جب وہ اٹھتے تو پھر پھیلا لیتی اور گھر میں چراغ موجود نہ تھا (بخاری)۔ جنت تمھاری ماں کے پاؤں تلے ہے، لیکن دوسری طرف یہ بھی کہ جہنم میں اکثر آبادی عورتوں کی نظر آئی۔ عورت کو اتنا اونچا درجہ دینے کے بعد فوراً ہی گرا دیا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے منسوب کر دیا کہ قرآن میں آیت  رجم موجود تھی (بخاری)۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں لاکھوں احادیث  سے انتخاب ؟؟؟ 

شکوک شبہات پیدا کرکہ ان کی "تبطیق" [Adaptation] کریں جوایک مشکل کام ہے اختلافات پیدا. ہوتے ہیں اورنفاق ہوتا ہے. کتاب اللہ کسی عالم دین کے لیے مخصوص نہیں ، ہر ایک مسلمان کے لیے ، انسانوں کے لیے راہ ہدایت و نجات ہے- جو ہم روزانہ تلاوت کرتے ہیں ، ہرنماز میں پڑھتے ہیں .. عربی میں ہے تو تراجم موجود ہیں .. بہت مسلمان عربی بھی کچھ سیکھ لیتے ہیں اور تسلسل سسے عربی اور ترجمہ ساتھ ساتھ پڑھنے کی عادت ہو  تو نماز میں  امام کی قرأت   سمجھ آنا شروع ہو جاتی ہے … زندگی مختصر ہے اور وقت کم .. آسانیاں پیدا کریں اور قرآن سمجھنے پر توانیاں خرچ کریں نہ کہ  غیر مجاز (unauthorised) انسانوں کی تحریر کردہ کتابوں کے خودساختہ تضادات کی"تبطیق" کرنےمیں وقت ضایع کریں- 

الله تعالی نے ہدایت  دے دی ، ہر چھوٹی ، معمولی بات بات پر سوالات کھڑے کرنا ، اور جوابات کی کوئی  حدیث نہیں - جن باتوں کی کوئی خاص ضرورت نہ ہو ان کی کھوج میں پڑنا فضول ہے۔ دوسرے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بعض اوقات کوئی حکم مجمل طریقے سے آتا ہے۔ اگر اس حکم پر اسی اجمال کے ساتھ عمل کرلیا جائے توکافی ہے۔ اگر اﷲ تعالیٰ کو اس میں مزید تفصیل کرنی ہوتی تو وہ خود قرآنِ کریم یا نبی کریم صلی الله علیہ وسلم  کی سنت کے ذریعے کردیتا، اب اس میں بال کی کھال نکالنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَسۡئَلُوۡا عَنۡ اَشۡیَآءَ  اِنۡ تُبۡدَ لَکُمۡ  تَسُؤۡکُمۡ ۚ وَ  اِنۡ تَسۡئَلُوۡا عَنۡہَا حِیۡنَ یُنَزَّلُ الۡقُرۡاٰنُ تُبۡدَ لَکُمۡ ؕ عَفَا اللّٰہُ عَنۡہَا ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ ﴿۱۰۱﴾

اے ایمان والو! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں اور اگر تم زمانہ نزول قرآن میں ان باتوں کو پوچھو گے تو تم پر ظاہر کر دی جائیں گی  سوالات گزشتہ اللہ نے معاف کر دیئے اور اللہ بڑی مغفرت والا بڑے حلم والا ہے ۔  (5:101)

اگر نزول قرآن کے زمانے میں اس کا کوئی سخت جواب آجائے تو خود تمہارے لئے مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں، چنانچہ اس آیت کے شان نزول میں ایک واقعہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب حج کا حکم آیا اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم  نے لوگوں کو بتایا تو ایک صحابی نے آپ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیا حج عمر بھر میں صرف ایک مرتبہ فرض ہے، یا ہر سال کرنا فرض ہے؟۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم  نے اس سوال پر ناگواری کا اظہار فرمایا۔ وجہ یہ تھی کہ حکم کے بارے میں اصل یہ ہے کہ جب تک اﷲ تعالیٰ کی طرف سے خود یہ صراحت نہ کی جائے کہ اس پر با ربار عمل کرنا ہوگا (جیسے نماز روزے اور زکوٰۃ میں یہ صراحت موجود ہے) اس وقت تک اس پر صرف ایک بار عمل کرنے سے حکم کی تعمیل ہوجاتی ہے، اس لئے اس سوال کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم  نے صحابی سے فرمایا کہ اگر میں تمہارے جواب میں یہ کہہ دیتا کہ ہاں! ہر سال فرض ہے تو واقعی پوری امت پر وہ ہر سال فرض ہوجاتا۔ 

رسول الله صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جو میں چھوڑوں یعنی اس کا ذکر نہ کروں تم بھی اس کا ذکر نہ کرو۔ کیونکہ تم سے پہلے لوگ زیادہ سوال کرنے اور اپنے انبیاء سے اختلاف کرنے کی بنا پر تباہ ہوگئے۔ (مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب توقیرہ و ترک اکثار سوالہ ممالا ضرورۃ الیہ۔۔ الخ)  سیدنا ابوہریرہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جس کام سے میں تمہیں منع کروں اس سے باز رہو اور جس کام کا حکم دوں اسے جہاں تک ہو سکے بجا لاؤ کیونکہ تم سے پہلے لوگ زیادہ سوال کرنے اور اپنے پیغمبروں سے اختلاف کرنے کی وجہ سے تباہ ہوگئے (مسلم حوالہ ایضاً ) آپ نے فرمایا اللہ نے کچھ فرائض تم پر عائد کیے ہیں، انہیں ضائع نہ کرو (ٹھیک طرح سے بجا لاؤ) اور کچھ چیزیں حرام کی ہیں ان کے پاس نہ پھٹکو، کچھ حدود مقرر کی ہیں ان سے تجاوز نہ کرو اور کچھ چیزوں کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے بغیر اس کے اس کو بھول لاحق ہو لہذا انکی کرید نہ کرو۔ (بیہقی بحوالہ الموافقات للشاطبی اردو ترجمہ ج ١ ص ٢٩١) 


جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیا٫ اور صدیقین اور شہدا٫ اور صالحین کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں  یہ حقیقی فضل ہے جو اللہ کی طرف سے ملتا ہے اور حقیقت جاننے کے لیے بس اللہ ہی کا علم کافی ہے (4:69,70)


ایک سٹوری… بہت مشہور ہے…  پل کی حفاظت کےلیے گارڈ..پھر دوگارڈ پھر.. ان پرگارڈ کمانڈر… پھر تنخواہ اوراخرجات کے حساب کتاب کےلیے اکاونٹینٹ… جب اخراجات پڑھ گئے تو خرچہ کم  کرنے کی تدبیر.. نفری کم کرو..گارڈ کو فارغ کرردو..

اب سوچنے کی بات ہے کہ ایک آسان سادہ دین جو پہلے کی مشکلات اور پیچیدگیاں ختم کرنے آیا تھا اس کو مشکل بنا دیا کہ .. تضادات کی بھر مار کر دی .. پھر ان تضادات کو حل کرنے کے لیے مزید علمی سائنس اور برانچ قائم کردی .. یہ سارے کام دین کو مشکل نا قابل فہم بنا کر علماء کی اہمیت کا جواز پیدا کیا گیا .. علماء کی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے مگر اس قسم کے خود ساختہ مسائل اوران کاحل اورپھر یہ حرام ہے اوروہ حلال .. وہی بات ہوئی جو علماء یہود و نصاری کرتے تھے اور قرآن نے خبردار کیا ہے (9:31) .. بس طریقہ واردات ذرا مختلف ہو گیا … قرآن کے ساتھ یہ کھلواڑ ممکن نہ تھا … تو احادیث کو نہ  لکھنے کے حکم کو دوسری صدی میں پس پشت ڈال کر اسی راستہ پر چل پڑے جس سے  منع کیا گیا تھا -


کیا قرآن کافی نہیں ہدایت لیے؟ جبکہ وہ کسی اور حدیث  پر ایمان لانے سے منع کر رہا ہے .. تین مرتبہ مگر یہ کہتے  ہیں کہ حدیث کامطلب سب کچھ اور ہے ماسوا" حدیث:" کا وہ مطلب جو نزول قرآن سےآج تک مروج معروف اصطلاح ہے وہ  نہیں ہے … 

"باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو" (2:42)

آخری دین اسلام جو تا قیامت ہے …اب کوئی وحی نازل نہیں ہو گی ...اس قسم کا لٹریچر … ہمیں کیا حاصل ہو گا … حضرت عمر (رضی الله) اور خلفاء راشدین ان لوگوں کو ہم سے بہتر جانتے تھے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کے قریب ترین ساتھی بھی تھے … ابھی بہت مزید مثالیں ہیں .احادیث ک کتب میں  بہت اچھی اچھی باتیں بھی ہیں  لیکن کیونکہ یہ انسانی کام ہے.. غلطیاں  صاف نظرآرہی ہیں جن کو درست کرنا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے، یہ الله تعالی کا کلام نہیں, رسول الله صلی الله علیہ وسلم  سے منسوب ہے جس میں غلطی جب صاف نظر آییے تو تصحیح کی جاسکتی ہے - اگر پچھلے ١٢٠٠ سال میں ایسا کرتے تو تضادات سے چھٹکارا ممکن تھا، اب جدید ٹیکنولوجی کی مدد سے سکالر با آسانی کر سکتے ہیں,  مگر پھر بھی یہ غیر مجاز (unauthorised) کتب ہیں اور رہیں گی - ترکی میں کچھ تحقیقی کام ہو رہا ہے -

معلوم   پاک صاف پانی کی بوتل میں ایک قطرہ ہی خراب کرنے کو کافی ہے .. 

دنیا امتحان گاہ ہے اور سلیبس کی منظور شدہ کتاب صرف ایک ، قرآن ہے- ہمیں درسی ماڈل ٹیسٹ پیپرز کی ضرورت ہے؟

بھر حال ہم یھاں کسی حدیث یا سنت کی قرآن سے یا آپس میں اختلاف کو حل کرنے کی کوشش نہیں کر رہے نہ ہی یہ موضوع ہے- 

آپ سے اتفاق ہے کہ حدیث کو قبول یا رد کرنے کا تفصیلی کام تو محدثین کا ہے جو علم حدیث  ایکسپرٹ ہیں - قرآن کا کمال ہے کہ عام آدمی بھی آسانی سے سمجھ سکتاہے.. 

حدیث ، کلام ، کتاب ، بات ہے جبکہ "سنت" متواتر عمل، پریکٹس ہے- یہ متبادل اصطلاحات نہیں جیسا کہ عمومی طور پر سمجھا جاتا ہے -  اس پر تفصیل پڑھ سکتے ہیں .. [.......] 

حدیث کا  مقدس درجہ رسول الله سے نسبت سے ہے جتنی نسبت مضبوط ہو گی درجہ بہتر ہو گا ..  اس لحاظ سے جو تحریر خود سٹیبل نہیں ، وہ کسی اہم دینی معامله کی دلیل یا بنیاد کیسے بن سکتی ہے کہ دوسروں پر کفر یا بدعتی کے فتوے لگیں ، فرقے بن جائیں … جو کہ عام ہے … ابھی رفع یدین ، سوره فاتحہ کی جماعت میں تلاوت ، آمین اور اس طرح کے اختلافات سے ابتدا ہوتی ہے اور کہاں تک جاتی ہے ہم کو معلوم ہے -


احادیث کی تمام کتب نامکمل ہیں … کوئی کتاب دعوی نہیں کر سکتی کہ یہ احادیث کی مکمل کتاب ہے ، نآ مکمل کتاب سے کچھ فوائد حاصل ہو سکتے ہیں مگر اختلافات زیادہ کوئی دوسرے حدیث لاتا ہے مخالف اس کو ضعیف قرار دے دیتا ہے .. اپنی حدیث کو صحیح اب فیصلہ کون کرے گا ؟ قرآن ہی فرقان ہے .. 


ا مام شافعی رح نے کہا:


“میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو تمام سنت اور احادیث کو جانتا ہو۔ اگر احادیث کا علم رکھنے والے علما کے علم کو یکجا کیا جاۓ تو صرف اسی حالت میں تمام سنت آشکار ہوسکتی ہے۔ چونکہ ماہرین حدیث دنیا کے ہر گوشے میں پھیلے ہیں اس وجہ سے بہت سی احادیث ایسی ہوں گی جن تک ایک عالم حدیث کی رسائی نہ ہوگی لیکن اگر ایک عالم ان سے نا آشنا ہے تو دوسروں کو ان کا علم ہوگا”


شاید یہ بھی دوسری وجوہ کے ساتھ ایک وجہہ ہو کہ حضرت عمر رضی الله نے فیصلہ کیا  (حضرت علی (رضی الله) کا بھی یہی نقطہ نظر تھا )  کہ شروع سے  ہی احادیث کو مکمل کرنا ممکن نہ تھا .. … جو پہلی صدی ہجری تک قائم رہا ، جب صحابہ کی اکثریت فوت ہو گیی تو نئی نسل نے خلاف درزی کی -

  1. یہاں ایک مسئلہ ڈسکس ہو رہا ہے  جو ایک ایسے عظیم تضاد کی نشان دہی کرتا ہے ، کہ جس  نے اسلام کے ثانوی وسائل (کتب احادیث) کو مشکوک بنا دیا ہے-

  2. نہ تو قرآن نے اس مواد [کتب احادیث ] کی تحریر کی منظوری دی گئی ہے  اور نہ ہی مجازاتھارٹی ، ہدایت یافتہ خلفاء راشدین  نے یہ طریقہ اختیار کیا بلکہ بہت سوچ بچار اور استخارات کے بعد اس کام [کتابت احادیث ] سے سختی سے منع  کر دیا 

  3. اگر احادیث کتب لکھنے پر پابندی کو اجتہاد (یا جوکچھ بھی کہا جایے) ، " ہدایت یافتہ ، خلفاء راشدین"  کو     رسول الله صلی الله علیہ وسلم  نے خصوصی طور پراہم اختلافی معاملات میں فیصلوں کا اختیار دیا تھا اور نامزد کیا تھا - وہ لوگ کوئی عام علماء یا مجتہد نہیں تھے۔ کتنے لوگ ہیں ہیں کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم    نے "ہدایت یافتہ"  اور  "خلفاء راشدین" کا  خطاب دیا؟ ان کے فیصلہ کو صدی کے بعد منسوخ کون کر سکتا ہے؟  جو ان سے زیادہ " ہدایت یافتہ" ہو؟

  4. تیرہ صدی پرمحیط اسلامی تاریخ  کے سب سے  بڑے سکینڈل کا قرآن اور ناقابل تردید تاریخی حقائق کی مدد سے انکشاف کرنا اور یہ توقع رکھنا کہ حقیقت  کو وہ لوگ بآسانی قبول کر لیں گے جن  کا وجود،  بقا اور مفادات اس سے جڑے ہوے ہوں،اسے مہذب الفاظ میں سادگی ہی کہہ سکتے ہیں- ایک طویل جدوجہد سے ہی مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنا ہوگا - یہ ایک فرد نہیں ہر باشعور مسلمان کا فرض ہے جو اسے قرآن کے وارث کی حیثیت سے ادا کرنا ہو گا-   

حضرت ابو بکر  صدیق رضی الله  کا ٥٠٠ احادیث کو ضا یع کرنا:


١.کیا ان کو احادیث کی حیثیت اور اہمیت کا علم نہ تھا جو ٢٠٠ سال بعد آشکار ہوا ٦ کتب لکھنے والوں کو ؟

٢.کیا  ٢٠٠ سو سال بعد  کے لوگوں کو  حضرت ابو بکر  صدیق رضی الله سے زیادہ مستند ذرایع سے احادیث کا  علم پہنچا تھا ؟

٣. اگر حضرت ابو بکر  صدیق رضی الله  کو علم نہہن تھا ، اپنی لکھی ٥٠٠ احادیث کی صداقت پر شک تھا کہ غلطی نہ ہو ، تو وہ کون تھا جو حضرت ابو بکر  صدیق رضی الله سے بڑا صادق … بڑا  صدیق ؟


چاروں فقہ اربعہ دوسری صدی میں مکمل ہو گیے احادث کی مشور صحاح  سشه سے پہلے … صرف امام مالک  (93-179ھ/712-795ء) نےموطا لکھی  تھی ..دوسری ہجری میں …


فقہ  کی بنیاد … قرآن ، سنت ، اجماع ، قیاس ہے- ان چاروں اصولوں کا مرجع خود رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  کی ذاتِ گرامی ہے-


جب چہار فقہ بن گئے اس کے بعد تیسری صدی میں احادیث کی کتب لکھنے کی کیا ضرورت تھی ؟ 


کیا ایمرجنسی تھی کہ خلفاء راشدین کے حکم سے انکار ہوا  ؟


اور فرقہ واریت  کے لیے مواد مہیا ہوا  ؟ (فائدے کے ساتھ نقصانات زیادہ )


غور فرمائیں کہ امام ابو حنیفہ نے کوئی کتاب نہ لکھی … حدیث کی کتاب بھی نہیں .. حالانکہ ان کو حافظ حدیث بھی کہتے ہیں اور امام بخاری سے بڑے محدث بھی .. کچھ مخالفین ان کو حدیث سے نابلد کہتے ہیں  (کیا ایسا ممکن ہے عقل مانتی ہے ؟)..  امام ابوحنیفہ کا خاص امتیاز ہے کہ انہوں نے حضرت عمر اور خلفاء راشدین کے فیصلہ کا مکمل احترم بھی کیا اور فقہ بھی ایسا قائم کیا کہ دنیا میں سب سے زیادہ تعداد …اگرچہ ان کے اور ہر فقہ  سے اختلاف ممکن ہے  ہر انسانی کوشش میں کمی رہ سکتی ہے - تاریخی حقیقت کو جھٹلا کیسے سکتے ہیں؟ 

جس نےبھی خلاف ورزی کی اس کاشرعی جواز کیا تھا  حکم عدولی کا  دوسرےاماموں نےبھی ذاتی کولیکشن کی ..  مگر زیادہ مشہور تو تیسری صدی کی چھ کتب ہیں .. 


یہ ٹائم لائن بہت کچھ واضح کررہی ہے….


1. ابوحنیفہ نعمان بن ثابت (80-150ھ/699-767ء)

2.مالک بن انس (93-179ھ/712-795ء) موطأ امام مالک حدیث کی ایک ابتدائی کتاب ہے جو آپ نے تصنیف کی۔

3.محمد بن ادریس شافعی (150-204ھ/767-820ء) 

4. احمد بن حنبل (164-241ھ/780-855ء) … مسند احمد 

مشہور محدثین  - صحاحِ ستہ : ”چھ کتابیں جو اسلام میں مشہور ہیں، محدثین کے مطابق وہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ ہیں۔ ان کتابوں میں حدیث کی جتنی قسمیں ہیں صحیح، حسن اور ضعیف، سب موجود ہیں اور ان کو صحاح کہنا تغلیب کے طور پر ہے۔“ محدثین کی ان کتابوں میں ایک طرف دینی معلومات جمع کی گئیں اور دوسری طرف ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے کے صحیح تاریخی واقعات جمع کیے گئے ہیں۔ اس طرح احادیث کی یہ کتابیں دینی و تاریخی دونوں اعتبار سے قابل بھروسا سمجھی جاتی ہیں۔

1.محمد بن اسماعیل بخاری (194-256ھ/810-870ء)

2.مسلم بن حجاج (204-261ھ/820-875ء)

3.ابو عیسی ترمذی (209-279ھ/824-892ء)

4..سنن ابی داؤد (امام ابو داؤد متوفی   275ھ/9-888ء

5۔ سنن نسائی (امام نسائی) متوفی 303ھ/16-915ء

6۔ سنن ابنِ ماجہ (امام ابنِ ماجہ) متوفی 273ھ/87-886ء

………………………...

امام احمد بن حنبل (164-241ھ/780-855ء) فقہ اربعہ کی ٹائم لائن کے آخر میں ہیں … وہ  احادیث "سننتے تھے پڑھتے نہیں تھے" اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دوسری صدی حجرہ کے وسط تک احدیث کی اگر کوئی کتب تھیں تو وہ پبلک کو مہیا نہ تھیں ، شاید ذاتی ہوں- 


تعلیم و سماعت حدیث: 16 برس کی عمر میں انہوں نے حدیث کی سماعت شروع کی۔ ابو یوسف کے حلقہ درس میں بیٹھے۔ 180ھ میں سب سے پہلا حج کیا۔ پھر حجاز آمد و رفت رہی اور علما حجاز سے علم سیکھتے رہے۔  196ھ میں یمن جاکر عبد الرزاق الصنعانی سے احادیث سنیں۔ یہاں یحییٰ بن معین اور اسحاق بن راہویہ بھی ان کے شریک درس رہے۔ وہ کوفہ بھی گئے۔ مسافرت برائے حدیث میں تنگدستی بھی دیکھی۔ ان دنوں جس جگہ قیام پزیر رہے سر کے نیچے سونے کے لیے اینٹ رکھا کرتے۔ کہا کرتے کاش میرے پاس دس درہم ہوتے میں حدیث سننے کے لیے جریر بن عبد الحمید کے پاس رے چلا جاتا۔ 

------------

متواتر حدیث
  1. Read Englsih Translation of this page >>>>
  2. A Collection of 324 [Mutawatir (Genuine) Hadiths] by Ministry of Islamic Affairs, Endowments, Da‘wah and Guidance Kingdom of Saudi Arabia >>>>
  3. A Collection of Mutawatir (Mass transmitted/most authentic) Hadith (Prophetic Tradition) … >>>>
  4. A Collection of Mutawatir (Mass transmitted) Hadith: Most Authentic 322 Hadiths by Number of Narrators >>>
  5. https://www.slideshare.net/nsnirjhor/a-collection-of-mutawatir-hadith >>>>
  6.  قطف الازہر متناتھرہ فی الخبار المتواتر”   [Qatf al-Azhar al-Mutanathara fi al-Akhbar al-Mutawatirah[ >>>>>

……………………..

حدیث اور سنت میں فرق

Professor, Dr. J C, worte:

  1. A commendable exercise but I failed to understand the way you have separated Hadees from Sunnah. Every act performed by Prophet SAW publically, to be followed, all advices issued by him verbally and all acts which were performed in his presence and he gave an approval even by staying silent constitute the Sunnah. And all the Sunnah reached us through narrations of people, a very small part with 'tawatur' and rest through 'ahad' ahadees. Authenticity of ahad ahadees was documented and categorized in 3rd Century of Hijra with Ismaa-ur-rijaal. Had those scholars not documented all those ahadees or had tried to keep them alive just through practice, the text and interpretations would have been distorted beyond our imagination. 

  2. Inspite of the respect given to the six collections of sahih ahadees no sane Muslim ever tried to give them weightage equal to/more than Quran.

  3. The reason of groups doing 'takfeer' of other groups is not documentation of ahadees.It is there because of

1).Lack of sincerity for Islam

2). Lack of knowledge about permissibility of difference of opinion

3.) When there are more than one shar'ee opinions  on any issue which ever opinion is adopted by Ameer becomes the law.This is the method practiced by Khulafa e Rashdeen.

4) And Ameer is not allowed to adopt in matters of faith!

5) Today, as State is not ready to take this burden everyone is taking his ijtehad as aqeeda....and considers other groups out from Islam.


  1. Difference in understanding of Quran can also be there.If we start forsaking our sources for the fear of sectarianism we may lose everything. 

  2. The only way to save ourselves from going astray we need to own Quran and  Sunnah at the state level as the only source of legislation.

………………………..

AAK’s Response : 


Appreciate sincere comments... the Draft is being revised / updated...with rational input... most concerns have been addressed ... in updated draft ...

It will take some time to comprehend the issue fully...one has to visit the references/ links... Jazak Allah 

https://quransubjects.blogspot.com/2020/01/why-quran.html




اگرچہ مقالہ کے سکرپٹ میں تفصیل موجود ہے مگر قارئین کی سہولت کے لئے دوبارہ جوابات پیش ہیں :


Q-1 حدیث اور سنت میں فرق، سوال ؟

.ایک قابل ستائش کام  لیکن میں حدیث کو سنت سے جدا کرنے کے طریقے کو سمجھنے میں ناکام رہا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر عمل کو جواز کے مطابق ، اس کے بعد ، ان کی طرف سے زبانی طور پر جاری کردہ تمام مشورے اور ان کی موجودگی میں انجام دیئے جانے والے تمام مشورے اور انہوں  نے خاموش رہ کر بھی سنت کو منظوری دے دی۔ اور تمام سنت  لوگوں کی روایتوں کے ذریعہ ہم تک پہنچی ، یہ ایک چھوٹا سا حصہ 'توا تر ' کے ساتھ تھا اور 'احد' احادیث کے ذریعہ بقیہ ۔

احد احادیث کی صداقت کو تیسری صدی ہجری میں اسم رجال کے ساتھ دستاویزی اور درجہ بندی کیا گیا تھا۔ اگر ان اسکالرز نے ان تمام احادیث کی دستاویزی دستاویز نہ کی ہوتی یا صرف مشق کے ذریعہ ان کو زندہ رکھنے کی کوشش کی ہوتی تو متن اور تشریحات ہمارے تخیل سے بھی زیادہ مسخ ہوجاتی۔


AAK  :

 سنت و حدیث متبادل نہیں مختلف استطہالات  ہیں  جسے کہ  اس حدیث ظاہرہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : ” سَيَأْتِيكُمْ عَنِّي أَحَادِيثُ مُخْتَلِفَةٌ، فَمَا جَاءَكُمْ مُوَافِقًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَهُوَ مِنِّي، وَمَا جَاءَكُمْ مُخَالِفًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي ”

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی صلے اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ میری طرف سے کچھ اختلافی احادیث آئینگی، ان میں سے جو “کتاب اللہ” اور “میری سنّت” کے موافق ہونگی، وہ میری طرف سے ہونگی۔ اور جو “کتاب اللہ” اور “میری سنّت” کے خلاف ہونگی وہ میری طرف سے نہیں ہونگی۔

[سنن الدارقطني: كِتَابٌ فِي الأَقْضِيَةِ وَالأَحْكَامِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، كتاب عمر رضي اللہ عنہ إلى أبي موسى الأشعري، رقم الحديث: 3926(4427) الكفاية في علم الرواية للخطيب:التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ، رقم الحديث: 311(5٠٠4)؛ذم الكلام وأهلہ لعبد اللہ الأنصاري:الْبَابُ التَّاسِعُ، بَابٌ : ذِكْرُ إِعْلَامِ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ ۔.۔ رقم الحديث: 589(٦٠٦)؛الأباطيل والمناكير والمشاهير للجورقاني: كِتَابُ الْفِتَنِ، بَابُ : الرُّجُوعِ إِلَى الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ رقم الحديث:2٧٧(29٠5) الكامل في ضعفاء الرجال  » من ابتدا أساميهم صاد » من اسمہ صالح؛ رقم الحديث: 4284٦) التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ » التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ؛ رقم الحديث: 311]

ضرور پڑھیں … "قرآن ، سنت ، حدیث میں فرق" >>>  https://quransubjects.blogspot.com/2019/12/hadith-sunnah.html

حدیث اور سنت میں فرق- جواب :

1.عام غلط فہمی ہے کہ حدیث اور سنت ایک ہی چیز ہے۔ فی الحقیقت ؛ حدیث اور سنت دونوں ایک دوسرے سے ناصرف لسانی اعتبار سے بلکہ شریعت میں اپنے استعمال کے لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

2.اسلام ؛ قرآن اور سنت پر عمل کرنے کا نام ہے۔ سنت کی تشکیل میں احادیث اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن سنت صرف احادیث سے نہیں بنی ہوتی ہے؛ سنت میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  کی زندگی کا وہ حصہ بھی شامل ہے جو الفاظ کی شکل میں نہیں مثال کے طور پر تقریر اور یا کسی عبادت کا طریقہ ، تقریر کو محدثین حدیث میں بھی شمار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سنت میں قرآن اور حدیث میں بیان کردہ ہدایات پر عمل کرنے کا نمونہ پایا جاتا ہے؛ یہ طریقہ یا عملی نمونہ محمد رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  کے زمانے میں موجود اس عہد کی نسل سے اجتماعی طور پر اگلی اور پھر اگلی نسل میں منتقل ہوتا رہتا ہے اور اس کی اس اجتماعی منتقلی کی وجہ سے اس میں نقص یا ضعف آجانے کا امکان حدیث کی نسبت کم ہوتا ہے کیونکہ حدیث ایک راوی سے دوسرے راوی تک انفرادی طور پر منتقل ہوتی ہے اور اس منتقلی کے دوران اس راوی کی حیثیت ، اعتبار اور اس کی یاداشت کا دخل ہوتا ہے۔

3.نکاح کرنا سنّت ہے، حدیث نہیں؛ قربانی کرنا سنّت ہے، حدیث نہیں؛ مسواک کرنا سنّت ہے، حدیث کوئی نہیں کہتا. کسی حدیث کو سنت سے پرکھا جا سکتا ہے:

آپ نے فرمایا کہ:

“تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَاتَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ رَسُوْلہِ”۔(مشکوٰۃ شریف:۲۹)”:

میں تمہارے درمیان دوچیزوں کو چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں کومضبوطی سے تھامے رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی الله علیہ وسلم  ہے۔ 

حدیث سے مراد وہ اقوال واعمال اور تقریر(تصویب) مراد ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب ہوں- کتاب اللہ کے بعد رسول اللہؐ کی سنت شریعت کا دوسرا سرچشمہ اور اصل واساس ہے، یہ قرآن کریم کی تشریح اور اس کے اصول کی توضیح اور اجمال کی تفصیل ہے-

حدیث ، بیان ، قول  جبکہ سنت عمل … نکاح کرنا سنت ہے ، حدیث نہیں - 

 ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ (2:1)یہ (قرآن) وہ کتاب ہے جس (کے کلام اللہ ہونے) میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ 

مگرکیا حدیث کی کسی کتاب کے لیے ایسا دعوی کیا جا سکتا ہے؟

سنت کیوں کہ تواترسے لا تعداد افراد کی وساطت عمل سے منتقل ہوئی اس لیے اس کی درجہ بندی حدیث کی طرح نہیں- غور طلب بات ہے کہ جب دین کامل ہو گیا (5:3)حج الوداع پر تو اس وقت صرف قرآن اور سنت کا وجودعملی طور پرظاہر تھا-علم حدیث بتدریج وجود پذیر ہوا، کچھ اصحابہ رضی الله کی حدیث کو محفوظ کرنے کی ذاتی ،انفرادی کاوشوں کو قرآن و سنت کے تواتر کے معیارپر پرکھا نہیں جا سکتا- خاص طور پر جبکہ اربع خلفاءراشدین اور ان کے بعد کے حکمرانوں نے اس کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا-

آج کوئی نیا دین ایجاد نہیں کرنا کہ کسی کتاب سے پڑھ کر معلوم کر:یں کہ نماز کیسے ادا کرنی ہے ، جو سنت تواتر سے نسل در نسل منتقل ہوتی چلی آ رہی ہے ، سنت ہوتی ہے نہیں، درجات نہیں ہوتے  … حدیث کے درجات ہیں صحیح ، حسن ، ضعیف، موضوع ،    منع گھڑت  وغیرہ .. سنت گھڑ نہیں سکتے ، یسے قرآن کی آیت نہیں گھڑ سکتے ، پکڑا جائے گا - صرف وہ احادیث جن کو بہت زیادہ افراد نے بیان کیا تو وہ متواتر احا دیث ، سنت کے درجہ تک پہنچ جاتی ہیں ، جن کا انکار کفر کہلاتا ہے - امام سیوطی نے ١١٣ متواتر احادیث کا ذکر کیا ہے - وزیر شیخ / صالح بن ‘عبدل‘ عزیز الشیخ  نے   متواتر (صحیح) احادیث  324  شمار کی ہیں -

سنت و الجماع : سنت کا نمونہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  نے پیش کیا اور پھر اس کے بعد اصحاب اکرام اور تابعین سے ہوتا ہوا موجودہ زمانے تک پہنچا ہے اسی ليے اس میں امت کے اجتماعی درست طریقۂ کار یا راہ کا مفہوم بھی شامل ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ عموماً اس کے ساتھ الجماعت کا لفظ لگا کر سنت و الجماع بھی کہا جاتا ہے۔ حدیث اور سنت کا فرق مفہوم کے لحاظ سے اسلامی شریعت میں پایا جاتا ہے -

Q 2  حدیث قرآن کے برابر نہیں 

صحیح احادیث کے چھ مجموعوں کو جو احترام دیا گیا ہے اس کے باوجود کسی سمجھدار مسلمان نے انہیں قرآن سے کے برابر / زیادہ وزن دینے کی کوشش نہیں کی۔

………………….

AAK Response

حقیقت میں ایسے ہی ہونا چاہیے تھا جو آپ فرما رہے ہیں مگر عملا ایسا نہیں .. علماء غلو میں بہت دور نکل جاتے ہیں اور احادیث کو وحی غیر متلو ، وحی خفی که کر قرآن کے ساتھ ملتے ہیں اور ان کا انکار کرنے والے پر کفر کے فتوے لگاتے ہیں - آپ نے ایک کتاب کے تین صفحات کی فوٹو بھیجی [ٹائٹل : سنت   رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کی حفاظت] … اس کو ٹائپ کرکہ یہاں شامل کیا ہے( ان سوالات کے بعد ).. آپ نے شاید غور نہیں کیا  .. اس میں سے ایک اقتباس پسش ہے :

"قرآن مجید کی آیات وہی ہیں جو سنت رسول صلی اللہ وسلم کی اہمیت کے سلسلے میں پچھلے شمارے میں بیان ہو چکی ہیں ان کے مطابق سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی قرآن مجید کی طرح اللہ کی جانب سے وحی ہے اور یہ اصول دین میں سے ہے یعنی شریعت دلیل ہے اور اس سے لینا فرض اور واجب ہیں اور اس کا انکار کفر ہے ہے ان سب کی حفاظت میں شک کرنا دراصل یہ کہنا ہے کہ اللہ تعالی نے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مقام اور مرتبہ کیا تھا وہ محفوظ ہیں نہ رہ سکیں معاذاللہ  

یہاں بہت سمارٹ طریقہ سے "حدیث" کی بجایے "سنت  کا لفظ استعمال کیا  گیا ہے .. مطلب "حدیث" ہے مگر الفاظ دوسرے - عوام ان باریکیوں سے اگاہ نہیں ہوتے اور دھوکہ ، غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں ..   

----------------------

Q -3 تکفیر کی وجوہات 

دوسرے گروہوں کی تکفیر کرنے والے گروہوں کی وجہ احادیث کی کتب نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے

1) .اسلام کے لئے اخلاص کا فقدان

2). اختلاف رائے کی اجازت کے بارے میں معلومات کا فقدان

3) جب کسی مسئلے پر ایک سے زیادہ شرعی آراء ہوں جس پر امیر  کے ذریعہ رائے کو اختیار کیا جاتا ہے تو وہ قانون بن جاتا ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جس کا خلفائے راشدین نے عمل کیا ہے۔

4) اور امیر کو دین  کے معاملات میں اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہے!

5) آج ، کیونکہ ریاست اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہے ہر کوئی اپنے اجتہاد کو عقیدہ سمجھ رہا ہے .... اور دوسرے گروہوں کو اسلام سے خارج سمجھتا ہے۔

AAK Response

ابھی اوپر آپ کو احدیث پر تکفیر کی  ایک مثال آپ کے مہیا کردہ لڑیچر سے دی ہے- کوئی  شخص جب دلائل سے قائل نہیں کر سکتا تو تکفیر آخری حربہ ہوتا ہے … قرآن کی کفار والی آیات کو مخلف پر فٹ کر کہ کلمہ گو کو کافر کہتے ہیں - تمام فرقہ باز یہ عام کرتے ہیں -- فرقے کس طرح بنتے ہیں … نماز میں کسی نے آمین زور سے کھا کسی نے آہستہ .. اب احدیث سے ان فروعی مسائل پر فرقے بنانا اور بہت کچھ کہنا … حالانکہ فرقہ بازی کی قرآن سختی سے ممانعت کرتا ہے - نہ جانے وہ آیات کیوں یاد نہیں رہتیں ؟

1) ,2) 4) سے متفق … البتہ 4)  دین کے معاملہ میں خلفاء راشدین کی حثیت عام امیر کی جیسی نہیں تھی ، وہ   رسول الله صلی الله علیہ وسلم   کے قریبی ساتھی اور خاص  تربیت یافتہ تھے ان کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم  نے تمام امور پر فیصلوں کا اختیار دیا تھا اور انہوں نے دین کے معاملات میں اہم  فیصلے کیے … جن مین اہم ترین  احادیث کی کتابت نہ کرنے کا حکم تھا جس پر  ایک صدی تک صحابہ اور سب حکمران بھی عمل کرتے رہے جو یھاں زیر بحث ہے- 



~~~~~~~~~
🌹🌹🌹
قرآن آخری کتاب یا کتب؟ تحقیق و تجزیہ 🔰
 🔰 ?The Last Book Quran or Books

"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]
The messenger said, "My Lord, my people have deserted this Quran." (Quran 25:30)
~~~~~~~~~
اسلام دین کامل کو واپسی ....
"اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں  کو واضح کرے اور انہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے- وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجّہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی- ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ. اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے." (قرآن  4:26,27,28]
اسلام کی پہلی صدی، دین کامل کا عروج کا زمانہ تھا ، خلفاء راشدین اور اصحابہ اکرام، الله کی رسی قرآن کو مضبوطی سے پکڑ کر اس پر کاربند تھے ... پہلی صدی حجرہ کے بعد جب صحابہ اکرام بھی دنیا سے چلے گیے تو ایک دوسرے دور کا آغاز ہوا ... الله کی رسی, "قرآن" کو بتدریج پس پشت ڈال کر تلاوت تک محدود کر دیا ... احادیث کی کتب  کے زریعہ قرآن کو پس پشت ڈال کر کہ مشرکوں کی طرح فرقہ واریت سے دین کامل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے-  ہمارے مسائل کا حل پہلی صدی کے اسلام دین کامل کی بزریعہ قرآن بحالی میں ہے  ..تفصیل  >>>>>>

پوسٹ لسٹ