’’جو شخص غیر قرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، وہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط رسی ہے اور وہ ایک محکم اور مضبوط ذکر ہے اور وہ ایک سیدھا راستہ ہے …‘[2]
CONTENTS
- قرآن کا قانون – اقوام کا عروج و زوال
- کچھ غلط فہمیاں
- مسلمانوں کا عروج و زوال (مقالہ )
- زوال کے بنیادی اسباب
- کیا غلط ہوا؟ (اقتباسات) برنارڈ لیوس ترجمہ
- قرآن قانون :عروج, زوال مولانا ابوالکلام آزاد (کتاب)
- امت مسلمہ مسلسل زوال پزیر کیوں؟
- تفسیر قرآن – منتخب آیات : ویب بک (Web Book Mobile Friendly )
- عروج
- Quran – On Rise and Fall of Nations
- Misconceptions
- What Went Wrong? [Excepts from book By Bernard Lewis]
- Lessons From History: by Dr Israr Ahmad
- Lessons from History – Durant
- The Rise and Fall of the Great Powers: By Paul Kennedy [Summary]
- Rise of Jews, Christian Zionism and Israel [Thesis]
- The Decline Of The Ottoman Empire, 1566–1807
- Islamic Education System & Learning
- Muslim Revival Methodology
الله تعالی کا مقصد تخلیق کائنات
اختیار اور امتحان
تخلیق خلیفہ آدم ، روح ، علم ، ابلیس کا انکار اور جہنم
الله تعالی نے تخلیق کائنات وتخلیق آدم کیوں کی؟
اس سوال کے جواب کو سمجھنے سے دنیا و آخرت میں کامیابی کا راستہ واضح ہو جاتا ہے-
قرآن میں تخلیق کاینات و آدم کا مقصد بیان کیا گیا ہے، خلاصہ :
وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ ﴿١٦﴾
ہم نے اِس آسمان اور زمین کو اور جو کچھ بھی ان میں ہے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے(21:16).
رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ "میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں" انہوں نے عرض کیا: "کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کے لیے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں" فرمایا: "میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے" الله تعالی نے خود آدم کو مٹی سے بنایا پھر اس میں اپنی روح پھونک دی- اللہ نے آدمؑ کو ساری چیزوں کے نام سکھائے، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا "اگر تمہارا خیال صحیح ہے کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے انتظام بگڑ جائے گا تو ذرا ان چیزوں کے نام بتاؤ" وہ نہ بتلا سکے- پھر اللہ نے آدمؑ سے کہا: "تم اِنہیں اِن چیزوں کے نام بتاؤ" جب اس نے ان کو اُن سب کے نام بتا دیے- پھر جب اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدمؑ کے آگے جھک جاؤ، تو سب جھک گئے، مگر ابلیس نے انکار کیا وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہو گیا - اللہ نے فرمایا "اچھا تو یہاں سے نکل جا، تو مردود ہےاور تیرے اوپر یوم الجزاء تک میری لعنت ہے" وہ بولا "ا ے میرے رب، یہ بات ہے تو پھر مجھے اُس وقت تک کے لیے مہلت دے دے جب یہ لوگ دوبارہ اٹھائے جائیں گے" فرمایا، "اچھا، تجھے اُس روز تک کی مہلت ہے جس کا وقت مجھے معلوم ہے" اس نے کہا "تیری عزت کی قسم، میں اِن سب لوگو ں کو بہکا کر رہوں گا، ما سوا تیرے اُن بندوں کے جنہیں تو نے خالص کر لیا ہے" فرمایا "تو حق یہ ہے، اور میں حق ہی کہا کرتا ہوں کہ میں جہنم کو تجھ سے اور اُن سب لوگوں سے بھر دوں گا جو اِن میں سے تیری پیروی کریں گے" (مفھوم ماخوز قرآن: 2:30,34 , 38:71,85)
اللہ نے فرمایا : تم دونوں ، یعنی انسان اور شیطان یہاں سے نیچے اتر جاؤ ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے پھر اگر تمہیں میری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گا ، وہ نہ گمراہ ہوگا ، اور نہ کسی مشکل میں گرفتار ہوگا- اور جو میری نصیحت سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی اور قیامت کو ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے (20:123,124)
میثاق الست
عالم ارواح میں تخلیق آدم کے بعد اللہ نے آدم کی ساری اولاد کو حاضر کیا تھا، اور ان کو خود اپنے اوپر گواہ بنایا تھا، اور پوچھا تھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے جواب دیا تھا کہ : کیوں نہیں ؟ ہم سب اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔ اور یہ اقرار ہم نے اس لیے لیا تھا تاکہ وہ قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکیں کہ : ہم تو اس بات سے بیخبر تھے۔ (مفہوم سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 172)
اکثر انسان اس واقعے کو ایک عہد کی شکل میں تو بھول چکے ہیں، ہر بات یاد نہیں رہتی جیسے پیدائیش اور اس سے قبل شکم مادر کا دور۔ مگر کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ یاد نہ رہنے کے باوجود اپنا طبعی اثر چھوڑ جاتے ہیں، یہ اثر آج بھی دنیا کے اکثر وبیشتر انسانوں میں موجود ہے جیسا کہ کچھ افریقی اور آسٹریلوی قبائل جو کہ اس کائنات کے ایک پیدا کرنے والے پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی عظمت وکبریائی کے گن گاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت و محبت ہر انسان کی فطرت میں سمائی ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ کبھی فطرت سے دور کرنے والے بیرونی عوامل دور ہوتے ہیں تو انسان توحید حق کی طرف اس طرح دوڑتا ہے جیسے اس کو اپنی کھوئی ہوئی پونجی اچانک مل گئی ہو۔ اس کے علاوہ اللہ نے رسول ، نبی اور کتب نازل فرمائیں تاکہ انسان ھدائیت پر قائیم رہ سکے۔ اس کے باوجود جو لوگ ابلیس کی پیروی میں گمراہی کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو جہنم کے حقدار ہیں۔
پھر انسان کو الله تعالی نے برائی اور نیکی کا شعور دیا, یقیناوہ شخص کامیاب ہوگا جس نے اپنے نفس کو گناہوں سے پاک کیا اور نامراد وہ ہوگا جو نفس کو گناہ میں دھنسا دے
وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۗ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١٦٥﴾
وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا، اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلہ میں زیادہ بلند درجے دیے، تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اسی میں تمہاری آزمائش کرے بے شک تمہارا رب سزا دینے میں بھی بہت تیز ہے اور بہت درگزر کرنے اور رحم فرمانے والا بھی ہے (6:165)
الله تعالی نے اس امانت (خلافت) کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اُسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اسے اٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے-اِس بار امانت کو اٹھانے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اللہ منافق مردوں اور عورتوں، اور مشرک مردوں اور عورتوں کو سزا دے اور مومن مَردوں اور عورتوں کی توبہ قبول کرے، اللہ درگزر فرمانے والا اور رحیم ہے (73،33:72)
انسان کے بار امانت اٹھانے کا انجام یہ ہوگا کہ نوع انسانی میں دو فریق ہوجائیں گے، ایک کفار و منافق وغیرہ جو اطاعت الٰہیہ سے سرکش ہو کر امانت کے ضائع کرنے والے ہوگئے، ان کو عذاب دیا جائے گا، دوسرے مومنین و مومنات جو اطاعت احکام شرعیہ کے ذریعہ حق امانت ادا کرچکے، ان کے ساتھ رحمت و مغفرت کا معاملہ ہوگا۔