علمائےاہل سنت کے مطابق حضرت مہدی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی فاطمۃ الزھراء اور علی بن ابی طالب کی نسل سے ہوں گے۔ ان کا نام محمد ہوگا اور کنیت ابو القاسم ہوگی۔ وہ ابھی پیدا نہیں ہوئے مگر پیدا ہونے کے بعد وہ باقاعدہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مل کر کفار و مشرکین سے جنگ کریں گے اور ایک اسلامی حکومت قائم کریں گے۔ ان کی پیدائش قیامت کے نزدیک ہوگی۔ اور ان کا ظہور مشرق سے ہوگا اور بعض روایات کے مطابق مکہ سے ہوگا۔ ان کے ظہور کی نشانیاں بھی کثرت سے بیان کی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں احادیث اہل سنت کی کتب میں موجود ہیں.
شیعہ اہل سنت کی کچھ روایات سے اتفاق کرتے ہیں مگر یہ کہتے ہیں کہ حضرت مہدی پیدا ہوچکے ہیں اور امام حسن بن علی عسکری کے بیٹے ہیں یعنی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیٹی فاطمۃ الزھراء اور علی کی نسل سے ہیں۔ وہ اب غیبت کبرٰی میں ہیں اور زندہ ہیں یعنی ان کی عمر خضر اور عیسی مسیح کی طرح بہت لمبی ہے۔ وہ قیامت کے نزدیک ظاہر ہوں گے۔
مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، عنقریب تم میں ابن مریم اتریں گے، جو انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائیں گے، صلیب کو توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ موقوف کر دیں گے، اور اس وقت مال اتنا زیادہ ہوجائے گا کہ اسے کوئی بھی قبول نہ کرے گا۔ (بخاری، مسلم، صحاح ستة، کتاب الايمان، باب نزول عيسی ابن مريم، کتاب الفتن)
دیگر بہت سی احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ عیسٰی علیہ السلام کے نزول کے وقت مسلمانوں کے امام، امام مہدی علیہ السلام ہوں گے اور عیسٰی علیہ السلام اس ہدایت یافتہ امام کی اقتداء میں نماز ادا کریں گے- [یعنی وہ محمد رسول اللهﷺ خاتم النبیین کے امتی ہوں گے نہ کہ نبی ( إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ) ]
اہل "تثلیث نبوت" (اہل ثلاثةٌ/ قادیانیت) کے بانی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور،امام مہدی کو ایک شخصیت سمجھتے ہیں مگر اس کی قرآن ومستند احادیث سے کوئی دلیل نہیں( ضعیف و منکر احادیث عقائد کی بنیاد نہیں بن سکتیں)-لیکن قادیانی نہیں تسلیم کرتے اور 34 حوالہ جات پیش کرتے ہیں کہ یہ مستند بات ہے. اگر دونوں طرف سے مستند احادیث پر زور ہے تو فیصلہ صرف قرآن ، الفرقان کر سکتا ہے- اور قرآن میں کسی مہدی یا امام یا مجدد کا ذکر نہیں پایا جاتا- اس طرح سے دونوں بیان مسترد قرار پاتے ہیں اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ مہدی ایک داستان (myth) ہے جیسا کہ ممتاز محققین علماء کا نظریہ ہے- اور رسول اللہ ﷺ سے ماخوز اصول حدیث کے مطابق بھی قرآن سے مطابقت نہ رکھنے والی احادیث ضعیف قرار پا تی ہیں- اس طرح سے مرزا غلام احمد قددیانی کے دعووں کو مسترد قرار دیا جا سکتا ہے- اور ان کی وحی اور نبوت بھی کذب ہے جو کمزوراحادیث/ کمزورمن گھڑت دلائل (غیر شرعی نبوت) کی بنیادوں پر کھڑی ہے-
اس صورت میں صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام رہ جاتے ہیں، جس کا ذکر قرآن و احادیث میں موجود ہے جس پر بحث کی گنجائش ہے- ان کا زندہ رفع بھی قرآن سے ثابت ہے، جو قادنیت کی جڑھ کو اکھاڑ دیتا ہے.
اس کے علاوہ کچھ مزید اسلام، ایمان میں داخل کرنا، قرآن وسنت کو نامکمل سمجھنا (استغفراللہ) ہے۔ جوکہ اسلام نہیں کچھ اور ہی ہو سکتا ہے۔
قرآن حق و باطل میں فرق کھول دیتا ہے،الفرقان (کسوٹی) ہے
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ ۔۔۔ ١٨٥﴾ رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہ راست دکھانے والی اور (فرقان )حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں ۔۔۔ (قرآن 2:185) حق آگیا اور باطل مٹ گیا وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ﴿٨١﴾ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ۙ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا ﴿٨٢﴾ اور اعلان کر دو کہ "حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے" (81) ہم اِس قرآن کے سلسلہ تنزیل میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو ماننے والوں کے لیے تو شفا اور رحمت ہے، مگر ظالموں کے لیے خسارے کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا (قرآن:17:82)
حق ، باطل پر چوٹ لگا کر اس کا بھیجہ نکالتا ہے بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ ۚ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ ﴿١٨﴾ مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا بھیجا نکال دیتی ہے(سر کچل دیتی ہے) پھر یکایک باطل مٹ جاتا ہے اور تمہارے لیے تباہی ہے اُن باتوں کی وجہ سے جو تم بناتے ہو (قرآن : 21:18)
باطل سے حق کو نہ چھپاو ، مشتبہ نہ بناؤ وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٤٢﴾ باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو ( قرآن:2:42)
بے عقلوں، منکرین قرآن پر کفر کی غلاظت وَمَا كَانَ لِنَفۡسٍ اَنۡ تُؤۡمِنَ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰهِؕ وَيَجۡعَلُ الرِّجۡسَ عَلَى الَّذِيۡنَ لَا يَعۡقِلُوۡنَ ۞ کوئی متنفس اللہ کے اذن کے بغیر ایمان نہیں لا سکتا، اور اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے وہ ان پر (کفر کی) گندگی ڈال دیتا ہے (قرآن 10:100)
بدترین جانور جو عقل استعمال نہیں کرتے اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنۡدَ اللّٰهِ الصُّمُّ الۡبُكۡمُ الَّذِيۡنَ لَا يَعۡقِلُوۡنَ ۞ یقین رکھو کہ اللہ کے نزدیک بدترین جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔ (قرآن 8:22) اگر آپ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی حقائیق ہے منہ موڑ کر گمراہی کے راستہ پر چلنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو یاد رکھو؛
خواہش نفس کو اپنا معبود بنانے والے اَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ ؕ اَفَاَنۡتَ تَکُوۡنُ عَلَیۡہِ وَکِیۡلًا ﴿ۙ۴۳﴾ کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے کیا آپ اس کے ذمہ دار ہوسکتے ہیں؟ (قرآن 25:43) وَلَقَدۡ جِئۡتُمُوۡنَا فُرَادٰى كَمَا خَلَقۡنٰكُمۡ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّتَرَكۡتُمۡ مَّا خَوَّلۡنٰكُمۡ وَرَآءَ ظُهُوۡرِكُمۡۚ وَمَا نَرٰى مَعَكُمۡ شُفَعَآءَكُمُ الَّذِيۡنَ زَعَمۡتُمۡ اَنَّهُمۡ فِيۡكُمۡ شُرَكٰٓؤُا ؕ لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَيۡنَكُمۡ وَضَلَّ عَنۡكُمۡ مَّا كُنۡتُمۡ تَزۡعُمُوۡنَ ۞ (پھر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا کہ) تم ہمارے پاس اسی طرح تن تنہا آگئے ہو جیسے ہم نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا، اور جو کچھ ہم نے تمہیں بخشا تھا وہ سب اپنے پیچھے چھوڑ آئے ہو، اور ہمیں تو تمہارے وہ سفارشی کہیں نظر نہیں آرہے جن کے بارے میں تمہارا دعوی تھا کہ وہ تمہارے معاملات طے کرنے میں (ہمارے ساتھ) شریک ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے ساتھ تمہارے سارے تعلقات ٹوٹ چکے ہیں اور جن کے بارے میں تمہیں بڑا زعم تھا وہ سب تم سے گم ہو کر رہ گئے ہیں۔ (قرآن 6:94)
FB Post Link: https://bit.ly/TejdeedEman
تفصیل ملاحضہ فرمائیں :
انجیل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دھوکے باز، کذاب مسیح کی پشین گویاں
"یسوع نے انہیں یہ جواب دیا، “چوکنّا رہو! اپنے کو دھوکہ دینے کے لئے کسی کو موقع نہ دو۔ کیوں کہ بہت لوگ آئیں گے اور میرے نام پر اپنے آپ کو مسیح بتاکر بہت سے لوگوں کو دھو کہ میں ڈال دیں گے۔ تم لڑائیوں کی آواز اور بہت دور واقع ہونے والی جنگوں کی خبریں سنو گے۔ لیکن گھبرانا نہیں۔ دنیا کے خاتمہ سے پہلے ان باتوں کا واقع ہو نا ضروری ہے۔ 7 ایک قوم دوسری قوم کے خلاف جنگ کریگی۔ ایک سلطنت دوسری سلطنت کے خلاف لڑیگی اور قحط سالیاں ہو نگی۔ خطوں میں زلزلے آئیں گے۔ یہ تمام واقعات بچے کی ولادت کی تکلیف کے مماثل ہو نگے"۔(انجیل متی24,آیات 4 سے 8)
"کئی جھو ٹے نبی آکر بہت سے لوگوں کو فریب دینگے۔ دنیا میں ظلم و زیادتی بڑھ جائیگی۔ بہت سارے ایمان والوں میں محبت و مروّت سرد پڑ جائیگی۔ لیکن آخری وقت تک جو راسخ الیقین ہو گا وہ نجات پائیگا۔ خدا کی بادشاہت کی خوشخبری اس دنیا میں ہر قوم تک پہنچا ئی جائیگی۔ تا کہ سب قومیں اس کو سنیں تب خاتمہ کی آمد ہو گی۔" (انجیل متی24,آیات 11 سے 14)شیعہ و سنی کے ہاں جہاں حضرت مہدی کی آمد یا پیدائش کے قائل ہیں وہیں معاصر علما میں سے ایک تعداد حضرت مہدی کے وجود یا ان کی آمد کو نہیں مانتے،بلکہ ان کے خیال میں اسلامی منابع حدیث میں تصور حضرت مہدی دراصل یہودیوں یا اسرائیلی روایات میں سے ہیں۔
ائمہ اربعہ میں سے امام ابوحنیفہؒ امام مالک ؒاور امام شافعی ؒ سے اس عقیدے کی نفی و اثبات دونوں کی بابت کچھ نہیں ملتا تاہم امام احمد بن حنبل ؒ کی مسند احمد میں مہدی سے متعلق احادیث پائی جاتی ہیں۔
قرآن اور مشہور کتب احادیث البخاری اور مسلم بھی مہدی پر خاموش ہیں-
علامہ ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں اس عقیدے کی نفی کرکے اس عقیدے سے متعلق احادیث پر جرح نقل کی ہے جس کو اکثر اہل حدیث و سلفی علما نے کالعدم قرار دیکر ان احادیث کی صحت کا فتویٰ دیا ہے۔
ابتدا سے مسلمانوں کی ایک قلیل تعداد اس عقیدے کی صحت سے متعلق تحفظات کا شکار رہی جن میں عمان میں رہنے والے اباضی مسلمان ( جن کی تعداد تقریباً ستر سے اسی لاکھ تک ہے ) سر فہرست ہیں، اس کے علاوہ زیدیہ فرقہ کے کچھ لوگوں کے ہاں بھی یہ عقیدہ مشکوک مانا جاتا ہے جیسے علامہ شیخ سالم عزان زیدی ۔
چنانچہ عہد حاضر میں چند علما وجود حضرت مہدی پر یا ان کی آمد پر تحفظات رکھتے ہیں۔ مثلا عراق کے گیارہ امامی عالم احمد الکاتب کے نزدیک وجود حضرت مہدی اور ان کی آمد ثابت ہی نہیں۔ چنانچہ انہوں نے اس موضوع پر پانچ کے قریب کتابیں لکھی ہیں۔ ان سے قبل ایران کے مجتہد سید ابوالفضل برقعی قمی نے شیعہ کتاب حدیث بحار الانوار جلدنمبر 51،52 اور 53 میں موجود روایات پر تحقیق کر کے ایک کتاب بررسی علمی در احادیث مہدی لکھی" جس میں بحار الانوار کی تینوں جلدوں میں موجود روایات کا سند و متن کے لحاظ سے رد کیا گیا۔ یہی روش پاکستان کے عالم سید علی شرف الدین موسوی نے اپنایا اور شیعہ و سنی دونوں کتب میں موجود روایات حضرت مہدی پر تحقیق کی اور اپنی کتاب باطنیہ کے حصہ دوم میں کئی سو صفحات پر اس کا رد کیا ہے۔ سید علی شرف الدین موسوی امام مہدی سے متعلق روایات کو افسانہ پردازوں اور قصہ سازوں کی گھڑی گئی روایات قرار دیتے ہیں- اور حالیہ برسوں میں سید علی شرف الدین نے عقیدہ مہدویت پر سب سے زیادہ تنقید کی ہے اور اپنی کتاب خطداھیون صفحہ 34 سے صفحہ 50 تک روایات مہدی اور وجود مہدی کو غیر اسلامی، باطل، غیر قرآنی اور مفاد پرستوں کی اختراع و کارنامہ قرار دیا۔ [کتاب خطداحیون مولف سید علی شرف الدین صفحہ 34 تا آخر]. انہوں نے شیعہ و سنی دونوں کتب میں موجود روایات حضرت مہدی پر تحقیق کی اور اپنی کتاب باطنیہ کے حصہ دوم میں کئی سو صفحات پر اس کا رد کیا ہے۔
ایران میں معاصر عالم سید مصطفیٰ ھسینی طباطبائی کے نزدیک بھی حضرت مہدی کے متعلق روایات قابل اعتبار نہیں۔
تاہم معاصر سلفی علما میں سے "الشيخ سیدعبدالله بن زيد آل محمود الشريف حسنی الہاشمی" جو قطر کے مشہور اور جید سلفی عالم اور مفتی اعظم قطر تھے اور جن سے نجد، قطر اور حجاز وغیرہ کے بڑے بڑے سلفی علما نے دینی تعلیم حاصل کرکے کسب فیض کیا اور ان کے دروس میں شریک ہوئے. آپ مہدی منتظر کے عقیدہ (پیدائش،آمد،وجود،خروج) کے قائل نہ تھے آپ ۓ ایک کتاب التحقيق المعتبر عن أحاديث المهدي المنتظر لکھی ،جس میں حضرت مہدی کے متعلق تمام احادیث کا جائزہ لیا اور نتیجہ اخذ کیا کہ مہدی کے متعلق ایک بھی قابل اعتبار روایت نہیں اسی لیے بخاری مسلم نے یہ روایات قبول نہیں کیں۔
شیخ عبد اللہ بن زید نہ صرف علامہ ناصر الدین البانی کے قریبی دوستوں میں سے تھے بلکہ حرم مکی میں عرصہ دراز تک درس بھی دیتے رہے ہیں۔
مشہور موحد شیعہ عالم آیت اللہ برقعی نے اپنی کتاب "احادیث مہدی پر علمی تحقیق" میں علامہ عبد اللہ بن زید کا بھی ذکر کیا ہے اور ساتھ ہی ا پنی کتاب کے دیباچہ میں شیخ عبد اللہ بن زید کی کتاب التحقيق المعتبر عن أحاديث المهدي المنتظر سے چند اقتباسات بھی ذکر کیے ہیں۔ اس نالج شیئرنگ کی وجہ غالباً یہ بھی رہی ہوگی کہ علامہ عبد اللہ بن زید اور آیت اللہ برقعی معاصر تھے۔ یاد رہے شیخ عبد اللہ بن زید اس پائے کے سلفی عالم تھے کہ ان کی اس کتاب کے آنے کے بعد علامہ ناصر الدین البانی نے شیخ کی اس کتاب پر اظہار خیال کیا اور ان کے ساتھ اتفاق نہیں کیا لیکن پھر بھی شیخ البانی نے شیخ عبد اللہ کے حق میں دعائے خیر کی کہ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ شیخ عبد اللہ بن زید اپنی اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ: "جب ہم خود کو سلفی مسلمان کہتے ہیں،اور ہمارا عقیدہ اہل سنت والجماعت کا ہے تو ہمیں حق و قول صدق کو لازم پکڑنا چاہیے" پھر آگے لکھتے ہیں:"جب ہم مہدی سے متعلق احادیث کو پڑھتے ہیں تو ان کی صحت و صلاحیت ،اور اس پر اعتقاد کے حوالے سے تحقیق اور پڑھنے کے بعد یہ یقین ہو جاتا ہے کہ اس حوالے سے روایات تعارض و اختلاف کا شکار ہیں۔۔۔اشکالات ہیں۔علما محققین متاخرین اور بعض متقدمین نے ان روایات پر حکم لگایا ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺکی زبان سے مصنوع و موضوع روایات ہیں۔اور یہ روایات آپ ﷺ کا کلام نہیں ہیں۔نہ اس مجہول شخص سے متعلق روایات صحیح ہیں،نہ یہ متواتر ہیں،نہ صریح ہیں۔شیخ مزید لکھتے ہیں:
"بعض لوگ کہتے ہیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ ان روایات کو درست مانتے تھے؟ میں کہتا ہوں ہاں میں نے بھی شیخ الاسلام کا قول پڑھا ہے جس میں وہ خروج مہدی کے اثبات کو لاتے ہیں 7 احادیث جنہیں ابوداود نے ذکر کیا ہے،میں بھی اپنی زندگی کے ابتدا میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا ہی عقیدہ رکھتا تھا اس حوالے سے،اور میں ان کے قول سے متاثر بھی تھا،لیکن جب میں 40 سال کا ہو گیا اور علوم و فنون میں مہارت حاصل کی ،اور احادیث مہدی کے معرفت ،علل و تعارض اور اختلاف کو سمجھنے کے قابل ہوا،تو میں نے یہ برا عقیدہ چھوڑ دیا الحمد اللہ۔اور میری معرفت یہ بن گئی کہ بعد از رسول اللہ ﷺ اور بعد از کتاب اللہ کوئی مہدی نہیں،اور بے شک شیخ الاسلام ابن تیمیہ ہمارے محبوب ہیں لیکن وہ ہمارے رب یا نبی نہیں۔"
برصغیر میں علامہ اقبال، مولانا عبیداللہ سندھی، علامہ تمنا عمادی، علامہ طاہر مکی، علامہ حبیب الرحمٰن کاندھلوی اور ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی وغیرہ اس عقیدے کی صحت کے قائل نہیں تھے۔
سید مودودی بھی اس عقیدے کی من و عن تفصیلات کی بابت تحفظات کا شکار تھے۔
مشہور افغانی حنفی عالم جناب ابوبکر عبدالرؤف صافی افغانی بھی اس عقیدے کی صحت کے قائل نہیں ہیں۔ دوسری طرف کہا جاتا ہے کہ "انکار مہدی کفر ہے"- اب کون درست ہے کون غلط اس کا فیصلہ غور و فکر کر بعد کیا جا سکتا ہے - مگر ایک بات واضح ہے کہ کسی عقیده ، ایمان ، نظریہ کی بنیاد قرآن کی "محکم آیت" پرقائم ہوں، بہت ضروری ہے (قرآن:3:7). مگر حضرت مہدی اور حضرت عیسی علیہ السلام کی دنیا میں واپسی پر قرآن میں کوئی آیت نہیں ملتی متشابہ بھی نہیں تو اس صورت میں صرف احادیث کی بنیاد پر عقیده قائم کرنا کس طرح قابل قبول ہو سکتا ہے جبکہ اس موضوع پراحادیث خود مشکوک ہیں بلکہ جید علماء کی تحقیق کے مطابق من گھڑت اسرائیلی روایت سے ماخوز افسانے ہیں- رسول اللہ ﷺ کے مقرر کردہ معیار حدیث، علم الحديث کے اصولوں پر بھی یہ احادیث پورا نہیں اترتیں- قرآن و سنت و عقل سے مطابقٹ کی شرائط پروا نہیں کرتیں، ایمان کی حدیث جبرئیل میں ذکر نہیں، نہ ہی قرآن میں ان کا ذکر ہے!
اس لئے اس معامله پر:
١) اس نظریہ کو قبول کریں یا یکسر مسترد کریں یا
٢) اشتباہ کی صنف میں رکھیں اور معامله الله تعالی پر چھوڑ دیں (واللہ اعلم بالصواب)
مزید پڑھیں :
علم الحديث کے سنہری اصول : https://bit.ly/Hadith-Basics
جو لوگ من گھڑت تاویلات کے زور پراس سے کوئی نیا عقیده ، فرقہ ، نظریہ ، مذھب ننکالاتے ہیں، وہ الله تعالی کے فرمان کو سمجھ لیں:
قُلْ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ عَلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَالنَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ﴿٨٤﴾ وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴿٨٥﴾ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَشَهِدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿٨٦﴾ أُولَٰئِكَ جَزَاؤُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ﴿٨٧﴾ خَالِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ ﴿٨٨﴾ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٨٩﴾ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَّن تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الضَّالُّونَ ﴿٩٠﴾ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِم مِّلْءُ الْأَرْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَىٰ بِهِ ۗ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ (قرآن، العمران 3:آیت 84 سے91)
اے نبی آپ کہ دیجینے کہ ہم اللہ کو مانتے ہیں ، اس (کتاب، قرآن ) کو مانتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے ، ان تعلیمات کو بھی مانتے ہیں جو ابراہیم ، اسمٰعیل ، اسحاق ، یعقوب اور اولادِ یعقوب پر نازل ہوئی تھیں ، اور ان ہدایات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو موسیٰ اور عیسیٰ اور دوسرے پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئیں ۔ ہم ان کے درمیان فرق نہیں کرتے ۔ اور ہم اللہ کے تابع فرمان ( مسلم ) ہیں ۔ اس فرماں برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا- کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ اُن لوگوں کو ہدایت بخشے جنہوں نے نعمت ایمان پا لینے کے بعد پھر کفر اختیار کیا حالانکہ وہ خود اس بات پر گواہی دے چکے ہیں کہ یہ رسول حق پر ہے اور ان کے پاس روشن نشانیاں بھی آ چکی ہیں اللہ ظالموں کو تو ہدایت نہیں دیا کرتا - ان کے ظلم کا صحیح بدلہ یہی ہے کہ ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی پھٹکار ہے- اِسی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے، نہ ان کی سزا میں تخفیف ہوگی اور نہ انہیں مہلت دی جائے گی- البتہ وہ لوگ بچ جائیں گے جو اِس کے بعد توبہ کر کے اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لیں، اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے- مگر جن لوگوں نے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کیا، پھر اپنے کفر میں بڑھتے چلے گئے ان کی توبہ بھی قبول نہ ہوگی، ایسے لوگ تو پکے گمراہ ہیں - یقین رکھو، جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور کفر ہی کی حالت میں جان دی اُن میں سے کوئی اگر اپنے آپ کو سزا سے بچانے کے لیے روئے زمین بھر کر بھی سونا فدیہ میں دے تو اُسے قبول نہ کیا جائے گا ایسے لوگوں کے لیے دردناک سزا تیار ہے اور و ہ اپنا کوئی مددگار نہ پائیں گے (قرآن، العمران 3:آیت 84 سے91)
اگر ایمان کی شرط لازم ہوتی کسی اور پر (مرزا قادیانی یا ان کی کتاب "تذکرہ" ) تو مندرجہ بالا آیات یا قرآن کی محکم آیات میں ذکر ہوتا، تاویلوں سے نہیں- حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب منصف حکمران کی حیثیت میں نزول فرمائیں گے تو ان کی پہچان مشکل نہ ہوگی اور لوگ ان کو تسلیم کریں گے- وہ کیونکہ نبی یا رسول کی حیثیت سے نہیں، رسول اللہ ﷺ کے امتی، "منصف حکمران کی حیثیت" سے نزول فرمائیں گے تو اس پر قبل از وقت بحث مباحث کی ضرورت نہیں- جب وقت آنے گا دیکھا جایے گا- جو نشانیاں اور شرائط رسول اللہ ﷺ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے متعلق فرمائیں ان میں سے کوئی بھی ماضی یا حاضر دور میں ابھی تک پوری نہیں ہوئی لہذا جو ایسا دعوی کرے وہ کذاب ہے-
مہدی ہونے کے جھوٹے دعویدار
اسلامی دنیا میں مہدی ہونے کا دعوی کرنے والی کئی شخصیات سامنے آچکی ہیں۔ بالخصوص سعودی عرب، افریقا، جنوبی ایشیا وغیرہ میں متعدد مسلمان افراد نے اس کا دعوی کیا اور یہ دعوی بہت پہلے سے لوگ کرتے آ رہے ہیں۔
مہدویت کے دعویدار [المتمہدیون] یا مہدی ہونے کے جھوٹے دعویدار وہ لوگ ہیں جو تاریخ میں جھوٹے دعوے کرکے خود کوامام مہدی کہلوائے یا وہ جنہوں نے خود کوئی دعوی نہیں کیا لیکن لوگوں نے لاعلمی اور نادانی یا بعض مقاصد کے حصول کی غرض سے انہیں مہدی موعود قرار دیا، ان کی طویل فہرست ہے-
جو چیز مسئلہ مہدویت کی اہمیت کو نمایاں کرتی ہے یہ ہے کہ تاریخ میں ہمیں ایسے اشخاص ملتے ہیں جو اپنے لئے مہدی کا نام جعل کرتے یا مہدی موعود کا نام اپنے اوپر لاگو کرتے ہیں یا پھر دوسروں کی طرف سے ان پر اس عنوان کا اطلاق کرتے ہوئے اپنے بارے میں بڑے بڑے دعوے کرتے نظر آتے ہیں یا ان کے پیروکار ان کی طرف بڑی بڑی نسبتیں دیتے نظر آتے ہیں۔ یہ وہ اشخاص تھے جنہوں نے مکارانہ اور طاقت پسندانہ یا شہرت پسندانہ محرکات کی بنا پر خود ہی مہدی ہونے کا دعوی کیا اور لوگوں کے جذبات کو موہ لینے اور دلوں کو مسخر کرنے نیز طاقت اور اثر و رسوخ حاصل کرنے کی غرض سے نجات دہندہ مہدی کہلوائے۔
کچھ مدعیان مہدویت نے دنیاوی طاقت کے اظہار کے لیے ریاستوں کی بنیاد رکھی (جیسے مہدی سوڈانی نے انیسویں صدی عیسوی میں، سوڈان میں)-
اسی سلسلہ کی مطابقت کی وجہ سے 1979ء میں مکہ، سعودی عرب میں جہیمان عتیبی نے 200 مسلح افراد کے ساتھ مل کر مسجد الحرام پر قبضہ کر لیا اور دعوی کیا کہ اس کا بہنوئی اور ساتھی محمد قحطانی مہدی ہے۔ (کیونکہ، مہدی کے متعلق اسلامی روایات میں ہے کہ وہ پہلی بار حج کے موقع پر مکہ میں خانہ کعبہ کے پاس مہدی تسلیم کیے جائیں گے)۔
انیسویں صدی میں مسلم دنیا میں تین اطراف مہدی دعوے دار نمودار ہوئے۔ ایران میں علی محمد شیرازی (1819ء تا 1850ء)، سوڈان میں محمد احمد المہدی (1844ء تا 1885ء) اور ادھر ہندوستان میں مرزا غلام احمد (1853ء تا 1908ء) منظر عام پر آیا-
قادیانیت بر صغیر ہندو پاک کے انگریز کے دور غلامی کی پیداوار ہے، لہٰذا اس کا حل بھی ادھر ہی نکالنا ہے- ایران میں سید علی محمد باب شیرازی (1819ء تا 1850ء) المعروف بہ علی محمد باب ، سنہ 1235ہجری قمری کو شیراز میں پیدا ہوا؛ اس نے ابتداء میں "باب" اور "خلیفۃ الخلیفہ" کے عنوان سے خروج کیا اور جب تھوڑی سے شہرت پائی تو "باب المہدی المنتظر" کا عنوان اختیار کیا اور آخر کار مہدویت کا دعوی کیا۔ شیعہ علما اور عوام کی جانب سے باب کے اپنے لیے امام مہدی کے دعوے اور حضرت محمدﷺ کی نبوت کے متعلق بیان کی شدید مخالفت ہوئی یہ 1845 میں گرفتار ہوا اور پھر 1850ء میں سزائے موت، پھانسی دے دی گئی- ایران ایک آزاد ملک تھا غلام نہیں، سید علی محمد باب شیرازی کو مرزا قادیانی کی طرح انگریز کی پشت پناہی حاصل نہ تھی- بعد میں یہ اسلام سے ایک علہدہ مذھب "بہائیت" کے نام سے مشہور ہوا-
مرزا قادیانی نے جب جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا تو اس نے اپنی اس جھوٹی نبوت کی تبلیغ کا سلسلہ افغانستان تک بھی پہنچایا، چنانچہ کچھ لوگ اس کے دامِ فریب میں آ گئے۔ ان میں دو اشخاص عبدالرحمن اور عبداللطیف سرفہرست ہیں۔ عبدالرحمن خان کو امیر عبدالرحمن کے دور حکومت میں ارتداد کے جرم میں ہلاک کیا گیا۔ جبکہ عبداللطیف کو 1903ء میں امیر حبیب اللہ خاں کے دور میں مرتد ہونے کے جرم میں سنگسار کیا گیا۔ عبداللطیف قادیان کا باشندہ تھا اور کچھ مدت تک قادیان میں مرزا قادیانی کی صحبت میں رہ کر قادیانیت اختیار کرنے پر مرتد ہو گیا تھا۔ چنانچہ اس کو کفریہ عقائد کی بنا پر موت کی سزا سنائی گئی۔ اسے کمر تک زمین میں زندہ گاڑ دیا گیا اور اس کے بعد پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ یہی حال بعد میں نعمت اللہ خاں قادیانی مبلغ کا ہوا۔ جب مرزا قادیانی کو معلوم ہوا کہ والیٔ افغانستان کے حکم سے میرے ماننے والوں کو قتل کیا جا رہا ہے تو اس نے والیٔ افغانستان کو ایک لمبا چوڑا احتجاجی خط لکھا جس کے جواب میں والیٔ افغانستان نے صرف ایک جملہ لکھا جو فارسی میں تھا۔ وہ یہ کہ: ایں جابیا (یعنی، اس جگہ آئو)- جب یہ جواب مرزا قادیانی کو پہنچا تو اس نے خاموشی اختیار کر لی۔ مرزا قادیانی کو اس جواب کا مفہوم بخوبی سمجھ آ گیا تھا کہ اگر میں افغانستان گیا تو میرا حال بھی میرے مبلغین جیسا ہوگا۔
جس طرح پاکستان میں عوام "بہائیت" سے لا علم ہیں اسی طرح دنیا قادنیت سے اس وقت تک لا علم رہتی ہے جب تک وہ پکڑے نہ جائیں-
باقی دنیا کو قادنیت کی بنیادی وجوہات اور تفصیل کا اتنا علم نہیں ہو سکتا- ان کی کتب ، مٹیریل کثریت اردو میں ہیں جن کا مکمل رکارڈ یھاں موجود ہے جس سے قادیانی انکار نہیں کر سکتے- کسی دور دراز ملک میں قادیانی مبلغین جو پراپگنڈا کریں گے اور قرآن و حدیث کی تحریف شدہ آیات پیش کرکہ ان کو دھوکہ دے سکتے ہیں- اگر مصر، نائجیریا، انڈونیشیا یا کسی دوسرے اسلامی ملک میں نبوت کے جھوٹے دعوے دار پیدا ہوں تو وہ ممالک ہی ان کا سدباب کریں گے ہم کو شاید اس بات کا علم بھی نہ ہو سکے-
قرآن و سنت کا علم تمام دنیا میں پھیلا ہوا ہے مگر چند صدی قبل جو اسلامی تحقیق انڈیا پاکستان میں ہوئی اور جو علماء یھاں پیدا ہوۓ اس کی مثال مشکل ہے- یہ بھی ایک وجہ ہے کہ قادیانیت کے فتنہ کا رد بھی مدلل طریقه سے یہیں ہوا اور ان کو غیر مسلم قرار دیا گیا-
اس دور میں دنیا میں اکثریت دہریہ (atheists) اور مسیحی مذھب والے ہیں، جو اسلام کو نہیں مانتے، ہم کو ان کی پرواہ نہیں، ہم دعوه اسلام کی کوشش کرتے ہیں، الله کا فرمان ہے:
".. جو کوئی راہ راست اختیار کرے اس کی راست روی اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، اور جو گمراہ ہو اس کی گمراہی کا وبا ل اُسی پر ہے کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا(قرآن 17:15)
الله تعالی کا پلان یہود کے پلان کو ناکام کرنا تھا نہ کہ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کو مار کر یہود کے پلان کو کامیاب کرنا؟ جیسا کہ منکرین ختم نبوت آیات قرآن کے برخلاف دعوی کرتے ہیں - الله تعالی ۓ اپنا پلان ظاہر کر دیا:-
اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ فِیۡمَا کُنۡتُمۡ فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ ﴿۵۵﴾
"جب اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ اے عیسیٰ! میں تجھے پورا لینے والا ہوں( مُتَوَفِّيْکَ ) اور تجھے اپنی جانب اٹھانے والا ہوں (رَافِعُکَ) اور تجھے کافروں سے پاک کرنے والا ہوں اور تیرے تابعداروں کو کافروں کے اوپر غالب کرنے والا ہوں قیامت کے دن تک ، پھر تم سب کا لوٹنا (مَرۡجِعُکُمۡ ) میری ہی طرف ہے میں ہی تمہارے آپس کے تمام تر اختلافات کا فیصلہ کرونگا (قرآن 3:55) [تین اہم الفاظ میں سارے مسئلہ کا حل پوشیدہ ہے: مُتَوَفِّيْکَ، رَافِعُکَ، مَرۡجِعُکُمۡ]
1.موت میں انسان کی روح اور جان (زندگی) چلی جاتی ہے جسم یہیں دنیا میں رہ جاتا ہے-
2. عربی لفظ "متوفی" کا ایک یہ مطلب یہ کہ: مکمل پوا کا پورا لے لینا - انسان مرکب ہے تین چیزوں کا : i) جسم ii)روح ، iii)جان(زندگی)- جب یہ تینوں مکمل ہیں اکٹھے ہیں تو انسان زندہ حالت میں ہے ، جیسے نیند میں- رَافِعُکَ ، بلند کرنے، اونچا کرنے جسمانی طور پر-
3.اگر جسم دنیا میں رہ جاۓ صرف روح اور جان (زندگی) الله تعالی لیتا ہے جیسا کہ عام مشاہدہ ہے، تو اسے 'موت' کہا جاتا ہے- مگر یہ تاریخی شہادت، ایک حقیقت ہے کہ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کا جسم دنیا میں نہیں رہا جوکسی کو نہیں ملا اس پر داستانیں مشہورہیں- لہذا ان پر یہ لفظ مُتَوَفِّیْکَ یعنی 'مکمل طور پر پورا کا پورا حضرت عیسیٰ علیہ السلام مسیح علیہ السلام کو الله تعالی نے لے لیا' درست طور پر بعین لاگو ہوتا ہے- منکرین نبوت (مُتَوَفِّيْکَ، رَافِعُکَ) کے غلط معنی نکال کر یہود یہود کا پلان کامیاب کرتے ہیں اور اللہ کو ناکام (استغفراللہ )-
4. اسی آیات میں الله تعالی فرماتا ہے: ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُکُمْ [پھر تمہیں میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے (قرآن 3:55)] تو حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کو تو الله تعالی نے مکمل اٹھا لیا- توالله کے پاس واپس لوٹ کر وہ اسی صورت میں آسکتے ہیں جب ان کی دنیا میں (واپسی (نزول) ہو پھر موت (مَرۡجِعُکُمۡ ) (یہ دنیا میں دوبارہ واپسی یا نزول عیسیٰ علیہ السلام کی طرف بالواسطہ/ indirect اشارہ ہے مگر یہ اور احادیث نزول (قرآن:5:116/117) سے متضاد ہیں، اس کا حل علماء کو نکلالنا ہو گا!
لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی 'موت' جو منکرین ختم نبوت عقیده کی جڑھ ہے قطعی طور پر قرآن سے ثابت نہیں بلکہ مکمل طور پر جسم سمیت زندہ اوپر اٹھایا جانا ثابت ہے-
پس منکرین ختم نبوت کی بنیاد اور جڑھ کا ختمہ ہو گیا- ان کو اسلام کی طرف رجوع، واپسی کی دعوت ہے-
مزید ٹفصل درج ذیل ......