رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

ایک عالم دین سے (Q&A) - ١٩ سوال

.

ایک عالم دین (ASJ ) جو انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں پی ایچ ڈی (PHD) کر رہے ہیں ان سے اس موضوع پر وہاٹس ایپ پر مکالمہ ہوا - اس مقصد کے لیے ایک الگ گروپ بنایا جس میں صرف سات ممبران تھے . جن میں اعلی تعلیم یافتہ سینئر بیوروکریٹ پولیس آفیسر ، آرمی آفیسر، یونیورسٹی پروفیسر ماہر تعلیم  پی یچ ڈی ، ڈاکٹرہیں، میڈیکل ڈاکٹر پروفیسر، دارالعلوم علوم کے ناظم اور عالم دین، محقق شامل تھے- مکالمہ میں زیادہ سوال و جواب  (ASJ ) صاحب سے ہوے- اس مکالمہ کو ایڈٹ کر کہ پوسٹ کیا ہے- کچھ وضاحت (blue colour) سے بعد میں شامل کی ہے تاکہ سمجھنے میں آسانی ہو مقصد صرف نقطۂ نظر سمجھنا ہے کسی کی تعریف یا تضحیک نہیں- (ASJ ) نے بہت محنت اور لگن سے چبھتے ہوے سوالات کو ہینڈل کیا ، جو قابل تعریف ہے - مقالہ کے حق اور مخالفت میں دلائل کو سمجھ کر قاری  آزادانہ طور پر اپنا نظریہ، رایئے  قائم کر سکتا ہے-اگرچہ یہ مکلمہ حتمی نہیں مگرمزید مطالعہ اور تحقیق میں مددگار ہو سکتا ہے -

----------------------

محقق کے اٹھاۓ گئے 19 سوالات


مکالمہ (Q&A) کو موضوع  (Subject/Topic) پر مرکوز (focused) رکھنے کے لیے محقق نے یہ سوالات اٹھاۓ تاکہ موضوع   ڈسکشن (Subject/Topic) ہے دور نہ حت جائے :

اسلام - إحياء دین کامل آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لیے بحیثیت دین، اسلام کو پسند کیا ہے (قرآن :5:3)

"اسلام - إحياء دین کامل" مقالہ کا ، تھیم ، ٹاپک  موضوع،  عنوان،  سبجیکٹ  یہ ہے کہ :

1.اسلام دین کامل میں دوسری ، تیسری صدی میںرسول  صلی الله علیہ وسلم  کی وصیت اور حکم کہ: اختلافات میں سنت رسول اور سنت خلفا راشدین کو دانتوں سے پکڑنا اور بدعت ضلالہ سے دور رہنا کی خلاف درزی کی گیی بدعات سے اسلام کو مسخ کر دیا فرقہ واریت کے راستے کھل گئے اور زوال بڑھتا گیا-

.جن اصحابہ کی سنت کو پکڑنے کا رسول  صلی الله علیہ وسلم  نے حکم فرمایا ۔۔۔ جنہوں نے قرآن کی کتابت کروائی..  کاتب وحی و حافظ قرآن اور دو ذاتی شہادتوں کے ساتھ ۔۔۔  انہی  صحابہ میں سے حضرت عمر رضی الله نے غور وِ خوز کے بعد فیصلہ کیا کہ پہلی امتیں کتاب اللہ کے مقابل دوسری کتب لا کر برباد ہوئیں ۔۔ لہذا کوئی اور کتاب نہی۔ ہو گی۔۔۔  انکےپاس  رسول کی طرف سے اتھارٹی تھی- وہ صرف سیاسی حکمران نہ تھے بلکہ دینی رہنما بھی تھے ، خلفاء راشدین کا یہ خصوصی اعزاز ہے ، جنہوں نے اہم دینی فیصلے کیےجن پر آج تک عمل ہو رہا ہے . تفصیل کتابوں میں موجود ہے-

Hazrat Umar was authorised by Prophet   صلی الله علیہ وسلم  to take decisions, he was not merely a political head but  also religious and spiritual leader , mujtahid

2.یہود اور مسیحت کی کتب کا تجزیہ پیش کیا ۔۔ جس کوسب  نظر انداز کردیتے ہیں   ۔۔۔  کوئی اس پر بات نہیں کرتا کیوں؟ 

3..آپ نے بڑی محنت سے ایک کتاب کی فوٹو کی مگر اس کتاب کی تحریر  کا مقالہ ۔۔۔ قرآن کی طرف واپسی سے کوئی تعلق نہیں۔ ۔۔  

4..پرویز صاحب یا غامدی صاحب  یا کوئی چکڑالوی  صاحب ۔۔ یا کوئی۔۔۔ " دو اسلام" والے برق صاحب ۔۔ ان کے تھیم مختلف ہیں ۔۔۔ 

5.. "مقالہ قرآن کی طرف واپسی" میں دلائیل قرآن و سنت اور احادیث  غیر متنازعہ  تاریخی حقائق سے ہیں ۔۔۔ مثلا :

(١) قرآن "احسن" بہترین حدیث ہے اور کسی اور حدیث پر ایمان لانے سے منع کرتا ہے 

(٢) جب   رسول الله صلی الله علیہ وسلم  وفات پا گئے تو قرآن دو جلدوں کے درمیان ، یعنی کتابی شکل میں موجود نہ تھا

(٣). پہلے تین خلفاء راشدین نے قرآن کی کتابت کروائی-

(٢) انہوں نے حدیث کی کتابت نہ کروائی اور منع فرمایا ،پہلی صدی تک  اس پر عمل ہوا -

(٣) حدیث کی مشہور ٦ کتب تیسری صدی حجرہ میں محدثین علماء کی  انفرادی اور ذاتی کوششوں  سے ہوئی  

اس طرح کے سوالات پر بحث کیا ہوگی ؟ صرف تاویلیں دی جاسکتی ہیں - مکمل  جواب قرآن سے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔۔ جو فرقان ہے ۔۔۔ قرآن کے سامنے کسی شخصیت ، پیشوا کی کوئی حثیت نہیں جبتک وہ وہ قرآن و سنت سے دلیل پیش کرے ...

6. یہ مقالہ میری ذاتی تحقیق ہے ۔۔ یہ "تھیم" کسی سے کاپی نہیں کیا قرآن اور سنت کے مطالعہ کے بعد خود  اس نتیجہ پر پہنچا ۔۔۔  اس لیے اس کا  جواب بھی کوئی اپنی تحقیق سے دے سکتا ہے ۔  

7.دوسروں کے نظریات کے جوابات پر کتا ہیں ادھر نہیں لاگو ہوتیں ۔۔*

8. قرآن و سنت کو جھٹلانا ناممکن ہے ۔۔ انسان غلطی کرسکتا ہے ۔۔۔ اللہ غلطی نہیں کر سکتا ۔۔۔ 

اہل xxx  کے بہت بڑے عالم جو قابل احترام ہیں ۔۔۔ ان سے بھی اس کا جواب نہ مل سکا ۔۔۔ کچھ معلومات ادھر سے معلوم ہو سکتی  ہے>>   https://salaamone.com/islam-2/sectarianism/muslim


9. باعث حیرت ہے کہ  مسلمان قرآن و سنت اور خلفاء راشدین اور ۔۔۔ حضرت ابوبکر صدیق،  عمر رضی اللہ کے فیصلے سے  انکار بھی کرتے ہیں اور اور پھر واضح دلیل بھی نہیں دے سکتے ۔۔۔  اور دعوی کرتے ہیں ہم قرآن و سنت پر عمل کرتے ہیں؟

10. کھل کر بات ہو ، کہ کیا حضرت عمر رضی اللہ کا کتابت حدیث نہ کرنے کا فیصلہ غلط تھا ،( جسے باقی خلفاء راشدین نے بھی قبول کیا- اجماع خلفاء راشدین ) ؟ اگر غلط تھا تو ان کے باقی احکمات ، اجتہادات کی حثیت مشکوک ہو جاتی ہے ، ان کو بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے تو پھر   رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کا حکم کہ خلفاء راشدین کی سنت کو پکڑو ، غیر موثر ہو جاتا ہے، باقی احکام بھی .. اس کا کوئی شرعی جواز ؟

11. حضرت عمر رضی اللہ کا فیصلہ اگر درست تھا ، جو کہ وقت نے بھی ثابت کیا کہ درست تھا . تو بحث کیسی؟

12.جنہوں نے حضرت عمر رضی اللہ اور خلفاء راشدین کے فیصلہ کے بر خلاف سو یا  دو سو سال بعد کتابت حدیث کی کیا انہوں نے درست کیا؟ 

13. اگر درست کیا تو کیا  انکار قرآن ، انکار سنت , انکار حدیث رسول صلعم ، انکار سنت خلفاء راشدین..  کسی اجماع سے جائز ہو سکتے ہیں؟  [عربی میں انکار کو "کفر" کہتے ہیں ، یہ شرعی اصطلاح بھی ہے، یھاں یہ مطلب نہیں . یہ مفتی صاحبان کا کام ہے ]

14۔ کیا رسول اللہ نے حضرت ابوبکر صدیق ، عمر رضی الله  اور خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کا نہیں فرمایا تھا؟ 

15. کیا اللہ نے رسول اللہ کی اطاعت کا حکم نہیں دیا ؟ 

16. کیا اللہ تعالی نے قرآن میں 4 آیات میں قرآن کے علاوہ  کسی اور حدیث،  کتاب کا انکار نہیں فرمایا ؟ 

17.  کیا  انکار قرآن ، انکار سنت رسول  صلی الله علیہ وسلم   , انکار حدیث رسول  صلی الله علیہ وسلم   ، انکار سنت خلفاء راشدین..  کسی اجماع سے چاہے وہ کروڑوں علماء (مذہبی پیشوا ) کریں  جائز ہو سکتے ہیں؟  [عربی میں انکار کو "کفر" کہتے ہیں ، یہ شرعی اصطلاح بھی ہے]

18. کیا قرآن نے نہیں فرمایا کہ یہود و نصاریٰ نے مذہبی پیشواؤں کو رب بنا لیا تھا … وہ ان کے کہنےپر حلال و حرام ، جائز و ناجائز مانتے تھے ؟

19.کیا مسلمان بھی قرآن کی اس وارننگ کے باوجود اگر اپنے مذہبی پیشواؤں کی بات  کو قرآن و سنت پر ترجیح دیتے ہیں، تو کیا یہ کھلا شرک نہیں کر رہے ؟

ہم کدھر کھڑے ہیں؟ کدھر جا رہے ہیں؟ 

یا اللہ ہم پر رحم فرما اور سینے کھول دے کہ ہم تیری ھدائیت قرآن کو کھلے دل سے عملی طور پر بھی قبول کر سکیں ۔۔ آمین

https://quransubjects.blogspot.com/2020/01/why-quran.html

------------------------

A SJ said:


عالم دیین محترم سے 19 سوالات کے جواہات پر جوابات 
كتابت (تدوين) الأحاديث
(اعتراضات اور سوالات كے جوابات) 
 الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على رحمة العالمين وآله واصحابه أجمعين، أما بعد 
كتابت أحاديث عصر نبي صلى الله عليه وآله وسلم اور عصر خلفاء راشدين مين كيون نهين كي گي، خاص كر يہ آية مبارك پيش كي جاتي هي كه
وَقَالَ الرَّسُولُ يَارَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا سورة الفرقان: 30، 
رسول (صلى الله الله عليه وآله وسلم) الله سے شکایت کرین گئے اي رب ميري قوم نے اس قرآن کو چهوڑ ديا۰

 اور حضرت عمر رضي الله عنه بقائده فرمان جاري كيا تها اور منع فرمایا تها كتابت أحاديث سے، ان سب اعتراضات كا جواب كچھ اس طرح ہے "مهجورا" كي معنى ترك كرنا چهوڑنا دينا عمل نا كرنا ویران کرنا (مسبوباً متروكاً لم يقرُّوا بِهِ وَلم يعملوا بِمَا فِيهِ) تفسير ابن عباس رضي الله عنه، ص: 302، 
قرآن حكيم مين الله تعالى خد اطاعت واتباع النبي صلى الله عليه وآله وسلم كا حكم ديتا ہے ارشاد باري تعالى هي *مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ وَمَنْ تَوَلَّى فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا* سورة النساء 80. جس نے رسول كي پيروي كي تحقيق اس نے الله كي پيروي كي اور لوٹ جائے تو ہم نے آپ (صلى الله عليه وآله وسلم) انكي اوپر نگهبان بنا كر نہين بهيجا"، 
*وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُون*َ سورة النحل: 44،
 ہم نے آپ (صلى الله عليه وآله وسلم) کو ذكر (قرآن) نازل كيا هي تاكه آپ لوگون كو بيان كرين كه جو نازل هوا ہے شايد يہ غور فكر كرين، 
اس آية سے رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم كا قول فعل بيان کی حجة ثابت ہے آپ صلى الله عليه عليه وآله وسلم قرآن پاک کا قولی عملی کا نمونا ہين،
 *وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَاب*ِ  سورة الحشر: 7،
 "جو رسول صلى الله عليه وآله وسلم دين وه لئے لو اور جس سے منع كرين اس سے رک جاؤ الله سے ڈرتے رہو بيشک الله زبردست حساب لينے والا ہے"،
 اس آیت مین سخت وعید ہین جو رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم  کی نافرمانی کرئے گا ۰
*فلاَ وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجَاً مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيْمَاً* سورة النساء: 65،
آپ كي رب كي قسم يہ ايمان والے نہين ہوسكتے يہان تک کے آپ كو اپنا حاكم نا بنا لين جو آپس مين انكا اختلاف ہے اور اپنی آپ مين كوئي حرج نا سمجھین جو آپ نے فيصلا دين وہ پورا تسليم كر لين. 

قرآن حكيم مين بہت سی آيات مباركہ ہين جس مین رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم كي پيروي كا حكم ديا كيا ہے بنده اس وقت تک مومن ہو سكتا جب تک رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم كا ارشادات بیانات عملیات تقریرات كو قبول اور تسليم كر لے. گناھ ہوجائین وہ گناھ ہے اور گناھ کو گناھ نا سمجھے یہ سگین جرم ہے۰

نبي اكرم صلى الله عليه وآله وسلم نے اول دور مین كتابت احاديث سے منع كيا تها بعد مين اجازت دئے دي
 عنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: " كُنْتُ أَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ أَسْمَعُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وآله وسلم أُرِيدُ حِفْظَهُ، فَنَهَتْنِي قُرَيْشٌ، وَقَالُوا: أَتَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ تَسْمَعُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وآله وسلم بَشَرٌ يَتَكَلَّمُ فِي الْغَضَبِ وَالرِّضَا؟، فَأَمْسَكْتُ عَنِ الْكِتَابِ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وآله وسلم فَأَوْمَأَ بِأُصْبُعِهِ إِلَى فِيهِ، فَقَالَ: *اكْتُبْ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّا حَقٌّ* (سنن أبي داود:  3646)

 حضرت عبد الله بن عمرو فرماتے ہين مين ہر چيز جو رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم سے سنتا تها وه لكھ ليا كرتا تها مين ياد كرنا چاہتا تها، مجهے قريش (اهل قريش) نےمنع كيا كها كے كيا تم ہر چيز لكهتے ہو جو رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم سے سنتے ہو وه انسان ہين كبھي وه غصے مين بولتے ہین كبهي رضا (خوشي) مين، تو مين نے لكهنا چهوڑ ديا يه بات رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم سے مين نے بتائی آپ نے اپني انگلی سے اشارا كيا اپنے زبان كي طرف اور فرمايا *لكهو قسم ہے اس ذات كي جس كے قدرت مين ميري جان ہے اس سے جو نكلتا ہے وه حق ہوتا ہے*. 

آپ نے فتح مكة پے ايک خطبة ديا يمن كي شخص نے كها آپ مجھ كو یہ لكھ كر دين آپ نے فرمايا 
اكْتُبُوا لِأَبِي شَاه* (صحيح البخاري (3\1388) 6880)
 "أبو شاه كو لكھ كر دو"،
ياد رہے يه عام حكم ہے حكمت واضح ہے فتح مكة کا موقعہ ہے. حضرت ابو بكر الصديق اور حضرت عمر رضي الله عنهما كا كتابت حديث نا كرنے كي وجه ذاتي اور اپنی اپنی حالات کے حساب سے منحصر ہے اس پے اجماع صحابہ نہین ہوا تھا کیون کے بہت سے صحابہ کرام نے احادیث لکھی اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  کے زمانے مین بھی لکھ رہے تھے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم  اجارت دئے دی تھي.
 پہلے منع کرنے کی حکمت یہ تھی صحابہ اکثر لکھنا پڑھنا نہین جانتے تھے اور قرآن اور حدیث کہین ملا نا دی اس لئے منع کردیا بعد مین اجازت دئے دی گئی کیون کے قرآن حکیم سنت نبی عظیم صلی الله علیہ وسلم  سے وافق ہوگئے تهے۰

آپ كے نقاط كو مين باري باري جواب ديني كي كوشش كرون گا بعون عزوجل

ایک عالم دین سے (Q&A) 
  1. احادیث کی کتابت سے حضرت عمر (رضی الله) کا انکار اور وجوہات 
  2. يهود اور مسيحت كي كتب كا تجزيه 
  3. حفاظت قول رسول الله صلعم اور مذہبی پیشواؤں کو ترجیح
  4. اجماع خلفاء راشدین کو ایک صدی بعد منسوخ کرنے کا اختیار کسی شخص کو نہیں 
  5. دوسرون كے نظريات كا اثر , فرقہ واريت
  6. حضرت عمر كا كتابت حديث نہ كرنے كا فيصله
  7. قرآن میں لفظ "حدیث" کے معنی میں تحریف کی مذموم کوشش 
  8. علماء ، مذہبی پیشواؤں کو رب ماننا 
  9. کتابت حدیث کی تاریخ – نخبة الفکر – ابن حجرالعسقلانی – ایک علمی جایزہ 
  10. حدیث اور اسکی اقسام
  11. اختتامیہ
  12. References ریفرنس
  13. Books / Library
  14. مضامین قرآن [ویب سائٹ ]

 أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ

حدیث  کے بیان و ترسیل  کا مجوزہ طریقہ

کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے-  ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83]  رسول اللہ ﷺ  ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89 اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ  جب تک "اجماع"  قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود  (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]

پوسٹ لسٹ