رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

علم الحدیث کے سات مجوزہ سنہری اصول اور احادیث کی تدوین نو (القواعد الذهبية السبع المقترحة في علم الحديث) Seven Golden Rules of Science of Hadith and Recompilation of Hadith literature

بہترین حدیث اللہ کی کتاب ہے اور بہترین سیرت محمد ﷺ کی سیرت ہے اور سارے کاموں میں بدترین کام نئے نئے طریقے ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے یہ فرمان ہے حضرت محمد ﷺ  کا - حدیث رسول اللہ ﷺ کے بیان یا عمل سے پہلے یہ یقین کرنا ضروری ہے کہ وہ درست, مستند ہو جو قرآن سے رہنمائی اور رسول اللہ ﷺ  کے قائم کردہ  بنیادی اصولوں اور میعار کے مطابق معلوم ہوسکتا ہے -

بدقسمتی سے صدیوں سے ایسا نہیں ہو رہا جوامت مسلمہ میں فتنہ، فساد، فرقہ واریت، نفاق اور فکری، روحانی و دنیاوی انحطاط کی بنیادی وجوہ میں سے ایک ہے- اسلامی تاریخ میں یہ شاید پہلی کوشش ہے کہ اسلام کے اس اہم جزو حدیث (علم الحديث) کوکسی فرد یا گروہ کی  اجارہ داری , صوابدید , اختیار کے دائرۂ سے نکال کر الله تعالی اور رسول اللہ ﷺ کے احکام کے طابع کیا جاۓ- دین کا کوئی جزو اگر الله تعالی اور رسول اللہ ﷺ کے واضح احکام کی موجودگی میں ان سے باہر یا ان سے مختلف ہو تو وہ دین اسلام کو فائدہ کی بجاے نقصان دہ ہو گا-
الله اور رسول (ﷺ) کی  ہدایت کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی پیروی کرنا اللہ کے حکم  کے خلاف ہے:-

وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ  وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿قرآن؛ 4:14 ﴾      

اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول  (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے (قرآن؛ 4:14)


 علم الحدیث کے سات مجوزہ سنہری اصول 

قرآن ربا اور کاغذی کرنسی Riba Explained

اگرتم  توبہ کرتےہو  اورربا  نہیں لیتے  تو تمہاراصل سرمایہ پر حق ہے بغیر کسی نقصان، کمی کے (قرآن 2:279)

If you repent and don't take usury you have right on Principal Capital without any loss/decrease in value

ربا ایک عربی لفظ ہے جس کا مطلب ہے "اضافہ کرنا" یا "زیادہ کرنا" اور عام طور پر غیر مساوی تبادلے یا قرض لینے کے معاوضے اور فیس کے حوالے سے استعمال ہوتا ہے۔ سود کو ربا، یا ناجائز، استحصالی فائدہ سمجھا جاتا ہے، اور اسلامی قانون شریعت کے تحت ایسا عمل حرام ہے۔ ربا سے مراد سود یا سود کا تصور ہے۔
فیاٹ (کاغذی) کرنسی نظام کے اس دور میں ربا کی تعریف کرنے میں ایک سنگین غلط فہمی پائی جاتی ہے >>>

اے اے کے- حدیث نوٹس AK's Hadiths Collection

نبی کریم  نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص غیر قرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، وہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط رسی ہے اور وہ ایک محکم اور مضبوط ذکر ہے اور وہ ایک سیدھا راستہ ہے" …

حضرت علیؓ سے مروی ایک طویل حدیث سے اقتباس (ترمذی 2906)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آخری زمانہ میں ایسے فریب دینے والے اور جھوٹے لوگ ہوں گے جو تمہارے پاس ایسی احادیث لائیں گے جنہیں نہ تم نے سنا ہوگا اور نہ تمہارے باپوں نے سنا ہوگا لہٰذا ان سے بچو اور ان کو اپنے آپ سے بچاؤ تاکہ وہ تمہیں نہ گمراہ کریں اور نہ فتنہ میں ڈالیں۔  راوی حضرت ابوہریرہ ؓ (صحیح مسلم)  [مشکوٰۃ المصابیح: حدیث نمبر: 151]

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے-
دین اسلام چودہ سو سال قبل کامل ہو چکا ہماری سوچ اور عمل کو تجدید کی ضرورت ہے!
Translate this page to English : https://bit.ly/Tejdeed-Eng
رسالة التجديد
الله  اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے  (قرآن: 3:132) 
وَمَا عَلَيۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ 
اور ہمارے ذمہ تو صرف واضح طور پر پیغام پہنچا دینا ہے  (القرآن36:17)
Our mission is only to convey the message clearly
---------------------------

  1. انتقادی (Critical Inquiry) کیوں؟
  2. دعوة دین کامل
  3.  "رسالة التجديد" : مقدمہ  [Read  <Abstract >English]
  4. مضامین و احکام القرآن (ویب سائٹ)   
  5. Read more »
  6. اسلام سوال و جواب ....

أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge


اسلامی علوم کی اصل بنیاد قرآن کی محکم آیات پرہے- کوئی عقیده یا نظریہ جس کی بنیاد آیات متشابھات اورمتنازعہ احادیث جو آپس میں ایک دوسرے سے متصادم ہوں تو اس کے نتیجہ میں جو فرقہ یا گروپ دین میں بنے گا وہ بدعت ، ضلالہ ، گمراہی ہے-
درج ذیل اہم مضامین نہ صرف ھدایت کے راستہ کی نشاندہی میں ممد ثابت ہو سکتے ہیں بلکہ کسی کے لئے آپ کو دھوکہ دینا مشکل ہو جاے گا- اپ کو سب سے پہلے "ایمان" کو چیک کرنا چاہے، ایمان اگر محکمات پر قائم ہے تو عمل صالح بھی فائدہ مند ہیں ورنہ سب کچھ برباد: Read more »

احکام القرآن


جو میری ہدایت پر عمل کرے گا وہ نہ گمراہ، نہ بدبخت ہوگا (اقرآن20:123)

Whosoever will follow My guidance will neither go astray nor get into trouble” [Quran 20:123]

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اللہ کی کتاب میں ہدایت اور نور ہے، جو اسے پکڑے گا وہ ہدایت پر رہے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ گمراہ ہوجائے گا۔"(صحیح مسلم : 6227)

  قرآن مجید کی عظمت و صداقت :

١۔ قرآن مجید سراپا رحمت اور کتاب ہدایت ہے۔ ( لقمان : ٣) ٢۔ یہ بابرکت اور پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے۔ ( الانعام : ٩٢) ٣۔ اس میں ہدایت کے متعلقہ ہر چیز واضح کی گئی ہے۔ ( النحل : ٨٩) ٤۔ یہ روشن اور بین کتاب ہے۔ ( المائدۃ : ١٥) ٥۔ پہلی کتابوں کی حقیقی تعلیم کی نگہبان ہے۔ (المائدۃ : ٤٨)

قرآن مجید کے اسمائے گرامی :

١۔ القرآن (الاسراء : ٨٨) ٢۔ الفرقان (الفرقان : ١) ٣۔ الذکر (الانبیاء : ٥٠) ٤۔ التنزیل (الشعراء : ١٩٢) ٥۔ الحدیث (الزمر : ٢٣) ٦۔ الموعظۃ (یونس : ٥٧) ٧۔ الحکمۃ (القمر : ٥) ٨۔ الحکم (الرعد : ٣٧) ٩۔ الحکیم (یٰس : ٢) ١٠۔ المحکم (ھود : ١) ١١۔ الشفاء (الاسراء : ٨٢) ١٢۔ الھدیٰ (البقرۃ : ٢) ١٣۔ الھادی (الاسراء : ٩) ١٤۔ الصراط المستقیم (المائدۃ : ١٦) ١٥۔ الحبل (آل عمران : ١٠٣) ١٦۔ الرحمۃ (الاسراء : ٨٢) ١٧۔ الروح (الشوریٰ : ٥٢) ١٨۔ القصص (یوسف : ٣) ١٩۔ البیان (آل عمران : ١٣٨) ٢٠۔ التبیان (النحل : ٨٩) ٢١۔ المبین (یوسف : ١) ٢٢۔ البصائر (الاعراف : ٢٠٣) ٢٣۔ قول الفصل (الطارق : ١٣) ٢٤۔ المثانی (الزمر : ٢٣) ٢٥۔ النعمۃ (الضحی : ١١) ٢٦۔ البرہان (النساء : ١٧٤) ٢٧۔ البشیر (فصلت : ٤) ٢٨۔ النذیر (فصلت : ٤) ٢٩۔ القیم (الکھف : ٢) ٣٠۔ المھیمن (المائدۃ : ٤٨) ٣١۔ النور (الاعراف : ١٥٧) ٣٢۔ العزیز (فصلت : ٤١) ٣٣۔ الکریم (الواقعہ : ٧٧) ٣٤۔ العظیم (الحجر : ٨٧) ٣٥۔ المبارک (الانبیاء : ٥٠) (بحوالہ تفسیر رازی ) [Fahm ul Quran by Mian Muhammad Jameel]

حقوق قرآن:

ایمان، تلاوت، تفکر، عمل اور تبلیغ ز مَن بر صُوفی و مُلاّ سلامے: کہ پیغامِ خُدا گُفتَند ما را ولے تاویلِ شاں در حیرت اَنداخت: خُدا و جبرئیلؑ و مصطفیؐ را میری جانب سے صُوفی ومُلاّ کو سلام پہنچے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات ہم تک پہنچائے، لیکن انہوں نے اُن احکامات کی جو تاویلیں کیں،اُس نے اللہ تعالیٰ، جبرائیل ؑاور محمد مصطفیﷺ کو بھی حیران کر دیا۔ (علامہ محمد اقبال) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ....Read more »

ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے رہن ہے (كُلُّ نَفۡسِۭ بِمَا كَسَبَتۡ رَهِینَةٌ) Every soul is held in pledge for its deeds


کیا جولوگ بد اعمالیاں کررہے ہیں وہ یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم انہیں اور ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ایک جیسا کردینگے کہ ان کا جینا اور مرنا یکساں ہوگا ؟ کیسا برافیصلہ کر رہے ہیں۔ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حق (عدل) پرپیدا کیا ہے تاکہ ہر نفس نے جو کچھ کیا ہے اسے اس کا بدلہ دیا جائے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا (قرآن ،سورہ الجاثیہ 22 -45:21) Read more »

گمراہی ابدی جہنم سے نجات کا صرف ایک راستہ


"تم لوگوں کی ر ہنما ئی کرتے ہو، لیکن تم خود اندھے ہو. تم تو دوسروں کے شربت میں مچھر پکڑتے ہو اور خود اونٹ نگل جاتے ہو"; یہ بات حضرت عیسی علیہ السلام نے علماء یہود کو 2020 سال قبل کہی۔
‏ آج یہی، حال ہمارے اکثر علما ء اور دانشوروں کا ہے، ہمیں یہود ونصاریٰ کے گمراہ کن طرزِ عمل سے عبرت حاصل کرنا چاہیے جس سے بچنے کی الله اوررسول ﷺ نے تاکید کی-
علماء کا احترام اپنی جگہ مگر فوقیت صرف اللہ اور رسولﷺ کے احکام کی ہے-
اکثرعلماء، عبادات کے علاوہ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے دوسرے واضح اہم بنیادی احکامات کو چھوڑ کر اپنے احکام پر ہم سے عمل کروا رہے ہیں، نام الله اور رسول اللہ ﷺ کا لگاتے ہیں- کتمان حق ، معنوی تحریف قرآن اور رسولﷺ کے فرامین کے مطابق اصول حدیث کو چھوڑ کر اپنے میعار سے کمزور، ضعیف احادیث کو صحیح بنا کر گمراہ کن عقائد و نظریات اور شریعت میں بدعات کی ملاوٹ سے اسلام کی روح اوراصل چہرہ صدیوں سے مسسخ کرکھا ہے- وہ لوگ جو خود گمراہی کی دلدل اور کیچڑمیں لتھڑے ہونے ہیں وہ مسلمانوں کو بھی گمراہی کے راستہ سے جہنم کی طرف لے جا رہے ہیں- اسلام ایک سادہ عام فہم دین کو یہود کی طرح پیچیدہ، تضادات کو شامل کردیا تاکہ دین پر ان کی فرقہ وارانہ اجارہ داری قائم رہے- قرآن کو مہجور (ترک العمل) بنا کر صرف تلاوت تک محدود کر دیا جس کا ذکر قرآن نے کیا - یہ سب کچھ اللہ اور رسولﷺ کی نافرمانی ہے:
وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ  وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا ۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿قرآن؛ 4:14﴾     
اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول  (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا  ، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے ۔ ﴿قران :4:14﴾ 
ہر انسان انفرادی طور پر الله کو جواب دہ ہے- ہم سب الله کے پاس اکیلے پیش ہوں گے اور یہ گمراہ کرنے والے لوگ کچھ مدد نہ کر سکیں گے بلکہ خود سزا بھگت رہے ہوں گے- الله کا فرمان ہے:

مصادر الإسلام

علم دین اسلام کے ماخز صرف تین* ہیں باقی زائد (extra) ہیں- 1) آیت محکمہ اور  2) سنت ثابتہ اور 3) فریضہ عادلہ-
**سنت اور حدیث دو عیلحدہ چیزیں ہیں ، عمومی طور پر عام مسلمان کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ ایک بات ہے جو کہ درست نہیں - رسول ﷺ  نے ان دونوں میں فرق رکھا -
امام سیوتی نے متواتر 113 احادیث شمار کیں جن میں ہر درجہ پر دس راوی ہیں ، زیادہ احکام عبادات سے متعلق) یہ سنت کے قریب تر ہیں- باقی ہزاروں "احد" احادیث کو "اصول حدیث" پر پرکھنے سے ان کی حیتیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے -تحقیق کے بغیر آنکھیں بند کرکہ قبول کرنا گمراہی کا سبب ہو سکتا ہے- 
تمام جھگڑے، فرقے، فساد ، فتنہ ، قرآن کی محکم آیات (3:7) کو چھوڑ کر دوسری غیر محکم آیات سے تاویلیں کے زور پر عقائد و نظریات نکالنے کی بدعة پر کھڑے ہیں ، جو باطل ہیں، کوئی بھی چیک کر سکتا ہے دلیل مانگ کر۔  کسی لقمان،  ارسطو، آئین سٹائین  کی ضرورت نہیں۔ جب دلیل ، آیت قرآن محکم ہو تو اسے تشریح کی ضرورت نہیں ہوتی، عام عقل common sense کافی ہے جس کا استعمال کرنا common نہیں۔ 

حدیث ِجبرائیل اُمّ السنۃ: اسلام ، ایمان ، احسان

’’حدیث ِجبرائیل‘‘ کو ’’اُمّ السنۃ‘‘ قرار دیا گیا ہے‘ یعنی سنت کی جڑاوربنیاد. جیسے سورۃ الفاتحہ کو ’’اُمّ القرآن‘‘ قرار دیا گیا ہے‘ یعنی قرآن مجید کے فلسفہ و حکمت کی جڑ اور بنیاد, خلاصہ!

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنۡ قَبۡلُ ؕ (النساء:136)
اے ایمان والو! اللہ تعالٰی پر اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول ( لی اللہ علیہ وسلم ) پر اتاری ہے اور ان کتابوں پر جو اس سے پہلے نازل فرمائی گئی ہیں ، ایمان لاؤ! جو شخص اللہ تعالٰی سے اور اس کے فرشتوں سے اور اس کی کتابوں سے اور اس کے رسولوں سے اور قیامت کے دن سے کفر کرے وہ تو بہت بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔ (النساء:136)
[نوٹ : قرآن اور پہلی کتب پر ایمان لازم اس کے بعد کسی اور کتاب پر ایمان لازم نہیں]
" ساری اچھائی مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں  بلکہ حقیقتًا اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالٰی پر قیامت کے دن پر فرشتوں پر کتاب اللہ اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں یتیموں مسکینوں مسافروں اور سوال کرنے والوں کو دے غلاموں کو آزاد کرے نماز کی پابندی اور زکٰوۃ کی ادائیگی کرے جب وعدہ کرے تب اسے پورا کرے تنگدستی دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے یہی سچّے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں"  [سورة البقرة 2  آیت: 177]
رسول (خدا) اس کتاب پر جو ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر نازل ہوئی ایمان رکھتے ہیں اور مومن بھی۔ سب خدا پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں (اورکہتے ہیں کہ) ہم اس کے پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور وہ (خدا سے) عرض کرتے ہیں کہ ہم نے (تیرا حکم) سنا اور قبول کیا۔ اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے" (2:285)

لَیۡسَ عَلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیۡمَا طَعِمُوۡۤا اِذَا مَا اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اَحۡسَنُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۹۳﴾ (المائدۃ)
 جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان پر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں جو وہ کھا چکے جب کہ انہوں نے پرہیز کیا اور ایمان لائے اور نیک کام کیے پھر پرہیز کیا اور ایمان لائے پھر پرہیز کیا اور نیکو کاری کی اور خدا نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے (المائدۃ93) 
قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ (الحُجُرٰت:۱٤)
دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے۔ کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے (بلکہ یوں) کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ہنوز تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا۔ اور تم خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو گے تو خدا تمہارے اعمال سے کچھ کم نہیں کرے گا۔ بےشک خدا بخشنے والا مہربان ہے (49:14)
Video 1 hour 55 minites

حدیث ِجبرائیل   اُمّ السنۃ
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : بَیْنَمَا نَحْنُ جُلُوْسٌ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ ذَاتَ یَوْمٍ اِذْ طَلَعَ عَلَیْنَا رَجُلٌ شَدِیْدُ بَیَاضِ الثِّیَابِ شَدِیْدُ سَوَادِ الشَّعْرِ لَا یُرٰی عَلَیْہِ اَثَرُ السَّفَرِ وَلَا یَعْرِفُہٗ مِنَّا اَحَدٌ‘ حَتّٰی جَلَسَ اِلَی النَّبِیِّ ﷺ فَاَسْنَدَ رُکْبَتَیْہِ اِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَوَضَعَ کَفَّیْہِ عَلٰی فَخِذَیْہِ ‘ وَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِسْلَامِ! فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : اَلْاِسْلَامُ اَنْ تَشْھَدَ اَنْ لاَّ اِلٰــــہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ‘ وَتُقِیْمَ الصَّلَاۃَ‘ وَتُؤْتِیَ الزَّکَاۃَ‘ وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ‘ وَتَحُجَّ الْبَیْتَ اِنِ اسْتَطَعْتَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا قَالَ : صَدَقْتَ‘ قَالَ : فَعَجِبْنَا لَــہٗ یَسْاَلُہٗ وَیُصَدِّقُہٗ‘ قَالَ : فَاَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِیْمَانِ! قَالَ : اَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ‘ وَمَلَائِکَتِہٖ ‘ وَکُتُبِہٖ ‘ وَرُسُلِہٖ ‘ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ‘ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ قَالَ: صَدَقْتَ‘ قَالَ: فَاَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِحْسَانِ! قَالَ: اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ ‘ فَاِنْ لَمْ تَــکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ قَالَ : فَاَخْبِرْنِیْ عَنِ السَّاعَۃِ! قَالَ : مَا الْمَسْئُوْلُ عَنْھَا بِاَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ قَالَ : فَاَخْبِرْنِیْ عَنْ اَمَارَاتِھَا! قَالَ : اَنْ تَلِدَ الْاَمَۃُ رَبَّـتَھَا‘ وَاَنْ تَرَی الْحُفَاۃَ الْعُرَاۃَ الْعَالَۃَ رِعَاءَ الشَّاءِ یَتَطَاوَلُوْنَ فِی الْبُنْیَانِ ثُمَّ انْطَلَقَ‘ فَلَبِثْتُ مَلِیًّا ثُمَّ قَالَ لِیْ: یَا عُمَرُ اَتَدْرِیْ مَنِ السَّائِلُ؟ قُلْتُ : اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ‘ قَالَ : فَاِنَّہٗ جِبْرِیْلُ‘ اَتَاکُمْ یُعَلِّمُکُمْ دِیْـنَـکُمْ (رواہ مسلم) [حدیث ِجبرائیل اُمّ السنۃ https://bit.ly/Hadis-Jibril ]
Video 19 minutes 37 seconds

ترجمہ
عمر بن خطاب سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ہم ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرتھے کہ اچانک ہمارے روبروایک شخص ظاہرہوا،جس کے کپڑے بے حدسفیداوربال نہایت سیاہ تھے، نہ تو اس پرسفرکے آثارتھے اورنہ ہم میں کوئی اس سے واقف تھا، وہ (شخص) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو بیٹھ گیا اوراپنے دونوں زانوں کونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زانوئے مبارک سے لگادیااوراپنے ہاتھوں کواپنے دونوں زانوؤں پررکھ لیا اورعرض کیا :
ائے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) مجھے بتلائے کہ :۔
اسلام کیا ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ توگواہی دے کہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں،اوریہ کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں،اور نماز کو اچھی طرح پابندی سے اداکرے،اورزکوۃ دے اوررمضان کے روزے رکھے اورخانۂ کعبہ کاحج کرے بشرطیکہ وہاں تک پہنچنے پرقادرہو،اس شخص نے (یہ سن کر)کہا کے آپ نے سچ فرمایا۔ [یعنی - ارکان اسلام پانچ ہیں]
ہم سب کواس پرحیرت ہوئی کہ آپ سے پوچھتاہے اورساتھ ہی تصدیق بھی کردیتاہے، اس شخص نے کہا کہ مجھے ایمان سے آگاہ کیجئے؟
آپ نے ارشاد فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پرایمان لائے اوراسکے فرشتوں پر اوراسکی کتابوں پر ،اوراس کے رسولوں پر،اورروزقیامت پر،اوریقین رکھے خیروشرپرکہ وہ قضاء وقدرسے ہیں،اس شخص نے کہا آپ نے سچ فرمایا۔ [ ارکان ایمان چھ ہیں]
پھراس شخص نے پوچھا مجھے بتائے کہ :۔ احسان کیا ہے؟
آپ نے ارشاد فرمایاکہ تواللہ تعالی کی (دل لگاکر)اس طرح عبادت کرے گویاکہ تواس کودیکھ رہا ہے، اگرتواس کواس طرح نہ دیکھ سکے تو(خیراتناتوخیال رکھ)کہہ وہ تجھ کودیکھ رہاہے [ارکان احسان دوہیں ]
پھراس شخص نے پوچھ مجھے قیامت کے بارے میں خبردیجئے؟
آپ نے فرمایا :جس سے تم دریافت کر رہے ہووہ بھی پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا،پھراس نے پوچھاکہ قیامت کی نشانیاں کیا ہیں؟آپ نے فرمایا: جب لونڈی مالک کوجنے اوریہ کہ ننگے پیرچلنے والے‘ ننگے بدن ‘تنگدست اوربکریاں چرانے والوں کوتودیکھے کہ وہ بلندعمارتیں بنانے میں ایک دوسرے پرفخرکریں گے [قیامت اوراس کی نشانیاں]
راوی یعنی عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:کہ وہ شخص چلاگیااورمیں دیرتک ٹھیرا رہاپھرآپ نے مجھ سے فرمایا: کہ ائے عمر کیا تم جانتے ہوکہ سائل کون تھا؟ میں نے جواب دیاکہ اللہ اوراس کے رسول زیادہ جاننے والے ہیں، آپ نے فرمایا: وہ تو جبرئیل تھے ،تمہارے پاس اس غرض سے آئے تھے کہ تم کوتمہارا دین سکھادیں۔


ڈاکٹر اسرار احمد (رح) فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی عظمت کو عہد ِحاضر میں دو اشخاص نے پورے طو رپر پہچانا ہے‘ ان میں سے ایک سفید فام امریکی [1] William C.Chittick اوردوسری اس کی جاپانی بیوی Sachiko Murata ہے . ان کے بارے میں ابھی تک کوئی اطلاع نہیں ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے یا نہیں‘ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وہ ذہناً اور قلباًمسلمان ہیں اگرچہ انہوں نے اعلان نہ کیا ہو. اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا ہو‘ کیونکہ ہماری معلومات کا دائرہ اتنا وسیع نہیں ہے. واللہ اعلم! ان دونوں نے انتہائی گہرے مطالعے کے بعد اِس حدیث کی روشنی میں ایک کتاب شائع کی ہے جس کا عنوان ہے : "Vision of Islam" یہ کتاب تقریباً ڈھائی تین سو صفحات پرمشتمل ہے.ہمارے ہاں بھی یہ کتاب سہیل اکیڈمی لاہور نے شائع کی ہے جو بازار میں دستیاب ہے.جو لوگ علمی ذوق رکھتے ہوں وہ اسے حاصل کر کے پڑھیں یا ابھی داؤن لوڈ کریں [2]
Vision of Islam : The book covers the four dimensions of Islam as outlined in the “Hadith of Gabriel” [حدیث جبرئیل ] practice, faith, spirituality, and the Islamic view of history.
یہ حدیث احادیث کی پانچ کتابوں میں ہے اور پانچ ہی صحابہؓ سے منقول ہے‘ یعنی حضراتِ عمر بن خطاب‘ ابوہریرہ‘ عبداللہ بن عباس‘ عبداللہ بن عمر اور ابوعامررضی اللہ عنہم اجمعین. یہ حدیث حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے چار طرق سے مروی ہے. ان میں سے جو متفق علیہ روایت ہے وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت ہے‘ لیکن جو مقبول ترین روایت ہے‘ جس کا متن اوپر پیش کیا گیا ہے‘ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور صحیح مسلم (کتاب الایمان ‘باب بیان الایمان والاسلام والاحسان ) میں ہے. مراتب میں تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین برابر نہیں تھے‘ سب کے اپنے اپنے مراتب تھے. کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم‘ کو فقہائے صحابہ کہا جاتا تھا‘ اس لیے کہ وہ فہم ِدین میں دوسروں سے زیادہ مرتبہ رکھتے تھے. ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ چوٹی کے مقام پر ہیں. اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمابھی چوٹی کے فقہاءِ صحابہؓ میں شمار ہوتے ہیں.ان صحابہؓ سے مروی احادیث کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے. اس پر اتفاق ہے کہ یہ واقعہ جو اِس حدیث مبارک میں بیان ہو رہا ہے‘ یہ رسول اللہﷺ کی زندگی کے آخری ایام میں پیش آیا ہے. فتح الباری اور عمدۃ القاری دونوں میں ہے کہ یہ آپﷺ کی زندگی کے آخری دنوںکاواقعہ ہے. مولانا بدرِ عالم میرٹھی مہاجر مدنی نے‘ جن کا انتقال مدینہ منورہ میں ہوا‘ اس حدیث کے تمام طرق اپنی کتاب ’’ ترجمان السنۃ‘‘ میں تفصیلاً بیان کیے ہیں. اس حدیث میں جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ اصل میں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے‘ لیکن واقعہ کی تفصیلات کے ضمن میں کچھ مزید پہلو دوسری روایات میں آئے ہیں اور وہ بھی یہاں بیان کیے جائیں گے. ان میں یقینا متن کے الفاظ میں بھی کچھ فرق ہے‘ لیکن واقعاتی تفصیل میں کچھ زیادہ فرق ہے.حدیث کے الفاظ متفق علیہ اور محفوظ نہیں ہیں. اس لیے کہ راویوں کے بیان میں لفظی طور پر فرق واقع ہو جاتا ہے. اس کی سادہ سی مثال ہے کہ آپ کسی محفل میں چند جملے بولیے اور پھر تھوڑی دیر بعد حاضرین ِمحفل سے پوچھئے کہ میں نے کیا کہا تھا‘ تو ہر ایک کے بیان میں کچھ نہ کچھ فرق واقع ہو جائے گا. البتہ حدیث اپنی روح‘ اپنے ہدف اور مضمون کے اعتبار سے متفق علیہ ہے‘ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے. اب ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی اس روایت کا سلسلہ وار مطالعہ کرتے ہیں. اسے پڑھتے ہوئے اگر ہم اپنے آپ کو اُس ماحول کا حصہ سمجھیں تو اس واقعے کو چشم ِتصور سے دیکھ سکتے ہیں. حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: بَیْنَمَا نَحْنُ جُلُوْسٌ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ ذَاتَ یَوْمٍ ’’اس اثنا میں کہ ایک دن ہم رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھے تھے‘‘. اِذْ طَلَعَ عَلَیْنَا رَجُلٌ شَدِیْدُ بَیَاضِ الثِّیَابِ‘ شَدِیْدُ سَوَادِ الشَّعْرِ ’’کہ اچانک ایک شخص نمودار ہوا. اس کے کپڑے انتہائی سفید اور اس کے بال انتہائی سیاہ تھے (میل اور گرد و غبار کے کوئی آثار نہیں تھے) ‘‘. ایک روایت میں حَسَنُ الْوَجْہ ِ ’’نہایت خوبصورت انسان‘‘کے الفاظ بھی ہیں. لوگوں نے اُس وقت سوچا ہو گا کہ یہ کون ہیں؟ لَا یُرٰی عَلَیْہِ اَثَرُ السَّفَرِ ’’اس شخص پر سفر کے کوئی آثار نہیں تھے‘‘.اگر وہ باہر سے آیا ہوتا تو اُس کے کپڑے گرد آلود ہوتے‘ بالوں میں کچھ غبار ہوتا. تو معلوم ہوا کہ یہ باہر سے نہیں آیا ہے. وَلَا یَعْرِفُہٗ مِنَّا اَحَدٌ ’’اور ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا بھی نہیں تھا‘‘. ایک روایت میں اضافہ ہے: فَنَظَرَ الْقَوْمُ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ ’’تو لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے‘‘. گویا اشاروں سے ہی ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ یہ کون ہیں؟ تو معلوم ہوا کہ پوری مجلس میں ان کا کوئی شناسا نہیں. اگر وہ شخص کسی کے ہاں مہمان آیا ہوتا تو وہ میزبان اشارہ کر کے کہہ دیتے کہ یہ میرے مہمان ہیں‘ اور اگر براہِ راست آئے ہوتے تو ان کے بالوں اور کپڑوں پر سفر کے کچھ آثار ہوتے. ایک روایت میں ہے کہ’’ان کی داڑھی کے بال نہایت سیاہ تھے‘‘ .عام بالوں کی بجائے داڑھی کے بالوں کے تذکرے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ عام طور پر عرب اپنے سر کو ڈھانپے ہوئے رکھتے تھے.اس لیے اس شخصیت کے داڑھی کے بالوں کا تذکرہ ہے کہ وہ انتہائی سیاہ تھے. حَتّٰی جَلَسَ اِلَی النَّبِیِّ ﷺ ’’یہاں تک کہ وہ نبی اکرمﷺ کے پاس آبیٹھا‘‘. ایک روایت میں ہے : قَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ آتِیْکَ؟ ’’ اُس نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا میں حاضر ہو جاؤں؟‘‘ قَالَ: نَـعَمْ’’ آپﷺ نے فرمایا:’’ہاں آؤ ‘‘. بلکہ اس روایت میں ہے کہ آپﷺ نے لوگوں سے کہا : اَدِّنُوْہُ ’’اسے قریب آنے دو‘‘. تو معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کے حکم سے مجمع چھٹ گیا ہو گااور راستہ بن گیا ہو گا‘ لہذا وہ تیر کی طرح سیدھا آیا اور آپؐ کے سامنے آ کر بیٹھ گیا. فَاَسْنَدَ رُکْبَتَیْہِ اِلٰی رُکْبَتَیْہِ ’’پس اس نے اپنے دونوں گھٹنے رسول اللہﷺ کے دونوں گھٹنوں سے ملا دیے‘‘. آنجنابﷺ بھی دوزانو تشریف فرما ہوں گے اور وہ بھی دو زانو ہو گئے ‘لہذا دونوں کے گھٹنے ایک دوسرے کو چھونے لگے. وَوَضَعَ کَفَّیْہِ عَلٰی فَخِذَیْہِ. اس جزو کے دو ترجمے ہو سکتے ہیں‘ یعنی ’’اُس نے اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے زانوؤں پر رکھ دیں‘‘ یا ’’اُس نے اپنی دونوں ہتھیلیاں آنحضورﷺ کے دونوں زانوؤں پر رکھ دیں‘‘. اس لیے کہ فَخِذَیْہِ میں ضمیر ’’ہُ‘‘ دونوں طرف ہو سکتی ہے. لیکن ایک دوسری روایت میں وضاحت ہے: عَلٰی رُکْبَتَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِﷺ ’’اس نے اپنی دونوں ہتھیلیاں رسول اللہﷺ کے گھٹنوں پر رکھ دیں‘‘. وَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ ’’اور اس نے کہا: اے محمد(ﷺ )‘‘. ایک روایت میں ’’ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ‘‘ کے الفاظ ہیں کہ اُس نے کہا:
اسلام کیا ہے ؟
’’اے اللہ کے رسول!‘‘ اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِسْلَامِ ’’مجھے اسلام کے بارے میں بتایئے!‘‘ ایک روایت میں ہے: حَدِّثْنِیْ عَنِ الْاِسْلَامِ یا حَدِّثْنِیْ بِالْاِسْلَامِ ’’میرے لیے بیان فرمایئے کہ اسلام کیا ہے!‘‘ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : اَلْاِسْلَامُ اَنْ تَشْھَدَ اَنْ لاَّ اِلٰــــہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ‘ وَتُقِیْمَ الصَّلَاۃَ‘ وَتُؤْتِیَ الزَّکَاۃَ‘ وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ‘ وَتَحُجَّ الْبَیْتَ اِنِ اسْتَطَعْتَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا ’’تورسول اللہﷺ نے فرمایا :اسلام یہ ہے کہ تو گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (ﷺ ) اللہ کے رسول ہیں‘ اور تو نماز قائم کرے‘ زکو ٰۃ ادا کرے‘ رمضان کے روزے رکھے اور بیت اللہ کا حج کرے اگر تجھے اس کے لیے سفر کی استطاعت ہو‘‘. قَالَ : صَدَقْتَ ’’اُس شخص نے کہا :آپﷺ نے درست فرمایا‘‘. فَعَجِبْـنَا لَــہٗ یَسْاَلُـہٗ وَیُصَدِّقُـہ ’’توہمیں تعجب ہوا اُس شخص پر کہ رسول اللہﷺ سے سوال کرنے کے ساتھ ساتھ تصدیق بھی کر رہاہے!‘‘ یہ انداز تو استاد کا ہوتا ہے کہ شاگرد سے سوال پوچھتا ہے‘ اور اگر وہ درست جواب بتائے تو اُس کی تصدیق کرتا ہے‘ اسے شاباش دیتا ہے. لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خاموش رہے اور سمجھ گئے کہ اس معاملے میں آپ ﷺ کی اجازت شامل ہے.
ایمان کیا ہے؟ قَالَ : فَاَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِیْمَانِ ’’پھر اُس نے کہا کہ اب مجھے بتایئے کہ ایمان کیا ہے!‘‘ قَالَ : اَنْ تُــؤْمِنَ بِاللّٰہِ‘ وَمَلَائِکَتِہٖ ‘ وَکُتُبِہٖ‘ وَرُسُلِہٖ‘ وَالْـیَوْمِ الْآخِرِ‘ وَتُـؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ ’’رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تو یقین رکھے اللہ پر‘ اُس کے فرشتوں پر ‘اُس کی کتابوں پر ‘اُس کے رسولوں پر ‘قیامت کے دن پر اور اچھی بری تقدیر پر (کہ جو خیر یا شر کسی پر وارد ہوتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے)‘‘. قَالَ: صَدَقْتَ ’’وہ شخص بولا :آپ(ﷺ )نے ٹھیک فرمایا.‘‘
احسان کیا ہے؟ قَالَ: فَاَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِحْسَانِ ’’پھر اس نے کہا کہ مجھے احسان کے بارے میں بتایئے‘‘. قَالَ: اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ ‘ فَاِنْ لَمْ تَــکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ ’’آپؐ نے فرمایا:(احسان یہ ہے ) کہ تم اس کیفیت میں اللہ کی بندگی کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو . پس اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے (یہ کیفیت پیدا نہیں ہو رہی) تو (یہ کیفیت تو پیدا ہو کہ) وہ تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘. ایک روایت میں اَنْ تَخْشَی اللّٰہَ تَعَالٰی ’’کہ تو اللہ تعالیٰ سے ڈرے‘‘ اور ایک روایت میں اَنْ تَعْمَلَ لِلّٰہِ ’’کہ تو عمل کرے اللہ کے لیے (یا محنت کرے اللہ کے لیے) کے الفاظ آئے ہیں.‘‘
قیامت کے بارے میں بتایئے قَالَ : فَاَخْبِرْنِیْ عَنِ السَّاعَۃِ ’’(پھر) اس نے کہا: مجھے قیامت کے بارے میں بتایئے‘‘. قَالَ : مَا الْمَسْئُوْلُ عَنْھَا بِاَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ! ’’رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس سے (قیامت کے بارے میں) پوچھا جا رہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ‘‘. ایک روایت میں آتا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: فِیْ خَمْسٍ مِنَ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھُنَّ اِلاَّ ھُوَ ’’یہ غیب کی ان پانچ چیزوں میں سے ہے جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں‘‘اور پھر رسول اللہﷺ نے سورۂ لقمان کی آخری آیت تلاوت کی : اِنَّ اللّٰہَ عِنۡدَہٗ عِلۡمُ السَّاعَۃِ ۚ وَ یُنَزِّلُ الۡغَیۡثَ ۚ وَ یَعۡلَمُ مَا فِی الۡاَرۡحَامِ ؕ وَ مَا تَدۡرِیۡ نَفۡسٌ مَّاذَا تَکۡسِبُ غَدًا ؕ وَ مَا تَدۡرِیۡ نَفۡسٌۢ بِاَیِّ اَرۡضٍ تَمُوۡتُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ ﴿٪۳۴﴾ ’’بے شک اللہ تعالیٰ ہی ہے جس کے پاس قیامت کا علم ہے (کہ وہ کب آئے گی). اور وہی بارش برساتا ہے‘ اور وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں کیا ہے. اور کسی انسان کو یہ معلوم نہیں کہ وہ کل کیا کمائی کرے گا . اور (اسی طرح) کسی کو یہ معلوم نہیں ہے کہ اس کی موت کس جگہ واقع ہو گی. بے شک اللہ ہی ہر چیز کا علم رکھنے والا (اور ) ہرشے سے باخبر ہے.‘‘
قیامت کی نشانیاں قَالَ : فَاَخْبِرْنِیْ عَنْ اَمَارَاتِھَا؟ ’’اُس شخص نے پوچھا: تو مجھے اس کی نشانیاں بتا دیجیے!‘‘ قَالَ : اَنْ تَلِدَ الْاَمَۃُ رَبَّتَھَا ’’آپﷺ نے فرمایا:(جب تم دیکھو) کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جنے ‘‘.اکثر کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ اولاد سرکش ہو جائے گی. بیٹیاں جوعام طور پر اپنے والدین کا زیادہ ادب کرنے والی ہوتی ہیں‘ والدین کے سامنے اپنی آوازوں کو پست رکھتی ہیں‘ ان کا حال یہ ہوجائے گا گویا اپنی ماؤں کی مالکہ ہیں ‘ مائیں ان سے ڈریں گی کہ ان کی کسی غلط بات پر انہیں ٹوک دیا تو معلوم نہیں وہ کیا ردّعمل ظاہر کریں گی. وَاَنْ تَرَی الْحُفَاۃَ الْعُرَاۃَ الْعَالَۃَ رِعَاءَ الشَّاءِ یَتَطَاوَلُوْنَ فِی الْبُنْیَانِ ’’اور یہ کہ تم دیکھو گے کہ ننگے پاؤں‘ ننگے بدن ‘ محتاج ‘ بکریاں چرانے والے اونچی اونچی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں گے‘‘. یہ صورت حال آج عالم ِعرب میں صد فیصد موجود ہے. چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماکی روایت میں حضرت جبرائیل ؑکے پانچویں سوال کا بھی ذکر ہے: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَنْ اَصْحَابُ الشَّاءِ الْحُفَاۃُ الْجِیَاعُ الْعَالَۃُ ’’یارسول اللہ!بکریاں چرانے والے‘ برہنہ پا‘ بھوکے‘ تنگدست کون لوگ ہیں؟‘‘ قَالَ: اَلْعَرَبُ ’’آپﷺ نے فرمایا: وہ عرب ہوں گے‘‘.یہ صورتِ حال آج ہمارے سامنے ہے. دبئی کہاں سے کہاں پہنچا ہوا ہے! سوسال پہلے یہاں کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا‘ پہننے کے لیے کپڑے نہیں تھے‘ پاؤں میں جوتے نہیں ہوتے تھے. پورے عرب کا یہی معاملہ تھا. تقریباًستر اَسّی برس سے یہ صورتِ حال مکمل طور پر تبدیل ہو گئی ہے‘جب سے تیل دریافت ہوا ہے. اب یہ خوشحالی کہاں تک پہنچ گئی ہے‘ اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ عرب کے صحرا گل و گلزار کا نقشہ پیش کر رہے ہیں. آپ اگر ابوظبی کے ایئر پورٹ سے ابوظبی شہر جائیں تو درمیان میں آپ کو ایسا نقشہ نظر آئے گا گویایہ چمن زار ہے . سڑک کے دونوں طرف ہری بھری گھاس اور پھول ہیں اور سڑک کے دونوں طرف اونچے اونچے پشتے بنا دیے گئے ہیں تاکہ اس سے آگے صحرا کی طرف نگاہ نہ پہنچے . اس طرح بہت خوبصورت منظر دکھائی دیتا ہے. پھر یہ کہ دبئی میں سیون سٹار ہوٹل ہے. دبئی‘ جدہ ‘ ریاض وغیرہ کی ساحلی سڑکیں اتنی عالی شان ‘ آراستہ و پیراستہ اور خوبصورت ہیں کہ اس قدر حسین مناظر میں نے امریکہ میں بھی نہیں دیکھے . میرے خیال میں دبئی باقی عرب کے بعد اُبھرنا شروع ہوا لیکن اب سب سے آگے ہے. متحدہ عرب امارات (UAE) میں ایک بلندوبالا عالی شان بلڈنگ تھی جسے گرایا جا رہا تھا پوچھا یہ کیا افتاد ہے کہ اسے گرا رہے ہیں؟ ابھی تو یہ شہرآباد ہوا ہے‘ کوئی پرانی عمارت تو ہے نہیں! کہنے لگے کہ اس کے قریب ایک اس سے اونچی عمارت بن گئی ہے‘ لہذا اب اس عمارت کو گرا کر از سر نو مزیداونچی عمارت بنانی ہے. گویا عمارتوں کو اونچا کرنے میں وہ ایک دوسرے کا مقابلہ کررہے ہیں. حضرت عمر رضی اللہ عنہ آگے فرماتے ہیں: ثُمَّ انْطَلَقَ ’’پھر وہ شخص چلا گیا‘‘. فَلَبِثْتُ مَلِیًّا ’’تو مَیں کچھ دیر متردّد سا رہا‘‘.میرے ذہن میں یہ الجھن رہی کہ یہ سائل کون تھا. ثُمَّ قَالَ لِیْ: یَا عُمَرُ اَتَدْرِیْ مَنِ السَّائِلُ؟ ’’پھر رسول اللہﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا: اے عمر! تمہیں معلوم ہوا یہ سائل کون تھا؟‘‘ قُلْتُ : اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ ’’میں نے کہا: اللہ اور اُس کا رسول(ﷺ ) بہتر جانتے ہیں‘‘. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عام معمول یہی تھا کہ آپؐ کے سوال دریافت فرمانے پر وہ کہتے تھے : ’’اللہ اور اُس کا رسول بہتر جانتے ہیں‘‘. قَالَ : فَاِنَّہٗ جِبْرِیْلُ‘ اَتَاکُمْ یُعَلِّمُکُمْ دِیْنَـکُمْ ’’یہ جبرائیل تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے کے لیے آئے تھے‘‘ . یہ اختتامی حصہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں بہت ہی مختصر اور نامکمل ہے. ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہی وہ شخص واپس گیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی وہاں سے کسی ضرورت کے تحت روانہ ہوگئے. چنانچہ بعد میں جو واقعہ پیش آیا وہ انہیں معلوم نہیں تھا. دوسری روایت کے مطابق ذرا سا توقف کے بعد وہ شخص چلا گیا تو آنحضرتﷺ نے فرمایا: رُدُّوْہُ ’’اسے واپس میرے پاس لاؤ‘‘.ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: اِلْتَمِسُوْہُ ’’اسے تلاش کرو.‘‘ فَلَمْ یَرَوْا شَیْئًا ’’توانہیں کوئی شے نہیں ملی‘‘.اُس آدمی کا کہیں سراغ نہ ملا. اس کے بارے میں کچھ معلومات نہیں ملیں.اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’یہ جبرائیل ؑ تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے کے لیے آئے تھے‘‘. اس کے بعد اور الفاظ بھی ہیں جو مسند احمد میں ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں کہ آپؐ نے فرمایا:وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ جَاءَ نِیْ قَطُّ اِلاَّ وَاَنَا اَعْرِفُہٗ اِلاَّ تَـکُوْنُ ھٰذِہِ الْمَرَّۃُ ’’اُس ہستی کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ‘جب کبھی بھی جبرائیل ؑمیرے پاس آئے میں اُن کو پہچان لیتا تھا ‘سوائے اِس مرتبہ کے‘‘. حضرت جبرائیل ؑ ایک تو فرشتے کی شکل میں تشریف لاتے‘ اُس وقت غیر مرئی ہوتے‘ صرف آواز سنائی دیتی تھی. ان کی آواز بھی لفظی نہیں تھی‘ بلکہ گھنٹیوں کی آواز کی طرح ہوتی تھی. (جیسے تار گھر میں غرغر ہوتا تھا اور اسی سے پھر پیغام بنا لیا جاتا تھا.) جبرائیل ؑ جو پیغام لے کر آتے تھے وہ الفاظ کے ساتھ رسول اللہﷺ کے قلب ِمبارک پر اُتر جاتا تھا. لیکن متعدد مواقع پر حضرت جبرائیل علیہ السلام آپﷺ کے پاس انسانی شکل میں آتے تھے جس کا ایک واقعہ یہاں آپ کے سامنے آیا. حضرت جبرائیل ؑعام طور پر ایک خوبصورت صحابی حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی شکل میں آتے تھے‘ لیکن رسول اللہﷺ پہچان جاتے تھے کہ یہ دحیہ نہیں ہیں ‘بلکہ دحیہ کی شکل میں حضرت جبرائیل ؑہیں. حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکی روایت میں یہ الفاظ ہیں: مَا جَاء نِیْ فِیْ صُوْرَۃٍ اِلاَّ عَرَفْتُہٗ غَیْرَ ھٰذِہِ الصُّوْرَۃِ ’’حضرت جبرائیل ؑ جس شکل و صورت میں بھی میرے پاس تشریف لاتے تھے میں انہیں پہچان لیتا تھا سوائے اس مرتبہ کے.‘‘ یہ بھی جان لیجیے کہ آپؐ نے جوفرمایا کہ ’’یہ جبرائیل تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے‘‘ تواس ضمن میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے متفق علیہ روایت میں یہ اضافی الفاظ بھی آئے ہیں: اَرَادَ اَنْ تَعَلَّمُوْا اِذْ لَمْ تَسْئَلُوْا ’’جبرائیل ؑ اس لیے آئے تھے کہ انہوں نے چاہا کہ تم وہ چیزیں جان لو جن کے بارے میں تم نے سوال نہیں کیا‘‘.یعنی دین کی بعض حقیقتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں تمہیں سوال کرنا چاہیے تھا لیکن تم نے نہیں کیا‘ لہٰذا حضرت جبرائیل ؑ اس خلاء کو پُر کرنے کے لیے آئے تھے. عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ صحابہؓ نے کہا: مَا رَاَیْنَا رَجُلًا اَشَدَّ تَوْقِیْرًا لِرَسُوْلِ اللّٰہِﷺ مِنْ ھٰذَا ’’ہم نے کسی انسان کو نہیں دیکھا کہ وہ اللہ کے رسولﷺ ‘کی اتنی عزت کرتا ہو جتنی کہ وہ شخص کر رہا ہے‘‘. کَاَنَّہٗ یَعْلَمُ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ ’’ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ رسول اللہﷺ سے واقف ہے.‘‘ یعنی آپؐ کے مرتبے اور آپؐ کی نبوت و رسالت کو خوب پہچانتا ہے. آپ نے اس واقعہ کی ابتدا بھی دیکھ لی اور انتہا بھی. اس واقعہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جو الفاظ ہیں: فَلَبِثْتُ مَلِیًّا ’’تو مَیں کچھ دیر بڑا متردّد رہا‘‘.تواس بارے میں روایات میں آتا ہے کہ ہو سکتا ہے رسول اللہﷺ کی جناب میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کی حاضری دو تین دن بعد ہوئی ہو‘کیونکہ یہ معلوم ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ایک انصاری صحابیؓ دونوں مشترکہ طور پر ایک دکان چلاتے تھے اور حضرت عمررضی اللہ عنہ کا ان کے ساتھ ایک معاہدہ تھا کہ ایک دن دکان پر تم بیٹھو گے اور میں رسول اللہﷺ کی صحبت میں رہوں گا اور اگلے دن میں دکان پر بیٹھوں گا اور تم رسول اللہﷺ کی صحبت سے فیض حاصل کرو گے. تو شاید اگلے دن آپؓ اپنے اس معاہدے کی وجہ سے نہیں آئے اور دوسرے دن ہو سکتا ہے انہیں کوئی اور مصروفیت ہو. اب جب آئے تو رسول اللہﷺ نے اُن کے چہرے پر پڑھ لیا کہ یہ متردد سے ہیں ‘ کسی تشویش میں ہیں. تو رسول اللہﷺ نے خود ہی پوچھا : یَا عُمَرُ اَتَدْرِیْ مَنِ السَّائِلُ؟ ’’اے عمر!تمہیں معلوم ہوا کہ یہ سائل کون تھا؟‘‘ تو حضرت عمرؓ نے فرمایا : قُلْتُ: اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ ’’میں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں‘‘. قَالَ : فَاِنَّہٗ جِبْرِیْلُ‘ اَتَاکُمْ یُعَلِّمُکُمْ دِیْنَـکُمْ ’’رسول اللہﷺ نے فرمایا:یہ جبرائیل ؑتھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے کے لیے آئے تھے.‘‘ اس حدیث میں جو چار سوال آئے ہیں جن کے رسول اللہﷺ نے جوابات دیے ہیں
ان میں اہم ترین پہلے دو سوال ہیں‘ یعنی اسلام کیا ہے اور ایمان کیا ہے.
روایات میں سوالات کی ترتیب میں بھی فرق ہے.
ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں پہلا سوال ایمان کے بارے میں اور دوسرا سوال اسلام کے بارے میں ہے‘ جبکہ اس روایت اور دوسری اکثر روایات میں پہلا سوال اسلام کے بارے میں ہے اور دوسرا سوال ایمان کے بارے میں . بہرحال اسلام اور ایمان کے بارے میں یہ سوالات بہت اہم ہیں‘ جن کی وضاحت بعد میں ہو گی.
تیسرا سوال جو ’’احسان‘‘ کے بارے میں ہوا‘ وہ بھی بہت اہم ہے. یہ روحانیت کے بارے میں ہے اور ہمارے ہاں تصوف اس کا موضوع بن گیا ہے. اس بارے میں بھی آپﷺ نے یہاں فرما دیا ہے کہ دین میں روحانیت کے ضمن میں صحیح روش کیا ہونی چاہیے. اس لیے کہ بعد میں دین میں جوخرابیاں پیدا ہوئی ہیں وہ تین گوشوں سے ہوئی ہیں. حضرت عبداللہ بن مبارکؒ جوتبع تابعی تھے ‘ بہت نیک اور مجاہد انسان تھے‘ ان کا ایک شعر ہے : وھل افسد الدِّین الا الملوک واحبار سوء ورھبانھا ’’دین میں فساد تین طرح سے آتا ہے(یا آیا ہے): ایک بادشاہوں اور سلاطین کے ذریعے سے‘ دوسرے علماءِ سوء کے ذریعے سے اور تیسرے راہبوں کے ذریعے سے.‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ اُس دَور میں بھی فساد آ چکا تھا. اور آج کے دَور میں تو یہ فساد اپنی انتہا کو پہنچا ہوا ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی : ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ (الروم:۴۱) ’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے‘‘.
اُس دَور کے لوگوں نے محسوس کرلیا کہ اِس فتنہ و فساد کا ذریعہ یہ تین گروہ ہیں. ایک تو وہ بادشاہ و سلاطین جو اپنے مفادات کے لیے دین میں تحریف کرواتے ہیں. دوسرے دین فروش اور فتویٰ فروش علماء ‘جو اپنے دین اور اپنے علم کو کمائی کا ذریعہ بناتے ہیں‘اور تیسرے یہ راہب .رہبانیت جب آتی ہے تو دین کے اندر فتوراورفساد پھیلاتی ہے. انہی تین گروہوں کے بارے میں علامہ اقبال نے اپنے ایک شعر میں کہا ہے : ؎ باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری! اے کشتۂ سلطانی و ملائی و پیری! یعنی اے مسلمان! آج تیرا آئینۂ قلب دھندلا گیا ہے تو اس کی وجہ وہ زخم ہیں جو تجھے تین اطراف سے لگے ہیں. یہ زخم لگانے والے تین قسم کے لوگ ہیں:
ایک پیشہ ور مذہبی ملا ‘ دوسرے بادشاہ ‘ تیسرے پیری مریدی کرنے والے.موجودہ حالات اس کی مکمل عکاسی کر رہے ہیں‘ اِلاّ ماشاءَ اللہ.
چوتھا سوال نبی اکرمﷺ سے قیامت اور علاماتِ قیامت کے بارے میں ہے. اس حدیث میں جو دو علاماتِ قیامت بیان ہوئی ہیں وہ آج روزِ روشن کی طرح ہمارے سامنے آ گئی ہیں‘ یعنی اولاد کی سرکشی اور نادار لوگوں کا خوشحال ہو کر محلات کی بلندی میں ایک دوسرے پرسبقت لے جانے کی کوشش کرنا.ایک اور حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا: بُعِثْتُ اَنَا وَالسَّاعَۃُ کَھَاتَیْنِ (۱) ’’میری بعثت میں اور قیامت میں اتنا قرب ہے جتنا اِن دو انگلیوں (شہادت والی انگلی اور درمیانی انگلی) کے مابین ہے.‘‘ یعنی میرے بعد اب نہ کوئی نبی و رسول آئے گا اور نہ کوئی اُمت آئے گی‘ بلکہ اب قیامت (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الرقاق ‘ باب قول النبیﷺ بعثت انا والساعۃ کھاتین. وصحیح مسلم‘ کتاب الجمعۃ‘ باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ. ہی آئے گی. گویا آپﷺ کی بعثت ہی فی نفسہٖ علاماتِ قیامت میں سے ہے. اس کے بعد پھر چھوٹی بڑی علامتیں ہیں .کتب ِاحادیث میں علاماتِ قیامت کی احادیث پر مشتمل پورے پورے باب باندھے گئے ہیں. دلچسپی رکھنے والے حضرات ان کی طرف رجوع کر سکتے ہیں. پانچواں سوال جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہﷺ سے یہ کیا کہ یہ : ’’اَصْحَابُ الشَّاءِ الْحُفَاۃُ الْجِیَاعُ الْعَالَۃُ‘‘ کون لوگ ہیں کہ بکریاں چرانے والے‘ برہنہ پا ‘ بھوکے اور تنگ دست ہونے کے باوجود قیامت کے قریب اتنے خوشحال ہو جائیں گے کہ بڑی بڑی عمارات میں ایک دوسرے پر مسابقت کی کوشش کریں گے؟ اس سوال کے جواب میں آپؐ نے فرمایا کہ یہ عرب ہوں گے. اب جزیرہ نمائے عرب کا مشرقی ساحل اور مغربی ساحل بعینہٖ یہ نقشہ پیش کر رہے ہیں. البتہ جنوبی ساحل کے ساتھ صحرا ہے جہاں آبادی ہے ہی نہیں‘ اسے ’’الربع الخالی‘‘ کہتے ہیں. یہاں زندگی کاوجود نہیں ہے. یہاں کی ریت بھی ایسی ہے کہ اس پر کوئی شے ٹھہر ہی نہیں سکتی‘ بلکہ نیچے دھنستی چلی جاتی ہے‘ جیسے دلدل میں ہوتا ہے کہ آدمی کا پاؤں پڑ جائے تو پھر اس کا باہر نکلنا محال ہوتا ہے. ایسے صحراؤں کو’’Quick Sands‘‘ کہا جاتا ہے. یہ اصل میں قومِ عاد کا مسکن تھا. قومِ عاد کی بڑی زبردست تہذیب تھی. اسی قوم میں شداد تھا جس نے اپنی جنت بنائی تھی. اب شداد کا وہ شہر بھی دریافت ہوگیا ہے جو اِسی ریت کے اند ر دبا ہوا ہے. اس میں بڑی مضبوط فصیل کے اوپر بہت مضبوط ستون کھڑے نظر آ رہے ہیں. جیسے قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے : اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ ۪ۙ﴿۶﴾اِرَمَ ذَاتِ الۡعِمَادِ ۪ۙ﴿۷﴾الَّتِیۡ لَمۡ یُخۡلَقۡ مِثۡلُہَا فِی الۡبِلَادِ ۪ۙ﴿۸﴾ (الفجر) ’’کیا تم نے (اے پیغمبرؐ !) دیکھا نہیں کہ تمہارے ربّ نے کیا برتاؤ کیا اونچے ستونوں والے عادِ ارم کے ساتھ ‘جن کے مانند کوئی قوم دنیا کے ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی تھی؟‘‘
’’اسلام‘‘ اور ’’ایمان اب آیئے اس طرف کہ زیر مطالعہ حدیث میں جو دو اہم سوال آئے ہیں ’’اسلام‘‘ اور ’’ایمان‘‘ کے بارے میں‘ ان کی اہمیت کا پس منظر کیا ہے. اکثر اوقات قرآن مجید کے عام پڑھنے والوں کو ’’اسلام ‘‘ اور ’’ایمان‘‘ کے بارے میں اُلجھن ہو جاتی ہے. اس لیے کہ ایمان اور اسلام زیادہ تر مترادف الفاظ کے طور پر آتے ہیں. مسلم کو مؤمن کہہ دیں‘ مؤمن کو مسلم کہہ دیں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا. گلاب کو کسی بھی نام سے پکاریں وہ یکساں خوشبو دے گا. چنانچہ جو اللہ تعالیٰ کا فرماں بردارہے اور اس کے دل میں ایمان ویقین بھی ہے تو آپ اسے مؤمن کہہ دیں یا مسلم کیا فرق واقع ہوتا ہے! لیکن سورۃ الحجرات کی آیت ۱۴جس کی آغاز میں تلاوت کی گئی ہے‘ اس میں نہ صرف یہ کہ ’’اسلام‘‘ اور ’’ایمان‘‘ مترادف نہیں ہیں بلکہ ایمان بمقابلہ اسلام آیا ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد کے طور پر استعمال ہوئے ہیں. ارشادِ الٰہی ہے: قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ (الحُجُرٰت:۱۴) ’’یہ بدو دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے‘ (اے نبیؐ !)ان سے کہہ دیجیے تم ہرگز ایمان نہیں لائے ہو‘ لیکن یہ کہہ سکتے ہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا.‘‘ یہاں پر ’’لَمْ تُؤْمِنُوْا‘‘ آیا ہے ’’مَا اٰمَنْتُمْ‘‘ نہیں آیا.یہ عربی کا قاعدہ ہے کہ اگر ماضی سے پہلے ’’مَا‘‘ آ جائے تو یہ بھی نفی ہے لیکن اس نفی میں شدت اور تاکید نہیں ہوتی‘لیکن اگر مضارع سے پہلے ’’لَمْ‘‘ آ جائے تو یہ تاکیداً نفی ہوتی ہے. اس لیے میں نے ’’لَمْ‘تُؤْمِنُوْا‘‘ کا ترجمہ کیا ہے ’’تم ہرگز ایمان نہیں لائے‘‘.یہاں ایک تضاد کی سی شکل بن گئی ہے کہ ایمان اور اسلام مترادف ہیں یا ایک دوسرے کی ضد؟ مذکورہ بالا آیت کریمہ میں بدوؤں کا اسلام تو قبول کیا جا رہا ہے بایں الفاظ: وَلٰـکِنْ قُوْلُوْآ اَسْلَمْنَا ’’لیکن تم یہ کہہ سکتے ہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں‘‘لیکن ایمان کی پُرزور نفی کی جا رہی ہے کہ : لَمْ تُؤْمِنُوْا’’تم ہرگز ایمان نہیں لائے‘‘اور : وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ ’’اور ایمان ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا.‘‘ اسلام اور ایمان کے علاوہ قرآن حکیم میں کچھ اور الفاظ بھی ہیں جو باہم مترادف بھی آئے ہیں اور باہم متضاد بھی ‘ جیسے ’’نبی‘‘ اور ’’رسول‘‘.اِن کے بارے میں علماءِ کرام نے ایک اصول بنایا ہے کہ : اِذَا تَفَرَّقَا اجْتَمَعَا وَاِذَا اجْتَمَعَا تَفَرَّقَا ’’جب یہ الفاظ علیحدہ علیحدہ آئیں گے تو اِن کا مفہوم ایک ہی ہو گا اور جب ایک مقام پر آئیں گے تو اِن کے معنی جدا جدا ہو جائیں گے‘‘. لہذا اسلام اور ایمان جب ایک ساتھ آئیں گے تو اسلام کے معنی اور ہوں گے ایمان کے اور ہوں گے. یہی معاملہ’’نبی‘‘ اور ’’رسول‘‘ کا ہے. جب ان کا علیحدہ علیحدہ ذکر ہو رہا ہو گا تو وہاں پر نبی کو رسول اور رسول کو نبی کہہ دینے سے کوئی فرق واقع نہیں ہوگا.لیکن جہاں دونوں لفظ ایک ہی جگہ پر آئیں تو وہاں نبی اور رسول کا فرق واضح ہو جائے گا. پس ایک تو یہاں ’’اسلام‘‘ اور ’’ایمان‘‘ کے ضمن میں پیدا ہونے والی اُلجھن کا حل مطلوب ہے. دوسرے یہ کہ بعض ایسی احادیث موجود ہیں جن میں انسان کے بعض اعمال پر اس کے ایمان کی نفی کی گئی ہے. جیسے رسول اللہﷺ کاارشادِ گرامی ہے : لاَ یَزْنِی الزَّانِیْ حِیْنَ یَزْنِیْ وَھُوَ مُؤْمِنٌ ‘ وَلَا یَسْرِقُ السَّارِقُ حِیْنَ یَسْرِقُ وَھُوَ مُؤْمِنٌ ‘ وَلَا یَشْرَبُ الْخَمْرَ حِیْنَ یَشْرَبُھَا وَھُوَ مُؤْمِنٌ (۲) ’’کوئی زانی حالت ِایمان میں زنا نہیں کرتا ‘ کوئی چور حالت ایمان میں چوری نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی شرابی حالت ِایمان میں شراب پیتا ہے.‘‘ جب کوئی شخص یہ کام کر رہا ہوتا ہے تو ایمان اُس کے دل سے رخصت ہو چکا ہوتا ہے. یہ بات ناقابل ِیقین ہے کہ ایمان بھی ہو اور یہ کام بھی ہو رہے ہوں. اس بات کی بعض احادیث میں وضاحت موجود ہے کہ اس دوران ایمان اُس کے دل سے نکل کر اُس کے سر پر ایک پرندے کی مانند چکر لگاتا رہتا ہے .اورعلماء کا اس پر تقریباً اتفاق ہے کہ وہ انسان جونہی اس عمل سے فارغ ہو تا ہے تو ایمان دوبارہ اس کے دل میں آ جاتا ہے. حالانکہ منطقی طور پر تو یہ ہونا چاہیے کہ انسان توبہ کرے تب ہی اس کا ایمان واپس آئے‘ لیکن اس معاملے میں اللہ کی شانِ رحیمی و غفاری منطق پر سبقت لے جاتی ہے‘ جیسے کہ ایک مقام پر بیان ہوا ہے : ’’سَبَقَتْ رَحْمَتِیْ غَضَبِیْ!‘‘ (۳) بہرحال اس سے ایک بات (۲) صحیح البخاری‘ کتاب الحدود‘ باب اثم الزناۃ اور دیگر متعدد مقامات. وصحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان نقصان الایمان بالمعاصی ونفیہ عن المتلبس. (۳) صحیح البخاری‘ کتاب التوحید‘ باب قول اللہ تعالی بل ھو قران مجید فی لوح محفوظ اور دیگر متعدد مقامات . وصحیح مسلم‘ کتاب التوبۃ‘باب فی سعۃرحمۃ اللہ تعالی وانھا سبقت غضبہ. ثابت ہو جاتی ہے کہ گناہِ کبیرہ سے گویا ایمان کی نفی ہوتی ہے. فتنہ خوارج
یہ وہ چیز ہے جس کو صحیح طور پر نہ سمجھنے سے بہت بڑی گمراہی پیدا ہوئی. چنانچہ اسلام میں سب سے زیادہ گمراہ فرقہ ’’خوارج‘‘ اسی بنیادپر گمراہی کا شکار ہوا. انہوں نے یہ عقیدہ گھڑ لیا کہ گناہِ کبیرہ کا مرتکب کافر ہے اور جب کافر ہے تو گویا مرتد ہے ‘لہذا اس کی جان اور مال مباح ہے‘ اسے قتل کر دیا جائے اور اس کا مال لے لیا جائے‘ وہ مالِ غنیمت ہو گا. اس کی عورتیں مباح ہو جائیں گی‘ وہ لونڈیاں بن جائیں گی. یہ خوارج کا فتنہ بہت خطرناک فتنہ تھا. یہ فتنہ حضرت علیرضی اللہ عنہ کے زمانے ہی میں پیدا ہو گیا اور بعد میں بڑھتا چلا گیا.
ان لوگوں کوجو غلط فہمی پیدا ہوئی تھی وہ اصل میں انہی احادیث سے ہوئی تھی. حالانکہ بعض احادیث میں یہ اسلوب گناہِ کبیرہ سے بھی کمتر گناہوں اور کوتاہیوں کے لیے بھی آیا ہے. ایک حدیث میں تو یہاں تک آیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ ’’خدا کی قسم وہ شخص مؤمن نہیں ہے‘ خدا کی قسم وہ شخص مؤمن نہیں ہے‘ خدا کی قسم وہ شخص مؤمن نہیں ہے‘‘. قِیْلَ وَمَنْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ؟ ’’پوچھاگیا: اے اللہ کے رسولؐ !کون؟‘‘ فرمایا: اَلَّذِیْ لَا یَاْمَنُ جَارُہٗ بَوَایِقَہٗ (۴) ’’وہ شخص جس کی ایذا رسانیوں سے اس کا پڑوسی امن میں نہیں ہے‘‘.اب یہاں کسی گناہِ کبیرہ کا ذکر تو نہیں ہے‘بلکہ صرف بداخلاقی کا معاملہ ہے. کوئی شخص اپنے اخلاق میں اتنا گرا ہوا ہے کہ اس کی وجہ سے اس کا پڑوسی بے چین اور پریشان ہے‘ توایسے شخص کے بارے میں آپﷺ تین دفعہ قسم کھا کر اس کے ایمان کی نفی کر رہے ہیں. لیکن یاد رہے کہ ایمان کی نفی کے معنی لازماً کفر نہیں ہیں ‘جیسا کہ خوارج نے سمجھ لیا‘بلکہ کفر اور ایمان کے مابین ایک مقام ’’اسلام‘‘ کا ہے. لہذا ایسا شخص مسلمان شمار ہو گا. چوری کرتے ہوئے بھی مسلمان ہے‘ شراب پیتے ہوئے بھی مسلمان ہے اور زنا کرتے ہوئے بھی مسلمان ہے. عین اُسی حالت میں جان نکل جائے تو بھی اس کی نماز جنازہ (۴) صحیح البخاری‘ کتاب الادب‘ باب اثم من لا یأمن جارہ بوایقہ. یہ حدیث صحیح مسلم اور دیگر کتب حدیث میں الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ وارد ہوئی ہے پڑھی جائے گی. اگرچہ اس کا جرم ثابت ہو جانے پر حد جاری کی جائے گی. اسی طرح قرآن مجید کے بعض مقامات پر دو ایمانوں کا ذکر ہے. سورۃ النساء کی آیت ۱۳۶ میں فرمایا: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنۡ قَبۡلُ ؕ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اُس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اور ہر اُس کتاب پر جو اِس سے پہلے وہ نازل کر چکاہے.‘‘ اس کا مفہوم یہ ہے کہ قانونی اعتبار سے جب تم مسلمان ہو تو ایک درجے میں مؤمن بھی ہو‘ لیکن اصل ایمان کچھ اور ہے جس کی ابھی ضرورت ہے.
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ وَ اِنۡ تُطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَا یَلِتۡکُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِکُمۡ شَیۡئًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۴﴾ (الحُجُرٰت) پچھلی نشست میں ہم نے ’’حدیث ِجبریل ؑ‘‘ کے مطالعہ کا آغاز کیا تھا. اس میں ہم نے پوری حدیث مبارکہ کا متن اور ترجمہ پڑھااور خاص طور پر اس کے ابتدائی اور اختتامی حصے کو واقعاتی انداز میں تفصیل سے پڑھا.آج ہم اللہ کی توفیق سے اس کے اصل متن پر گفتگو کریں گے. یہ اصل متن بالعموم چار سوالات پر مشتمل ہے ‘ یعنی اسلام کیا ہے؟ ایمان کیا ہے؟ احسان کیا ہے ؟اور قیامت کب قائم ہو گی یا اس کی علامات کیا ہیں؟ البتہ ایک روایت ایسی بھی ہے جس میں پانچواں سوال بھی ہے. اس ضمن میں مَیں آپ کو بتا چکا ہوں کہ احادیث ِنبویہﷺ کے ضمن میں لفظی فرق کا ہونا بالکل منطقی اور معقول بات ہے. احادیث لفظاً محفوظ نہیں ہیں‘ البتہ معناً محفوظ ہیں. بہرحال ان میں سے پہلے دو سوالات جو اہم ترین ہیں‘ یعنی اسلام اور ایمان‘ آج ان پر گفتگو ہو گی. حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا: اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِسْلَامِ ’’مجھے بتایئے اسلام کیا ہے!‘‘رسول اللہﷺ نے فرمایا: اَلْاِسْلَامُ اَنْ تَشْھَدَ اَنْ لاَّ اِلٰــــہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ‘ وَتُقِیْمَ الصَّلَاۃَ‘ وَتُؤْتِیَ الزَّکَاۃَ‘ وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ‘ وَتَحُجَّ الْبَیْتَ اِنِ اسْتَطَعْتَ اِلَـیْہِ سَبِیْلًا ’’اسلام یہ ہے کہ تو گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (ﷺ )اس کے رسول ہیں‘اور تو نماز قائم کرے ‘ زکو ٰۃ ادا کرے‘رمضان المبارک کے روزے رکھے اور بیت اللہ کا حج کرے اگر تجھے اس کے سفر کی استطاعت حاصل ہو (اس کے وسائل اور ذرائع تمہارے پاس موجود ہوں)‘‘.نوٹ کیجیے کہ یہاں لفظ ’’گواہی‘‘ آیا ہے ’’ایمان‘‘ نہیں آیا. رسول اللہﷺ فرما رہے ہیں: اَنْ تَشْھَدَ کہ تو گواہی دے یعنی زبانی اقرار کرے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (ﷺ ) اللہ کے رسول ہیں. حضرت جبرائیل علیہ السلام نے دوسرا سوال کیا: اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِیْمَانِ ’’مجھے ایمان کے بارے میں بتایئے!‘‘ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ‘ وَمَلَائِکَتِہٖ ‘ وَکُتُبِہٖ‘ وَرُسُلِہٖ‘ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ‘ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ ’’کہ تو ایمان لائے (دل سے تصدیق کرے) اللہ پر‘ اُس کے فرشتوں پر‘ اُس کی کتابوں پر‘ اُس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر ‘اور تو ایمان لائے اچھی بری تقدیر پر‘‘. یہاں لفظ ’’ایمان‘‘ آ رہا ہے کہ تو ایمان لائے‘ دل سے تصدیق کرے اِن اِن چیزوں پر. یہاں ایک بات نوٹ کیجیے کہ یہ حدیث پانچ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے (جن کا پچھلی نشست میں ذکر ہو چکا ہے). ان میں سے حضرت عمر اور دیگر تین صحابہ رضی اللہ عنہم کی روایات میں پہلا سوال ’’اسلام‘‘ کے بارے میں اور دوسرا ’’ایمان ‘‘کے بارے میں ہے‘ جبکہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی روایت میں پہلا سوال ’’ایمان‘‘ کے بارے میں ہے اور دوسرا ’’اسلام‘‘ کے بارے میں. ان پانچ صحابہؓ میں سے ایک حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمابھی ہیں. میں سمجھتا ہوں کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکی روایت کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ایک تقابلی مطالعہ ہونا چاہیے. حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مانند فقہائے صحابہ میں سے ہیں اور قرآن مجید کے بہت بڑے عالم مانے گئے ہیں. رسول اللہﷺ نے ان کے لیے ایک خاص دُعا کی تھی : اَللّٰھُمَّ فَقِّہْہُ فِی الدِّیْنِ وَعَلِّمْہُ التَّـاْوِیْلَ (۵) ’’اے اللہ! اس نوجوان کو دین کا تفقہ (گہرا فہم) عطا فرما اور قرآن کی تأویل کی تعلیم دے‘‘. جان لیجیے کہ ایک ہے قرآن مجید کی تفسیر اور ایک ہے تأویل. تفسیر یہ ہے کہ قرآن مجید کے ہر ہر لفظ کے معنی اور اُن (۵) مسند احمد‘ ح ۲۲۷۴. کا باہم ربط بیان کرنا جبکہ تأویل ہے مضمون کو پہچان لینا کہ اصل میں سیاق و سباق کس مضمون پر دلالت کر رہا ہے. اب یہاں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمااور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایات میں لفظی فرق ملاحظہ کیجیے! حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ جبرائیل ؑنے کہا: اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِسْلَامِ’’مجھے بتایئے کہ اسلام کیا ہے‘‘. رسول اللہﷺ نے فرمایا: اَلْاِسْلَامُ اَنْ تَشْھَدَ اَنْ لاَّ اِلٰــــہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ‘ وَتُقِیْمَ الصَّلَاۃَ‘ وَتُؤْتِیَ الزَّکَاۃَ‘ وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ‘ وَتَحُجَّ الْبَیْتَ اِنِ اسْتَطَعْتَ اِلَـیْہِ سَبِیْلًا’’اسلام یہ ہے کہ تو گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد(ﷺ ) اللہ کے رسول ہیں‘ اور تو نماز قائم کرے ‘ زکو ٰۃ ادا کرے‘ رمضان کے روزے رکھے اور بیت اللہ کا حج ادا کرے اگر تجھے اس کے لیے سفر کی استطاعت ہو‘‘.جبکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ جب جبرائیل ؑ نے کہا: حَدِّثْنِیْ بِالْاِسْلَامِ ’’مجھے اسلام کے بارے میں بتایئے!‘‘ تورسول اللہﷺ نے فرمایا: اَلْاِسْلَامُ اَنْ تُسْلِمَ وَجْھَکَ لِلّٰہِ ’’اسلام یہ ہے کہ تو اپنے چہرے کو اللہ کے سامنے جھکا دے (سر ِتسلیم خم کر دے)‘‘.یہ لفظ اسلام کے ساتھ معنوی مناسبت رکھتا ہے. اسلام کے معنی ہی ہیں سرنڈر کر دینا اطاعت قبول کر لینا.لیکن نوٹ کیجیے کہ اس روایت میں عبادات یعنی نماز‘ روزہ‘ حج اور زکو ٰۃ کا ذکر نہیں ہے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے البتہ اس سے پہلے جو الفاظ آئے ہیں وہ بہت جامع ہیں کہ ’’اپنا چہرہ اللہ کے سامنے جھکا دو‘‘. اس میں ساری عبادات خود بخود شامل ہوجاتی ہیں. حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کے مطابق حضرت جبرائیل ؑ دریافت فرماتے ہیں: اِذَا فَعَلْتُ ذٰلِکَ فَاَنَا مُسْلِمٌ؟ ’’(اے نبیؐ ! مجھے بتایئے) اگر میں یہ کام کر دوں (جو آپؐ نے بتائے ہیں) تو پھر میں مسلمان شمار کیا جاؤں گا؟‘‘ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اِذَا فَعَلْتَ ذٰلِکَ فَقَدْ اَسْلَمْتَ ’’جب تم یہ شرائط پوری کر دو تو تم گویا اسلام میں آ گئے.‘‘ اس کے بعد حضرت جبرائیل ؑ فرماتے ہیں: فَحَدِّثْنِیْ مَا الْاِیْمَانُ؟ ’’اب مجھے بتایئے ایمان کیا ہے؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا: اَلْاِیْمَانُ اَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلاَئِکَۃِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِیِّیْنَ‘ وَتُؤْمِنَ بِالْمَوْتِ وَبِالْحَیٰوۃِ بَعْدَ الْمَوْتِ‘ وَتُؤْمِنَ بِالْجَنَّۃِ وَالنَّارِ وَالْحِسَابِ وَالْمِیْزَانِ‘ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ کُلِّہٖ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ ’’ایمان یہ ہے کہ تو ایمان لائے اللہ پر‘ آخرت کے دن پر‘ فرشتوں پر‘ کتابوں پر‘ نبیوں پر‘ اور توموت پر یقین رکھے‘ اور موت کے بعد کی زندگی پر یقین رکھے‘ اور تو جنت و دوزخ اور حساب و میزان سب کو مانے‘ اور تقدیر پر ایمان رکھے کہ اس کا خیر ہو یا شر سب اللہ کی طرف سے ہے‘‘.جبرائیل ؑ نے دریافت فرمایا:فَاِذَا فَعَلْتُ ذٰلِکَ فَقَدْ آمَنْتُ؟ ’’جب میں یہ کر گزروں تو پھر گویا میں مؤمن ہو جاؤں گا؟(میرا ایمان اللہ کے ہاں قبول ہوگا؟)‘‘ تو آپؐ نے فرمایا: فَاِذَا فَعَلْتَ ذٰلِکَ فَقَدْ آمَنْتَ ’’پس جب تم یہ کر دو تو تم گویا ایمان لے آئے‘‘.اب یہاں لفظی فرق و تفاوت تو سامنے آ رہا ہے لیکن ذہن میں رکھیے کہ مفہوم میں فرق نہیں ہے. اب یہاں پر ’’اسلام‘‘ اور ’’ایمان‘‘ کے مابین جو بحث پیدا ہوتی ہے کہ اسلام کیا ہے‘ ایمان کیا ہے ‘تو اس ضمن میں چند موٹی موٹی باتیں جان لینی ضروری ہیں. ایک تو یہ کہ قرآن مجید میں یہ دونوں الفاظ ’’اسلام‘‘ اور ’’ایمان‘‘ مترادفات کے طور پر بھی استعمال ہوئے ہیں اور باہم متضاد بھی.اسلام کا تعلق انسان کے ظاہری اعمال سے ‘ جبکہ ایمان کا تعلق قلبی یقین سے ہے . اب جس شخص کو یہ دونوں حاصل ہوں‘ یعنی عمل میں اسلام کی پابندی ہو‘ شریعت کی پابندی ہو ‘ اور دل میں اللہ پر اور تمام امورِ ایمانیہ پر یقین ہو تو اب اسے مسلم کہہ لیں یا مؤمن کہہ لیں ‘کوئی فرق واقع نہیں ہوتا. جیسے انگریزی مقولہ ہے : ’’Call the rose by any name it will smell as sweet.‘‘ کہ گلاب کے پھول کو نام کوئی بھی دے دو اس کی خوشبو تو وہی رہے گی. قرآن مجید میں اس قسم کی اصطلاحات کا دوسرا جوڑا ’’نبی‘‘ اور’’رسول‘‘ ہے. یہ دونوں الفاظ مترادف بھی ہیں اور مختلف المعنیٰ بھی. اس ضمن میں علماء کا اصول بیان ہو چکا ہے کہ : اِذَا اجْتَمَعَا تَفَرَّقَا وَاِذَا تَفَرَّقَا اجْتَمَعَا ’’جب (اس قسم کے الفاظ) دونوں ایک ہی جگہ پر آئیں تو مفہوم جدا جدا ہو گا اور جب الگ الگ استعمال ہوں گے تو مفہوم ایک ہو جائے گا.‘‘ دیکھئے اسلام کا تعلق ظاہر سے ہے اور ایمان کا تعلق باطن سے. دوسری طرف ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کا تعلق اس دنیا سے ہے اور ایمان کا تعلق آخرت سے ہے. اس دنیا میں کسی کے مسلمان سمجھے جانے کا دار و مدار اسلام پر ہے ایمان پر نہیں‘ اس لیے کہ ایمان تو ایک قلبی حقیقت ہے‘ اس کی توثیق کیسے ہو گی ؟ یہ بہت اہم نکتہ ہے .کسی کے ایمان کا یا اس کے مؤمن ہونے کا فیصلہ ہم اس دنیا میں نہیں کر سکتے. عمومی طورپر تو یہ باتیں کہی جا سکتی ہیں کہ جس میں یہ یہ صفات ہوں وہ مؤمن ہے اور جس میں یہ یہ اوصاف ہوں وہ منافق ہے‘ لیکن معین طور پر ہم کسی کے بارے میں نہیں کہہ سکتے کہ فلاں شخص مؤمن ہے یا فلاں شخص منافق ہے.اس لیے کہ اسلام کا تعلق اس دنیا سے ہے اور اس میں اصل بنیاد شہادت ہے. چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں تو مذکورہی صرف شہادت ہے‘ نماز‘ روزہ‘ حج اور زکو ٰۃ کا تو ذکر بھی نہیں ہے. اس لیے کہ ایک شخص ہندو تھا اور اُس نے کلمہ پڑھ لیا تو وہ اُسی وقت مسلمان ہو گیا. اُس نے ابھی نہ تو نماز پڑھی اور نہ روزہ رکھا. وہ نماز سیکھے گا تو پڑھے گا یا وقت آئے گا تب پڑھے گا. ایسے ہی رمضان آئے گا تو پتا چلے گا کہ اُس نے روزے رکھے ہیں یا نہیں رکھے. اِس وقت وہ صرف کلمۂ شہادت کی بنیاد پر مسلمان ہوا ہے.چنانچہ اسلام کا معاملہ شہادت پر مبنی ہے‘ اسلام کی جڑ اور بنیاد شہادت ہے. کوئی شخص ہمارے سامنے آ کر کہتاہے: ’’اَشْہَدُاَنْ لَّا اِلٰــــہَ اِلَّاللہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُوْلُ اللہ‘‘ توہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ مسلمان نہیں ہے‘ چاہے قرائن موجود ہوں اور حالات یہ گواہی دے رہے ہوں کہ اُس نے دل سے کلمہ نہیں پڑھا تب بھی ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ مسلمان نہیں ہے. البتہ بعد میں اگر معلوم ہو کہ یہ بدبخت تو قرآن کو نہیں مانتا‘ ضروریاتِ دین میں سے کسی چیز کا منکر ہے‘ ختم نبوت کا قائل نہیں ہے ‘ بلکہ نبوت کے اجراء کا قائل ہے‘تو اب اس کی تکفیر کی جائے گی. یہ ایک الگ معاملہ ہے. لیکن اگر کسی کلمہ گو کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تو پھر ہم اس کے مسلمان یا مؤمن ہونے کا انکار نہیں کر سکتے. قرآن مجید میں اس قسم کے ایک واقعے کا ذکر بھی موجود ہے . مسلمان مجاہدین جب جہاد کے لیے باہر نکلتے تھے تو کہیں ایسا بھی ہوتا تھا کہ کسی نے ان کو ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ کہا. گویا وہ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ مسلمان ہے. اب مجاہدین ِاسلام کو خیال گزرتا کہ یہ شخص اپنا مال اور اپنی جان بچانے کے لیے اپنا جھوٹ موٹ کا اسلام ظاہر کر رہا ہے کہ وہ مسلمان ہے‘ لہذا اسے کہتے کہ تم مؤمن نہیں ہو. لیکن قرآن مجید میں سورۃ النساء کی آیت ۹۴ میں اس چیز سے روک دیا گیا. ارشاد ہوا: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا ضَرَبۡتُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوۡا وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ اَلۡقٰۤی اِلَیۡکُمُ السَّلٰمَ لَسۡتَ مُؤۡمِنًا ۚ ’’اے اہل ایمان! جب تم اللہ کی راہ میں نکلو تو تحقیق کر لیا کرو اور کسی ایسے شخص کو جو تمہارے سامنے سلامتی پیش کرے (تمہیں سلام کہے یا اپنا اسلام پیش کرے) یہ نہ کہو کہ تم مؤمن نہیں ہو.‘‘ اس لیے کہ اسلام کا دار ومدار‘ یا یوں کہیے کہ قانونی ایمان کا دار و مدار درحقیقت شہادت پر ہے. ایک جنگ میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے ایک ایسے ہی شخص کی جان لے لی. حضرت اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہما رسول اللہﷺ کے بہت چہیتے اور لاڈلے تھے. ان کے والد حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ آپؐ کے غلام تھے‘ آپؐ نے انہیں آزاد کیا اور اپنا مُنہ بولا بیٹا بنا لیا. بعد میں سورۃ الاحزاب کی یہ آیت نازل ہوئی کہ اس طرح کا مُنہ بولا رشتہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی اہمیت نہیں رکھتا‘ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے توحضرت زیدؓ جنہیں زیدؓ بن محمدﷺ کہا جاتا تھا دوبارہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما کہلانے لگے. بہرحال ایک جنگ میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کی کفار کے لشکر میں سے ایک شخص سے مڈبھیڑ ہو گئی. وہ شخص حضرت اسامہؓ کی تلوار کی زد میں تھا کہ اُس نے کلمۂ شہادت پڑھ لیا: ’’اَشْہَدُاَنْ لَّا اِلٰــــہَ اِلَّاللہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُوْلُ اللہ‘‘ِ. حضرت اسامہؓ نے سمجھا کہ یہ جان بچانے کا حیلہ کر رہا ہے ‘لہذا اس پر تلوار چلا دی اور سر قلم کر دیا. بعد میں اُسامہؓ جب رسول اللہﷺ کے سامنے پیش ہوئے تو آپﷺ نے انتہائی ناراضگی کا اظہار فرمایا‘حالانکہ حالات و واقعات سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ اُس شخص نے جان بچانے کے لیے ایسا کیا ہو گا. رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے اسامہ! اُس وقت تم کیا کرو گے جب قیامت کے دن یہ کلمۂ شہادت تمہارے خلاف گواہی دینے کے لیے آئے گا کہ میرے ہوتے ہوئے تلوار چل گئی! پس کلمہ ٔشہادت تو ڈھال ہے. اس سے ایک مسلمان کے دنیا میں جو حقوق ہیں وہ سارے کے سارے حاصل ہو جائیں گے. چنانچہ دنیا میں کسی کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ اسلام کی بنیاد پر ہو گا‘ ایمان کی بنیاد پر نہیں. اسی لیے اسلام اور ایمان کے بارے میں الگ الگ سوال کیا گیا کہ اسلام کیا ہے؟ اور ایمان کیا ہے؟ لہذا اسلام اور ایمان کو گڈمڈ کرنے کے بجائے علیحدہ علیحدہ رکھنا ہو گا. دوسرے یہ کہ اسی اسلام کی بنیاد پر اسلامی تمدن اور تہذیب کا پورا ڈھانچہ کھڑا ہوتا ہے.اقامت ِصلوٰۃ ‘ ایتائے زکو ٰۃ ‘ صومِ رمضان اور حج بیت اللہ‘ اسلامی تہذیب و تمدن کی علامات ہیں.ان سے دنیا میں اسلامی تہذیب کا ڈھانچہ وجود میں آتا ہے. لہذا نماز اور زکوٰۃ کا نظام قائم ہو گا‘ رمضان کے روزے رکھے جائیں گے ‘بیت اللہ کا حج کیا جائے گا. گویا اسلام کا تعلق اس دنیا سے ہے جبکہ ایمان کا تعلق آخرت سے ہے. اُخروی نجات کا دار و مدار ایمان پر ہے. دل میں ایمان ہو گا تو نجات ہو گی ‘ورنہ نہیں. آخرت میں جب اللہ‘تبارک و تعالیٰ کے روبرو ہماری حاضری ہو گی ‘جو عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِہے‘ تو وہاں سب ظاہر ہو جائے گا کہ دل میں کتنا ایمان ہے. دنیا میں تو ہم نہیں جان سکتے کہ کسی کے دل میں ایمان ہے یا نہیں ہے. کوئی ایسا آلہ ہمارے پاس نہیں ہے‘ کوئی ایسا الیکٹروکارڈیوگرام ابھی تک ایجاد نہیں ہوا جو یہ بتا دے کہ دل میں ایمان ہے یا نہیں ‘ لیکن اللہ تعالیٰ کے علم ِکامل میں تو ہے! لہذا قیامت کے دن نجات کا دار و مدار ایمان پر ہے. اور یہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ دُنیا میں اسلام کے اخلاقی اور روحانی نظام کی بنیاد بھی ایمان ہے. اگر دنیا میں کوئی اخلاقی اور روحانی بلندی چاہتا ہے‘ ترفع چاہتا ہے‘ تو اس کی بنیاد ایمان ہے. اب میں بات کو سمجھانے کے لیے تعبیر کا ایک اور انداز آپ کے سامنے لا رہا ہوں. دیکھئے قانونی اسلام اور قانونی ایمان ایک ہی چیز ہے . اسی طرح حقیقی اسلام اور حقیقی ایمان بھی ایک ہی چیز ہے. قانونی اسلام کلمۂ شہادت پر مبنی ہے اور اسی کو ہم قانونی ایمان بھی کہتے ہیں. حقیقی اسلام تو یہ ہے کہ ہمہ تن‘ ہمہ وجوہ اللہ کابندہ بن جانا. یہ اسلام جہاں نقطۂ آغاز (starting point) ہے وہاں آخری درجہ(final stage) بھی یہی ہے. حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام جب خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے تو یہ حضرت ابراہیم ؑکے بڑھاپے کا زمانہ تھا‘ ان کی سو برس کی عمر تھی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام تیرہ برس کے تھے. اُس وقت دونوں باپ بیٹا اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہے تھے: رَبَّنَا وَ اجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَیۡنِ لَکَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسۡلِمَۃً لَّکَ ۪ (البقرۃ:۱۲۸) ’’اے اللہ! ہمیں (باپ بیٹا دونوں کو) اپنا فرماں بردار (اپنا مسلمان) بنائے رکھ اور ہماری اولادمیں سے بھی ایک اپنی فرماں بردار (مسلمان) اُمت برپا کرنا!‘‘ تو دیکھئے اتنے اونچے مقام پر پہنچ کر بھی وہ اپنے لیے یہ دعا کر رہے ہیں کہ اے اللہ ہمیں مسلمان بنائے رکھ! لہذا یہ نہ سمجھئے کہ اسلام کوئی حقیر شے ہے‘ معاذ اللہ.ہاں قانونی اسلام کا صرف کلمۂ شہادت پر دار و مدار ہے. اس میں ایمان و یقین کا کوئی ریفرنس نہیں ہے.جبکہ حقیقی اسلام یہ ہے کہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دینا‘ سرتسلیم خم کر دینا‘ پوری زندگی کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے تابع کر دینا.میں عرض کر چکا ہوں کہ قانونی اسلام اور قانونی ایمان ایک ہی شے ہے. سورۃ النساء کی آیت ۹۴ ہم پڑھ چکے ہیں کہ جوشخص تمہارے سامنے اپنے آپ کو مسلمان کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے تو تم اسے یہ نہیں کہہ سکتے: لَسْتَ مُؤْمِنًا ’’تم مؤمن نہیں ہو‘‘. یہاں ایمان کا لفظ کس لیے آ رہا ہے ؟ یہ دراصل قانونی ایمان ہے جو قانونی اسلام کے مترادف ہے. اور حقیقی ایمان کیا ہے؟ وہ ہے دل میں یقین کا پیدا ہونا. ایمان کے لفظی معنی ہیں تصدیق کرنا. ایمان کے بعد ’’بِ‘‘ یا’’لِ‘‘ کا صلہ آتا ہے ’’ آمَنَ بِہ‘‘ یا ’’ آمَنَ لَـہ ‘‘ . مقدم الذکر انداز سے ایک قلبی تصدیق‘ یقین والی تصدیق مرا د ہوتی ہے‘ جبکہ مؤخر الذکر انداز میں محض سرسری تصدیق ہوتی ہے کہ کسی نے آ کر آپ کو کوئی خبر دی اور آپ نے اس کی نفی نہیں کی. اسی لیے ایمان کی تفصیل میں آمَنْتُ بِاللّٰہ وَمَلاَئِکَتِہ وَکُتُبِہ وَرُسُلِہ… الخ کے الفاظ ’’بِ‘‘ کے ساتھ آتے ہیں. اسی طرح سورۃ البقرۃ میں الفاظ آئے ہیں:لَیۡسَ الۡبِرَّ اَنۡ تُوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ قِبَلَ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ الۡکِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ (آیت ۱۷۷) ’’نیکی بس یہی نہیں کہ تم اپنا رُخ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو ‘ بلکہ نیکی (کا کمال) تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ ‘ روزِ قیامت‘ فرشتوں‘ کتاب اور تمام نبیوں پر ایمان لائے‘‘.اور: اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مِنۡ رَّبِّہٖ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ؕ (البقرۃ:۲۸۵) ’’یہ رسول (ﷺ ) اور مؤمنین ایمان لائے اُس (کتاب) پر جو اُتاری گئی اُس کی طرف اُس کے ربّ کی طرف سے.‘‘ جب دل میں ایمان ہوتا ہے تو عمل میں اس کا ظہور ہوتا ہے.
جب ایمان دل کی گہرائیوں میں جاگزیں اور راسخ ہو جائے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ہو‘ اللہ تعالیٰ کے کسی فرمان سے سرتابی کی جائے! دراصل جب اسلام اور ایمان کی اصطلاحات کو گڈمڈ کر دیا جاتا ہے تو پھر مغالطے پیدا ہو جاتے ہیں. سورۃ النساء اور سورۃ المائدۃ میں دو ایمانوں کا ذکر ہو رہا ہے‘ قانونی ایمان اور حقیقی ایمان. سورۃ النساء میں ارشاد ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنۡ قَبۡلُ ؕ (آیت ۱۳۶) ’’اے ایمان والو! ایمان لاؤ اللہ پر اور اُس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اُس نے اپنے رسول پر نازل کی‘ اور اس کتاب پر جو کہ پہلے نازل کی تھی‘‘.اب یہاں کہا جا رہا ہے کہ اے ایمان والو! ایمان لاؤ. تو یہ دو ایمان ہو گئے.مراد یہ ہے کہ قانونی ایمان تو تمہیں حاصل ہو چکا ہے‘ تم نے کلمۂ شہادت پڑھا ‘تم نے اقرار کیا: آمَنْتُ بِاللّٰہِ کَمَا ھُوَ بِاَسْمَائِہ وَصِفَاتِہ وَقَبِلْتُ جَمِیْعَ اَحْکَامِہ اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَتَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ. لہذا تم قانونی مؤمن توہو گئے‘ اب حقیقی ایمان لاؤ. یہی معاملہ سورۃ المائدۃ کی آیت ۹۳کا ہے. اس کا پس منظر یہ ہے کہ جب حرمت ِشراب کا آخری حکم آیا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ایک تشویش پیدا ہو گئی کہ جب شراب کی حرمت کے بارے میں قرآن مجید میں اشارات وارد ہو رہے تھے تو کاش ہم اُسی وقت اس کو چھوڑ دیتے ‘لیکن اب تو ہمیں شراب پیتے پچاس پچاس برس ہو گئےہیں‘ اب تو شراب ہمارے جسم کے ایک ایک خلیے کے اندر پہنچ چکی ہو گی‘ ہمارا تو اَب وجود ہی نجس ہو چکا ہے‘ یہ کیسے پاک ہو گا! تو یہاں اس تشویش کا ازالہ کیا گیا کہ نہیں‘ اس حکم قطعی کے آنے سے پہلے جو تم نے کھایا پیا ہے اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہے. فرمایا: لَیۡسَ عَلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیۡمَا طَعِمُوۡۤا اِذَا مَا اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اَحۡسَنُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۹۳﴾ (المائدۃ) ’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے انہوں نے پہلے جو کچھ کھایا پیااس پر کوئی گرفت نہ ہو گی جبکہ اُن کاطرزِ عمل یہ رہا ہوکہ انہوں نے تقویٰ کی روش اختیار کی اور ایمان لائے ‘اور عمل صالح کیے‘ پھر مزید تقویٰ کا اضافہ کیا اور ایمان لائے ‘پھر مزید تقویٰ اختیار کیااور احسان کی روش اختیار کی .اور اللہ محسنین سے محبت رکھتا ہے.‘‘ اسی طرح سورۃ الصف میں فرمایا گیا: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۱۰﴾تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾ ’’اے ایمان والو! کیا میں تمہیں بتاؤں وہ تجارت جو تمہیں دردناک عذاب سے چھٹکارا دلا دے؟ ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ. یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو.‘‘ تو جان لیجیے کہ پہلا ایمان ’’قانونی ایمان‘‘ اور دوسرا ایمان’’حقیقی ایمان‘‘ ہے. اور اس پر بھی بس نہیں‘ بلکہ سورۃ المائدۃ کی متذکرہ بالا آیت میں تو اس کے بعد تیسری منزل ’’احسان‘‘ کا ذکر ہے. آیت کے اختتامی الفاظ پھر پڑھ لیجیے: وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۹۳﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ کی اصل محبت تو محسنین سے ہے‘‘. یہ ہیں وہ تین درجے: اسلام‘ ایمان اور احسان. سورۃ الحجرات میں اسلام اور ایمان کو دو علیحدہ علیحدہ اصطلاحات میں بیان کیا گیا. چنانچہ قانونی ایمان کو ’’اسلام‘‘ کہا گیا اورحقیقی ایمان کو’’ ایمان‘‘ . اگر کوئی اس اصطلاحی فرق کو اچھی طرح سمجھ کر اور پیش نظر رکھ کر قرآن مجید کا مطالعہ کرے گا تو کہیں ٹھوکر نہیں کھائے گا. فرمایا: قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ (آیت ۱۴) ’’یہ بدو دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے. (اے نبیﷺ !) ان سے کہہ دیجیے تم ہرگز ایمان نہیں لائے ہو (اس مغالطے میں نہ رہنا)‘ بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں ‘اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا‘‘.یعنی ایمان تو وہ ہو گا جب وہ تمہارے دلوں میں راسخ ہو جائے گا. ابھی تک یہ قانونی ایمان ہے‘ جو اسلام کے درجے کی شے ہے. قانونی ایمان کی بنیاد پر تم مسلمان قرار پائے ہو. آگے فرمایا: وَ اِنۡ تُطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَا یَلِتۡکُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِکُمۡ شَیۡئًا ؕ ’’اور اگر تم اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے رہو تو اللہ تمہارے اعمال میں سے ہرگز کچھ کم نہیں کرے گا‘‘. یہ ایک عجیب بات سامنے آ رہی ہے کہ ان کے ایمان کی نفی ٔ مطلق ہے: لَمْ تُؤْمِنُوْا ’’تم ہرگز ایمان نہیں لائے ہو‘‘. اور: وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ ’’اورابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا‘‘. لیکن یہاں انہیں مسلمان مانا جا رہا ہے : وَلٰـکِنْ قُوْلُوْآ اَسْلَمْنَا ’’بلکہ تم یوں کہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں‘‘. اور ساتھ ہی ان کے اعمال کو قبول بھی کیا جا رہا ہے : وَ اِنۡ تُطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَا یَلِتۡکُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِکُمۡ شَیۡئًا ؕ ’’اور اگر تم اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے رہو تو اللہ تمہارے اعمال میں سے ہرگز کچھ کم نہیں کرے گا‘‘.اکثر لوگوں کو اس میں دھوکہ ہوا ہے کہ یہاں جن کا ذکر ہو رہا ہے وہ منافق ہیں. میں کہتا ہوں ایسا ہرگز نہیں ہے‘ منافق کا تو کوئی عمل قبول ہی نہیں‘ لہٰذا یہ منافق نہیں ہیں‘ یہ ان کا محض اسلام ہے جو بغیر ایمان کے ہے. اس بات کو امام ابن تیمیہؒ نے اپنی کتاب ’’الایمان‘‘ کے اندر بہت خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ایمان کے بغیر بھی اسلام ہو سکتا ہے. جو شخص ابھی ایمان لایا ہے تو ظاہر بات ہے کہ وہ مسلمان تو ہو گیا ہے‘ اب ایمان اس کے دل میں کب راسخ ہو گا یہ دوسری بات ہے.جیسے ہمارا معاملہ ہے کہ ہم پیدا ہوئے تو ہمیں داہنے کان میں اذان سنا دی گئی‘ بائیں میں اقامت پڑھی گئی. ہم دو اڑھائی سال کے ہوئے تو اپنے ماں باپ کو نماز پڑھتے دیکھ کر ان کے ساتھ ہم بھی سجدے کرنے لگ گئے . پھر پانچ سات برس کے ہوئے تو نماز شروع کر دی. اس طرح اسلام تو پیدائشی طور پر حاصل ہو گیا ‘لیکن ایمان اگر آئے گا تو آتے آتے آئے گا. اللہ تعالیٰ ہمیں اُن خوش نصیبوں میں شامل فرمائے جنہیں ایمان کی دولت حاصل ہے. لہذا اسلام اور ایمان کے اندر یہ فرق لازم ہے. یہی معاملہ ان بدوؤں کا تھا جن سے کہا جا رہا ہے کہ تم ایمان نہیں لائے. یہ وہ لوگ ہیں جو رسول اللہﷺ کی حیاتِ طیبہ کے آخری دَور میں فتح مکہ کے بعد‘بلکہ کچھ غزوۂ تبوک کے بھی بعد ایمان لائے.اس کے بعد سورۃ التوبہ کی پہلی چھ آیات نازل ہوئیں کہ اب مشرکین کے ساتھ اہل ِایمان کا کوئی معاہدہ نہیں ہے‘ سارے معاہدے ختم ہیں‘ اب چار مہینے کی مہلت ہے کہ مشرکین ِعرب میں سے جوکوئی ایمان نہیں لائے گا تو قتل کر دیا جائے گا. سورۃ التوبۃ کی یہ پہلی چھ آیات قرآن مجید کی سخت ترین آیات ہیں. سورۃ التوبۃ کے شروع میں آیت بسم اللہ نہیں ہے‘جس کی ایک تأویل یہی کی گئی ہے کہ یہ سورت تلوار ہاتھ میں لے کر نازل ہوئی ہے. آیت بسم اللہ میں تو اللہ تعالیٰ کے اسمائے گرامی الرحمن اور الرحیم شامل ہیں‘ جبکہ یہاں تو اللہ تعالیٰ کی شانِ رحمانیت کا نہیں بلکہ اُس کے جلال کا ظہور ہو رہا ہے‘چنانچہ یہاں آیت بسم اللہ نہیں ہے. یہاں اعلان کیا جا رہا ہے کہ مشرکین عرب میں سے جو ایمان نہ لایا تو اسے اب قتل کر دیا جائے . اس لیے کہ رسول اللہﷺ کی اصل بعثت بنی اسماعیل یعنی اہل عرب کے لیے تھی اور یہ اللہ تعالیٰ کا قاعدہ اور قانون رہا ہے کہ جس قوم کی طرف معین طور پر رسول بھیج دیا جاتا تھا وہ اگر ایمان نہ لاتی تھی تو برباد کر دی جاتی تھی ‘ ختم کر دی جاتی تھی. چنانچہ قومِ نوح ہلاک کی گئی‘ قومِ ہود ہلاک کی گئی‘ قومِ صالح ہلاک کی گئی‘ قومِ شعیب ہلاک کی گئی‘ سدوم و عامورہ کی بستیاں تباہ کی گئیں‘ آلِ فرعون ہلاک کیے گئے . چونکہ آپ ﷺ اُ میین عرب میں سے تھے اور ان پر آپؐ کے ذریعے سے اِتمامِ حجت ہوچکا تھا‘ لہذا اس اصول کے تحت حکم نازل ہوا کہ اب اگر وہ ایمان نہیں لاتے تو ان کو تہ تیغ کر دیا جائے گا. اس چیلنج کے بعد کچھ لوگ تو ایسے نکلے جو ایمان نہیں لائے اور جان بچانے کے لیے انہوں نے عرب سے ہجرت کر لی‘ جبکہ اکثریت نے اسلام قبول کر لیا. اب اُس وقت جنہوں نے اسلام قبول کیا‘ ان میں یقینا ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے خلوصِ دل سے اسلام قبول کیا ہو گا. لیکن ان میں سے کچھ ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے منافقت سے اسلام قبول کیا ہو گا کہ ٹھیک ہے اب تو مجبوری ہے‘ ایمان لے آؤ اور جان بچاؤ ‘ پھر کوئی موقع دیکھیں گے تو سر اٹھائیں گے‘ پھر کوئی جوابی انقلاب (Counter Revolution) لانے کی کوشش کریں گے. اور بعد میں ایسا ہوا بھی. اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جن کا معاملہ بَین بَین ہو‘ یعنی نہ تو ان کے دل میں بدنیتی تھی کہ انہیں منافق کہا جائے اور نہ دل میں واقعی ایمان آیا تھا کہ مؤمن قرار دیے جائیں‘ یعنی نہ تو مؤمن ہیں اور نہ منافق‘ بلکہ ایک درمیانی معاملہ ہے کہ بغیر ایمان کے اسلام ہے. اب سوچئے کہ اِس وقت اُمت مسلمہ کی عظیم اکثریت کی اصل گمراہی کیا ہے؟

یہ کہ لوگ قانونی اسلام اور حقیقی اسلام یا حقیقی ایمان کو ایک سمجھ بیٹھے ہیں کہ جب ہم مسلمان ہیں تومؤمن بھی ہیں.یہی حماقت اور مغالطہ ہے. مسلمان ہونا اور شے ہے ‘ مؤمن ہونا اور شے ہے
. ؏ ’’ز عشق تابہ صبوری ہزار فرسنگ است!‘‘ ہم چونکہ قانوناً مسلمان ہیں لہذا مغالطہ ہو گیا ہے کہ ہم مؤمن ہیں. ہماری ساری بے عملی اور بدعملی کا سبب یہی مغالطہ ہے اور اس پر ہمیں تشویش اس لیے نہیں ہوتی کہ ہم اس زعم میں ہیں کہ ہم بہرحال کلمہ گو ہیں‘ مسلمان ہیں‘ اور جب ہم مسلمان ہیں تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اہل ِایمان کے ساتھ جو وعدے کیے ہیں وہ ہمارے ساتھ پورے ہوں گے. یہ اصل مغالطہ ہے جس کا ہم شکار ہیں.قانونی اسلام کا تعلق حقیقی ایمان کے ساتھ جوڑ دینا غلط ہے. قانونی اسلام کا تعلق قانونی ایمان کے ساتھ جڑے گا ‘حقیقی ایمان کے ساتھ نہیں. اِس وقت اُمت کی عظیم اکثریت کی گمراہی کا اصل سبب یہی ہے کہ قانونی اسلام کویا قانونی ایمان کو حقیقی اسلام یا حقیقی ایمان سمجھ لیا گیا ہے. حالانکہ قرآن مجید میں اہل ایمان کے ساتھ جو وعدے بھی ہیں وہ حقیقی مؤمنین کے ساتھ ہیں. اس حقیقی ایمان کے اثرات و ثمرات اور آثار قرآن حکیم میں مختلف مقامات پر بیان کیے گئے ہیں. ان میں سے سب سے جامع مقام سورۃ الحجرات کی آخری آیات ہیں. متذکرہ بالا آیت سے اگلی آیت میں ایمانِ حقیقی کی نہایت جامع تعریف بیان کی گئی ہے : اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵﴾ ’’مؤمن تو صرف وہ ہیں جو ایمان لائے اللہ پر اور اس کے رسول پر‘ پھر شک میں ہرگز نہیں پڑے‘ اور انہوں نے جہاد کیا اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں. صرف یہی لوگ (اپنے دعوائے ایمان میں) سچے ہیں.‘‘ اب میں آپ کے سامنے ایک اجمالی سا نقشہ رکھنا چاہتا ہوں. ہمارے ہاں اس ضمن میں بہت زیادہ کلامی بحثیں ہوئی ہیں‘ بحث و تمحیص پر بہت زور رہا ہے‘ منطق کا استعمال کرنا‘ بال کی کھال اتارنا‘ یہ سارا کام ہی ہمارے ہاں ہوا ہے. ایمان کے لیے اقرار باللسان‘ تصدیق بالقلب اور عمل صالح‘ یہ تین چیزیں لازم و ملزوم ہیں یا نہیں‘ اس سوال پر بڑی بحثیں‘ بڑے مباحثے‘ بڑے مناظرے اور بڑے علمی معرکے ہوئے ہیں اور مختلف نقطہ ہائے نظر کے حامل بڑے عجیب عجیب گروہ سامنے آئے ہیں. ان میں سے ایک فرقہ ’’کرامیہ‘‘ کا تھا. اگرچہ اس نام سے اب کوئی فرقہ ہمارے ہاں نہیں ہے ‘مگر ہمارا عمل انہی سے ملتا جلتا ہے. ان کا موقف یہ تھا کہ محض اقرارٌ باللسان سے نجات ہوجائے گی‘ کوئی اچھا عمل کر لیا تب بھی ٹھیک ہے اور اگر نہیں کیا توپھربھی کوئی بات نہیں. ان کا یہ موقف ایک حدیث نبویؐ پر مبنی تھا. اگر کوئی پورے مجموعۂ احادیث کو سامنے رکھنے کی بجائے صرف ایک حدیث لے لے تو پھر اتنی بڑی ٹھوکر کھانے کا امکان ضرور رہتا ہے. بخاری شریف میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ ثُمَّ مَاتَ عَلٰی ذٰلِکَ اِلاَّ دَخَلَ الْجَنَّۃَ (۶) ’’کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو کہے لا الٰہ الا اللہ‘ پھر اسی پر اُس کی موت واقع ہو جائے ‘ مگر یہ کہ وہ جنت میں داخل ہو گا‘‘. حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ؟ ’’چاہے اُس شخص نے زنا کیا ہواور چاہے چوری کی ہو (تب بھی)؟‘‘ آپؐ نے فرمایا : وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ؟ ’’ہاں‘ چاہے اُس نے زنا کیا ہو‘ چاہے چوری کی ہو‘‘. حضرت ابوذرؓ نے پھر سوال کیا: وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ؟ ’’چاہے اس نے زنا کیا ہو‘ اور چاہے چوری کی ہو؟‘‘ آپﷺ نے پھر فرمایا: وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ؟ ’’ہاں‘ چاہے اُس نے زنا کیا ہو‘ چاہے چوری کی ہو‘‘. حضرت ابوذرؓ نے تیسری بار پھر کہا: وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ؟ ’’چاہے اس نے زنا کیا ہو اور چاہے چوری کی ہو؟‘‘ آپؐ نے پھر فرمایا: وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ‘ عَلٰی رَغْمِ اَنْفِ اَبِیْ ذَرٍّ ’’چاہے اس نے زنا کیا اور چاہے اس نے چوری کی ہو (تب بھی وہ جنت میں داخل ہو جائے گا)‘ چاہے ابوذر کو یہ پسند ہویا نہ ہو‘‘. اب پورے مجموعۂ احادیث کو چھوڑ کر صرف ایک حدیث کو لے لیا گیا تو اتنی خرابیاں پیدا ہوئیں. ایک دوسرا قول یہ ہے کہ اصل شے صرف تصدیق قلبی ہے‘ زبان سے اقرار بھی لازم نہیں ہے. بعض حالات ایسے ہو سکتے ہیں جن میں یہ بات صحیح ہو. چنانچہ قرآن مجید میں سورۃ المؤمن میں آل فرعون کے ایک مؤمن کا ذکر ہے: رَجُلٌ مُّـؤْمِنٌ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَکْتُمُ اِیْمَانَہٗ (المؤمن:۲۸) ’’ آلِ فرعون میں سے ایک مؤمن شخص جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا‘‘. حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل کا معاملہ فرعون کے لیے اس قدر مشکل تھا کہ اگرچہ وہ سمجھتا تھا کہ میں تو مالک الملک ہوں‘ قادرِ مطلق ہوں‘ پھربھی وہ محسوس کر رہاتھا کہ اب اگر میں نے موسیٰ ( علیہ السلام ) کے خلاف کوئی قدم اٹھایا تو ہو سکتا ہے کوئی بلوا ہو جائے‘ کوئی فساد پیدا ہو جائے‘ کوئی ہنگامہ پیدا ہو جائے‘ لہذا پہلے وہ درباریوں کے سامنے یہ بات رکھ رہا ہے کہ تم ذرا مجھے اجازت دو کہ میں موسیٰ کو قتل کر (۶) صحیح البخاری‘ کتاب اللباس‘ باب ثیاب البیض. وصحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب من مات لا یشرک باللہ شیئا دخل الجنۃ. دوں. اِس موقع پر درباریوں میں سے ایک باعزیمت شخص جو ابھی تک اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھے‘ کھڑے ہوئے اورانہوں نے ایسی دھواں دار تقریر کی جو بلاغت و فصاحت کا ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے. قرآن مجید میں کسی رسول اور نبی کی تقریر بھی اتنی مفصل نقل نہیں ہوئی ہے جتنی اس ’’رَجُلٌ مُّـؤْمِنٌ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ‘‘ کی تقریر نقل ہوئی ہے. انہوں نے حاضرین کے سامنے ایسا سماں باندھا کہ فرعون کو بس کرنا پڑی اور اس نے کہا: مَاۤ اُرِیۡکُمۡ اِلَّا مَاۤ اَرٰی وَ مَاۤ اَہۡدِیۡکُمۡ اِلَّا سَبِیۡلَ الرَّشَادِ ﴿۲۹﴾ (المؤمن) ’’میں تو تم لوگوں کو وہی رائے دے رہا ہوں جو مجھے مناسب نظر آتی ہے اور میں اسی راستے کی طرف تمہاری راہنمائی کرتا ہوں جو ٹھیک ہے‘‘. اب دیکھئے کہ اگر اُن مؤمن آلِ فرعون کی اس واقعہ سے پہلے اسی حالت میں وفات ہو جاتی تو انہیں کیسے مسلمان مانا جاتا! لیکن یہ ایک امکانی صورت ہے جو میں نے آپ کے سامنے رکھ دی. اس ضمن میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث بھی مروی ہے : اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ وَمُعَاذٌ رَدِیْفُہٗ عَلَی الرَّحْلِ ’’ایک موقع پر رسول اللہﷺ سواری پر بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ آپؐ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے‘‘.اس موقع پر آپؐ نے تین بار فرمایا: یَا‘مُعَاذُ ’’اے معاذ!‘‘ انہوں نے تین بار ہی جواب دیا: لَـبَّیْکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَسَعْدَیْکَ. اب رسول اللہﷺ نے فرمایا: مَا مِنْ اَحَدٍ یَشْھَدُ اَنْ لاَ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ صِدْقًا مِنْ قَلْبِہٖ اِلاَّ حَرَّمَہُ اللّٰہُ عَلَی النَّارِ (۷) ’’جو شخص بھی دل کی گہرائی اور صداقت سے یہ گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں تو اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کی آگ کو حرام کر دے گا‘‘. اس حدیث میں شہادت کے ساتھ قلبی یقین کا بھی ذکر ہے‘ لہذا یہ ایمان صرف قانونی ایمان نہیں ‘ بلکہ قلبی ایمان ہے اور رسول اللہﷺ فرما رہے ہیں کہ ایسی شہادت دینے والے پر اللہ تعالیٰ جہنم کی آگ کو حرام کر دے گا. (۷) صحیح البخاری‘ کتاب العلم‘ باب من خص بالعلم قومًا دون قوم کراھیۃ ان لا یفھموا. وصحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب الدلیل علی ان من مات علی التوحید دخل الجنۃ قطعًا. اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۬ۙ وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ ٪﴿۳﴾ (العصر) قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ وَ اِنۡ تُطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَا یَلِتۡکُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِکُمۡ شَیۡئًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۴﴾ (الحُجُرٰت) ’’حدیث جبریل ؑ‘‘ کے مطالعہ کے دوران گزشتہ نشست میں اقرارٌ باللسان‘ تصدیق بالقلب اور اعمالِ صالحہ کے ضمن میں کچھ گفتگو ہوئی تھی کہ آیا یہ تینوں چیزیں باہم لازم و ملزوم ہیں یا نہیں. میں نے عرض کیا تھا کہ ہمارے ہاں اس بارے میں بہت زیادہ کلامی بحثیں ہوئی ہیں اور مختلف نقطہ ہائے نظر اور گروہ سامنے آئے ہیں. ان میں سے ایک طبقہ ’’کرامیہ‘‘ کا تھا. اگرچہ یہ فرقہ اب معدوم ہو چکا ہے اور اس نام سے اس کا کوئی وجود نہیں ہے ‘لیکن مسلمانوں کے جہلاء کی اکثریت کا خیال یہی ہے جو کرامیہ کا موقف تھا‘ کہ ایمان بس اقرارٌ باللسان پر موقوف ہے‘ اگر کچھ اچھے عمل بھی ہو جائیں تو ٹھیک ہے ورنہ صرف اقرارٌ باللسان ہی نجات کے لیے کافی ہے ‘عمل کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی تصدیق بالقلب ضروری ہے. اور یہ کہ اقرارٌ باللسان کے ساتھ اگر کوہِ ہمالہ کے برابر بھی گناہ ہوں تو وہ بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے. کرامیہ کا موقف پورے مجموعۂ احادیث کو چھوڑ کر صرف ایک حدیث پر مبنی ہے جو بخاری شریف میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور ا ن کے موقف کو بظاہر حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث نبویؐ سے بھی تقویت ملتی ہے.پچھلی نشست میں یہ دونوں احادیث تفصیل سے بیان ہوچکی ہیں.اب ظاہر بات ہے کہ ہم صرف ایک حدیث سے پورا ستنباط نہیں کر سکتے‘ بلکہ باقی سینکڑوں احادیث بھی پیش نظر رکھنی ہوں گی جن میں ایمان کے ساتھ عملِ صالح کو بھی نجات کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے.آغازِ خطاب میں سورۃ العصر کی تلاوت کی گئی. اس کا ترجمہ ہے : ’’زمانے کی قسم! یقینا انسان خسارے میں ہے. سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان‘لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے اور آپس میں حق بات کی تاکید کی اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی.‘‘ اس اعتبار سے صرف اس ایک حدیث کی بنیاد پر کوئی موقف قائم کر لینا غلط ہے . اس ایک حدیث سے استدلال کر لینے سے تو تصدیق بالقلب اور اعمالِ صالحہ تو کیا ایمان بالرسالت بھی ثابت نہیں ہوتا. اس لیے کہ اس میں تو رسول اللہﷺ کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں: مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ ثُمَّ مَاتَ عَلٰی ذٰلِکَ اِلاَّ دَخَلَ الْجَنَّۃَ ’’کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو کہے لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ ‘ پھر اسی پر اُس کی موت واقع ہوجائے ‘ مگر یہ کہ وہ جنت میں داخل ہو گا.‘‘ اب یہاں تو صرف توحید ہے‘ رسالت کا اقرار بھی نہیں اور باقی ایمانیات یعنی آخرت‘ ملائکہ‘ کتابوں اور انبیاء علیہم السلام پر ایمان بھی سرے سے زیربحث نہیں آئے. اس لیے اس ایک حدیث ہی کو اپنی گفتگو اور نتائج کا مبنیٰ یا مدار بنا لینا غلط ہے. البتہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے جو حدیث نبویؐ مروی ہے اس میں رسالت کا اقرار بھی ہے اور اس کے الفاظ میں ہمہ گیریت بھی ہے. رسول اللہﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: مَا مِنْ اَحَدٍ یَشْھَدُ اَنْ لاَ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ صِدْقًا مِنْ قَلْبِہٖ اِلاَّ حَرَّمَہُ اللّٰہُ عَلَی النَّارِ ’’جو شخص بھی اپنے دل کی گہرائی اور صداقت سے یہ گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد(ﷺ) اللہ کے رسول ہیں تو اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کی آگ کو حرام کر دے‘گا.‘‘ اس حدیث میں ایک تو رسالت کا اقرار بھی ہے اور دوسرے ’’صِدْقًا مِنْ قَلْبِہ‘‘ کے الفاظ میں تو معانی کا ایک جہان پوشیدہ ہے ‘گویا ایک قیامت مضمر ہے. اس لیے کہ کوئی شخص اگر سچے دل سے کوئی بات زبان سے نکالے گا تو عمل بھی تو اُس کے مطابق کرے گا. اگر اللہ تعالیٰ کو ’’صِدْقًا مِنْ قَلْبِہ‘‘ (سچے دل سے) مانے گا تو اس کے احکام پر بھی تو چلے گا. اسی طرح اگر سچے دل سے اور پختہ ارادے کے ساتھ حضرت محمدﷺ کی رسالت کا اقرار کرے گا تو آپﷺ کی پیروی بھی تو کرے گا. البتہ صرف حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہمارے استدلال کی بنیاد نہیں بن سکتی. دوسرا طبقہ ’’اشاعرہ‘‘ کا ہے جن کے نزدیک ایمان اور نجات کے لیے زبان سے اقرار لازم نہیں ہے‘ صرف دل کی گواہی کافی ہے. اس ضمن میں مَیں نے آلِ فرعون کے مؤمن کی مثال دی تھی جن کے بارے میں قرآن میں آیا ہے : یَکْتُمُ اِیْمَانَہٗٓ (المؤمن:۲۸) ’’وہ (ایک خاص وقت تک) اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھے‘‘. لیکن جب وقت کے فرعون نے دربار میں قرارداد ( resolution) پیش کی : ذَرُوْنِیْٓ اَقْتُلْ مُوْسٰی (المؤمن:۲۶) ’’مجھے اب اجازت دو موسیٰ( علیہ السلام ) کو قتل کرنے کی ‘‘تو اُس وقت مؤمن ِآلِ فرعون نے کھڑے ہو کر فرعون اور درباریوں کے سامنے اعلانِ حق کیا اور اپنی مفصل اور مؤثر تقریر سے ایسا سماں باندھا کہ فرعونِ وقت بے بس ہو گیا. اس میں بھی ایک امکان کو پیش نظر رکھیے! ہو سکتا ہے کہ مؤمن آلِ فرعون نے بالعموم تو اپنے ایمان کو مصلحتاً خفیہ رکھا ہو لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کو رازدارانہ انداز میں بتا دیا ہو اور انہیں اس پر گواہ بنا لیا ہو! واللہ اعلم بالصواب! اشاعرہ کے بعد ہمارے ہاں دو طبقے اور ہیں ‘ یعنی مُرجئہ اور احناف (احناف سے مراد ہیں امام ابوحنیفہؒ اور اُن کے پیروکار). ان میں سے مُرجئہ کے نزدیک ایمان ’’اقرارٌ باللسان‘‘ اور ’’تصدیق بالقلب‘‘دونوں کے مجموعے کا نام ہے ‘ جبکہ عمل کا ایمان اور نجات سے سرے سے کوئی تعلق نہیں. گویا یہ اپنے عقیدے کے اعتبار سے کرامیہ کے پاس پہنچ گئے ہیں. اور احناف جو پوری دنیا کے اندر ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں‘ اِن کا موقف بھی یہ ہے کہ ایمان نام ہے تصدیق بالقلب اور اقرارٌ باللسان کا‘ اور ’’عمل‘‘ ایک علیحدہ چیز ہے‘ ایک الگ کیٹیگری ہے جس کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں ہے. میں ’’علیحدہ‘‘ کا لفظ اس لیے استعمال کر رہا ہوں کہ ان کے نزدیک عمل کا تعلق ایمان سے تو نہیں ہے البتہ نجات کے ساتھ اس کا ایک تعلق ہے. اس بنیاد پر مُرجئہ اور احناف کے موقف میں بڑا بنیادی فرق واقع ہو جاتا ہے. احناف کے نزدیک اگر کسی کے دل میں ایمان تھا اور اس نے دنیا میں زبان سے اس کا اقرار بھی کیا‘ اس شخص کے اعمال کا جب وزن کیا جائے گا اور اس کی نیکیوں کا پلڑاگناہوں سے بھاری نکلے گا تو ایسا شخص سیدھا جنت میں جائے گا. لیکن اگر تصدیق بھی تھی اور اقرار بھی تھا لیکن اعمال میں گناہوں کا پلڑا نیکیوں سے بھاری ہوا تو وہ جہنم میں جائے گا‘ لیکن اپنے گناہوں کے بقدر سزا پا کر اپنے ایمان کی بدولت جو اُس کے دل میں تھا‘ وہاں سے نکال لیا جائے گا اور جنت میں داخل کر دیا جائے گا. ان کے نزدیک عمل کا تعلق نجات سے توہے لیکن یہ ایمان کا حصہ نہیں ہے. ان کے علاوہ ہمارے ہاں چار گروہ ایسے ہیں جن کے نزدیک ایمان تین چیزوں ’’اقرارٌ باللسان ‘ تصدیق ِبالقلب اور عمل ِصالح‘‘ کا مجموعہ ہے.
گویا ان کے نزدیک عمل صالح بھی ایمان کا جزو ہے. ان میں سب سے نمایاں تو سید المحدثین امام بخاریؒ ہیں‘ اور باقی ائمۂ ثلاثہ ہیں‘ یعنی امام مالک‘ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ. چنانچہ ائمۂ اربعہ میں سے بھی تین اِس رائے کے قائل ہیں کہ عمل ِصالح ایمان کا جزو ہے. اس اعتبار سے دیگرگروہ معتزلہ ‘شیعہ اور خوارج ہیں. خوارج کہتے ہیں کہ گناہِ کبیرہ سے انسان ایمان اور اسلام دونوں سے نکل جاتا ہے ‘لہذا مرتد قرار پاتا ہے. اب اس کا مال اور بیوی بچے مالِ غنیمت ہیں. خوارج کے کفر پر تو اُمت کا اتفاق ہے کہ یہ لوگ دائرۂ اسلام سے خارج ہیں. معتزلہ اور شیعہ ان کے آس پاس ہیں.
معتزلہ کے نزدیک گناہِ کبیرہ کی بنیاد پر ایک انسان ایمان سے بھی نکل جاتا ہے اور اسلام سے بھی‘ لیکن کافر نہیں ہوتا‘ لہذا وہ مرتد شمار نہیں ہو گا. وہ مباح الدم اور مباح المال نہیں ہو گا. اس حوالے سے
ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص ایمان سے بھی نکل گیا اور اسلام سے بھی نکل گیا تو پھر اس کا مقام کہاں ہے؟
اس لیے کہ اسلام اور کفر کے درمیان کوئی بفر (buffer) زون تو ہے نہیں! کفر اور اسلام کی سرحدیں تو ملی ہوئی ہیں. کوئی شخص یا تو اِدھر ہے یا اُدھر. تو اس اعتبار سے معتزلہ کا موقف مبہم بھی ہے‘ غیر معقول بھی ہے اور غیر منطقی بھی . البتہ شیعہ کہتے ہیں کہ ایسا شخص پھر منافق ہے. لیکن منافق بھی قانونی طو رپر تو مسلمان ہوتا ہے. تو گویا معتزلہ اور اہل تشیع کا موقف ایک دوسرے کے بہت قریب ہے. اس ضمن میں امام المحدثین امام بخاریؒ اور ائمۂ ثلاثہ کا موقف یہ ہے کہ اگرچہ ایمان اور عمل صالح لازم و ملزوم ہیں اور عمل صالح ایمان کا جزو ہے‘ لیکن گناہِ کبیرہ سے کوئی شخص نہ ایمان سے نکلتا ہے اور نہ اسلام سے نکلتا ہے ‘البتہ وقتی طور پر جبکہ وہ گناہ کر رہا ہوتا ہے‘ ایمان اس کے دل سے نکل کر اس کے اُوپر منڈلاتا رہتا ہے اور جب وہ گناہ سے فارغ ہوتا ہے تو ایمان پھر واپس آ جاتا ہے. اب میں صرف اہل سنت تک اپنی بات کو محدود رکھنا چاہتا ہوں‘ اس لیے کہ مرجئہ‘ معتزلہ ‘اشاعرہ اور کرامیہ تو اَب ہمارے ہاں موجود نہیںہیں‘ ان کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت نہیں. اہل تشیع اگرچہ موجود ہیں‘ لیکن ان کے بارے میں مَیں زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا. ہمارے ہاںاہل سنت کے دو ہی طبقے ہیں‘ یعنی احناف اور اہل حدیث. اہل حدیث کے نزدیک سب سے بڑی حجت اور سب سے بڑی دلیل امام بخاریؒ ہیں اور احناف کے نزدیک سب سے بڑی دلیل امام الفقہاء امام ابوحنیفہؒ ہیں‘ اگرچہ فقہ حنفی امام ابوحنیفہؒ کے کچھ فتاویٰ کے علاوہ زیادہ تر اُن کے دو شاگردوں قاضی ابویوسف اور امام محمدرحمہما اللہ کے فتاویٰ پر مشتمل ہے. احناف اور اہل حدیث کے الگ الگ موقف سامنے آنے کے بعد اِن کے اندر تطبیق کیا ہو گی‘ یہ ایک بہت باریک اور بہت اہم نکتہ ہے. اس تطبیق کے ذریعے یہ عقدہ (dilemma) حل ہو جاتا ہے. امام ابوحنیفہؒ کا جو موقف ہے کہ ایمان تصدیق بالقلب اور شہادت یا اقرار کا نام ہے‘ تو دنیا میں تو ’’تصدیق بالقلب‘‘ کی توثیق (verification) ہو ہی نہیں سکتی. لہذا اِس موقف کی رو سے دنیا کی حد تک ایمان گویا صرف اقرار پر مبنی ہے. اور امام ابوحنیفہؒ ‘ کا یہ موقف بھی بہت واضح ہے کہ گناہِ کبیرہ کے ارتکاب سے بھی کوئی شخص نہ اسلام سے نکلتا ہے نہ ایمان سے‘ بلکہ وہ مسلمان ہی رہتا ہے. ان کے نزدیک جہاں تک نفس ِتصدیق کا تعلق ہے تو اس میں نہ اضافہ ہوتا ہے اور نہ کمی ہوتی ہے ‘ بلکہ یہ جامد حیثیت میں برقرار رہتی ہے‘ لیکن ایمان میں جو حدت اور شدت ہے اس میں کمی یا بیشی ہو سکتی ہے. چنانچہ اس حوالے سے امام ابوحنیفہؒ کا موقف عام طو رپر اِن الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے: اَلْاِیْمَانُ قَوْلٌ لَا یَزِیْدُ وَلَا یَنْقُصُ ’’ایمان تو قول کا نام ہے جو نہ گھٹتا ہے نہ بڑھتا ہے‘‘. جبکہ امام بخاریؒکا موقف ہے: اَلْاِیْمَانُ قَوْلٌ وَعَمَلٌ یَزِیْدُ وَیَنْقُصُ ’’ایمان قول اور عمل دونوں کے مجموعے کا نام ہے ‘یہ گھٹتا بھی ہے اور بڑھتا بھی ہے‘‘. تو بظاہر احوال اور بظاہر الفاظ یہ دونوں موقف ایک دوسرے کی مکمل ضد معلوم ہوتے ہیں‘ جوقابل تطبیق (reconcilable) ہیں ہی نہیں. لیکن میرے نزدیک یہ دونوں ہی صد فیصد درست ہیں. آپ حیران ہورہے ہوں گے کہ یہ دونوں موقف صد فیصد درست کیسے ہو سکتے ہیں جبکہ ان کا محل اور مقام ہی جدا ہے! حقیقت یہ ہے کہ امام ابوحنیفہؒ ‘ فقیہہ ہیں. وہ ایمان کے قانونی پہلو پر بات کر رہے ہیں جس کی بنیاد پر کوئی شخص دنیا میں مسلمان سمجھا جاتا ہے. سورۃ النساء کی آیت ۹۴ کے حوالے سے یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ میدانِ جنگ میں بھی اگر کوئی شخص اپنے اسلام کا اقرار کرے تو آپ اُسے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ’’لَسْتَ مُؤْمِنًا‘‘ (تم مؤمن نہیں ہو)‘ اس لیے کہ دنیا میں اسلام کی بنیاد اقرار ہے. اس حوالے سے گزشتہ نشست میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کا واقعہ بیان ہو چکا ہے کہ ایک کافر سے اُن کا دوبدو مقابلہ ہو رہاتھا‘ وہ کافر آپؓ کی تلوار کی عین زد میں تھا کہ اُس نے کلمۂ شہادت پڑھ لیا. حضرت اسامہؓ نے سمجھا کہ یہ تو کلمہ ٔشہادت پڑھ کر محض اپنی جان بچانے کا حیلہ کر رہا ہے‘ لہذا آپؓ نے تلوار چلا کر اس کی گردن اڑا دی. اس پر رسول اللہﷺ نے سرزنش فرمائی کہ اے اسامہ! قیامت کے دن کیا کرو گے جب یہ کلمۂ شہادت تمہارے خلاف استغاثہ لے کر آئے گا؟ اس اعتبار سے حضرت امام ابوحنیفہؒ اور دیگر فقہاء کے نزدیک نماز‘ روزہ‘ حج اور زکو ٰۃ ‘جو اسلام کے ارکان ہیں اور چوٹی کے اعمال ہیں‘ ان پر عمل نہ کرنے کی بنیاد پر بھی کوئی شخص کافر نہیں ہوتا‘البتہ ان میں سے کسی کاانکار کردے گا تو کافر ہو جائے گا. مختلف فقہاء کے نزدیک اگر کوئی شخص نماز نہیں پڑھتا تو تعزیر کے طور پر اسے جسمانی سزا دی جائے گی‘ اسے قید کیا جائے گا اور اسے توبہ پر مجبور کیا جائے گا. بعض فقہاء کا موقف ہے کہ اسے قتل بھی کیا جا سکتا ہے‘ اس لیے کہ ایک حدیث میں الفاظ آئے ہیں: بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلَاۃِ (۸) ’’بندے اور کفر و شرک کے مابین نماز کا معاملہ حائل ہے.‘‘ لیکن یہ قتل کرنا بھی تعزیراً ہو گا‘ مرتد سمجھتے ہوئے نہیں.جیسے شادی شدہ زانی پرحد جاری کرکے اسے رجم کے ذریعے قتل تو کیا جائے گا ‘ لیکن اسے مرتد سمجھتے ہوئے نہیں. چنانچہ بالعموم عمل کی بنیاد پر تکفیر نہیں ہو گی‘ البتہ بعض اعمال ایسے ہیں جن کے ارتکاب سے تکفیر ہو جائے گی ‘جیسے کوئی شخص شرکِ جلی کا مرتکب ہو رہا ہے‘ مثلاً کسی بُت کو سجدہ کر رہا ہے تو وہ کافر ہے. احناف کاجو یہ موقف ہے کہ ایمان ایک جامد حالت میں ہے جو نہ گھٹتا ہے نہ بڑھتا ہے ‘اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کی بنیاد پر یا قانونی ایمان کی بنیاد پر دنیا میں ایک شخص کو جو قانونی مرتبہ (legal status) حاصل ہوتا ہے اس میں نہ اضافہ ہوتا ہے نہ کمی ہوتی ہے. نیک اعمال سے کسی مسلمان کا مرتبہ اونچا نہیں ہوتا اور برے اعمال سے نیچا نہیں ہوتا. کوئی مسلمان اللہ کے ہاں تو اپنے فسق و فجور کی سزا پائے گا‘ لیکن دنیا میں اس کا مرتبہ ( status) برقرار رہے گا. قانونی اور دستوری سطح پر سب مسلمان برابر ہیں. امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ کا بہت عالی مرتبت اور بہت اہم قول ہے کہ: اَلْمُسْلِمُ کُفْوٌ لِکُلِّ مُسْلِمٍ یعنی ’’ہرمسلمان دوسرے مسلمان کے برابر ہے‘‘. اس کے لیے میں ایک مثال دیا کرتا ہوں کہ ایک شخص کے دو بیٹے ہیں .ان میں سے ایک مؤمن اور متقی ہے‘ تہجد گزار ہے‘ شریعت کی پابندی کرتا ہے‘ جبکہ دوسرا فاسق و فاجر ہے‘ وہ یا تو نماز پڑھتا ہی نہیں یا کبھی کبھار پڑھ لیتا ہے‘ اور کبھی کبھی شراب بھی پی (۸) صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلاۃ.ترمذی کی روایت میں الفاظ ہیں: بَیْنَ الْکُفْرِ وَالْاِیْمَانِ تَرْکُ الصَّلَاۃِ لیتا ہے.اب باپ کے فوت ہونے پر جب وراثت تقسیم ہو گی تو کیا متقی کو زیادہ اور فاسق و فاجر کو کم حصہ ملے گا؟ نہیں‘ بلکہ برابر برابر ملے گا. اس لیے کہ ایک مسلمان کا قانونی مرتبہ (legal status) ایک جامد چیز ہے ‘جس میں نہ کوئی اضافہ ممکن ہے اور نہ کوئی کمی .٭ آج کے دَور میں ایک بڑا اہم مسئلہ یہ ہے کہ اگر اسلامی ریاست قائم ہو جائے‘ اور اللہ کرے کہ ایسا ہو‘ تو اس کے سربراہ کا انتخاب کس طریقے سے ہو گا؟
اس کے لیے مشاورت کا کیا نظام ہو گا؟ اگر انتخابات کا طریقہ اختیار کیا جائے تو رائے دہی کا حق کس کو حاصل ہو گا؟
خلافت راشدہ کے دَور میں تو چونکہ قبائلی معاشرہ تھا لہذا سربراہِ ریاست کے انتخاب کے لیے قبیلوں کے سردارمل بیٹھ کر جو مشورہ کر لیتے تھے وہی کافی ہوتا تھا. لیکن اب قبائلی معاشرہ نہیں ہے ‘اور خلیفۂ وقت یا سربراہِ ریاست کا انتخاب بھی ضروری ہے‘ اس لیے کہ وہ آسمان سے تو نازل نہیں ہو گا اور نہ ہی کوئی نبی یا رسول ہو گا‘ لہذا اس کے لیے انتخاب کا کوئی نہ کوئی طریقہ ایجاد کرنا پڑے گا. تواب مسئلہ یہ ہے کہ اس کے انتخاب کا حق صرف متقیوں کو ہو گا یا اس میں فاسق و فاجر مسلمان بھی رائے دے سکتے ہیں؟
لوگوں کے ذہنوں میں اس طرح کا تصور ہے کہ شاید مسجدوں میں رجسٹر کھول دیے جائیں گے اور پنج وقتہ نماز کی حاضری لی جائے گی ‘اورجو نمازی ہو گا اس کوووٹ کا حق دار سمجھا جائے گا. لیکن ایسی بات نہیں ہے. قانونی اور دستوری حقوق (Legal and constitutional rights) میں متقی اور فاسق مسلمان بالکل برابر ہیں. جیسے فزیالوجی کا ایک قاعدہ : ’’All or none law‘‘ کہلاتا ہے. یعنی کوئی چیز ہو گی تو پوری ہو گی اور نہیں ہو گی تو بالکل نہیں ہو گی. کمی بیشی والی بات نہیں ہو گی. اسی طرح کوئی شخص اسلام کے دائرے میں ہے تو اسے سارے قانونی حقوق حاصل ہیں اوراگردائرۂ اسلام میں نہیں ہے تو اس کے سارے حقوق ختم ہیں. جو بھی اسلام کی سرحد سے باہر نکلا وہ کافر اور مرتد ہوا‘ اب اُس کے مسلمان کی حیثیت سے حقوق ختم ہو گئے. اس کے نکاح میں اگر کوئی مسلمان ٭ اس موضوع پر اللہ تعالیٰ نے مجھے الحمد للہ شرح صدر عطا فرمایا ہے اور ’’حقیقت ایمان‘‘ نامی کتاب میں اس ضمن میں مفصل مباحث ضبط تحریر میں آ چکے ہیں. خاتون ہے تو اُس سے نکاح فسخ ہو گیا‘ اب وہ مسلمان باپ کی وراثت میں سے حصہ نہیں پا سکتا. تو امام ابوحنیفہؒ کا موقف قانونی ایمان کے حوالے سے ہے. اب ہم امام بخاریؒ کے موقف کی طرف آتے ہیں. امام بخاریؒ کا موقف حقیقی ایمان یا بالفاظِ دیگر یقین قلبی والے ایمان کی بنیاد پر ہے. یہ بڑی منطقی سی بات ہے کہ انسان کا عمل اِس یقین قلبی والے ایمان کے خود بخود تابع ہو جاتا ہے . اس لیے کہ وہ یقین ہی کیا ہوا جس کے تابع عمل نہ ہو! یقین تو بہت دور کی بات ہے ‘ اگر کسی بات پر گمانِ غالب بھی ہوتا ہے تو بھی انسان کا عمل اُس کے تابع ہو جاتا ہے. مثلاً سب کو معلوم ہے کہ ہر سانپ زہریلا نہیں ہوتا. ہمارے ہاں چوہا خور سانپ مشہور ہے جو چوہوں کو تلاش کر کے ہڑپ کر جاتا ہے اور وہ انسانوں کو نہیں کاٹتا‘ اور اگر کاٹ بھی لے تو اُس میں زہر نہیں ہوتا. اس کے علاوہ اور بھی بہت سے سانپ ہوتے ہیںجو زہریلے نہیں ہوتے . اس کے باوجود انسان ہر ایک سانپ سے بچنے کی کوشش کرتا ہے محض اس گمان کی بنیاد پر کہ شاید یہ زہریلا ہو. چنانچہ یہ ایک منطقی سی بات ہے کہ انسان کا عمل اس کے ایمان کے خود بخود تابع ہوجاتا ہے. قرآن مجید میں جہاں بھی ایمان کا ذکر آیا ہے اس کے ساتھ عمل کا ذکر بھی لازماً ہوا ہے. جیسے سورۃ العصر کے الفاظِ مبارکہ ہیں: وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۬ۙ وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ ٪﴿۳﴾ ’’زمانے کی قسم! یقینا انسان خسارے میں ہے. مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے اور آپس میں حق بات کی تاکید کی اور صبر کی تلقین کی.‘‘ اسی طرح سورۃ التین کے الفاظِ مبارکہ ہیں: وَ التِّیۡنِ وَ الزَّیۡتُوۡنِ ۙ﴿۱﴾وَ طُوۡرِ سِیۡنِیۡنَ ۙ﴿۲﴾وَ ہٰذَا الۡبَلَدِ الۡاَمِیۡنِ ۙ﴿۳﴾لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۫﴿۴﴾ثُمَّ رَدَدۡنٰہُ اَسۡفَلَ سٰفِلِیۡنَ ۙ﴿۵﴾اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمۡ اَجۡرٌ غَیۡرُ مَمۡنُوۡنٍ ؕ﴿۶﴾ … ’’قسم ہے انجیر اور زیتون کی ‘اور طورِ سینا کی‘ اوراِس پُرامن شہر (مکہ مکرمہ) کی‘ تحقیق ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا‘ پھر ہم نے اسے الٹا پھیر کر سب نیچوں سے نیچا کر دیا‘ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے‘ تو اُن کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے…‘‘ تو اس اعتبار سے عمل ِصالح حقیقی ایمان یا بالفاظِ دیگر یقین ِقلبی والے ایمان کا جزوِ لاینفک ہے. یہ امام بخاریؒ کا موقف ہے اور یہ بھی صد فیصد درست ہے. اور یہ یقین قلبی والا ایمان ‘ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں‘ جامد نہیں ہوتا‘ بلکہ گھٹتا بھی ہے اور بڑھتا بھی ہے‘ اوراعمالِ سیّئہ کی بنا پر اِس کی نفی بھی ہوتی ہے. بے شمار احادیث ایسی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ فلاں گناہ کرو گے تو ایمان کی نفی ہو جائے گی. جیسے یہ حدیث نبویﷺ پہلے بھی بیان ہو چکی ہے: لاَ یَزْنِی الزَّانِیْ حِیْنَ یَزْنِیْ وَھُوَ مُؤْمِنٌ ‘ وَلَا یَسْرِقُ السَّارِقُ حِیْنَ یَسْرِقُ وَھُوَ مُؤْمِنٌ ‘ وَلَا یَشْرَبُ الْخَمْرَ حِیْنَ یَشْرَبُھَا وَھُوَ مُؤْمِنٌ ’’کوئی زانی حالتِ ایمان میں زنا نہیں کرتا ‘ کوئی چور حالت ایمان میں چوری نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی شرابی حالت ایمان میں شراب پیتا ہے.‘‘ اگر کوئی شخص زنا کر رہا ہے یا چوری کر رہا ہے یا شراب پی رہا ہے تو اُس کے ایمان کی کیا قدر و قیمت رہ جاتی ہے؟ آم کے درخت پر اگر آم نہیں لگتے تو کیا فائدہ اُس درخت کا؟اسے تو کاٹ کر اُس کی لکڑی جلا لی جائے گی. وہ ایمان تو پھر دھیلے کا بھی نہیں ہے جس میں عمل ِصالح کے برگ و بار نہ لگے ہوں‘ بلکہ گناہ ہی گناہ ہوں! اس حدیث میں تو بڑے گناہوں زنا ‘ سرقہ اور شراب خوری کا ذکر ہے‘ لیکن ایک حدیث میں تو ایک معمولی سی کج خلقی پر بھی ایمان کی نفی کی گئی ہے. یہ حدیث بھی بیان ہو چکی ہے کہ ایک موقع پر رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ‘ وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ ‘ وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ ’’اللہ کی قسم وہ شخص مؤمن نہیں‘ اللہ کی قسم وہ شخص مؤمن نہیں‘ اللہ کی قسم وہ شخص مؤمن نہیں…‘‘اس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کانپ گئے کہ کون ہے وہ بدبخت انسان جس کے بارے میں یہ بات کہی جا رہی ہے! انہوں نے دریافت کیا: وَمَنْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِﷺ ؟ ’’اے اللہ کے رسولﷺ ! یہ کون شخص ہے؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا: اَلَّذِیْ لَا یَاْمَنُ جَارُہٗ بَوَایِقَہٗ ’’وہ شخص جس کی ایذا رسانی سے اس کا پڑوسی چین میں نہیں ہے‘‘. یہاں آپﷺ نے زنا یا چوری وغیرہ جیسے کسی کبیرہ گناہ کا ذکر نہیں فرمایا‘ بلکہ محض بدخلقی پر تین بار اللہ عزوجل کی قسم کھا کر کہا کہ ایسا شخص مؤمن نہیں ہے. ہمارے فقہاء اِس حدیث کا ترجمہ اِن الفاظ میں کرتے ہیں : ’’اللہ کی قسم‘ اُس شخص کا ایمان کامل نہیں ہے…‘‘ اس لیے کہ مطلقاً ایمان کی نفی سے امام ابوحنیفہؒ کے موقف کی نفی ہو جاتی ہے. لیکن آپ سوچئے کہ اس حدیث میں جو زور ہے اس مفہوم سے اس کا تو دھیلہ ہو جاتا ہے! اس لیے کہ ایمانِ کامل تو کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے. اِس حدیث کے الفاظ میں وہ زور ہے کہ آدمی کانپ جاتا ہے‘لیکن اس ترجمے سے اس کا اصل مقصد ختم ہو جاتا ہے. لہذا اسے اس کی حالت پر برقرار رکھیے کہ ایسا شخص مؤمن نہیں ہے‘ اس کے دل میں ایمان نہیں ہے. البتہ ایسا شخص کافر بھی نہیں ہے کہ اب مرتد قرار پا کر واجب القتل ہو گیا ہو ‘بلکہ وہ قانونی طور پر مسلمان ہی ہے‘ کیونکہ وہ زبان سے اپنے اسلام کا اقرار کر رہا ہے. یہ تو خوارج‘ معتزلہ اور اہل تشیع وغیرہ کا عقیدہ ہے کہ گناہ سے انسان ایمان اور اسلام دونوں سے نکل جاتا ہے. یہ جو میں نے بتایا کہ اعمال کی بنیاد پر ایمانِ حقیقی کے اندر کمی بیشی ہوتی رہتی ہے اوربعض اوقات اس کی نفی بھی ہو جاتی ہے‘ تو اس ضمن میں مَیں قرآن مجید کے تین حوالے پیش کر رہا ہوں. غزوۂ اَحزاب کا نقشہ ذراذہن میں لایئے. یہ بڑا سنگین وقت تھا.بارہ ہزار کا لشکر مدینے کو گھیرے ہوئے تھا.ایک طرف تو خیر’’ حر ّات‘‘ تھے جہاں نہ گھوڑا چل سکتا تھا نہ اونٹ‘ لہذا یہ سمت محفوظ تھی‘ لیکن باقی تینوں اطراف میں دشمنوں کا لشکر تھا. مسلمانوں پر کئی کئی دن کا فاقہ تھا. یوں سمجھئے کہ مسلمانوں کے ایمان کی آخری درجے میں آزمائش ہو گئی. نتیجتاً منافقین کا نفاق ان کے دلوں سے نکل کر ان کی زبانوں پر آ گیا. سورۃ الاحزاب میں ان کے الفاظ نقل ہوئے ہیں: وَ اِذۡ یَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اِلَّا غُرُوۡرًا ﴿۱۲﴾ ’’اور (یاد کرو وہ وقت) جب منافقین اور وہ سب لوگ جن کے دلوں میں روگ تھا (صاف صاف) کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے جو وعدے ہم سے کیے تھے وہ فریب کے سوا کچھ نہ تھے.‘‘ ہمیں تو اللہ اور اس کے رسول نے سبز باغ دکھا کر اور جھوٹے وعدے کر کے مروا دیا! (نعوذ باللہ) .اللہ کے رسول نے تو کہا تھا کہ قیصر و کسریٰ کے خزانے تمہارے قدموں میں ہوں گے ٭ اور یہاں یہ کچھ ہو رہا ہے! تو جس نفاق کو وہ چھپائے ہوئے تھے وہ ان کی زبانوں پر آ گیا. اس کے برعکس دیکھئے کہ اسی کیفیت میں اہل ایمان کا ردّعمل کس قدر مختلف تھا. اس کا نقشہ سورۃ الاحزاب میں بایں الفاظ کھینچا گیا ہے: وَ لَمَّا رَاَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡاَحۡزَابَ ۙ قَالُوۡا ہٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ صَدَقَ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ ۫ وَ مَا زَادَہُمۡ اِلَّاۤ اِیۡمَانًا وَّ تَسۡلِیۡمًا ﴿ؕ۲۲﴾ (الاحزاب) ’’اور جب سچے مؤمنوں نے لشکروں کو دیکھا تو کہا یہی تو ہے جس کا ہم سے وعدہ کیا تھا اللہ اور اس کے رسول(ﷺ ) نے اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات بالکل سچی تھی. اس واقعہ نے ان کے ایمان اور سپردگی ہی کو اور زیادہ بڑھا یا.‘‘ یعنی اس آزمائش سے اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ ہو گیا اور اہل نفاق کا نفاق ان کی زبانوں پر آ گیا. اہل ایمان کے پیش نظر دراصل وہ آیات تھیں جن میں اللہ تعالیٰ نے مدنی دَور کے شروع میں ہی فرما دیا تھا: وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۵۵﴾ۙ (البقرۃ) ’’اور (اے مسلمانو! کمر ہمت کس لو) ہم لازماً تمہیں آزمائیں گے (تمہیں بڑے بڑے امتحانوں سے گزاریں گے) کسی قدر خوف سے اور بھوک (فقر و فاقہ) سے اور مالوں‘ جانوں اور پھلوں کے نقصان سے . اور (اے نبیؐ !) بشارت دے دیجیے (ان آزمائشوں میں) صبر کرنے والوں کو.‘‘ آزمائش کا یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ کوئی امتحان میں فیل ہوتا ہے اور کوئی پاس ہوتا ہے. جیسے عربی کہاوت ہے: اِنَّ فِی الْاِمْتِحَانِ یُکْرَمُ الْمَرْءُ اَوْ یُھَانُ ’’امتحان کے موقع پر یا توہجرتِ مدینہ کے موقع پر جب سراقہ بن مالک نے رسول اللہﷺ کا تعاقب کیا اور اُن کا گھوڑا باربار زمین میں دھنسا تو آپﷺ نے ان کو مخاطب کر کے کہا تھا : ’’اے سراقہ! میں کسریٰ کے کنگن تمہارے ہاتھوں میں دیکھ رہا ہوں‘‘.چنانچہ دورِ فاروقی ؓ میں فتح ایران کے بعد کسریٰ کے زیورات بھی مالِ غنیمت میں آئے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کسریٰ کے کنگن حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں میں پہنائے. کسی کی عزت افزائی کی جاتی ہے یا اسے ذلیل کیا جاتا ہے.‘‘ دوسرا مقام سورۃ الانفال کی آیت کریمہ ہے: اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ وَ اِذَا تُلِیَتۡ عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُہٗ زَادَتۡہُمۡ اِیۡمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ ۚ﴿ۖ۲﴾ ’’یقینا (سچے) اہل ایمان تووہ لوگ ہیں جن کے دل لرز جاتے ہیں جب (ان کے سامنے) اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے‘ اور جب ان پر اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہو جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ رکھتے ہیں.‘‘ جب کوئی مسلمان قرآن پڑھتا ہے تو اگر وہ کج رو نہیں ہے تو اس کے ایمان میں لازماً اضافہ ہوتا ہے جس کا احساس اسے خود بھی ہو رہا ہوتاہے. اسی طرح جب کوئی شخص اہل ایمان کی مجلس میں بیٹھتا ہے تو وہ خود محسوس کرتا ہے کہ اس کے ایمان میں اضافہ ہوا ہے. اس کے برعکس جب کوئی شخص غافلین اور اوباش لوگوں کی صحبت میں کچھ وقت گزارتا ہے تو وہ خود محسوس کرتا ہے کہ اگر اس کے پاس ایمان کی کچھ پونجی تھی تو اب اس میں کمی ہو گئی ہے. لہذا ثابت ہوتا ہے کہ قلبی ایمان جامد شے نہیں ہے‘ یہ عمل صالح کے ساتھ بڑھتا ہے اور گناہوں کے ساتھ گھٹتا ہے ‘اور اگر گناہ انسان کا احاطہ کر لیں تو یہ ختم بھی ہو جاتا ہے. جیسے ارشادِ باری تعالیٰ ہے : بَلٰی مَنۡ کَسَبَ سَیِّئَۃً وَّ اَحَاطَتۡ بِہٖ خَطِیۡٓــَٔتُہٗ فَاُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۸۱﴾ (البقرۃ) ’’کیوں نہیں! جس شخص نے (جان بوجھ کر) ایک بڑا گناہ کمایا اور اُس کے گناہ نے اس کا احاطہ کر لیا تو ایسے لوگ جہنمی ہیں ‘جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے.‘‘ اب یہاں خلود فی النار کا ذکر ہے جو کافروں کے لیے ہے‘ مسلمان کے لیے تو خلود فی النار نہیں ہے. جیسے احناف کی رائے ہے کہ اگر ایمان موجود ہے لیکن اعمالِ صالحہ کا پلڑا ہلکا ہے اور گناہوں کا پلڑا بھاری ہے تو وہ شخص جہنم میں جائے گا لیکن اپنے گناہوں کے بقدر سزا پا کر وہاں سے نکال لیا جائے گا. لیکن آیت مذکورہ میں چونکہ ہمیشہ کے لیے جہنم کا ذکر ہے تو ثابت ہوا کہ گناہوں سے ایمان گھٹتا رہتا ہے اور جب گناہ کسی کا مکمل طور پر احاطہ کر لیں تو ایمان ختم بھی ہو جاتا ہے. علماء کا ایک بڑا بلیغ قول ہے : اَلْمَعَاصِیْ بَرِیْدُ الْکُفْرِ ’’نافرمانی اور گناہ کفر کی ڈاک ہوتے ہیں‘‘.یعنی انسان جب مسلسل گناہ کیے جاتا ہے تو وہ گناہ اسے کفر تک لے جاتے ہیں. تیسرا مقام سورۃ التوبۃ کا ہے جس میں منافقین کا نقشہ بایں الفاظ کھینچا گیا ہے : وَ اِذَا مَاۤ اُنۡزِلَتۡ سُوۡرَۃٌ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّقُوۡلُ اَیُّکُمۡ زَادَتۡہُ ہٰذِہٖۤ اِیۡمَانًا ۚ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فَزَادَتۡہُمۡ اِیۡمَانًا وَّ ہُمۡ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ ﴿۱۲۴﴾ ’’اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو اِن (منافقین) میں سے کوئی (استہزاء کے طور پر) کہتا ہے تم میں سے کس کا ایمان اِس سورت سے بڑھ گیا ہے؟ پس جو لوگ ایمان لائے اُن کے ایمان میں اس سورت نے (فی الواقع) اضافہ کر دیا اور وہ (اس سے) بہت خوش ہیں.‘‘ یعنی کسی نئی سورت کے اترنے پر منافقین کے ایمان میں تو کیا اضافہ ہونا تھاجبکہ ان کے اندر ایمان موجود ہی نہیں تھا‘ لیکن اس سے اہل ایمان کے ایمان میں یقینا اضافہ ہوتا تھا. جیسے ارشاد ہوا: ہُوَ الَّذِیۡ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبۡدِہٖۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ لِّیُخۡرِجَکُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ؕ (الحدید:۹) ’’وہ (اللہ) ہی تو ہے جو اپنے بندے (محمدﷺ ) پر واضح آیات نازل کر رہا ہے تاکہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے.‘‘ اب اس حوالے سے ایک حدیث نبویؐ پیش خدمت ہے. حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: مَا مِنْ نَبِیٍّ بَعَثَہُ اللّٰہُ فِیْ اُمَّۃٍ قَبْلِیْ اِلاَّ کَانَ لَــہٗ مِنْ اُمَّتِہٖ حَوَارِیُّوْنَ وَاَصْحَابٌ یَاْخُذُوْنَ بِسُنَّتِہٖ وَیَقْتَدُوْنَ بِاَمْرِہٖ‘ ثُمَّ اِنَّھَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِھِمْ خُلُوْفٌ یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ وَیَفْعَلُوْنَ مَا لَا یُوْمَرُوْنَ ’’اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے جس اُمت میں بھی کوئی نبی بھیجا تو اُس کے اپنی اُمت میں سے کچھ اصحاب اور حواری (مددگار) ہوا کرتے تھے جو اپنے رسول کی سنت کو اختیار کر لیتے تھے اور اس کے حکم کی پیروی کرتے تھے. پھر ان کے بعد ایسے ناخلف آتے تھے جوکہتے وہ تھے جو کرتے نہیں تھے اور کرتے وہ تھے جس کا انہیں حکم نہیں ہوتاتھا.‘‘ یہ درجہ بدرجہ زوال ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے اور اُمت محمدؐ میں بھی ہوا ہے. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد تابعینؒ کا دَور آیا‘ ان کے بعد تبع تابعین کا دَور آیا‘ جو بہت سنہری اَدوار تھے. مرورِ ایام کے بعد یہ ہمارا زوال کا دَورہے. ہمارے قول و فعل میں تضاد پیدا ہو چکا ہے اور ہم وہ کچھ کر رہے ہیں جس کا ہمیں حکم نہیں ہوا.یہ جو بدعات پر مبنی رسومات ادا ہو رہی ہیں‘ مثلاً تیجے ہو رہے ہیں‘ دسویں‘ بیسویں اور چالیسویں ہو رہے ہیں‘ برسیاں ہو رہی ہیں‘ تویہ کیا ہیں؟ یہ کس نے بتائی ہیں؟ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے تو یہ نہیں بتائیں نہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے بتائی ہیں. یہ عید میلاد النبیﷺ جو آج منائی جا رہی ہے یہ نہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کبھی منائی ہے اور نہ تابعین نے ‘تو ہم یہ کہاں سے لے آئے؟ یہ عیسائیوں کی پیروی ہی تو ہو رہی ہے. کرسمس ان کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یومِ پیدائش ہے اور ان کی عید میلاد ہے ‘ تو ہم نے بھی ان کی دیکھا دیکھی اپنے نبی حضرت محمدﷺ کی عید میلاد منانی شروع کر دی. جیسے عیسائی کرسمس کے موقع پر کرسمس کارڈ بھیجتے ہیں ایسے ہی ہمارے لوگ بھی عید الفطر کے موقع پر سو سو روپے کا عیدکارڈ خرید کر بھیجتے ہیں. دینی کتابیں خریدنے کے لیے تو جیب بند ہو جاتی ہے لیکن تہنیت کے کارڈ بھیجے جا رہے ہیں‘ سالگرہ کے کارڈ بھیجے جا رہے ہیں. تو ہم نے دین کے احکام ترک کر دیے ہیں‘ سنتیں ترک کر دی ہیں ‘لیکن جس شے کا حکم نہیں ہے وہ کچھ کر رہے ہیں. رسول اللہﷺ آگے فرما رہے ہیں: فَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِیَدِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ‘ وَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِلِسَانِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ‘ وَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِقَلْبِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ‘ وَلَیْسَ وَرَاءَ ذٰلِکَ مِنَ الْاِیْمَانِ حَبَّۃُ خَرْدَلٍ (۹) ’’تو جو شخص ایسے لوگوں کے خلاف ہاتھ سے (طاقت سے) جہاد کرے گا وہ مؤمن ہے ‘ اور جو شخص ان کے خلاف زبان سے جہاد کرے گا(غلط بات کو غلط کہے گا) وہ بھی مؤمن ہے‘ اور جو شخص اپنے دل کے ذریعے سے ان کے خلاف جہاد کرے گا (دل میں شدید نفرت رکھے گا) وہ بھی مؤمن ہے. اور اس کے بعد تورائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہے.‘‘ تو یہاں دیکھئے کہ انسان کے طرزِ عمل کی وجہ سے ایمان کی نفی ٔ مطلق ہو رہی ہے. اگر کسی (۹) صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان کون النھی عن المنکر من الایمان… کے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ بزور ناخلف اور برے لوگوں کا مقابلہ کر سکے‘ اور حالات اتنے خراب ہیں کہ وہ زبان کھولنے کی ہمت بھی نہیں کر سکتا تو کم از کم دل میں تو ان کے اعمال سے نفرت رکھے. اگر اس کے دل میں بھی نفرت نہیں ہے تو رسول اللہﷺ فرما رہے ہیں کہ پھر وہ ایمان سے محروم ہے. ہونا تو یہ چاہیے کہ ظلم و زیادتی کے خلاف ہمت کر کے زبان کھولو. اس پر اگر تکلیف آتی ہے تو برداشت کرو. یہ جو فرمایا گیا ہے : وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ (البقرۃ:۱۵۵) یہ محض شاعری تو نہیں ہے (نعوذ باللہ) ‘بلکہ اللہ کا کلام ہے. اور اس سے بھی آگے بڑھ کر طاقت حاصل کرو اور ظالموں اور جابروں کے ساتھ ٹکرا جاؤ. ایمان اور عمل صالح کے بارے میں دونوں قابل ذکر موقف بھی آپ کے سامنے آگئے اور ان میں تطبیق کی صورت بھی آپ کے سامنے آ گئی. ایک امام ابوحنیفہ ؒ کا موقف ہے جو امام الفقہاء ہیں اور یہ ایمان کے قانونی پہلو سے متعلق ہے کہ ایمان زبانی اقرار اور دلی تصدیق کے مجموعے کا نام ہے اور عمل کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ‘بلکہ عمل الگ سے ایک کیٹیگری ہے. اور دلی تصدیق کو بھی دنیا میں چونکہ verify نہیں کیا جا سکتا لہذا باقی قول رہ جاتا ہے. اور یہ موقف صد فی صد درست ہے. دوسرا موقف امام المحدثین امام بخاریؒ اور ائمۂ ثلاثہ یعنی امام مالک‘ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کاہے‘ جو حقیقی ایمان سے متعلق ہے اور یہ بھی صد فی صد درست ہے. اِن دومسالک یعنی حنفی مسلک اور اہلحدیث مسلک کی اپنی اپنی جگہ پر بڑی اہمیت ہے. یہ بظاہر دو الگ الگ مسلک ہیں لیکن ان کے مابین ایک مطابقت ہے. اب علماء کرام کا کام ہے کہ ان کے مابین تطبیق پیدا کر کے لوگوں کو دکھائیں. ایک ہی کنویں کا مینڈک بن کر بیٹھ رہنے کے بجائے ہمیں چاہیے کہ دوسروں کے مسالک کا مطالعہ کریں اور غور و فکر کریں کہ ان کا موقف کس بنیاد پر قائم ہے‘ ان کا استدلال کیا ہے. اور یہ کام عوام تو نہیں کر سکتے. عوام کو تو اِس مشکل دَور میں دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں. جیسے امام الہند شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا کہنا ہے کہ اگر کسی معاشرے میں تقسیم دولت کا نظام غلط ہوتا ہے تو اُس کے نتیجے میں وہاں دو طبقے وجود میں آ جاتے ہیں‘ ایک مترفین (haves) اور دوسرے محرومین (have nots) ایک طرف ارتکازِ دولت ہو جائے گا‘ دولت کے انبار لگ جائیں گے. خود لاہور ہی میں اس کا مشاہدہ کرلیجیے کہ کروڑوں روپے کا ایک ایک پلاٹ ہے اور پھر عالی شان کوٹھیاں بنی ہوئی ہیں. ڈیفنس‘ ماڈل ٹاؤن‘ گلبرگ وغیرہ میں آپ کو یہ منظر نظر آ جائے گا . جبکہ دوسری طرف دیکھئے تو بہت بڑی تعداد میں لوگ خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں. انتہائی فقر کا عالم ہے. کچے مکان اور جھگیاں ہیں جہاں بارش آتی ہے تو اُن کی قیامت ہوتی ہے‘ سردی گرمی آتی ہے تو قیامت ہوتی ہے. تو تقسیم دولت کے غلط نظام سے ہمارے ہاں مذکورہ بالا دو طبقات وجود میں آ چکے ہیں. تقسیم دولت کا غلط نظام دو دھاری تلوار ہے. جدھر پیسے کا ارتکازہوجاتا ہے وہاں عیاشی اور بدمعاشی ہوتی ہے‘ دولت کا بے جا اظہار ہوتا ہے‘ گویا یہ شیطان کے چیلے ہیں. اور جہاں فقر و فاقہ ہوتا ہے تو انسان حیوانوں کی سطح پر آ جاتے ہیں‘ جیسے لدو اونٹ یا باربرداری کے جانور ہوں.اب ان سے کیا توقع لگائی جا سکتی ہے کہ وہ اللہ سے لو لگائیں گے! بقول شاعر : ؎ دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے! اِن بے چاروں کے لیے پیٹ بھرنا تو کیا جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا بھی تقریباً ناممکن سا ہو گیا ہے. ایک حدیث نبویﷺ میں تو یہاں تک فرمایا گیا ہے : کَادَ الْفَقْرُ اَنْ یَّــکُوْنَ کُفْرًا (۱۰) ’’قریب ہے کہ فقر انسان کو کفر تک لے جائے!‘‘ اس اعتبار سے مسلکوں کے مابین باہمی تطبیق پیدا کرنا بہت ضروری اور بہت عظیم کام ہے. اس سے فرقہ واریت کی شدت کم ہو گی اور تلخی ختم ہو جائے گی. اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے. آمین! (۱۰) رواہ البیھقی فی شعب الایمان. بحوالہ مشکاۃ المصابیح‘ کتاب الآداب. والسلسلۃ الضعیفۃ للالبانی: ۴۸۰ و ۱۹۰۵.

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَ مَنۡ یُّسۡلِمۡ وَجۡہَہٗۤ اِلَی اللّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ؕ (لقمٰن:۲۲) بَلٰی ٭ مَنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ فَلَہٗۤ اَجۡرُہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ۪ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿۱۱۲﴾٪ (البقرۃ) وَ مَنۡ اَحۡسَنُ دِیۡنًا مِّمَّنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ وَّ اتَّبَعَ مِلَّۃَ اِبۡرٰہِیۡمَ حَنِیۡفًا ؕ وَ اتَّخَذَ اللّٰہُ اِبۡرٰہِیۡمَ خَلِیۡلًا ﴿۱۲۵﴾ (النساء:۱۲۵) لَیۡسَ عَلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیۡمَا طَعِمُوۡۤا اِذَا مَا اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اَحۡسَنُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿٪۹۳﴾ (المائدۃ) ’’حدیث جبریل ؑ‘‘ ہمارے زیر مطالعہ ہے اور اس سے قبل تین نشستوں میں اس پر گفتگو ہو چکی ہے‘ جن میں ہم نے اس کے اہم ترین حصے کا مطالعہ کر لیا ہے. ذرا پس منظر کو ذہن میں لے آیئے کہ ایک موقع پر رسول اللہﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ مسجد نبویؐ میں تشریف فرما تھے کہ اچانک ایک شخص نمودار ہوا. اس کے بال انتہائی سیاہ اور کپڑے انتہائی سفید تھے ‘ اس پر سفر کے کوئی آثار نہیں تھے اور نہ ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کوئی اُس سے واقف تھا. بہرحال وہ شخص بڑھتا چلا گیا اور رسول اللہﷺ کے عین سامنے جا کر بیٹھ گیا‘ آپؐکے گھٹنوں سے اپنے گھٹنے ملا دیے اور آپؐ کے زانوؤں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ دیے. اس شخص نے آپؐ سے کچھ سوالات کیے جن کے آپؐ نے جوابات دیے. جب وہ شخص روانہ ہوگیا تو رسول اللہﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا کہ اے عمر! تمہیں معلوم ہے کہ یہ شخص کون تھا؟ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے عرض کیا : ’’اللہ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں‘‘. آپؐ نے فرمایا: فَاِنَّہٗ جِبْرِیْلُ‘ اَتَاکُمْ یُعَلِّمُکُمْ دِیْـنَـکُمْ ’’یہ جبریل ؑ تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے.‘‘ حضرت جبریل علیہ السلام نے رسول اکرمﷺ سے پہلا سوال کیا: یَا مُحَمَّدُ اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِسْلَامِ! ’’اے محمد(ﷺ )! مجھے بتایئے کہ اسلام کیا ہے‘‘. آپؐ نے جواب دیا تو جبریل ؑ نے تصدیق و توثیق کرتے ہوئے کہا: صَدَقْتَ ’’آپﷺ نے سچ فرمایا‘‘. انہوں نے دوسرا سوال کیا : فَاَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِیْمَانِ! ’’مجھے ایمان کے بارے میں بتایئے!‘‘ آپﷺ نے اس کا جواب دیا تو انہوں نے کہا :صَدَقْتَ ’’آپؐ نے سچ فرمایا‘‘.جبریل علیہ السلام نے رسول اللہﷺ سے تیسرا سوال کیا: فَاَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِحْسَانِ! ’’مجھے احسان کے بارے میں بتایئے ‘‘.آپؐ نے فرمایا: اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ ‘ فَاِنْ لَمْ تَــکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ ’’تمہارا اس کیفیت میں اللہ کی بندگی کرنا گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو. پس اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے (یہ کیفیت پیدا نہیں ہو رہی) تو (یہ کیفیت تو پیدا ہو کہ) وہ تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘. ہم ’’اسلام‘‘ اور ’’ایمان‘‘ پر تو گزشتہ نشستوں میں مفصل گفتگو کر چکے ہیں اور آج کی نشست میں ہمارا موضوع یہی ’’احسان ‘‘ ہے.
احسان ’’احسان‘‘ کا لفظ ’’حُسن‘‘ سے بنا ہے جو کہ اردو میں بھی مستعمل ہے. ہر شخص بخوبی جانتا ہے کہ حسن کے معنی ہیں خوبصورتی‘ عمدگی‘ موزونیت. اور احسان کے معنی ہیں کسی کو حسین بنانا. حَسُنَ‘ یَحْسُنُ کے معنی ہیں حسین ہونا. جیسے رسول اللہﷺ کی تعریف میں کہا گیاہے : حَسُنَتْ جَمِیْعُ خِصَالِہ ’’آپؐ کی تو تمام ہی عادات نہایت حسین تھیں‘‘.اور اَحْسَنَ‘ یُحْسِنُ کے معنی ہیں کسی کو حسین بنانا . ’’احسان‘‘ کو لفظی اعتبار سے اچھی طرح سمجھ لینا ضروری ہے تاکہ اس کی اصل حقیقت واضح ہو جائے‘اس لیے کہ بدقسمتی سے احسان کی جگہ ہمارے ہاں ’’تصوف‘‘ کا لفظ معروف ہو گیا ہے‘ اور اتنا معروف ہوا ہے کہ اس نے لفظ ’’احسان‘‘ کو گویا ہماری لغت سے ہی خارج کر دیا ہے. احسان کے ایک لفظی معنی ہیں کسی پر بھلائی کرنا. سورۃ القصص میں ہے کہ لوگوں نے قارون سے کہا تھا : وَاَحْسِنْ کَمَآ اَحْسَنَ اللّٰہُ اِلَـیْکَ (آیت ۷۷) ’’اورتم بھی لوگوں کے ساتھ اچھائی کا معاملہ کرو جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ اچھائی کی ہے‘‘.یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں دولت مند بنایا ہے تو تم بھی لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے‘ ان کی مدد میں اپنے مال میں سے خرچ کرو. تو احسان کے معنی یہ بھی ہیں کہ کسی کے ساتھ حسن سلوک کرنا‘ بھلائی کرنا. لیکن ہوا یہ ہے کہ لفظ ’’تصوف‘‘ نے آ کر احسان کے اُس اصلی اور بنیادی معنی کو ذہنوں سے بالکل نکال دیا ہے اور ہمارے ذہنوں میں احسان کے صرف یہی معنی (حسن سلوک) رہ گئے ہیں. حالانکہ تصوف کا لفظ نہ قرآن مجید میں آیا ہے نہ حدیث میں. رسول اللہﷺ کے انتقال کے تقریباً دو سو برس بعد تک یہ لفظ استعمال نہیں ہوا. ڈاکٹر میر ولی الدین ایک بہت بڑے مصنف اور مفکر و فلسفی تھے‘ حیدر آباد دکن کی جامعہ عثمانیہ میں شعبۂ فلسفہ کے ہیڈ تھے اور’’ قرآن اور تصوف‘‘ کے عنوان سے ان کی کتاب بھی ہے‘ انہوں نے اس لفظ پر تحقیق کی ہے اور رسالہ قشیریہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ لفظ پہلی مرتبہ ۸۲۲ء (بمطابق ۲۰۰ھ) میں یعنی آنحضورﷺ کے انتقال کے ۱۹۰ برس بعد استعمال ہوا ہے‘ اس لیے کہ آپﷺ کا انتقال ۶۳۲ء میں ہوا ہے. ان کے خیال میں اس لفظ ’’تصوف‘‘ کے بارے میں یہ بھی اتفاق نہیں ہو سکا کہ اس کا مادہ کیا ہے. کوئی کہتا ہے یہ ’’صفا‘‘ سے بنا ہے‘ کسی کے خیال میں ’’صف‘‘ سے بنا ہے اور کسی کی رائے ہے کہ یہ ’’صُفہ‘‘ سے بنا ہے. لیکن ڈاکٹر میر ولی الدین کی رائے میں یہ تمام امکانات قطعاً غلط ہیں. ان کے خیال میں یہ صرف لفظ ’’صُوف‘‘ سے بنا ہے‘ جس کے معنی ’’اُون‘‘ کے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ اس دَور میں آ کر جن لوگوں نے روحانیت کے میدان کو اپنی جولان گاہ بنایاتو انہوں نے اُونی لباس پہننا شروع کر دیا تاکہ جسم کو چبھے اور اسے بجائے راحت دینے کے تکلیف پہنچائے. دراصل روحانیت اور باطنیت (mysticism) کے میدان میں‘ چاہے وہ Christian mysticism ہو‘ چاہے Hindi mysticism ہو‘ چاہے New Platonism ہو‘ یہ چیز لازم ہوتی ہے کہ اپنے نفس کو تکلیف اور ایذا پہنچاؤ. تو اُن کے خیال میں اس ’’صُوف‘‘ سے لفظ ’’صوفی‘‘ بنا ہے.واللہ اعلم! لفظ تصوف کے بارے میں ایک او ر تصور بھی رہا ہے ‘جس کی اگرچہ این میری شمل نے بڑی تردید کی ہے‘ لیکن میرا گمان یہی ہے کہ لفظ ’’تصوف‘‘ کا ماخذ یونانی لفظ ’’sophia‘‘ ہے‘جس کے معنی ہیں حکمت. چنانچہ فلاسفی (Philosophy) کا لفظ جو ہمارے ہاں معروف ہے ‘وہ اصل میں ’’فائلوسوفی‘‘ ہے جس کے معنی ہیں وہ حکمت جو منطق پر مبنی ہو. ایسے ہی تھیوسوفی (Theosophy) کا مطلب ہے حکمت دین‘ معرفت خداوندی کا علم یا بالفاظِ دیگر وجدان. یعنی ایک تو مذہب کا عوامی اور عملی پہلو ہے اور ایک ہے اس کا علمی ‘ فکری اور باطنی پہلو.آج بھی کراچی میں بندر روڈ پر تھیوسوفیکل ہال ہے. ایسے ہی دنیا میں Theosophical Societies رہی ہیں تاکہ تمام مذاہب کے اندر جو باطنی حکمت ہے اس کو ایک قدرِ مشترک کے طور پر سامنے لایا جائے. بہرحال ’’احسان‘‘ کے معنی کسی کے ساتھ حسن سلوک کرنا بھی ہیں اور کسی شے کو حسین بنانا بھی. اب میں حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث نبوی پیش کرتا ہوں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ الْاِحْسَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ ’’یقینا اللہ نے ہر چیز کے بارے میں واجب کیا ہے کہ اس میں خوبصورتی پیدا کی جائے.‘‘اس کی آپﷺ نے مثال دی : فَاِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِِتْلَۃَ ’’پس جب تمہیں کسی کو قتل کرنا ہو تو خوبصورتی کے ساتھ قتل کرو‘‘.قتل کے اندر خوبصورتی سے یہ مراد ہے کہ اگر کوئی شخص شریعت کی گرفت میں آ گیا ہے‘ اس پر قتل کی حد نافذ ہو گئی ہے تو اسے اِس انداز اور طریقے سے قتل کیا جائے کہ اسے کم سے کم تکلیف ہو. قرونِ اولیٰ میں جبکہ اسلامی ریاست اپنی آب و تاب کے ساتھ قائم تھی‘ پیشہ ور جلاد ہوتے تھے جو اپنے اس فن میں ماہر تھے اور وہ تیز دھار آلے سے ایک ہی وار میں گردن کو تن سے جدا کر دیتے تھے جس سے تکلیف کم سے کم ہوتی تھی. اب بھی سعودی عرب میں اسلامی سزائیں نافذ ہیں اور سزاکے طور پر سرقلم ہوتے ہیں تو اِس کا یہی طریقہ ہوتا ہے کہ پیشہ ور جلاد تیز دھار آلے سے ایک ہی وار میں گردن اڑا دیتے ہیں.حدیث کے اگلے ٹکڑے میں آپﷺ نے فرمایا: وَاِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ ’’اور جب (کسی جانور کو) ذبح کرنے لگو تو خوبصورتی اور عمدگی سے ذبح کرو‘‘. اور اس کی وضاحت یوں فرمائی : وَلْیُحِدَّ اَحَدُکُمْ شَفْرَتَہٗ فَلْیُرِحْ ذَبِیْحَتَہٗ (۱۱) ’’اورتم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ ذبح کرتے وقت اپنی چھری کو تیز کرلے اور اپنے ذبیحہ کو راحت پہنچائے (اسے زیادہ تکلیف نہ ہونے دے).‘‘اگر کند چھری سے جانور کو ذبح کرنے کی کوشش کی جائے گی تو ذبیحے کو یقینا بہت زیادہ تکلیف ہو گی جبکہ تیز دھاروالی چھری کے ساتھ ایک ہی وار میں جانور ذبح ہو جائے گا اور اسے تکلیف کم سے کم ہوگی. بہرحال آپ کے سامنے احسان کے لفظی معنی آ گئے ہیں. اسی سے قرآن مجید کی اصطلاح ہے ’’احسانِ اسلام‘‘ یعنی اسلام میں خوبصورتی پیدا کرنا.ایک شخص کا اسلام تو یہ ہے کہ وہ محض مارے باندھے فرائض مثلاً نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ ادا کر رہا ہے. اس میں اس کی دلی آمادگی اور دلی جذبہ شامل نہیں ہے. منہیات کے معاملے میں بھی بے دلی اور تھڑدلے پن کے ساتھ‘ طبیعت کی عدم آمادگی سے محض خانہ پوری کر رہا ہے‘جبکہ ایک شخص پورے اہتمام اور توجہ کے ساتھ اور دل کی پوری آمادگی سے فرائض انجام دے رہا ہے ‘نواہی سے طبیعت کی پوری آمادگی کے ساتھ احتراز کر رہا ہے‘نفلی عبادات پر بھی بھرپور توجہ ہے تو گویا اس کا اسلام درجۂ احسان کو پہنچ گیا ہے. اس کے لیے میں نے’’احسانِ اسلام‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے‘ یا اسے ’’سلوکِ محمدیﷺ ‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے. اسی حوالے سے میں نے آغازِخطاب میں قرآن مجید کے مختلف مقامات سے تین آیات تلاوت کی ہیں. ان میں سے ایک سورۂ لقمان کی آیت ہے جو مکی سورت ہے. فرمایا گیا: وَ مَنۡ یُّسۡلِمۡ وَجۡہَہٗۤ اِلَی اللّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ؕ (لقمٰن:۲۲) ’’اورجو شخص اپنے چہرے کو اللہ کے سامنے جھکا دے (اپنے آپ کو اللہ کے (۱۱) صحیح مسلم‘ کتاب الصید والذبائح وما یوکل من الحیوان‘ باب الامر باحسان الذبیح والقتل وتحدید الشفرۃ. حوالے کر دے) اور وہ محسن ہوتواُس شخص نے فی الواقع مضبوط حلقے کو تھام لیا.‘‘ العُروۃ الوُثْـقیٰ یعنی مضبوط حلقہ یا کنڈا پکڑنے سے کیا مراد ہے‘ اسے یوں سمجھئے کہ اگر کوئی شخص بحری جہاز کے عرشے پر کھڑا ہو اور وہ سمندر میں گر پڑے‘ اسے تیرنا بھی نہ آتا ہو ‘لیکن اس شخص کے ہاتھ میں جہاز کا کوئی کنڈا آ جائے تو یقینا وہ یہی سمجھے گا کہ اب یہ کنڈا ہی اس کی جان ہے‘ اس کنڈے کو اُس نے چھوڑا تو وہ ڈوب جائے گا اوراگر اسے مضبوطی سے تھامے رکھا تو بچنے کا امکان موجود ہے. اس آیت مبارکہ میں اسلام اور احسان کو جمع کر دیا گیا ہے. یعنی اس شخص کا اسلام مارے باندھے اور زبردستی کا نہیں ہے‘ بلکہ وہ دلی آمادگی کے ساتھ شریعت کے اوامر و نواہی پر کاربند ہے.اگرچہ مارے باندھے کے اسلام کو بھی قانونی حیثیت حاصل ہے. اگر کوئی شخص کلمہ پڑھ رہا ہے تو آپ اسے قتل نہیں کر سکتے‘ اِلا یہ کہ اس نے کوئی ایسا جرم کیا ہو کہ اس کی بنا پر اس کی سزا قتل ہو یا یہ کہ اس کا مرتد ہونا ثابت ہو جائے‘ بصورتِ دیگر اسلام اس کے لیے ڈھال ہے. اس کے بارے میں ہم تفصیل سے گفتگو کر چکے ہیں کہ عین حالت ِجنگ میں بھی اگر ایک کافر یہ محسوس کرے کہ اب میں بے بس ہو گیا ہوں‘ لہذا وہ کلمہ پڑھ دے تو پھر بھی آپ اس کو اپنے گمانِ غالب کی بنا پر کہ اس نے صرف جان بچانے کے لیے یہ حیلہ کیا ہے‘ قتل نہیں کر سکتے. اس کا کلمہ اس کے پاس ڈھال ہے. تو قانونی سطح پراسلام کی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلم ہے‘ لیکن اصل اسلام جو مطلوب ہے وہ احسان والا اسلام ہے‘ یعنی اس میں خوبصورتی ہو‘ اس میں طبیعت کی پوری آمادگی ہو.پورے انہماک کے ساتھ‘ اپنی امکانی جدوجہد کے ساتھ ان کاموں کو انجام دیا جائے. دوسرا مقام سورۃ البقرۃ کی آیت ہے : بَلٰی ٭ مَنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ فَلَہٗۤ اَجۡرُہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ۪ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿۱۱۲﴾٪ ’’کیوں نہیں‘ جس شخص نے اپنا چہرہ اللہ کے سامنے جھکا دیا (سرتسلیم خم کر دیا) اوروہ ہوا محسن (یعنی اس نے بہت عمدگی اور دلی آمادگی کے ساتھ ‘بہتر سے بہتر اندازمیں اوامر و نواہی کا خیال رکھا) تو اس کے لیے یقینا اس کا اجر اس کے ربّ کے پاس محفوظ ہے. اور ایسے لوگوں کے لیے نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے.‘‘ اس ضمن میں تیسرا مقام سورۃ النساء کا ہے ‘جہاں فرمایا گیا: وَ مَنۡ اَحۡسَنُ دِیۡنًا مِّمَّنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ… (آیت ۱۲۵) ’’اور اُس شخص سے بہتر دین کس کا ہو گا جس نے اپنا چہرہ اللہ کے سامنے جھکا دیا (سرتسلیم خم کر دیا) اور وہ بھی احسان کی کیفیت کے ساتھ…‘‘ مذکورہ بالا آیات میں بھی دیکھئے کہ اسلام اور احسان کو جوڑ دیا گیا ہے . حدیث زیر مطالعہ میں ’’اسلام‘ ‘اور ’’احسان‘‘کے درمیان ’’ایمان‘‘ کا ذکر ہے. حضرت جبریل ؑ نے رسول اللہﷺ سے پہلا سوال کیا: اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِسْلَامِ! دوسرا سوال کیا : اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِیْمَانِ! اور پھر اگلا سوال کیا: اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِحْسَانِ! یہ وہی بات ہے جو سورۃالمائدۃ کی آیت ۹۳ میں آئی ہے : لَیۡسَ عَلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیۡمَا طَعِمُوۡۤا اِذَا مَا اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اَحۡسَنُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿٪۹۳﴾ ’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے انہوں نے پہلے جو کچھ کھایا پیا اس پر کوئی گرفت نہ ہو گی جبکہ ان کا طرزِ عمل یہ رہا ہو کہ انہوں نے تقویٰ کی روش اختیار کی اور ایمان لائے اور عمل صالح کیے‘ پھر مزید تقویٰ کا اضافہ کیا اور ایمان لائے‘ پھر مزید تقویٰ اختیار کیا اور احسان کی روش اختیار کی. اور اللہ محسنین سے محبت رکھتا ہے.‘‘ یہاں تین درجے آ رہے ہیں :اسلام‘ ایمان اور احسان. اور حدیث زیر مطالعہ میں بھی یہی تین درجے ہیں: اسلام‘ ایمان اور احسان. اب یہاں دیکھئے کہ رسول اللہﷺ نے احسان کی کیا تعریف بیان فرمائی. حضرت جبریل علیہ السلام نے رسول اللہﷺ سے استفسار کیا: فَاَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِحْسَانِ! ’’اب آپ مجھے احسان کے بارے میں بتایئے‘‘.تو آپؐ نے جواب ارشاد فرمایا: اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ ‘ فَاِنْ لَمْ تَــکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ ’’یہ کہ تم اِس کیفیت میں اللہ کی بندگی کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو. پس اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے (یہ کیفیت پیدا نہیں ہو رہی) تو (یہ کیفیت تو پیدا ہو کہ) وہ تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘. یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کے الفاظ ہیں. انہی کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکی روایت کے الفاظ ہیں: اَنْ تَخْشَی اللّٰہَ تَعَالٰی کَاَنَّکَ تَرَاہُ ‘ فَاِنْ لَّمْ تَـکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّـہٗ یَرَاکَ ’’کہ تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اِس شدت کے ساتھ کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو. پس اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے (یہ کیفیت پیدا نہیں ہو رہی) تو (یہ کیفیت تو پیدا ہو کہ) وہ تمہیں دیکھ رہا ہے.‘‘اور حبرالامۃ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکی روایت کے الفاظ ہیں: اَنْ تَعْمَلَ لِلّٰہِ… ’’کہ تو عمل کرے اللہ کے لیے (یا محنت کرے اللہ کے لیے)…‘‘ یہ تین الفاظ ذہن میں رکھئے : اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ ‘ اَنْ تَخْشَی اللّٰہَ ‘ اَنْ تَعْمَلَ لِلّٰہِ . حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت‘ جو کہ حدیث جبریل ؑ کا مقبولِ عام version ہے‘ اس میں لفظ ’’عبادت‘‘ آیا ہے. چونکہ ہمارے ہاں عوامی سطح پر عبادت کا محدود تصور ہے لہٰذا یہ لفظ اس حدیث کو سمجھنے میں حجاب بن گیا ہے. عوامی سطح پر عبادت کا تصور محض نماز ‘روزہ‘ حج اور زکوٰۃ تک محدود ہے‘ اور ’’احسان‘‘ انہی چیزوں کے ساتھ مقید ہو کر رہ گیا ہے کہ بس نماز بہتر سے بہتر ہو اور بڑی عمدگی سے پڑھی جائے. اس میں خشوع و خضوع ہو‘ تعدیل ِارکان کا لحاظ رکھا جائے‘ وغیرہ وغیرہ. ایسے ہی دیگر عبادات خوش اسلوبی سے ادا کی جائیں اور بس. احسان کو صرف عبادات تک محدود کر دینے سے اس حدیث کے عموم میں محجوبیت پیدا ہو سکتی تھی‘ مگر اللہ کا شکر ہے کہ دیگر دو روایتوں کے اندر اس کا مفہوم کھل کر سامنے آرہا ہے. چنانچہ اس حدیث میں عبادت کا مفہوم صرف عبادات تک محدود نہیں ہے‘ بلکہ یہ ہمہ گیر ہے‘ البتہ اس میں عبادات بھی شامل ہیں. دراصل عبد کے معنی غلام کے ہیں اور غلامی میں آقا کی ہمہ تن‘ ہمہ وقت اور ہمہ جہت اطاعت ہوتی ہے. اس لیے کہ غلام مملوک ہوتا ہے‘ ملازم (employee) نہیں ہوتا کہ ا س نے اتنے گھنٹے کام کرنا ہے‘ باقی اوقات میں وہ آزاد ہے. لہذا عبادت اور بندگی میںemployee اور employer کا تعلق ذہن سے نکال دیجیے! ملازم تو کہہ سکتا ہے کہ آپ نے مجھے باورچی کی حیثیت سے ملازم رکھا ہے لہٰذا میں آپ کے گھر کی صفائی نہیں کروں گا. لیکن غلام تو اپنے آقا کی ملکیت ہوتا ہے‘ لہذا وہ اسے یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں فلاں کام تو کروں گا ‘فلاں کام نہیں کروں گا. اسے تو ہمہ وقت‘ ہمہ تن اور ہمہ جہت اطاعت کرنی ہے. سورۃ الذّٰریٰت میں دو ٹوک الفاظ میں فرمایا گیا:وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ ’’اورمیں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر اپنی عبادت (ہر آن بندگی) کے لیے.‘‘ شیخ سعدیؒ نے اپنے ایک شعر میں اس آیت کی بہت خوبصورت ترجمانی کی ہے: ؎ زندگی آمد برائے بندگی زندگی بے بندگی شرمندگی! دوسری چیز جو اِس عبادت کا لازمی حصہ ہے وہ عبادت میں ’’محبت‘‘ کا عنصر ہے. یعنی عبادتِ الٰہی کا مطلب ہے محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر ہمہ تن اور ہمہ جہت اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنا. اس کے لیے فارسی کا ایک لفظ ہے ’’بندگی‘‘ اور ایک ہے ’’پرستش‘‘. ان دونوں کو جمع کریں گے تو عبادت بنے گی.بہرحال عبادات یعنی نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ ہی عبادت نہیں ہیں‘ البتہ یہ عبادت میں شامل ضرور ہیں. یہ عظیم تر اور ہمہ گیر عبادت یعنی ہر آن بندگی کے لیے انسان کو تیار کرتی ہیں اور اس کے لیے مدد فراہم کرتی ہیں.اس لیے کہ عبادت یعنی ہمہ تن‘ ہمہ وقت اور ہمہ جہت اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اطاعت کرنا آسان کام نہیں ہے. اس کے لیے مدد کی ضرورت ہے. نماز ‘روزہ ‘ زکو ٰۃ اور حج اسی کام کے لیے مدد فراہم کرتے ہیں. رسول اللہﷺ فرما رہے ہیں کہ احسان یہ ہے کہ تم اِس کیفیت میں اللہ کی بندگی کرو‘ یا بالفاظِ دیگر اس کیفیت میں اللہ سے ڈرو‘ اس کی راہ میں جدوجہد اور بھاگ دوڑ کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو. یہ اصل میں ایمان و یقین کی انتہائی کیفیت کا نام ہے. ایمان درحقیقت بِالْغَیْبِ ہے
اللہ تعالیٰ ہمارے سامنے تو نہیں ہے ‘البتہ ہمارے پاس ضرور ہے. جیسے فرمایا گیا: وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ ﴿۱۶﴾ (قٓ) ’’اورہم انسان سے اس کی رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں‘
.لیکن غیب کا ایک پردہ حائل ہے . دراصل حدیث زیر مطالعہ میں ایمان کی شدت اور اس کی ایک جہت (dimension) بیان ہو رہی ہے کہ ایمان کی گہرائی اتنی شدید ہو کہ گویا تم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو.
یہاں الفاظ آئے ہیں: کَاَنَّکَ تَرَاہُ ’’گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو‘‘. اس لیے کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ کو دیکھنا ممکن نہیں ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر ہیں. انہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ مکالمے کا شرف نصیب فرمایا تو انہوں نے مکالمے کے شرف سے ہمت پا کر استدعا کی:
قَالَ رَبِّ اَرِنِیۡۤ اَنۡظُرۡ اِلَیۡکَ ؕ (الاعراف:۱۴۳)
’’اے پروردگار! تو مجھ کو یارائے نظر دے کہ میں تجھے دیکھوں (یعنی مجھے اپنا دیدار نصیب فرما)‘‘.تو جواب ملا : لَنْ تَرٰٹنِیْ ’’تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے‘‘.
بلکہ رسول اللہﷺ کے بارے میں بھی اختلاف ہے کہ آپؐ نے شبِ معراج میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا یا نہیں . قرآن مجیدمیں تو یہی ہے کہ :
لَقَدۡ رَاٰی مِنۡ اٰیٰتِ رَبِّہِ الۡکُبۡرٰی ﴿۱۸﴾ (النجم) ’’اُس نے اپنے ربّ کی عظیم ترین آیات کا مشاہدہ کیا‘‘.
لیکن بہرحال صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ایک رائے یہ موجود ہے کہ آپؐ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا. چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رائے یہی ہے ‘البتہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ نہیں ہے. اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی جب پوچھا گیا کہ کیا رسول اکرمﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا؟ تو آپؓ نے بہت خوبصورت الفاظ میں فرمایا: نُوْرٌ اَنّٰی یُرٰی؟ ’’وہ تو نور ہے‘ اسے دیکھا کیسے جائے گا؟‘‘ اس لیے کہ نور کے ذریعے سے تو آپ کسی چیز کو دیکھتے ہیں لیکن نور کو تو نہیں دیکھ سکتے! بہرحال کَاَنَّکَ تَرَاہُ سے مراد ہے اللہ پر‘ اس کے وجود اور اس کی حقیقت پر اِس قدر یقین ہو جائے جس قدر کسی چیز کو آنکھوں سے دیکھنے سے یقین پیدا ہوتا ہے . رسول اللہﷺ کے جو اگلے الفاظ ہیں: فَاِنْ لَمْ تَــکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ ’’پس اگر تم اسے نہیں دیکھ سکتے (یہ کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی) تو (کم از کم یہ کیفیت تو پیدا ہو کہ) وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ‘‘.اس ٹکڑے کے دو مفہوم لیے گئے ہیں. ایک تو یہ کہ یہ پہلے ٹکڑے کی وضاحت ہے کہ اگرچہ تم اللہ کو نہیں دیکھ پاتے لیکن وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے. دوسرا مفہوم یہ لیا گیا ہے کہ یہ احسان کا ادنی ٰ درجہ ہے ورنہ اونچا درجہ تو یہی ہے کہ ایمان کے اندر اتنی شدت پیدا ہو جائے گویا تم اللہ کو فی الواقع اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو. لیکن اگر یہ کیفیت حاصل نہ ہو سکے تو اس سے کم ترد رجے میں یہ یقین ہو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے. یعنی یہ استحضار ہو کہ میں ہر آن اللہ کی نگاہ میں ہوں‘ اللہ مجھے دیکھ رہاہے. قرآن مجید میں رسول اللہﷺ سے خطاب فرماتے ہوئے کہاگیا: فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا (الطور:۴۸) ’’پس (اے نبیؐ !) آپ یقینا ہماری نگاہوں میں ہیں‘‘.ہم آپ کو دیکھ رہے ہیں. بندۂ مؤمن کے لیے یہ کیفیت کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے‘ بہت حوصلہ افزا اور پرمسرت ہوتی ہے. جب وہ کوئی نیک کام کر رہا ہوتا ہے‘ فی سبیل اللہ کوئی کام کر رہا ہوتا ہے‘ دین کی کوئی خدمت سرانجام دیتے ہوئے اس کے لیے بھوک پیاس برداشت کر رہا ہوتا ہے اور تکلیف جھیل رہا ہوتا ہے تو اُس وقت یہ احساس اس کے لیے اس قدر دلجوئی کا سامان فراہم کرتا ہے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے‘ میرا مالک جس کے لیے میں یہ سب کچھ کر رہا ہوں‘ وہ مجھے دیکھ رہا ہے. ایسا نہیں ہے کہ ؏ ’’مر گئے ہم انہیں خبر نہ ہوئی‘‘.ہم تو ان کے لیے اپنا سب کچھ لٹا بیٹھے اور انہیں پتا بھی نہیں چلا. نہیں‘ بلکہ میری ساری قر بانیاں‘ محنتیں اور بھاگ دوڑ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے. بہرحال کسی بندۂ مؤمن کے دل میں یہ یقین پیدا ہو جانا کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے‘ یہ بھی درجۂ احسان پر فائز ہونے کے لیے کافی ہے. لیکن اگر اس سے بھی آگے ایمان و یقین میں یہ گہرائی پیدا ہو جائے کہ بندۂ مؤمن کو یہ احساس ہو کہ گویا وہ خود اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے تو یہ اس سے بھی آگے کی چیز ہے. چنانچہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف سے اس قسم کی باتیں کہی گئی ہیں. رسول اللہﷺ کی عادتِ شریفہ تھی کہ آپﷺ فجر کی نماز کے بعد تھوڑی دیر کے لیے مسجد نبویؐ میں تشریف رکھتے تھے اور صحابہ کرامؓ سے کچھ گفتگو ہوتی تھی. کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو بیان کرتا تھا. اس کے علاوہ سوال و جواب بھی ہوتے تھے . ایک مرتبہ آپؐ نے ایک صحابیؓ سے دریافت فرمایا: کَیْفَ اَصْبَحْتَ؟ ’’ آج تمہیں کیسی صبح نصیب ہوئی ہے؟‘‘ تو اُن کا جواب بڑا غیر معمولی تھا : اَصْبَحْتُ مُؤْمِنًا حَقًّا ’’مجھے تو آج سچے مؤمن کی صبح نصیب ہوئی ہے‘‘. رسول اللہﷺ نے دریافت فرمایا: فَمَا حَقِیْقَۃُ اِیْمَانِکَ ’’تمہارے ایمان کی حقیقت کیا ہے؟‘‘ یعنی تم جو کہہ رہے ہو کہ مجھے سچے مؤمن کی صبح نصیب ہوئی ہے تو اس کی کیا حقیقت اور کیفیت ہے؟ انہوں نے عرض کیا : ’’کَأَنِّیْ اَنْظُرُ اِلٰی عَرْشِ رَبِّیْ بَارِزًا‘ وَکَأَنِّیْ اَنْظُرُ اِلٰی اَھْلِ الْجَنَّۃِ یَتَمَتَّعُوْنَ فِیْھَا وَاِلٰی اَھْلِ النَّارِ یُعَذَّبُوْنَ فِیْھَا‘‘ (۱۲)’’(میرے یقین کی کیفیت یہ ہے) گویا میں اپنے ربّ کے عرش کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں‘ اور گویا اہل جنت کو جنت کی نعمتوں سے متمتع ہوتے ہوئے اور اہل دوزخ کو دوزخ میں عذاب سے دوچار ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں‘‘. لہذا اگر اللہ کے لیے جدوجہد اور بھاگ دوڑ کرتے ہوئے‘ اللہ سے ڈرتے ہوئے استحضار اللہ فی القلب یہ کی کیفیت پیدا ہو جائے اور عبادت میں حسن اور نکھار پیدا ہو جائے تو یہ درحقیقت ’’احسانِ اسلام‘‘ یا باصطلاحِ دیگر ’’سلوکِ محمدیؐ ‘‘‘ ہے اور یہ دل میں یقین کی گہرائی سے پیدا ہوتا ہے.
اب یوں سمجھئے کہ ہمارے سامنے تین درجے آگئے .
  1. ایمان اگر صرف زبان پر آجائے تو یہ ’’اسلام‘‘ ہے‘
  2. اگر دل میں داخل ہو جائے تو یہ ’’ایمان‘‘ ہے اور
  3. اگر یہ دل کی گہرائیوں میں اتر جائے تو ’’احسان‘‘ہے.
دل کی گہرائیوں کے بارے میں یہ جان لیجیے کہ اس کی گہرائیاں بہت اتھاہ ہیں. اور جسے ہم ’’دل‘‘ کہتے ہیں ایک تو یہ گوشت کا لوتھڑا ہے جس کا کام ہے خون پمپ کرنا. یہ پھیپھڑوں کی طرف سے صاف شدہ خون لے کر پورے جسم کی طرف دھکیل دیتا ہے اور پورے جسم سے وہ خون لے کر جس کے اندر آلائشیں وغیرہ جمع ہو گئی ہو تی ہیں‘ پھیپھڑوں کی طرف دھکیل دیتا ہے ‘تاکہ وہاں اس کی صفائی ہو جائے. تو یہ دل جو گوشت کا ایک ٹکڑا ہے ‘یہ محض پمپ کے سوا کچھ بھی نہیں (۱۲) الاستقامۃ لابن تیمیہ : ۱/۱۹۴ والایمان لابن ابی شیبۃ: ۱۱۴.

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ کی اس طرح کی گفتگو حضرت حارثہ بن سراقہ رضی اللہ عنہ سے بھی ہوئی تھی اور حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی. ہے. لیکن دین کے اعتبار سے‘ قرآن کے اعتبار سے یہ اصل میں روح ِانسانی کا مرکز اور محل ہے‘ اور رُوح کا تعلق ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ براہِ راست ہے. لہذا آپ اس قلب کی گہرائی ناپ نہیں سکتے.سلطان باہو نے بہت خوبصورت بات کہی ہے : ؏’’دل دریا سمندروں ڈونگھے‘ کون دلاں دیاں جانے ہو!‘‘واقعۃً یہ دل دریاؤں اور سمندروں سے بھی زیادہ گہرا ہے. اور جب ایمان اس گہرائی میں جاگزیں ہو جائے تو یہ احسان ہے. احسان اس سے کوئی علیحدہ اور مصنوعی شے نہیں ہے. ایمان کی ان کیفیتوں کا ذکر سورۃ الحجرات میں موجود ہے جس کا ہم اپنی اِن گفتگوؤں میں بار بار ذکر کرتے آئے ہیں. فرمایا گیا: قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ (آیت ۱۴) ’’یہ بدو دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے. (اے نبیؐ !) ان سے کہہ دیجیے تم ہرگز ایمان نہیں لائے‘ لیکن یہ کہہ سکتے ہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا.‘‘ یہاں مثبت انداز میں اسلام کا ذکر آیا ہے اور پھر منفی انداز میں ایمان کا ذکر ہوا ہے. اور اسی سورت کی آیت ۷ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں فرمایا گیا: وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیۡکُمُ الۡاِیۡمَانَ وَ زَیَّنَہٗ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ (الحُجُرٰت) ’’مگر اللہ نے تمہارے لیے ایمان کو نہایت محبوب کر دیا ہے اور اس کو تمہارے دلوں کے اندر خوشنما بنا دیا ہے.‘‘ یہ وہ کیفیت ہے جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ایمان کی گہرائی کے نتیجے میں حاصل ہو چکی تھی اور یہی احسان ہے. باقی یہ کہ ہمارے ہاں مروّجہ تصوف کے زیر اثر جو کیفیات آئی ہیں اس کی کیا وجہ ہے اور ’’احسانِ اسلام‘‘ جسے ہم ’’سلوکِ قرآنی‘‘ یا ’’سلوکِ محمدیﷺ ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں‘ اس میں اور تصوف میں کیا فرق ہے‘ یہ اس بحث کا موقع نہیں ہے. اس موضوع پر ’’مروجہ تصوف یا سلوک محمدیﷺ ‘ یعنی احسانِ اسلام‘‘کے عنوان سے میرا ایک بہت اہم کتابچہ ہے. اس میں ذرا دقیق بحثیں بھی ہوئی ہیں. اس کا لفظ بلفظ مطالعہ مفید رہے گا. اور خاص طو رپر اس کا جو انگریزی ترجمہ ہوا ہے :
"The Reality of Tasawwuf, in the Light of the Prophetic Model." اس میں کچھ اضافے بھی کیے گئے ہیں. دراصل ہمارے ہاں جدید تعلیم یافتہ اور مرفہ‘الحال لوگوں کے اندر جب کبھی دین کی طرف رجحان پیدا ہوتا ہے تو وہ تصوف کا راستہ اختیار کرتے ہیں. تو اِس حقیقت کو اُن پر منکشف کرنے کے لیے یہ انگریزی کتابچہ بہت اہم ہے. رسول اکرمﷺ نے لوگوں کو احسان کی تعلیم و تربیت دی‘ ان کا تزکیہ کیا اوراُن سے قربِ خداوندی کے مراحل طے کروائے! آپﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کس طور سے یہ کام کیا تھا اور ہمارے مروّجہ تصوف میں کیا شکل پیدا ہو گئی ہے اور کس طور سے ایک علیحدہ راستہ اختیار کر لیا گیا ہے‘ اس کا ایک خاص سبب ہے جسے بیان کرنے کااِس وقت موقع نہیں ہے. یہاں جبریل علیہ السلام کے تیسرے سوال ’’احسان‘‘ کی بحث ختم ہوتی ہے. حضرت جبریل علیہ السلام نے رسول اللہﷺ سے چوتھا سوال کیا: اَخْبِرْنِیْ عَنِ السَّاعَۃِ! ’’اب مجھے قیامت کے بارے میں بتایئے!‘‘ یعنی قیامت کب آئے گی؟
آپؐ نے فرمایا: مَا الْمَسْئُوْلُ عَنْھَا بِاَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ ’’جس سے قیامت کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا‘‘.آپﷺ نے صاف اعتراف کیا کہ میں اس بارے میں آپ سے زیادہ نہیں جانتا. قرآن مجید کے اندر بہت واضح طور پر فرمایا گیا ہے : یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ السَّاعَۃِ اَیَّانَ مُرۡسٰہَا ﴿ؕ۴۲﴾فِیۡمَ اَنۡتَ مِنۡ ذِکۡرٰىہَا ﴿ؕ۴۳﴾اِلٰی رَبِّکَ مُنۡتَہٰىہَا ﴿ؕ۴۴﴾ (النّٰزعٰت) ’’(اے نبیؐ !) یہ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ وہ کب لنگر انداز ہو گی. آپ کو کیا کام اس کے ذکر سے! اس کی پہنچ (اس کا علم) تو تیرے ربّ پر ختم ہے‘‘. یعنی آپؐ ‘ کا کام ہے محض خبردارکرناکہ یہ لازماً آئے گی‘ اس کے لیے تیاری کر لو. لیکن یہ کب آئے گی‘ اس سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے. اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے. تو آپﷺ نے اس کا جواب دینے سے معذرت کر لی. اب انہوں نے پانچواں سوال کیا: فَاَخْبِرْنِیْ عَنْ اَمَارَاتِھَا؟ ’’تو مجھے اس کی علامات کے بارے میں بتادیجیے
(جس سے اندازہ ہو جائے کہ وہ زمانہ اب قریب آ گیا ہے)‘‘. علاماتِ قیامت ایک مستقل موضوع ہے. کتب احادیث میں اشراط الساعۃ اور علامات القیامۃ کے عنوان سے باقاعدہ ابواب باندھے گئے ہیں. اس ضمن میں کچھ تو ابتدائی اور عمومی انداز کی اور چھوٹی علامات ہیں اور دس بڑی علامتیں ہیں.ان میں دجال کا ظہور ‘ حضرت مہدی کا ظہور ‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ‘ دھوئیں کا معاملہ اور خسف کا تذکرہ ہے کہ زمین تین جگہ سے دھنس جائے گی‘ وغیرہ . یہ مختلف اشراط الساعۃ ہیں. اس سوال کے جواب میں آپؐ نے دو علامات کا ذکر فرمایا ہے جو ہمارے لیے بہت چشم کشا ہیں. آپﷺ نے فرمایا: اَنْ تَلِدَ الْاَمَۃُ رَبَّـتَھَا ’’ کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی‘‘. اس کے معانی یہ ہیں کہ ایک دَور آئے گا کہ اولاد میں اتنی سرکشی پیدا ہو جائے گی کہ وہ اپنے والدین کے اوپر گویا حاکم ہو جائیں گے. والدین ڈریں گے کہ ان سے میں نے کچھ کہہ دیا تو نا معلوم کیا جواب دیں . یہ کیفیت آج ہمارے ہاں پیدا ہوچکی ہے.اور خاص طو رپر یہ بات چونکا دینے والی ہے کہ آپﷺ لڑکیوں کے بارے میں فرما رہے ہیں کہ بیٹیاں اپنی ماؤں کے ساتھ لونڈیوں کا سا سلوک کریں گی. حالانکہ لڑکیوں کا معاملہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ یہ والدین کی زیادہ تابع فرمان ہوتی ہیں‘ ان کے سامنے سرجھکا کر رکھتی ہیں اور خاص طور پر ماؤں کا زیادہ ادب اور اُن سے زیادہ محبت رکھتی ہیں. لیکن آپؐ فرما رہے ہیں کہ بیٹیاںاپنی ماؤں کے ساتھ اپنی باندیوں کا سا سلوک کریں گی. اور یہ کیفیت بھی آج رونما ہو چکی ہے. رسول اللہﷺ نے قیامت کی دوسری علامت یہ بتائی: وَاَنْ تَرَی الْحُفَاۃَ الْعُرَاۃَ الْعَالَۃَ رِعَائَ الشَّائِ یَتَطَاوَلُوْنَ فِی الْبُنْیَانِ ’’اور یہ کہ تم دیکھو گے کہ ننگے پیر رہنے والے‘ ننگے بدن رہنے والے‘ انتہائی مفلس اور قلاش‘ بکریوں کے چرواہے اونچی اونچی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گے‘‘.یہ وہ چیز ہے جسے آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں. پچاس ساٹھ سال پہلے کے عالم عرب میں اور آج کے عالم عرب میں جو تضاد (contrast) واقع ہو چکا ہے وہ بہت نمایاں نظر آ رہا ہے.ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہوتا تھا. حج کے موقع پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے قربانی کا جو حکم دیا ہے تو اس کی حکمت یہ بھی تھی کہ وہاں کے رہنے والوں کو کھانے کو کچھ میسر آ جائے. ورنہ عالمِ عرب تو قرآن کے الفاظ میں ’’وَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ‘‘ یعنی ایک غیر زرخیز وادی تھی جہاں کوئی پیداوار نہیں ہوتی تھی. حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دُعا کی تھی : رَبَّنَاۤ اِنِّیۡۤ اَسۡکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرِ ذِیۡ زَرۡعٍ عِنۡدَ بَیۡتِکَ الۡمُحَرَّمِ ۙ… (ابرٰہیم:۳۷) ’’اے پروردگار! میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسا یا ہے…‘‘ یعنی اب تو ہی ان کی غذا کا بندوبست کر. ان لوگوں کا حال یہ تھا کہ قربانیوں کے گوشت پر جھپٹ پڑتے تھے‘ کھینچ کر لے جاتے تھے اور سکھا کر پھر سال بھر کھاتے تھے. پھر یہ کہ انہی قربانیوں کی وجہ سے بھیڑیں اوربکریاں پال کر بیچتے تھے اور یہی ان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہوتا تھا.تو عالم عرب کی یہ صورتِ حال تھی. لیکن اب صورتِ حال یہ ہے کہ وہاں دولت کی ریل پیل ہے‘ہر قسم کی سہولت میسرہے‘ بلکہ ان کے مشرقی ساحل پر یورپ کے شہروں کو بھی مات دینے والے شہر آبادہوچکے ہیں. آگے رسول اللہﷺ جو فرما رہے ہیں : یَتَطَاوَلُوْنَ فِی الْبُنْیَانِ تو اس میں لفظ ’’یَتَطَاوَلُ‘‘ کو سمجھ لیجیے! یہ باب ’’تفاعل ‘‘سے ہے جس کی یہ صفت ہے کہ اس میں مبالغے کا مفہوم بھی ہوتا ہے اور مقابلے کا بھی. یعنی یہ عرب نہ صرف اونچی اونچی عمارتیں بنائیں گے بلکہ ان اونچی عمارتوں کے بنانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گے. آج یہ منظر ہماری آنکھوں کے سامنے ہے کہ ایک شخص نے اگرچالیس (۴۰) منزلہ عمارت بنائی ہے تو اس کے مقابلے میں دوسرا پینتالیس (۴۵) منزلہ عمارت بنائے گا. حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی حدیث جبریل ؑ میں ایک اور سوال بھی ہے. حضرت جبریل علیہ السلام سوال کر رہے ہیں : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! وَمَنْ اَصْحَابُ الشَّائِ الْحُفَاۃُ الْجِیَاعُ الْعَالَۃُ؟’’اے اللہ کے رسولؐ !بکریاں چرانے والے‘ برہنہ پا‘ بھوکے‘ تنگ دست کون لوگ ہیں؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا: اَلْـعَرَبُ ’’وہ عرب ہوں گے‘‘. چنانچہ حدیث میں یہ پیشین گوئی بھی موجود ہے کہ وہ عرب ہوں گے. ویسے تو دنیا میں اور جگہوں پر بھی ترقیاں ہوئی ہیں‘ افلاس کے بعد دولت کی ریل پیل ہوئی ہے ‘ اونچی اونچی اور شاندار عمارتیں بنی ہیں‘لیکن عالم عرب میں گزشتہ چند دہائیوں میں جو ترقی ہوئی ہے اس کی نظیر نہیں ملتی. ایک موقع پر رسول اللہﷺ نے فرمایا: اِنَّمَا بُعِثْتُ اَنَا وَالسَّاعَۃُ کَھَاتَیْنِ (۱۳) ’’میں اور قیامت اس طرح ہیں جیسے یہ دو انگلیاں ملی ہوئی ہیں‘‘.اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ میرے بعد اب کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد اب کوئی اُمت نہیں. اَنَا آخِرُ الْمُرْسَلِیْنَ وَاَنْتُمْ آخِرُ الْاُمَمِ ’’میں آخری رسول ہوں اور تم آخری اُمت ہو‘‘. اب تو گویا قیامت ہی آئے گی. اور ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ آپﷺ کی بعثت اور قیامت زمانے کے اعتبار سے دونوں جڑے ہوئے ہیں. یعنی آپﷺ کی بعثت کے بعد سے قیامت میں کوئی فاصلہ نہیں ہے. اس موضوع پر بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہیں.جامعۃ الازہر کے عالم دین پروفیسر امین محمد جمال الدین کی کتاب ’’عُمَرُ اُمَّۃِ الْاِسْلَام‘‘ کا اردو ترجمہ ’’اُمت مسلمہ کی عمر‘‘ ہم نے بھی شائع کی ہے. حدیث زیر مطالعہ میں رسول اکرمﷺ نے جو دو علاماتِ قیامت بتائی ہیں ان کے ظہور پذیر ہونے سے قیامت کا معاملہ اب بہت قریب معلوم ہوتا ہے. آج ہر شخص ان علامتوں کو بچشم سر دیکھ سکتا ہے. اللہ تعالیٰ اس حدیث جبریل ؑ کو ہمارے لیے علم و حکمت کا ذریعہ بنا دے اور اِن باتوں کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے. آمین! اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات (۱۳) صحیح البخاری‘ کتاب الرقاق‘ باب قول النبیﷺ بعثت انا والساعۃ کھاتین. وصحیح مسلم‘ کتاب الجمعۃ‘ باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ. ڈاکٹر اسرار احمد (رح)
Source/ References: https://urdupub.com/r-95-705/
أصول المعرفة الإسلامية (Fundaments of Islamic Knowledge)

پوسٹ لسٹ