رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

مقام صحابہ کرام (رض): اشتباھات و حقائق


صحابہ رسول اللہﷺ پر بات کرنا کسی مسلمان کے لئے باعث عزت ہے- کیونکہ یہ عظیم ہستیاں رسول اللہﷺ کے ساتھی تھے جو مشکل وقت میں آپ کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہونے سختیاں اورتکلیفیں برداشت کیں، اپنی جان، مال، فیملی سب کچھ اسلام پر قربان کیا اوررسول اللہ ﷺ سے براہ راست اسلام کی تعلیم حاصل کرکہ قرآن، سنت، حدیث ہم تک پہنچانے کی ذمہ داری بخوبی سرانجام دی، ہم ان کے شکر گزار ہیں- انسانی کمزوریوں سے کوئی شخصیت مبرا نہیں، لیکن صالح مومن وہ ہے جو اپنی غلطیوں کو قبول کرکہ نیکیوں سے ازالہ کرتا ہے اور الله تعالی کی رضا پر خوش رہتا ہے- ان حضرات کی ایک خاص حیرت انگیز خوبی کہ وہ  رسول اللہﷺ پرجھوٹ نہیں بولتے تھے-  گناہ اور سچ  کی ایک انتہائی مثال؛ ایک شخص اپنے خلاف گناہ کی شہادت چار بار خود رضاکارانہ طورپراوربچاو کے مواقع مہیا کیئے جانے کے باوجود رجم کی تکلیف دہ موت قبول کرے صرف الله تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لیے، اس سے سچا کون ہو سکتا ہے؟ جس کا جنازہ  پڑھا کر رسول اللہ ﷺ کلمہ  خیربھی فرمائیں تو کیا اللہ اس سزاوار کو معاف کرکہ راضی نہ ہوگا؟ [1] کیا اس کی تضحیک کرنا مناسب ہے؟ ایسی مثال دوبارہ 1400سالہ اسلامی تاریخ میں شاید ہی ملے، یہ ہے ایک گناہگار ترین صحابی کا مقام تو باقی کا کیا مقام ہو گا اندازہ لگا لیں-

الله تعالی نے اولین، ایمان میں سبقت کرنے والے اور بیعت رضوان کرنے والے صحابہ کرام کو "رضی الله " کے اعزاز سے نوازا اور انکا احسان سے اتباع کرنے والوں کو بھی اس اعزاز کا مستحق ٹھرایا-  رسول اللہﷺ کے بعد آئیڈیل اسلامی شخصیات کا گروہ ان پرمشتمل ہے جن میں سب سے أعلى چار خلفاء راشدین (رضی اللہ اجمعین) ہیں -

فرقہ واریت ںے جہاں اسلام کو نقصان پہنچایا وہاں صحابہ کرام کو بھی نشانہ پررکھا تاکہ اسلام کو مشکوک بنایا جا سکے اور بدعات شامل کرنے کا جواز پیدا کیا جا سکے- یہود ونصاری سے کچھ  لوگ بظاھر  اسلام قبول کرکہ اس کام میں پیش پیش تھے - صدیوں کے پراپیگنڈا نے حق کو باطل سے اس قدر ملا دیا گیا ہے کہ ایک عام مسلمان جب  صحابہ کرام کو مشکل حالات میں مختلف مقدس شخصیات کے ساتھ یا مخالف کھڑا دیکھتا ہے تو اشتباهات کا شکار ہو جاتا ہے- تاریخ کے کئی متضاد پہلو ہوتے ہیں جو مورخین کی شخصیت پر منحصر ہوتے ہیں- جتنا گہرائی میں جائیں اتنا ہی الجھاؤ بڑھتا ہے- مورخین اور علماء کی بھی اپنی ترجیحات و تعصبات ہوتے ہیں اس صورت حال میں قرآن ہماری مدد کو آتا ہے جو اللہ کی طرف سے خالص،مکمل و محفوظ کتاب ھدایت ہے- ان تاریخی واقعات کے اسلام (دین کامل) پر اثرات کو  قرآن کی کسوٹی پر پرکھنے سے حق اور باطل واضح ہو جاتا اور تو اشتباهات دور ہو جاتے ہیں - یہ اسلامی تاریخ کی کتاب نہیں ہے، اگرچہ کچھ اہم تاریخی واقعات کا تذکرہ  ضروری ہے - اس کتاب میں اہم  مواد کو اکٹھا کرکہ اس میں سے "حقائق واشتباهات" (Truth & Errors) کو قرآن، سنت ، احادیث اور تاریخ کے تناظر میں  اجاگر (highlight( کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ متلاشی حق ، اس مطالعہ (study) سے آزادانہ طور اسلام (دین کامل) پر اثر انداز نتائج (Conclusion) خود اخذ (deduce) کرسکیں- لیکن اس کے لئے قاری کواپنےموجودہ عقائد، نظریات وتعصبات کو ایک طرف  رکھنا  ہو گا - یہ سب مسلمنوں کومشترکہ نقطۂ پر اکٹھا کرنے کی ایک سعی ہے-
والسلام
 بریگیڈیئر آفتاب احمد خان (ر)

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ ﴿١٠٢﴾ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ(قرآن: 3:103) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو (102 :3) سب مل کر اللہ کی رسی (قرآن) کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو (قرآن:3:103) نوٹ فرمایں کہ الله کوآپ صرف "مسلم" کے طور پر قبول ہیں، کسی فرقہ کا نام نہیں لیا اور صرف قرآن کو الله کی رسی قرار دیا جس پر سب مسلمانوں کا اتفاق اور ایمان ہے اور یہ رسی سب سے مظبوط ہے جو جنت کی گارنٹی دیتی ہے-
اس اسٹڈی کے چار حصے ہیں جو تقریبا 280 صفحات کی ای بک (eBook) کی شکل میں اس پیج پرمہیا ہیں- حصہ سوئم؛ " شیعه اشتباهات" اس صفحہ پر پوسٹ کیا ہے اور ای بک (eBook) کو یھاں آخر میں (Embed) کر دیا ہے تاکہ آن لایئن سٹڈی (Online Study) کیا جاسکے - ای بک (eBook-PDF) پی ڈی ایف اور گوگل ڈوک میں بھی حاصل کر سکتے ہیں ، پرنٹ آوٹ یا موبائل پر پڑھ سکیں:
انڈکس (معلومت کے لئے)
وارننگ : جذباتی ، نادان (immature) , مزھبی جنونی، فرقہ پرست ، اندھی تقلید کرنے والے، کمزور دل، ذہنی مریض حضرات اس study سے پرہیز کریں- إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ‎﴿٢٢﴾ یقیناً الله کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (قرآن :8:22)
~~~~~~~~~~


[212]  الحیاة السیاسیة و الفکریة للزیدیة فی المشرق الاسلامی، ص۴۲-۳۴

[213] : مشکور، فرهنگ فرق اسلامی، ص۲۱۴

[214] عمرجی، الحیاة السیاسیة و الفکریة للزیدیة فی المشرق الاسلامی، ص۵۰-۴۷

[215] مصطفی سلطانی، تاریخ و عقاید زیدیہ، ص۲۰.  احمد محمود صبحی، فی علم الکلام دراسة فلسفية لآراء الفرق الإسلامية فی اصول الدین، ج۳، ص۴۸ ـ ۵۲.

 عیون أخبار الرضا علیہ السلام ج‌۱، ص‌۲

[216]  مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، الخاتمہ، ج۸، ص۲۸۲.

[217] مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، الخاتمہ، ج۸، ص۲۸۲.

[218]  حسن مثنی کی امامت کے سلسلہ میں اختلاف ہے بعض مورخین اور محققین نے حسن مثنی کو زیدیہ کے امام کے عنوان سے ذکر کیا ہے اور بعض اس بات کا انکار کرتے ہیں۔


[221]  خطبہ نمبر 126 /127 "نہج البلاغہ"

[223] https://faizahmadchishti.blogspot.com/2019/10/blog-post_12.html, (ارضہ کلینی:۱۰۷۔ بحوالہ احسن الفتاویٰ:۱/۸۴)، https://ahlehadees.co/threads/1057/

[224]   ابن عبد ربہ، العقد الفرید، دار الکتب العلمیہ، ج۵، ص۵۸-۵۹۔

[225]  ابن سعد، الطبقات الکبری، 1968م، ج6، ص357؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، بیروت، ج2، ص10.

[226]  ابن منظور، لسان العرب، 1414ق، ج4، ص393؛ زبیدى، تاج العروس، 1414ق، ج7، ص4.

[227] ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ق، ج13، ص171. /  ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسۃ، 1410، ج1، ص59؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ق، ج5، ص558، https://ur.wikipedia.org/wiki/حسین_ابن_علی

[231] {مقاتل الطالبین لابی الفرج الاصبھانی الشیعی}

[236] http://www.chiite.fr/en/sahaba_26.html، (شیعہ حوالہ جات:(1) حق الیقین، مجلسی، (2) کتاب الارشاد، از مفید، (3) جلاۃ العیون، مجلسی، (4) مجالس المومنین، از شوشتری، (شیعہ و اہل بیت، ص 121)

[237] ( نہج البلاغہ ص181ملخصا و مختصرا)

[238]  نهج البلاغة للشريف الرضي شرح محمد عبده صفحة 225 .نهج البلاغة ج:1 ص:189 ـ 190، واللفظ له. كنز العمال ج:16 ص:200 حديث: 44222. صفوة الصفوة ج:1 ص:331 ـ 332 في ترجمة أبي الحسن علي بن أبي طالب (رضي الله عنه) : كلمات منتخبة من كلامه ومواعظه (عليه السلام). تاريخ دمشق ج:42 ص: 492 في ترجمة أمير المؤمنين علي بن أبي طالب).

[239] https://ur.wikipedia.org/wiki/حدیث_ثقلین (متواتر  حدیث متفق سنی و شیعہ )

[244]  صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2907 ) سنن نسائ حدیث نمبر ( 4067 )

[278] ابو علی حسن مثلث بن حسن مثنی بن حسن سبط بن علی بن ابی طالب ہاشمی قرشی (77ھ – 145ھ) منصور عباسی کے دور میں سخت مبارزوں میں سے ایک تھے۔ منصور سے سنجیدہ ٹکراؤ کے بعد کوفہ میں سنہ 145ھ میں قید خانہ میں فوت ہوگئے۔  https://wp-ur.wikideck.com/حسن%20مثلث

[279]  ابن سعد: الطبقات الکبریٰ، جلد 5

[285]  (البداية والنهاية ط إحياء التراث (5 / 282)،  (البداية والنهاية ط إحياء التراث (5 / 285)

[287] https://forum.mohaddis.com/threads/16573

[288] حضرت مولانا ادریس کاندہلوی (سیرت مصطفی 3/182، ط: کتب خانہ مظہری)

[289] (البداية والنهاية ط إحياء التراث (5 / 286)

[290] (المستدرك على الصحيحين للحاكم (3 / 62)

[291] (کنزالعمال، کتاب: امارت اور خلافت کا بیان، باب: خلافت ابی بکرالصدیق (رض)، حدیث نمبر: 14138)

[300] نہج البلاغہ ص 136، ص 366-367 اور ص 322 بھی دیکھیں۔ نہج البلاغہ ص 263 دیکھیں ص 263 عسکری جعفری کا ترجمہ شدہ اسلامی مدرسہ اشاعت۔  Islamic Seminary Publication (خطبہ 95)

[303] (الکامل فی التاریخ لابن الاثیر جلد سوم ص 154، دخلت سنۃ خمس وثلاثین مطبوعہ بیروت طبع جدید)

[305] By: Hartwig Hirschfeld، Jewish Encyclopedia,  Shatrastani al-Milal, pp. 132 et seq. (in Haarbrücken's translation, i. 200-201);

Weil, Gesch. der Chalifen, i. 173-174, 209, 259.

https://www.jewishencyclopedia.com/articles/189-abdallah-ibn-saba

[306]  (ناسخ التواریخ تاریخ خلفاء جلد سوم صفحہ238,237 طبع جدید مطبوعہ تہران دوران خلافت عثمان بن عفان، مصنفہ مرزا محمد تقی) ،  http://rejectionists.blogspot.com/2018/09/shia-tareekh.html

[307] (انوار نعمانیہ مصنفہ نعمت اﷲ جزائری ص197، طبع قدیم مطبوعہ ایران طبع جدید جلد 2، ص 234، فرقہ سبائیہ)، https://faizahmadchishti.blogspot.com/2021/08/blog-post_84.html

[308] (ماخذ: سیدی ابو صالح، امامہ اور قرآن: ایک معروضی تناظر، صفحہ 14)

[309] (رجال کشی مصنفہ عمر بن عبدالعزیز الکشی ص 101 تذکرہ عبداﷲ بن سبا مطبوعہ کربلا)

[310] (رجال کشی صفحہ 100 مطبوعہ کربلا تذکرہ عبداﷲ بن سبا)

[311] (کتاب فرق الشیعۃ لابی محمد بن موسیٰ النو نجتی ص 22 مطبوعہ حیدریہ نجف اشرف من علماء قرن الثالث تحت فرقۃ السبائیۃ)

[315] مضمون تحریر: اویس محمد، ترمیم شدہ: ابن الہاشمی، www.ahlelbayt.com

[320] نہج البلاغہ

[325] (تفسیر:عبدالرحمان کیلانی)، https://tanzil.net/#trans/ur.qadri/15:47

[340] https://trueorators.com/quran-tafseer/59/10, (یہ سب روایات تفسیر قرطبی سے لی گئی ہیں )  (تفسیر معرف القرآن مفتی محمد شفع)

.حصہ سوئم: شیعه اشتباهات

شیعہ برادران  اپنے نقطۂ نظر اور عقائد کی سپورٹ میں بہت دلائل قرآن، احادیث اور تاریخ سے دیتے ہیں مگر بہت سے اہم نقاط نظر انداز کرتے ہیں جو"شیعه اشتباهات" کی اصل وجہ ہے- یہ ان کی توجہ ان اہم نقاط جو قرآن، شیعہ کتب اور تاریخ میں موجود ہیں کی طرف مبذول کرانے  کی ایک کوشش ہے تاکہ  "شیعه اشتباهات"[203] کا خاتمہ، کمی ہو سکے-  

[مکمل کتاب : eBook-PDF- A5 size 280 pages )]

اگر دماغ بغض، کہنہ اور نفرت سے بھرا ہوا ہو تو عقل کوئی دلیل قبول نہیں کرتی، الله تعالی کا فرمان ہے:

۞ إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ‎﴿٢٢﴾‏

قیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (قرآن8:22)[204]

اس سلسلہ میں اہم بات حسن ظن، نیک توقع رکھنا ہے:

لَوۡ لَاۤ اِذۡ سَمِعۡتُمُوۡہُ ظَنَّ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتُ بِاَنۡفُسِہِمۡ خَیۡرًا ۙ وَّ قَالُوۡا ہٰذَاۤ اِفۡکٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۱۲﴾

"جب تم نے اسے سُنا تومومن مرداورمومن عورتوں نے اپنے آپ سے اچھا گمان کیوں نہ کیا اور کیوں نہیں کہا کہ یہ کھلابہتان ہے؟" (قرآن 24:12)[205]

حسن ظن پراحادیث

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: "اِنّ اللهَ تَعالي حَرَّمَ مِنَ المُسلِمِ دَمَهُ وَمالَهُ وَأَن يُظَنَّ بِهِ ظَنَّ السَّوءِ"؛

بلاشبہ اللہ تعالی نے مسلمان کے خون اور مال [مسلمان پر] اور اس کے بارے میں برے گمان، کو حرام قرار دیا ہے۔ (محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج 75، ص 201)[206]

امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: "طَهِرّوا قُلوبَكُم مِنَ الحِقدِ فَاِنّهُ داءٌ وَبيءٌ"؛

اپنے دلوں کو بغض اور کینے سے پاک و پاکیزہ کرو، اندرونی کینہ وبا کی مانند ایک مہلک بیماری ہے۔(عبدالواحد تمیمی آمِدی، فهرست ‌غررالحکم، ص 73)

امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: "المُريبُ اَبداً عَليلٌ"؛

بہت زیادہ بدگمان اور شک کرنے والا شخص ہمیشہ کے لئے بیمار ہے۔

(عبدالواحد تمیمی آمِدی، فهرست غررالحکم، ص 146)

امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: "أَفضَلُ الوَرَعِ حُسنُ الظَّنِّ"؛

خوش گمانی بہترین پرہیزگاری ہے۔ (عبدالواحد تمیمی آمِدی، فهرست غررالحکم، ص 226)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

"حُسُن الظَّنِّ اَصلُهُ مِن حُسنِ ايمانِ المَرءِ و سَلامَةِ صَدرِهِ".

خوش گمانی کی جڑ انسان کی خوش ایمانی اور اس کے باطن کی سلامتی ہے۔ [جو خوش گمان ہے اس کا ایمان درست اور باطن پاکیزہ ہے]۔ (محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج 75، ص 196)

ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حسن ظن حسن عبادت میں سے ہے( ابو داؤد، حدیث4993)[207] (شیعہ حدیث: قاضى قضاعى‌، شهاب الاخبار، ص 357[208])

"صحابہ کے ساتھ  حسن ظن رکھو، پھر ان کے بعد کے زمانہ والوں سے پھر جو ان کے بعد ہیں ان کے ساتھ" (صحیح ، کنز العمال، حدیث 32497)

حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (ایاکم والظن قانہ اکذاب الحدیث) گمان سے بچو کیونکہ یہ سب سے بڑھ کر جھوٹی بات ہے.

صحابہ کرام کے فضائل اور بشری کمزوریاں بہت حساس معامله ہے جس میں لا پرواہی سے "بہتان" کے گناہ کا احتمال ہے جس سے بچنا اہم ہے- اخلاق اور تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہینے- اس لئے شتم ستانی اور گالی گلوچ سے مکمل اجتناب ضروری ہے-

جنت میں مومن  برادران

 جنت میں مومنین کا داخلہ بغیر بغض (قرآن )

اللہ کا فرمان ہے:

إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ ‎﴿٤٥﴾‏ ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ آمِنِينَ ‎﴿٤٦﴾‏ وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَىٰ سُرُرٍ مُّتَقَابِلِينَ ‎﴿٤٧﴾‏ لَا يَمَسُّهُمْ فِيهَا نَصَبٌ وَمَا هُم مِّنْهَا بِمُخْرَجِينَ ‎﴿٤٨﴾

بیشک متقی لوگ باغوں اور چشموں میں رہیں گے، (ان سے کہا جائے گا:) ان میں سلامتی کے ساتھ بے خوف ہو کر داخل ہو جاؤ، اور ہم وہ ساری کدورت باہر کھینچ لیں گے جو (دنیا میں) ان کے سینوں میں (مغالطہ کے باعث ایک دوسرے سے) تھی، وہ (جنت میں) بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے، انہیں وہاں کوئی تکلیف نہ پہنچے گی اور نہ ہی وہ وہاں سے نکالے جائیں گے(قرآن.الحجر 15:45,46,47,48)[209]

امام باقر(ع)  امام سجاد(ع) کی تصدیق شان نزول الحجر ٤٧

امام باقر(ع) سے سورہ حجر(15) کی 47 ویں آیت کے متعلق مروی ہے: امام سجاد(ع) سے سوال ہوا کہ یہ آیت: "اور ہم ان کے سینوں سے ہر قسم کی کدورت نکال دیں گے اور وہ بھائیوں کی طرح تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے"  کیا ابوبکر، عمر و علی(ع) کے بارے میں نازل ہوئی؟

امام نے جواب دیا: ہاں یہ ان کی توصیف میں نازل ہوئی۔ کیونکہ زمانۂ جاہلیت میں تَیْم، عَدِی اور بنی ہاشم کے قبیلوں کے درمیان دشمنی تھی لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد بھائی چارے کو قبول کیا۔ ایسا ہی ہوا ایک روز ابوبکر درد حاضره میں مبتلا ہوا تو علی نے اسے مساج کیا تا کہ اسے اس درد س نجات حاصل ہو۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی (واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۲۸۲)[210]

اس آیت سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام اور صلحائے امت باہمی لڑائیوں اور رنجشوں کے باوجود جنت میں جائیں گے، مگر اس سے پہلے ان کے دلوں کی باہمی کدورتیں بالکل دور کردی جائیں گی اور وہ صاف دل بھائی بھائی ہو کر جنت میں جائیں گے-

حضرت علی مرتضیٰ نے ایک مرتبہ یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ ہم اور عثمان اور طلحہ اور زبیر انہی لوگوں میں سے ہوں گے جن کے سینے دخول جنت سے پہلے کدورتوں سے صاف کردیئے جائیں گے[211] 

امام کو چھوڑنے والے  رافضی

زید بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب، (لقب زید شہید) امام علی بن الحسین (ع)  کی اولاد میں سے اور امام محمد باقر(ع) و امام جعفر صادق (ع)  کے معاصر ہیں، زیدیہ فرقہ آپ سے منسوب ہے۔ آپ کی ولادت مدینہ اور شہادت کوفہ میں ہوئی۔ زید شیعوں کے چوتھے امام امام سجادؑ کے فرزند تھے-

 آپ تقیہ کے مخالف تھے اور ایسے افراد سے جو شیخین (ابوبکر و عمر) پر تبرا کرتے تھے، بیزاری کا اظہار کرتے تھے۔[212] آپ لوگوں کو کتاب و سنت کی پیروی اور جابر حکمرانوں سے جہاد اور محروم افراد کی حمایت اور ضرورت مندوں کی دستگیری کی دعوت دیتے تھے[213] زید نے کوفہ میں یوسف بن عمر کی گورنری کے زمانہ میں اس کے خلاف قیام کیا لیکن اہل کوفہ نے آپ کا ساتھ نہیں دیا۔ آپ  نے اپنے والد امام سجادع ، اپنے بھائی امام محمد باقرع  اور اپنے بھتیجے امام جعفر صادق ع  سے روایات نقل کی ہیں۔

زید ںے امام  ابو حنیفہ رح کو ایک خط لکھا اور ان سے مدد طلب کی اور بنی امیہ کی حکومت کے خلاف جہاد کی دعوت دی۔ ابو حنیفہ نے بھی زید کے لئے مالی مدد روانہ کی اور اپنی استطاعت کے مطابق ان کی مدد کی۔[214]

امام حسین ع کی شہادت کے بعد بعض علویوں نے مسلحانہ قیام کی فکر کو امامت کے شرائط اور ظالموں سے مقابلہ کی روش کے عنوان سے پیش کیا۔ اس سیاسی تفکر کی تشکیل کے ساتھ، امام زین العابدین ع  کے زمانہ میں زیدیہ مسلک کی بنیاد رکھی گئی[215]

جس وقت زید حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت سے باہر نکلے، امام نے فرمایا: لعنت ہو اس انسان پر جو زید کی آواز کو سنے اور اس پر لبیک نہ کہے[216]

علویوں کے درمیان اختلاف کی باز گشت ان دو نظریوں اموی حکومت سے ثقافتی جنگ یا مسلحانہ قیام کی طرف ہوتی ہے۔ اس اختلاف کا نتیجہ امام زین العابدین (ع) کی شہادت کے بعد ظاہر ہوا۔ بعض نے امام محمد باقر علیہ السلام کو قبول کر لیا اور دوسرے گروہ نے جو تلوار کے ذریعہ سے قیام مسلحانہ کا قائل تھا، وہ امام محمد باقر کے بھائی زید بن علی کی امامت کے قائل ہو گئے اور زیدیہ مشہور ہو گئے۔[217] اس بنیاد پر وہ شیعہ جو قیام مصلحانہ کا عقیدہ رکھتے تھے انہوں نے زید بن علی کو امام علیؑ ، امامین حسنینؑ  اور حسن مثنی[218] کے بعد اہل بیت علیہم السلام میں پانچویں امام کی حیثیت سے مانتے ہیں

جب اہل عراق نے امام زین العابدین (ع ) کے صاحبزادے امام زیدع  شہید سے حضرت ابوبکر و عمر (رضی الله)  کی تعریف سنی تو کہنے لگے آپ ہمارے امام نہیں ہیں امام بھی ہمارے ہاتھ سے گیا جس پر امام زید شہید(ع ) نے فرمایا : "رفضونا الیوم" ہمیں آج کے دن سے ان لوگوں نے چھوڑ دیا(آج سے یہ رافضی بن گئے) اس دن سے اس جماعت کو رافضی کہا جاتا ہے۔ [رحمۃ للعالمین جلد دوم قاضی محمد سلیمان منصور پوری صفحہ 375 مرکز الحرمین الاسلامی فیصل آباد،  ناسخ التواريخ۔ مرزه تقی خان ،ج 2 ،ص 590./ طبری][219]

رافضی[220] کے معنی تتر بتر ہونا، بکھر جانا، منتشر ہونا اور تعصب برتنا ہے۔نہی معنوں میں اہل تشیع میں سے جو لوگ اپنے امام کو چھوڑ دیں اور منتشر ہوں انہیں رافضی کہا جاتا ہے۔( القاموس الوحید عربی اردو لغت صفحہ نمبر: 648) - جیسا کہ آگے دیکھیں گے کہ شیعہ اپنے امام اول علی (رضی الله)  کی بات بھی نہیں مانتے ، ان کو ترک کرتے ہیں تو کیا ایسے لوگ رافضی کہلانے کے مستحق نہیں؟

 امام اول علیؑ اور آئمہ (ع) و علماء  کے فرامین و فتوے

یہ  ایک حقیقت  ہے کہ صحابہ اکرام اسلام کے ہراول دستہ کے لوگ ،  رسول اللہ ﷺ کے ساتھی تھے، تمام انسان برابر ہیں مگر تقوی سے برتری حاصل ہوتی ہے-  جو صحابہ "السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ" میں شامل نہیں لیکن ان کے  "السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ" کے اتباع  میں "احسان" سے شامل ہونے میں زیادہ امکانات (probability) ہے- اس لئے اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا اور حسن ظن سے کام لینے میں بہتری اور غلطی کا امکان کم ہو جاتا ہے-

گالیاں دینے والے نہ بنو: علیؑ : نہج البلاغہ

وقد سمع قوما من أصحابه يسبون أهل الشام أيام حربهم بصفين إِنِّي أَكْرَه لَكُمْ أَنْ تَكُونُوا سَبَّابِينَ - ولَكِنَّكُمْ لَوْ وَصَفْتُمْ أَعْمَالَهُمْ وذَكَرْتُمْ حَالَهُمْ - كَانَ أَصْوَبَ فِي الْقَوْلِ وأَبْلَغَ فِي الْعُذْرِ - وقُلْتُمْ مَكَانَ سَبِّكُمْ إِيَّاهُمْ - اللَّهُمَّ احْقِنْ دِمَاءَنَا ودِمَاءَهُمْ - وأَصْلِحْ ذَاتَ بَيْنِنَا وبَيْنِهِمْ واهْدِهِمْ مِنْ ضَلَالَتِهِمْ - حَتَّى يَعْرِفَ الْحَقَّ مَنْ جَهِلَه - ويَرْعَوِيَ عَنِ الْغَيِّ والْعُدْوَانِ مَنْ لَهِجَ بِه ۔ [نہج البلاغہ 206]

فرمان امام علیؑ "میں تمہارے لئے اس بات کو نا پسند کرتا ہوں کہ تم گالیاں دینے والے ہو جائو۔ بہترین بات یہ ہے کہ تم ان کے اعمال اورحالات کاتذکرہ کرو تاکہ بات بھی صحیح رہے اورحجت بھی تمام ہو جائے اور پھر گالیاں دینے کے بجائے یہ دعا کرو کہ یا اللہ! ہم سب کے خونوں کومفحوظ کردے اور ہمارے معاملات کی اصلاح کردے اور انہیں گمراہی سے ہدایت کیراستہ پر لگادے تاکہ ناواقف لوگ حق سے با خبر ہو جائیں اور حرف باطل کہنے والے اپنی گمراہی اور سرکشی سے بازآجائیں"  [نہج البلاغہ خطبہ : 206]

حضرت علیؑ کے احکام ( نہج البلاغہ)

"نہج البلاغہ" حضرت علی ابن ابی طالب (رضى الله عنها) کے خطبات اور اقوال کی اہم شیعہ  کتاب ہے، اس کے مطابق  حضرت علی ابن ابی طالب (رضى الله عنها)  ںے فرمایا :

حب علیؑ میں درمیانہ راستہ  (امام علیؑ)

" میرے  بارے میں گمان کرنے والوں کی دو اقسام برباد ہو جائیں گے ،جو لوگ مجھ سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں اور محبت کی شدت ان کو سیدھے راستے سے سے دور لے جاتی ہے، اور وہ لوگ جو مجھ سے بہت زیادہ نفرت کرتے ہیں اور نفرت کی شدت ان کو سیدھے راستے سے دور لے جاتی ہے . میرے حوالے سے سب سے  اچھے  وہ لوگ ہیں جو درمیان کا راستہ اختیار کریں لہٰذا ان لوگوں کے ساتھ ہو جائیں اور

مسلمانوں کی  اکثریت کے ساتھ ہونے کا حکم (امام علیؑ)

مسلمانوں کی عظیم اکثریت کے ساتھ ہوجاؤ  کیونکہ الله کے حفاظت اتحاد میں ہے . تم لوگ تفرقے سے بچو.جو  گروپ سے الگ تھلگ ہوتا ہے وہ شیطان کا آسان شکار ہوتا ہے. جیسے جو بھیڑ گلے سے علیحدہ ہوتی  ہے بھیڑے کے لے آسان شکار ہوتی ہے .

فرقہ واریت ممنوع (امام علیؑ)

ہوشیار!  جو بھی اس راستے  [فرقہ واریت کے] پر بلاتا ہے چاہے وہ میرے نام کے گروپ سے ہو اس کو قتل کرو.[221] [ خطبہ نمبر 126 /127 "نہج البلاغہ" حضرت علی ابن ابی طالب (رضى الله عنها) کے خطبات اور اقوال ترجمہ و مفہوم]  

نوٹ : خبردار : قتل کا اختیار صرف قانون کے مطابق اسلامی حکومت کے قاضی اور عدلیہ کو ہے . فساد فی  الارض ممنوع ہے .

امام علیؑ  ںے فرمایا :

" بلاشبہ ایک قوم مجھ سے محبت کرے گی حتی کہ میری محبت میں وہ جہنم میں داخل ہو جائیں گے ، اور ایک قوم بلاشبہ مجھ سے بغض رکھے گی حتی کہ میرے بغض میں جہنم میں داخل ہو جائیں گے ___ "

[ فضائل الصحابة : 952 ] ( سنده صحيح )​[222]

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا فتویٰ: مرتد

اگر میں اپنے شیعوں کو جانچوں تو یہ زبانی دعویٰ کرنے والے ہیں اور باتیں بنانے والے نکلیں گے ، اور ان کا امتحان لوں تو یہ سب مرتد نکلیں گے ۔ (ارضہ کلینی:۱۰۷۔ بحوالہ احسن الفتاویٰ:۱/۸۴)[223]

امام علیؑ حسنؑ، حسینؑ کو حضرت عثمان (رض) کی حفاظت پر مامور  

جب لوگ عثمان (رض) کے خلاف حضرت علیؑ کی خدمت میں شکایت لے آتے ہیں اس موقع پر امام علیؑ نے اپنے فرزند امام حسنؑ کو عثمان(رض) کے پاس بھجتے ہیں۔[224] بعض منابع میں آیا ہے کہ عثمان(رض) کی خلافت کے آخری ایام میں لوگوں نے ان کے خلاف شورش کی، ان کے گھر کو محاصرے میں لے لیا، ان پر پانی بند کر دیا اور آخر کار انہیں شہید  کر دیا گیا ان تمام واقعات میں امام حسنؑ اپنے بھائی امام حسینؑ اور دیگر جوانان بنی ہاشم کے ساتھ امام علیؑ کے حکم سے عثمان(رض) کے گھر کی حفاظت پر مأمور تھے۔[225] قاضی نعمان مغربی (متوفی 363ھ) جو کتاب دلائل الامامۃ کے مصنف بھی ہیں کے بقول جب شورشیوں نے عثمان(رض) پر پانی بند کر دیا تو امام حسنؑ اپنے والد امام علیؑ کے حکم پر عثمان(رض) کے گھر پانی پہنچاتے تھے۔[226] بعض منابع میں اس واقعے میں آپ کے زخمی ہونے کے اطلاعات بھی موجود ہیں۔[227]- یہ امام علیؑ کی عثمان(رض) سے محبت ظاہر کرتا ہے یا نفرت؟

عبودیت صرف اللہ تعالی کی ذات سے مخصوص

عبودیت صرف اللہ تعالی کی ذات کے لیے خاص ہے، ارشاد باری تعالی ہے: {بَلِ اللَّـهَ فَاعْبُدْ ۔۔ سورۃ الزمر66} بلکہ تو اللہ ہی کی عبادت کرو[228] شیعہ حضرات اپنی برادری کے لوگوں کو عبدالحسین، عبد علی، عبدالزھراء اور عبدالامام وغیرہ ناموں سے موسوم کرتے ہیں- لیکن ائمہ اپنے بچوں کے نام عبد علی اور عبدالزھراء وغیرہ نہیں رکھتے تھے۔​[229]

حضرت علیؑ کے بیٹوں کے نام خلفاء راشدین پر

امام علیؑ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد کئی عورتوں سے شادی کی ہے اور ان سے کئی بیٹے اور بیٹیاں بھی پیدا ہوئے جن میں سے چار اسماء قابل ذکر ہیں: عثمان بن علی بن ابی طالب، ابوبکر بن علی بن ابی طالب، ، ان دونوں کی والدہ کا نام لیلی بنت مسعود الدارمیۃ تھا۔ {نفس المصدر} عمر بن علی بن ابی طالب، جو 35 سال کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔ان دونوں کی والدہ کا نام ام حبیب بنت ربیعہ تھا۔{کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ، لعلی الاربلی[230]

کیا یہ بات باور کی جاسکتی ہے کہ ایک عقل مند انسان اپنے احباء و اقرباء کے نام اپنے دشمنوں کے ناموں پر رکھ سکتا ہے- یہ بات بھی معلوم ہے کہ علی رضی اللہ عنہ قریش خاندان کے سب سے پہلے فرد ہیں جنہوں نے اپنے بیٹوں کے نام ابوبکر، عمر اور عثمان رکھے[231] ہیں- اگر انہیں ان ناموں سے بغض ہوتا تو وہ اپنے بیٹوں کو ان ناموں سے کیوں موسوم کرتے؟

گر آپ کسی شیعہ کو حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کو گالی دیتے ہوئے سنیں تو اس سے پوچھیں:

  1. کہ آپ کی مراد کس عمر سے ہے؟
  2. عمر بن علي بن ابي طالب ؟
  3. یا عمر بن الحسن بن علي ؟
  4. یا عمر بن الحسين بن علي ؟
  5. یا عمر بن علي زين العابدين بن الحسين ؟
  6. یا عمر بن موسى الكاظم ؟

اور اگر ان میں سے کسی کو حضرت أبو بكر(رضی اللہ عنہ) کو گالی دیتے ہوئے سنیں تو اس سے یہ سوال ضرور کریں:

  1. کہ آپ کی مراد کس أبو بكر سے ہے؟
  2. أبو بكر بن علي بن أبي طالب ؟
  3. یا أبو بكر بن الحسن بن علي ؟
  4. یا أبو بكر بن الحسين بن علي ؟
  5. یا أبو بكر بن موسى الكاظم ؟

اور اگر ان میں سے کسی کو نعوذ باللہ "عائشة في النار ..یعنی .. عائشة جہنمی ہے " کے نعرے لگاتے ہوئے سنیں تو اس سے سوال کریں:

کہ آپ کی مراد کس عائشة سے ہے؟

  1. عائشة بنت جعفر الصادق ؟
  2. یا عائشة بنت موسى الكاظم ؟
  3. یا عائشة بنت علي الرضا ؟
  4. یا عائشة بنت علي الهادي ؟

اور پھر اسکے بعد آپ انہیں سمجھاتے ہوئے کہیں کہ ان لوگوں نے (شیعہ جنہیں اپنا امام مانتے ہیں) اپنے بچوں کا نام "ابو بکر" . "عمر" اور "عایشہ" رکھا کیوں..؟؟؟؟؟

........کیونکہ وہ مذکورہ صحابہ کرم سے بیحد عقیدت رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ انکے گھروں میں بوبکر و عمر اور عایشہ نامی ستارے چمکتے دمکتے رہیں-[232]

امام علیؑ اور خلفاء راشدین اور اولاد کی آپس میں شادیاں

امام علیؑ نے اپنى صاجزادى ام كلثوم كى شادى عمر بن خطاب سے كى جو كہ امام حسن و حسين رضى الله عنهم كى حقيقى بہن تھيں، اور اس بات كا ذکر شيعہ حضرات كے كبار علماء نے اپنى كتب ميں كيا هے (مثلا كلينى ، طوسى اور ديگر كئى حوالہ جات كے لئے ديكھئے كتاب هذا ، صفحہ نمبر : 14، حاشيه نمبر : 1)[233]

علی رضی اللہ عنہ کے یہ عمل مبنی برصواب ہے کیونکہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما دونوں مومن صادق ہیں، دونوں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اور دونوں ہی عدل و انصاف کا پیکر ہیں- جو شیعہ حضرات، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی تکفیر اور ان پر لعن و طعن اور گالی گلوچ کرنے میں اور ان دونوں کی خلافت سے عدم رضامندی کے اظہار میں اپنے امام کے مخالف ہیں۔

عثمان (رضی الله) کے صاحبزادے ابان بن عثمان رضی اللہ عنہ نے ام کلثوم بنت عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب سے شادی کی۔ ام قاسم بنت الحسن بن الحسن بن علی بن ابی طالب کی بیٹی مروان بن ابان بن عثمان کی زوجیت میں تھیں۔ زید بن عمرو بن عثمان کے عقد میں سکینہ بنت حسین تھین۔  صحابہ کرام میں سے صرف خلفائے ثلاثہ کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں ورنہ خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے علاوہ اور بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جن کا اہل بیت سے سسرالی تعلق تھا جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اہل بیت اور صحابہ کرام کا آپس میں رشتہ و ناطہ تھا۔ {دامادی و رشتوں کی تفصیل الدرالمنثور من اھل البیت میں دیکھیں}[234]

امام علیؑ کی بیٹی ام کلثوم کی عمر (رضی الله) سے شادی

علی (رضی الله) نے اپنی بیٹی ام کلثوم(رضی الله) کا نکاح عمر (رضی الله) سے کر دیا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا علم اکثرلوگوں کو نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جو شیعیت کے پورےڈھانچے کو گرا دیتی ہے۔ اس وجہ سے آج کل بہت سے شیعہ کہیں گے کہ عمر رضی اللہ عنہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے درمیان یہ شادی ایک داستان ہے۔ البتہ اس نکاح کا ریکارڈ شیعہ کی معتبر ترین کتاب حدیث الکافی میں موجود ہے۔ کم از کم چار الگ الگ احادیث ائمہ سے منسوب ہیں جو ام کلثوم(رضی الله) کی عمر(رضی الله) سے شادی کی تصدیق کرتی ہیں۔ درحقیقت، فرو الکافی میں کتاب نکاح (کتاب النکاح) کا 23 واں باب ام کلثوم (رضی اللہ عنہا) کی شادی کے لیے مختص ہے اور اسے "باب تجویج ام کلثوم" کہا جاتا ہے۔ چار میں سے دو حدیثیں اس باب میں ہیں، جبکہ باقی دو احادیث ازدواج کے بعد عدت سے متعلق باب میں ہیں۔

علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن ابن أبي عمير، عن هشام بن سالم، وحماد، عن زرارة، عن أبي عبدالله (ع) في تزويج أم كلثوم فقال: إن ذلك فرج غصبناه (9536-1) ترجمہ : "ابو عبداللہ نے ام کلثوم کی شادی کے بارے میں کہا: "یہ وہ اندام نہانی (vagina) تھی جو ہمیں دینے پر مجبور کیا گیا تھا۔[مزید تفصیل ..لنک پر[235]]

ابوبکر(رضی الله) اور علی(رضی الله) کی رشتہ داری

نہ صرف عمر(رضی الله) اور علی(رضی الله)میں رشتہ داری  تھی  بلکہ اسی طرح ابوبکر(رضی الله) اور علی(رضی الله) کا بھی نکاح سے تعلق تھا۔ شیخ احسان الٰہی ظہیر لکھتے ہیں: "اسماء بنت عمیس، علی (رضی الله) کے حقیقی بھائی جعفر(رضی الله) ابن ابی طالب کی بیوی تھیں۔ جب ان کی وفات ہوئی تو ان کا نکاح ابوبکر(رضی الله) سے ہوا۔ اس نے ابوبکر کے بیٹے کو بھی جنم دیا جس کا نام محمد رکھا گیا۔ علی رضی اللہ عنہ نے انہیں مصر کا گورنر مقرر کیا۔ ابوبکر(رضی الله) کی وفات کے بعد علی ابن ابی طالب نے ان سے شادی کی۔ اس نکاح سے یحییٰ نامی بیٹا پیدا ہوا۔(شیعہ حوالہ جات:(1) حق الیقین، مجلسی، (2) کتاب الارشاد، از مفید، (3) جلاۃ العیون، مجلسی، (4) مجالس المومنین، از شوشتری، (شیعہ و اہل بیت، ص 121)[236]

امام علیؑ صحابہ  رسول اللہ ﷺ کی تعریف

رأيت أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم فما أرى أحداً يشبههم منكم لقد كانوا يصبحون شعثاً غبراً وقد باتوا سجداً وقياماً، يراوحون بين جباههم وخدودهم، ويقفون على مثل الجمر من ذكر معادهم كأن بين أعينهم ركب المعزي من طول سجودهم، إذا ذكر الله هملت أعينهم حتى تبل جيوبهم، ومادوا كما يميد الشجر يوم الريح العاصف خوفاً من العقاب ورجاءً للثواب

ترجمہ : میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو دیکھا اور میں نے تم میں سے ان کے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا، وہ خاک میں جا کر سجدہ کرتے اور کھڑے ہوتے، اپنی پیشانیوں اور رخساروں کے درمیان حرکت کرتے، اور اپنی دشمنی کی یاد کے انگاروں کی طرح کھڑے ہیں، گویا ان کی آنکھوں کے درمیان تسلی دینے والے کے گھٹنے سجدے کی لمبائی سے ہیں، ان کی جیبیں، اور وہ پھیلے ہوئے ہیں جیسے طوفانی آندھی والے دن درخت اگتے ہیں، عذاب کے خوف سے اجر کی امید( نہج البلاغہ ص181ملخصا و مختصرا)[237]، [238]

غدیر خم اور ولایت علیؑ

یہ دعوی کیا جاتا ہے غدیر خم پر حج آلوداع کے تین دن بعد  ہزاروں صحابہ کرام وہاں موجود تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی وصیت براہ راست سنی تھی، تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان ہزاروں صحابہ کرام میں سے ایک صحابی بھی علی رضی اللہ عنہ کی طرفداری کے لیے کیوں نہیں کھڑا ہوا؟۔ حتی کہ عمار بن یاسر، مقداد بن عمرو اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہم بھی خلیفہ وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں استغاثہ لے کر کیوں نہیں آئے کہ آپ نے علی رضی اللہ کی خلافت کا حق غصب کیا؟ جبکہ آپ کو پتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیرخم کے دن کیا وصیت فرمائی تھی یا کیا تحریر لکھوائی تھی۔ علی رضی اللہ عنہ تو بڑے بے باک صحابی تھے جنہیں اللہ کے علاوہ کسی اور کا خوف نہ تھا اور نہ ہی وہ کسی سے دب کر بات کرنے کے عادی تھے اور انہیں پتا تھا کہ حق بات پر سکوت اختیار کرنے والا گونگا شیطان کہلاتا ہے۔​

حدیث ثقلین  اوراہل بیت

زیدبن ارقم رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ اورمدینہ کےدرمیان ماءخما کے مقام پر ہمیں خطبہ ارشادفرمایا اللہ تعالی کی حمد وثنا بیان کی اوروعظ ونصیحت فرمائ پھر فرمانے لگے[239] :

اما بعد :اے لوگو بلاشبہ میں ایک بشر اورانسان ہوں قریب ہے کہ میرے پاس میرے رب کا بھیجا ہوا آجاۓ تومیں اس کی دعوت پرلبیک کہوں (موت کی طرف اشارہ ہے ) اوریقینا میں تم میں دواشیاء چھوڑ کر جارہا ہوں ان میں سے پہلی اللہ عزوجل کی کتاب جس میں نورو ھدایت ہے ، اللہ تعالی کی کتاب کوتھام لو اوراس پرمضبوطی اختیار کرو ، توانہوں نے کتاب اللہ پرعمل کرنے کی ابھارا اوراس میں رغبت دلائ ۔

اورفرمایا : میرے اہل بیت ، میں تمہیں اہل بیت کے بارہ میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں ، میں تمہیں اہل بیت کے بارہ میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں ، میں تمہیں اہل بیت کے بارہ میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں،

حصین نے کہا کہ اے زيد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کون ہیں؟ کیا ان ازواج مطہرات اہل بیت نہیں؟

 توانہوں نے کہ ازواج مطہرات اہل بیت میں شامل ہیں ، لیکن اہل بیت وہ ہیں جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صدقہ حرام ہے ، انہوں نے کہا وہ کون ہیں ؟ وہ کہنے لگے :

وہ آل علی اور آل عقیل ، اورآل جعفر ، اور آل عباس رضي اللہ تعالی عنہم ہیں ، انہوں نے پوچھا کیاان سب پر صدقہ حرام ہے؟ زید نے جواب دیا جی ہاں ۔( مسند امام احمد, حدیث نمبر 18468)[240]

اورموالی کے متعلق حدیث میں کچھ طرح ذکر ہے :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مولی ( غلام ) مھران بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

بلاشبہ ہم آل محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پرصدقہ حلال نہیں اورقوم کے مولی انہیں میں سے ہوتے ہیں ۔ مسند احمد حديث نمبر ( 15152 )

تواس طرح نبی صلی اللہ علیہ کی آل اوراہل بیت میں ان کی ازواج مطہرات ، ان کی اولاد ، اوربنو ھاشم ، اوربنو عبدالمطلب ، اوران کے موالی شامل ہوۓ ۔

اہل بیت رسول اللہ ﷺ کے گھرانہ کے افراد ہیں جو صحابہ بھی تھے اور بعد میں بھی ان کا خاص مقام ہے- علماء کرام نے اہل بیت کی تحدید میں کئ ایک اقوال ذکر کيۓ ہیں[241]:

بعض کا کہنا ہے کہ اہل بیت سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ، ان کی اولاد اوربنوھاشم اور بنو مطلب اوران کے موالی ہیں ۔ اورکچھ کا کہنا ہے کہ: ازواج مطہرات اہل بیت میں شامل نہیں ۔ اورایک قول یہ بھی ہے کہ : اہل بیت قريش ہیں ۔ بعض علماء کا کہنا ہے : امت محمدیہ میں سے متقی لوگ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہيں ۔ اورکچھ نے کہا ہے کہ :ساری کی ساری امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔

ازواج مطہرات کے بارہ میں راجح قول یہ ہے کہ وہ اہل بیت میں داخل ہيں اس لیے کہ اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کوپردہ کا حکم دینے کے بعد فرما یا ہے کہ :

اللہ تعالی یہی چاہتا ہے کہ اے اہل بیت تم سے وہ ( ہرقسم کی ) گندگی کودورکردے اور تمہیں خوب پاک کرے ( قرآن33:33 )[242]

اورابراھیم علیہ السلام کی زوجہ سارہ رضی اللہ تعالی عنہا کوبھی اہل بیت کہنا جیسا کہ اس فرمان ہے :

فرشتوں نے کہا کیا تم اللہ تعالی کی قدرت سے تعجب کررہی ہو ؟ اے گھروالوں تم پر اللہ تعالی کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں (ھود 73 )

وراس لیے بھی کہ اللہ تعالی نے لوط علیہ السلام کی بیوی کوآل لوط سے خارج کرتے ہوۓ فرمایا :

سواۓ لوط علیہ السلام کی آل کے ہم ان سب کوتو ہم ضرور بچا لیں گے مگر اس کی بیوی ۔۔۔ ( الحجر: 59 – 60 )

تویہ سب آیات اس پردلالت کرتی ہیں کہ زوجہ اہل بیت اورآل میں داخل ہے- (ان پراور صحابہ پر شیعہ لعنت کیوں کرتے ہیں؟[243])

اورآل مطلب کے بارہ میں امام احمد سے روایت ہے کہ وہ اہل بیت میں سےہیں اورامام شافعی رحمہ اللہ تعالی نے بھی یہی کہا ہے ۔

امام ابوحنیفہ اورامام مالک رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ آل مطلب آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل نہيں اورامام احمد رحمہ اللہ تعالی سے یہ قول بھی مروی ہے ۔

اس مسئلہ میں راجح قول یہی ہے کہ بنو عبدالمطلب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آل میں شامل ہیں اس کی دلیل حدیث[244]  میں ہے-

اہل بیت میں بنوھاشم بن عبدمناف جو کہ آل علی ، آل عباس ، آل جعفر ، آل عقیل ، اورآل حارث بن عبدالمطلب شامل ہیں اس کا ذکر اس حدیث میں موجود ہے جسے امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے زيد بن ارقم رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے ۔ (واللہ تعالی اعلم)[245]

شیعہ نبی ﷺ کی ازواج مطہرات کو اہل بیت نہیں سمجھتے

 بہت سے شیعہ آیت اللہ عائشہ (رضی اللہ عنہا ) اور حفصہ (رضی اللہ عنہا ) پر بہت سے بے بنیاد الزامات لگاتے ہیں۔ ہم اپنے شیعہ بھائیوں سے درخواست کرتے ہیں کہ اس محبت کی اصل نوعیت پر غور کریں۔ اہل سنت والجماعت اہل بیت کے چاہنے والے ہیں اور یقیناً ناصبی (اہل بیت سے نفرت کرنے والے) نہیں۔ حقیقت یہ ہو سکتی ہے کہ وہ لوگ ناصبی ہیں جو اہل بیت (یعنی ازواج مطہرات) سے اس قدر نفرت کرتے ہیں کہ وہ ان کے اہل بیت ہونے کا بھی انکار کرتے ہیں! یہ حقیقت قرآن، حدیث، علمی رائے، لغت، منطق، عام فہم اور لفظ "اہل بیت" کے عام استعمال سے ثابت ہے۔ قرآن کی آیات کے خلاف اس قدر شدید بحث کرنے والے صرف وہی ہوسکتے ہیں جو اہل بیت سے اس قدر نفرت کرتے ہیں کہ اللہ کے کلام کو بھی رد کر دیں۔[246]

دلیل قرآن  آیت 33:33 اور تجزیہ

قرآن کی آیت 33:33 سے شیعہ یہ مراد لیتے ہیں اہل بیت معصوم بلخطاء، ہیں ان کو اس  لحاظ سے کامل بنایا ہے کہ ان سے نہ کوئی غلطی ہو سکتی ہے، نہ کوئی بھول جا سکتی ہے اور نہ ہی کوئی گناہ۔ اس تشریح کی بنا پر شیعہ دعویٰ کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، علی رضی اللہ عنہ ، فاطمہ رضی اللہ عنہا ، حسن رضی اللہ عنہ ، حسین رضی اللہ عنہ ، اور دیگر۔ نو امام معصوم ہیں۔

لیکن کیا یہ آیت  33:33  درحقیقت کسی کو معصوم بناتی ہے؟ سب سے پہلے، اگر ہم یہ کہیں کہ یہ آیت لوگوں کو معصوم بناتی ہے، تو ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ یہ نبی کی ازواج مطہرات (رضی اللہ عنہم ) کو معصوم قرار دیتی ہے، کیونکہ اللہ (عزوجل ) نبی کی ازواج کو مخاطب کرتے ہیں۔ پوری آیات (قرآن، ,33:32سے 33:34) کا ترجمہ :

"اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وه کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو (32) اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اﻇہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکوٰة دیتی رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو۔ اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ اے نبی کی گھر والیو! تم سے وه (ہر قسم کی) گندگی کو دور کردے اور تمہیں خوب پاک کردے (33) اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور رسول کی احادیﺚ پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کرتی رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ لطف کرنے واﻻ خبردار ہے (33:34)[247] 

تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ :

حقیقت یہ ہے کہ ان آیات سے کسی کو معصوم الخطاء نہیں بنایا گیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد یہ نہیں تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو یہ یقین دلایا جائے کہ وہ پہلےہی پاک ہو چکی ہیں، بلکہ یہ شرط عائد کرنا تھی کہ اگر وہ آپ کی اطاعت کریں گی تو وہ ان سے تمام مکروہات کو دور کر دے گا اوراس طرح انہیں پاک کر دے گا۔ وہ صرف اس صورت میں ان کو پاک کرنا چاہتا تھا جب وہ اس شرط پر پورا اتریں، یعنی جب وہ گھر سے باہر ہوں تو حجاب پہنیں (یعنی شاندار نمائش نہ کریں) اور نماز کے ساتھ ساتھ صدقہ بھی کریں۔ اگر ہم سیاق و سباق کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ( عز و جل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو وہ تمام ہدایات دے رہے تھے جن کا اللہ نے انہیں حکم دیا تھا اور جس چیز سے منع کیا تھا اس سے پرہیز کریں۔ اس طرح اس نے انہیں آگاہ کیا کہ اگر وہ اس کے احکام پر عمل کریں اور جس چیز سے اس نے منع کیا ہے اس سے پرہیز کریں تو وہ ان سے تمام مکروہات کو دور کرکے انہیں پاکیزہ اور بے داغ بنا دے گا۔

واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سے لوگوں کو مخاطب کرنے کے لیے اس طرزِ تقریر کا استعمال کیا ہے۔ درج ذیل آیت پر غور کریں:

’’اللہ تمہیں تنگی میں ڈالنا نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاکیزہ بنائے (لِيُطَهِّرَكُمْ) اور تم پر اپنی نعمت پوری کرے تاکہ تم شکر گزار بنو۔‘‘ (قرآن، 5:6)[248]

اس آیت میں اللہ (عزوجل ) مومن کے بارے میں فرما رہے ہیں۔ کیا ہم واقعی یہ نتیجہ اخذ کریں کہ اب اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو بالکل پاک و پاکیزہ بنا دیا ہے؟ درحقیقت اس میں وہ اہم مشروط بیان غائب ہے جو اللہ (عزوجل) فرما رہا ہے۔

دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’اللہ چاہتا ہے کہ تم پر واضح کرے اور تم سے پہلے لوگوں کے احکام تمہیں دکھا دے‘‘۔ (قرآن، 4:26) [249]

وہ یہ بھی کہتا ہے: ’’ اللہ چاہتا ہے کہ تمہاری (مشکلات) کو ہلکا کرے ، کیونکہ انسان (جسم میں) کمزور پیدا کیا گیا ہے۔‘‘ (قرآن، 4:28)[250]

مندرجہ بالا آیات میں اللہ تعالیٰ کی خواہش کا اظہار اس کے احکام کی وفاداری، اس سے محبت کرنے اور اسے راضی کرنے کی شرط کے طور پر آتا ہے ۔ ورنہ اس شرط کو پورا کیے بغیر اس کی خواہش حقیقت میں نہیں آئے گی، (یعنی طہارت نہیں ہوگی)۔ اسی طرح دوسری آیت  (قرآن، 2:222)[251] بھی ہے -

اللہ (عزوجل) اسی طرح بہت سی دوسری قرآنی آیات میں اپنے بندوں کو مخاطب کرتا ہے۔ لہٰذا اگر ہم یہ دعویٰ کریں کہ اہل بیت کو پاک کرنے میں اللہ تعالیٰ کا مقصد ان کو معصوم الخطاء بنانا تھا، تو یہ قرآنی آیت کی پیروی کرتے ہوئے ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: عز وجل ) تو ان کو پاک کرنے کی خواہش کرتا ہے۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے افراد کو پاک کرنے کی اپنی خواہش کے بارے میں بتایا، اسی طرح اس نے مومنوں کو بھی پاک کرنے کی اپنی خواہش سے آگاہ کیا۔ لہٰذا اگر ہم فرض کریں کہ اللہ (عزوجل ) نے مومنین کو پاک کرنے کا ارادہ کیا ہے تو اس کا مقصد ان کو معصوم الخطاء  بنانا ہے تو تمام مخلص متقی مومنین عیب اور گناہ سے بے نیاز ہیں۔ (یقیناً، یہ غلط ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ ان آیات میں سے کوئی بھی کسی کو معصوم نہیں بناتی۔)

مذکورہ بالا آیت (33:33)[252] میں جس تزکیہ کا ذکر کیا گیا ہے، اس کا مقصد کسی کو معصوم الخطاء  بنانا نہیں تھا، بلکہ اس کا مقصد پچھلے گناہوں کا کفارہ ہے جیسے ہم حج پر جاتے ہوئے اپنے گناہوں کا کفارہ پاتے ہیں۔ یہ اسلوب قرآن میں بہت زیادہ استعمال ہوا ہے۔ ہم قرآن میں پڑھتے ہیں: "آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو (تُطَهِّرُهُمْ) پاک صاف کردیں اور ان کے لیے دعا کیجئے، بلاشبہ آپ کی دعا ان کے لیے موجب اطمینان ہے اور اللہ تعالیٰ (قرآن، 9:103)[253]

ہمیں کبھی کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا جو یہ کہے کہ مذکورہ بالا آیات میں تزکیہ نفس کا مقصد پیغمبر کے اہل بیت یا اہل ایمان کو معصوم بنانا تھا۔

مزید برآں، اور اس پر کافی زور نہیں دیا جا سکتا، شیعہ لفظ (وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا) "پاک" کے معنی میں مبالغہ آرائی کر رہے ہیں۔ اللہ (عزوجل ) نے ان کو پاک اور بے داغ بنانا چاہا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ معصوم ہیں! الفاظ "خالص" اور "معصوم" قابل تبادلہ نہیں ہیں۔ یقیناً شیعوں کو اس بات پر متفق ہونا پڑے گا کہ سلمان فارسی (رضی اللہ عنہ) اور اسلام کے دوسرے عظیم ہیروز کو پاک مانا جاتا ہے، لیکن ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ معصوم ہیں۔ شیعہ کہیں گے کہ ان کے آیت اللہ پاک ہیں، لیکن چند لوگ کہتے ہیں کہ وہ معصوم ہیں۔ اسی طرح قرآن مجید کی یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو مخاطب کر رہی ہے )، ان کے خالص ہونے کا وعدہ کرتے ہیں، لیکن یہ کسی بھی طرح سے ان کو معصوم الخطا نہیں کرتا ۔ یہ ایک دوسری صورت میں براہ راست قرآنی آیت کے متن میں پڑھنا ہوگا۔

حدیث غدیر خم کی حقیقت

غدیر خم کی حدیث پر بحث کرنا اس مخصوص سیاق و سباق کو سمجھے بغیر ناممکن ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا تھا۔ یہ اسلامی اصول سے متعلق ایک عام اصول ہے: اس پس منظر کو جاننا ضروری ہے جس میں کوئی قرآنی آیت نازل ہوئی یا کوئی خاص حدیث کہی گئی۔ مثال کے طور پر، قرآنی آیت "انہیں جہاں بھی پاؤ قتل کرو" اکثر مستشرقین اسے غلط طریقے سے ظاہر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں گویا اسلام لوگوں کو  ہر وقت جہاں کہیں بھی پاؤ قتل کرنے کی وکالت کرتا ہے ۔ البتہ اگر ہم دیکھیں کہ یہ آیت کب نازل ہوئی تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ خاص طور پر مسلمانوں اور مشرکین قریش کے درمیان لڑائی کے دوران نازل ہوئی تھی۔ اس سے ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ لوگوں کو قتل کرنے کا عام حکم نہیں ہے بلکہ یہ ایک مخصوص صورت حال میں نازل ہونے والی آیت ہے۔

اسی طرح "غدیر خم کی حدیث"[254] کو صرف اسی تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے جس میں کہا گیا تھا: سپاہیوں کا ایک گروہ علی ابن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) کو ایک خاص بات پر سخت تنقید کا نشانہ بنا رہا تھا اور یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی۔ جس نے پھر وہی کہا جو حدیث غدیر خم میں کہا ۔ مستشرقین کی طرح، شیعہ پروپیگنڈہ کرنے والے اس پس منظر کے سیاق و سباق کو ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں جس میں حدیث کہی گئی تھی تاکہ بالکل مختلف (اور گمراہ کن) تصویر پینٹ کی جا سکے۔

غدیر خم کے موقع پر جو کچھ آپ نے فرمایا اس کے پیچھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کرنا ہرگز نہیں تھا بلکہ یہ صرف علی رضی اللہ عنہ کے خلاف کہے جانے والے بہتان سے دفاع کرنا تھا۔ پس منظر کے سیاق و سباق کو ہٹانے سے ہی متن کی شیعہ تفہیم پیش کرنا ممکن ہے۔ اس لیے ہمیں ہمیشہ اپنے شیعہ بھائیوں کو اس پس منظر کے حوالے سے یاد دلانا چاہیے جس میں غدیر خم کی حدیث کہی گئی تھی۔

"غدیر خم" کی شیعہ کے لیے اہمیت

شیعہ کا دعویٰ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم نامی جگہ پر علی ( رضی اللہ عنہ ) کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ اس سے پہلے کہ ہم اپنے شیعہ بھائیوں کے ساتھ واقعہ غدیر خم پر بحث کریں، ہمیں پہلے اس طرح کی بحث کی حدود متعین کرنی چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں، ہمیں“set the stakes”" کرنا چاہئے:

(1) اگر شیعہ غدیر خم کے اپنے بیانیہ کو ثابت کرسکتے ہیں تو یقیناً علی (رضی اللہ عنہ ) کو پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے الله تعالی  کی طرف سے (امام / خلیفه ) مبعوث کیا تھا اور شیعہ مسلک صحیح ہے۔

(2) البتہ اگر اہل سنت اس خیال کو غلط ثابت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے علی رضی اللہ عنہ کو غدیر خم میں (امام / خلیفه) مبعوث کیا ہے تو ہمارے شیعہ بھائیوں کو اس پر آمادہ ہونا چاہیے۔ اس حقیقت کو قبول کریں کہ علی رضی اللہ عنہ کو کبھی بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مقرر نہیں کیا گیا تھا اور اس لیے پورا شیعہ عقیدہ باطل ہے۔

ہمیں اس بات کو شروع سے ہی واضح کرنے کی ضرورت یہ ہے کہ شیعہ پروپیگنڈہ کرنے والوں کے پاس یہ غیر معمولی صلاحیت ہے کہ جب بھی وہ کسی بحث میں ہار جاتے ہیں تو گول پوسٹوں (goal posts) کو حرکت دیتے ہیں۔ وہ ایک موضوع سے دوسرے موضوع پر جائیں گے۔ اگر وہ غدیر خم کی بحث میں ہار گئے تو "دروازے[255] کا واقعہ" پیش کریں گے یا "سقیفہ[256]" یا "فدک"[257] یا کون جانے اور کیا ہے!(شیعہ سوالوں کے جوابات- لنک[258])

شیعہ مذہب کی پوری بنیاد واقعہ غدیر خم پر ہے کیونکہ ان کے مطابق  یہیں پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے علی (رضی اللہ عنہ ) کو اپنا جانشین نامزد کیا تھا۔ اگر یہ شیعوں کے دعوے کے مطابق درست نہیں، تو پیغمبرﷺ نے کبھی بھی علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بعد  حکمران نامزد  نہیں کیا تو شیعہ کو اپنے تمام دعووں کو ترک کرنا چاہیے، جیسا کہ ابوبکر (رضی اللہ)  کے متعلق ان کا کا خیال کہ انہوں ںے علی رضی اللہ عنہ کی اللہ  کی مقرر کردہ خلافت پر قبضہ کر لیا ۔

درحقیقت، غدیر خم کا واقعہ شیعہ مذھب کے لیے اس قدر مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور شیعہ الہیات کے لیے اس قدر اہم ہے کہ شیعہ عوام ایک سالانہ جشن مناتے ہیں جسے "عید غدیر" کہا جاتا ہے۔

شیعہ دعووں کے برعکس "غدیر خم" [259]کی حدیث کا خلافت یا امامت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے بجائے، پیغمبرﷺ  صرف علی رض کی حمایت میں لوگوں کے ایک گروہ کی تردید کر رہے تھے جوعلی رض پر سخت الفاظ میں تنقید کر رہے تھے ۔ اس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو تاکید کی کہ علی رض رسول اللہ ﷺ  کی طرح تمام مسلمانوں کے مولا (پیارے دوست) ہیں۔ ان پر اور ان کے اہل و عیال پر رحمت نازل فرما )۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی رض کو خلیفہ کے طور پر نامزد کرنا چاہتے تو آپ ﷺ مکہ اور باقی مسلمانوں سے 250 کلومیٹر دور صحرا کے وسط[260] میں مدینہ واپسی کے سفر کے بجائے مکہ میں اپنے الوداعی خطبہ  حج میں ایسا کیا ہوتا جہاں تمام علاقوں سے مسلمانوں کا جم غفیر موجود تھا-

لفظ "مولا" کی تعریف

شیعہ کا دعویٰ ہے کہ یہاں لفظ "مولا" کا مطلب "آقا" (Master) ہے۔ اس لفظ کے اس غلط ترجمہ پر مبنی ہے کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین نامزد کیا تھا۔ درحقیقت، لفظ "مولا" - بہت سے دوسرے عربی الفاظ کی طرح, متعدد ممکنہ تراجم ہیں۔ شیعہ عام آدمی یہ جان کر حیران رہ سکتا ہے کہ واقعی لفظ "مولا" کی سب سے عام تعریف دراصل "خادم" ہے نہ کہ "آقا"۔ ایک سابق غلام جو نوکر بن جاتا ہے اور جس کا کوئی قبائلی تعلق نہیں ہے اسے مولا کہا جاتا تھا، جیسے سلیم جسے سالم مولا ابی حذیفہ کہا جاتا تھا کیونکہ وہ ابو حذیفہ کا خادم تھا۔

لفظ "مولا" کی مختلف تعریفیں دیکھنے کے لیے صرف عربی لغت کھولنے کی ضرورت ہے۔

"القاموس المحیط"

عربی لغت کی مشہور و مستند ترین کتاب "القاموس المحیط" میں اس لفظ مولیٰ کے مندرجہ ذیل ۲۱ معنی لکھے ہیں۔ المولى: (1) المالك(2) والعبد(3) والعتق(4) والمعتق(5) والصاحب(6) والقريب كابن العم ونحوه(7) والجار(8) والحليف(9) والابن(10) والعم(11) والنزيل(12) والشريك(13) وابن الاخت(14) والولى(15) والرب(16) والناصر(17) والمنعم(18) والمنعم عليه(19) والمحب(20) والتابع(21) والصهر

ان تمام الفاظ کا ترجمہ مصباح اللغات کی عبارت میں قاری ملاحظہ فرمائیں گے) اور عربی لغت کی دوسری مستند و معروف کتاب "اقرب الموارد" میں بھی لفظ مولیٰ کے یہی سب معنی لکھے گئے ہیں۔

لغت حدیث کی مشہور و مستند ترین کتاب "النهاية لابن الاثير الجزري فى غريب الحديث والاثر[261]" میں بھی قریبا یہ سب معنی لکھے گئے ہیں، علامہ طاہر پٹنی نے مجمع بحار الانوار میں نہایہ ہی کے حوالہ سے اس کی پوری عبارت نقل کر دی ہے۔

اسی طرح النھایہ میں لفظ مولا کے مختلف معانی بیان کیے گئے ہیں۔

رب (پرورش کرنیوالا) , مالک۔ سردار, انعام کرنیوالا, آزاد کرنیوالا, مدد گار, محبت کرنیوالا,  تابع (پیروی کرنے والا), پڑوسی, ابن العم (چچا زاد), حلیف (دوستی کا معاہدہ کرنیوالا ), عقید (معاہدہ کرنے والا ), صھر (داماد، سسر ) , غلام,  آزاد شدہ غلام, جس پر انعام ہوا, جو کسی چیز کا مختار ہو۔ کسی کام کا ذمہ دار ہو۔ اسے مولا اور ولی کہا جاتا ہے, جس کے ہاتھ پر کوئی اسلام قبول کرے وہ اس کا مولا ہے یعنی اس کا وارث ہوگا وغیرہ۔ (ابن اثير، النهايه، 5 : 228)[262]

مصباح اللغات جس میں عربی الفاظ کے معنی اردو زبان میں لکھے گئے ہیں، اس میں قریب قریب ان سب الفاظ کا ترجمہ آ گیا ہے جو "القاموس المحیط" اور "اقرب الموارد" وغیرہ مندرجہ بالا کتابوں میں لکھے گئے ہیں، ہم اس کی عبارت بعینہٖ ذیل میں درج کرتے ہیں: المولی = مالک و سردار، غلام آزاد کرنے والا، آزاد شدہ، انعام دینے والا جس کو انعام دیا جائے، محبت کرنے والا، ساتھی۔ حلیف پڑوسی، مہمان، شریک، بیٹا، چچا کا بیٹا، بھانجا، چچا، داماد، رشدہ دار، والی، تابع۔

قرآن اور احادیث کے مطالعہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ  "مولا" مختلف معنی میں استعمال ہوا ہے زیادہ تر مددگار -

قرآن اور "مولا"

 تحقیق کے مطابق لفظ "مولا "، قرآن میں 18 مرتبہ[263] مختلف صورت میں (مَوْلَاهُ ، مَوْلًى، مَوْلَاكُمْ، مَوْلَانَا،مَوْلَاهُمُ) استعمال ہوا ہے- 14 مرتبہ بمعنی: مددگار، حفاظت کرنے والا (protector)، دو مرتبہ رشتہ دار (relation) ایک مرتبہ آقا (master, 74:14), ایک مرتبہ (,10:30[264]True Master ,Lord)- زیادہ تر: اللہ بہترین مددگار ہے -

يَوْمَ لَا يُغْنِي مَوْلًى عَن مَّوْلًى شَيْئًا وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ ‎﴿٤١﴾‏

جس دن کوئی دوست (مَوْلًى) کسی دوست  (مَّوْلًى) کے کچھ کام نہیں آئے گا اور نہ ہی اُن کی مدد کی جائے گی۔ (قرآن:44:41)[265] مگر وہ جس پر اللہ رحم کرے ... (قرآن:44:42)

انسانوں کی دوستی اور مدد اس دنیا کے لئے ہے ، صرف اللہ ہی حقیقی مولا ہے- اس دنیا میں الله تعالی کے علاوہ انسان بھی ایک دوسرے کے مولا / مددگار /دوست ہو سکتے ہیں، مگر آخرت میں صرف مولا اللہ ہے

مومنین کا "مولا"  اللہ ہے  

بَلِ اللّٰہُ مَوۡلٰىکُمۡ ۚ وَ ہُوَ خَیۡرُ النّٰصِرِیۡنَ

تمہارا مولیٰ تو اللہ ہے اور وہ بہترین مددگار[266] ہے ﴿ قرآن :3:150﴾[267]

اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا (البقرة: 257) جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست  الله ہے

إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ ( الأعراف/ 196) میرا مددگار تو الله  ہی ہے ۔

وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ ( آل عمران/ 68) اور  الله مومنوں کا کار ساز ہے ۔

ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا (محمد/ 11) یہ اسلئے کہ جو مومن ہیں ان کا الله  کار ساز ہے ۔

نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ (الأنفال/ 40)  (الله) خوب حمائتی (نِعْمَ الْمَوْلى) اور خوب مددگار ہے ۔

وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى (الحج/ 78) اور اللہ  کے دین کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو وہی تمہارا دوست (مولا) ہے اور خوب (الْمَوْلى) دوست ہے ۔

 قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ (الجمعة/ 6) کہدو کہ اے یہود اگر تم کو یہ دعوٰی ہو کہ تم ہی اللہ  کے دوست ہو اور لوگ نہیں ۔

وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ ( التحریم/ 4) اور پیغمبر ( کی ایزا ) پر باہم اعانت کردگی تو اللہ  ان کے (مَوْلاهُ ) حامی اور ودست دار ہیں ۔

ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ ( الأنعام/ 62)

خلفاء راشدین بھی  رسول اللہ ﷺ کے "مولا"  قرآن  سے دلیل

فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ(قرآن: 66:4)

’’سو بے شک اللہ ہی اُن  (رسول اللہ ﷺ) کا مَوْلَاهُ (دوست و مددگار ہے)، اور جبریل اور صالح مومنین (وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ) بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مددگار ہیں۔‘‘

یہاں پر 'مولا' 'مدد گار' کے معنی میں استعمال ہوا ہے،  تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدد گار (مولا ) کون کون ہیں :

1)اللہ تعالیٰ، 2) جبریل علیہ السلام، 3) نیک مسلمان /صَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ 4) تمام فرشتے

الله تعالی مومنین کا مولا ہے اور اللہ کے اس فرمان کے مطابق  رسول اللہ ﷺ کے مولا (مددگاروں) میں  "صالح مومنین" بھی شامل ہیں -

کون "صالح مومنین" ہیں؟

ہم بظاہر اندازہ لگا سکتے ہیں مگر اصل باطنی حقیقت کا علم صرف الله تعالی کو ہے کہ عالم الغیب ہے-  اب ذرا  واپس "حصہ اول" کو چلتے ہیں، جب اللہ تعالی  ںے کچھ مومنین حضرات کو اس دنیا میں بزریعہ  رسول اللہ ﷺ جنت کی بشارت دے دی اور قرآن میں بھی ان کا ذکر فرمایا کہ الله تعالی السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ سے راضی ہو گیا-  تو یہ  "صالح مومنین"  رسول اللہﷺ کے "مولا " ہیں- ان کی نشاندہی کرنا مشکل نہیں یہ ہیں :

ایمان لانے میں سبقت والے(السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ)

وَ السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ (قرآن 9:100)

وہ مہاجر اور انصارجنہوں نے سب سے پہلے ایمان لانے میں سبقت کی اور وہ لوگ جنہوں نے "احسن طریق"[268] پر ان کی پیروی کی ، اللہ ان سب سے "راضی ہوا" اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ا للہ نے ان کے لئے ایسے باغات تیارکررکھے ہیں جن میں نہریں جاری ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے(قرآن 9:100)

چاروں خلفاء راشدین عشرہ مبشرہ ہیں جس کو شیعہ نہیں مانتے مگرچاروں کو قرآن سے رسول اللہ ﷺ کے مولا  ہونے کی بشارت مل جاتی ہے - لہذا اگر یہ نتیجہ نکالا جانے کہ  (السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ) جن میں خلفاء راشدین اور دوسرے صحابہ کرام بھی شامل ہیں وہ بھی  رسول اللہ ﷺ کے مولا ہیں تو یہ غلط نہ  ہو گا-

شیعہ[269] حضرات کی دلیل جس میں وہ "مولا " کا مطلب خلافت / حکمرانی سمجھتے یا جو کچھ بھی سمجھا جایے وہ صرف ایک فرد تک محدود  نہیں کم از کم چار(خلفاء راشدين (رضی الله عنھم ) بلکہ زیادہ صحابہ و صالح مومنین پر منطبق، لاگو  ہو جاتا ہے- اس کے علاوہ خلفاء راشدین کے فضائل پربہت زیادہ احادیث بھی موجود ہیں - لیکن اگر کسی  کو بغض ، پرخاش ہے اور کوئی دلیل نہیں قبول کرنا تو اس کا فیصلہ الله تعالی بروز قیامت فرمائیں گے- ہمیں یھاں نیک اعمال میں ایک دوسرے سے سبقت کی کوشش کرنا چاہینے[270]-

يَوْمَ لَا يُغْنِي مَوْلًى عَن مَّوْلًى شَيْئًا وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ ‎﴿٤١﴾‏

جس دن کوئی دوست (مَوْلًى) کسی دوست  (مَّوْلًى) کے کچھ کام نہیں آئے گا اور نہ ہی اُن کی مدد کی جائے گی۔ (قرآن:44:41)[271]

ان آیات قرآن سے ظاہر ہوتا ہے کہ "مولا " کسی صورت میں انسان کی دنیا میں بادشاہت یا حکمران کے طور پر استعمال نہیں ہوا-

احادیث  اور 'مولا '

 فرقان تو قرآن ہے- اب احادیث پیربھی نظر ڈالتے ہیں- خاص طور پر:

"غلام اپنے آقا سے (مَوْلَايَ فَإِنَّ مولاكم اللَّهُ) میرے مولا نہ کہے ، کیونکہ تمہارا مولا اللہ ہے ۔‘‘ (رواہ مسلم ) (مشکوٰۃ حدیث 4760)[272]

یہ حدیث "مولا " کو انسانوں کے لئے استعمال کرنے کومنع / منسوخ کرتی ہے جو کہ قرآن کی مندرجہ بالا آیات کے مطابق ہے (واللہ اعلم )

تو کیا حدیث ثقلین میں لفظ 'مولا' منسوخ ہو جاتا ہے؟

"مولا" الله تعالی ہے  

وَيَقُولُ:‏‏‏‏ يَا بُنَيِّ إِنْ عَجَزْتَ عَنْهُ فِي شَيْءٍ فَاسْتَعِنْ عَلَيْهِ مَوْلَايَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَوَاللَّهِ مَا دَرَيْتُ مَا أَرَادَ حَتَّى، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا أَبَتِ مَنْ مَوْلَاكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَوَاللَّهِ مَا وَقَعْتُ فِي كُرْبَةٍ مِنْ دَيْنِهِ إِلَّا، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا مَوْلَى الزُّبَيْرِ اقْضِ عَنْهُ دَيْنَهُ فَيَقْضِيهِ

"...... عبداللہ بن زبیر نے بیان کیا کہ پھر زبیر ؓ مجھے اپنے قرض کے سلسلے میں وصیت کرنے لگے اور فرمانے لگے کہ بیٹا! اگر قرض ادا کرنے سے عاجز ہوجاؤ تو میرے "مالک و مولا" سے اس میں مدد چاہنا۔ عبداللہ نے بیان کیا کہ قسم اللہ کی! میں ان کی بات نہ سمجھ سکا ‘ میں نے پوچھا کہ (قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا أَبَتِ مَنْ مَوْلَاكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُ، ‏) بابا آپ کے "مولا" کون ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ پاک! عبداللہ نے بیان کیا ‘ قسم اللہ کی! قرض ادا کرنے میں جو بھی دشواری سامنے آئی تو میں نے اسی طرح دعا کی ‘ کہ اے زبیر کے مولا! ان کی طرف سے ان کا قرض ادا کرا دے اور ادائیگی کی صورت پیدا ہوجاتی تھی۔ ... (البخاری, حدیث 3129)[273] ,(نسائی 5460, 5540) (معارف الحدیث 583)

ہم سب کا مولیٰ اللہ عزوجل ہے

غلام اپنے آقا (سید) کو میرا مولیٰ نہ کہے تمہارا سب کا مولیٰ اللہ عزوجل ہے۔( ماخوز ،صحیح مسلم، حدیث: 5876)[274](مشکوٰۃ، 4760)

" مولا" آزاد کردہ غلام کے  لیے استعمال کرنا

حدیث سے اقتباس ----  

رسول اللہ ﷺ  ںے:

1) پھر علی ؓ سے فرمایا (‏‏‏‏‏‏وَقَالَ لِعَلِيٍّ:‏‏‏‏ أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ، ) کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ [ علی ؓ  کو مولا نہیں کہا گیا ]

2) جعفر ؓ سے فرمایا (‏‏‏‏‏‏وَقَالَ لِجَعْفَرٍ:‏‏‏‏ أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي) کہ تم صورت اور عادات و اخلاق سب میں مجھ سے مشابہ ہو۔

3) زید ؓ سے فرمایا کہ (‏‏‏‏‏‏وَقَالَ لِزَيْدٍ:‏‏‏‏ أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلَانَا.) تم ہمارے بھائی بھی ہو اور ہمارے مولا بھی۔[275]

(زید ؓ   بن حارثہ ، آزاد کردہ غلام ) (صحيح البخاری حدیث نمبر 2699) ،

 مزید احادیث ، آزاد کردہ غلام کو "مولا" کہنا :(ماجہ : 6330, 6100,  662,1922) (موتا امام ملک 1497, 1685)

"السلام علیک یا مولانا"  پر حضرت علی کی حیرت

ریاح بن حارث کہتے ہیں کہ ایک گروہ " رحبہ " میں حضرت علی ؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا " السلام علیک یا مولانا " حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ میں تمہارا مولا کیسے ہوسکتا ہوں جبکہ تم عرب قوم ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے نبی کریم ﷺ کو غدیر خم کے مقام پر یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں جس کا مولا ہوں علی بھی اس کے مولا ہیں جب وہ لوگ چلے گئے تو میں بھی ان کے پیچھے چل پڑا اور میں نے پوچھا کہ یہ لوگ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ کچھ انصاری لوگ ہیں جن میں حضرت ابوایوب انصاری ؓ بھی شامل ہیں۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے[276]۔ ( مسند امام احمد - حدیث نمبر 22465)

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا حضرت علی رض کو اپنا مولا کہنا عوامی طور پران سے یکجہتی , محبت اور قربت کا اعزاز و اظہار تھا-

معلوم ہونا چاہئے کہ قرآن پاک کی کسی آیت یا حضور ﷺ کے کسی ارشاد میں یا کسی بھی فصیح و بلیغ کلام میں جب کوئی کثیر المعنی لفظ استعمال ہو تو خود اس میں یا اس کے سیاق و سباق میں ایسا قرینہ موجود ہوتا ہے جو اس لفظ کے معنی اور اس کی مراد متعین کر دیتا ہے  (جیسا کہ پہلے مثالوں سے ظاہر ہے).... اس زیر تشریح حدیث میں خود قرینہ موجود ہے، جس سے اس حدیث کے لفظ مولیٰ کے معنی متعین ہو جاتے ہیں، حدیث کا آخری دعائیہ جملہ ہے "اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ" (اے اللہ جو علی سے دوستی اور محبت رکھے تو اس سے دوستی اور محبت فرما، اور جو اس سے دشمنی رکھے، تو اس کے ساتھ دشمنی کا معاملہ فرما)۔ اس سے متعین طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ حدیث میں لفظ مولیٰ دوست اور محبوب کے معنی میں استعمال ہوا ہے، اور "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ" کا مطلب وہی ہے جو اوپر تشریح میں بیان کیا گیا ہے۔ پھر آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد جو کچھ ہوا، وہ اس بات کی روشن اور قطعی دلیل ہے کہ غدیر خم کے صحابہ کرام کے اس مجمع میں کسی فرد نے، خود حضرت علی مرتضیٰؓ اور ان کے قریب ترین حضرات نے بھی حضور کے اس ارشاد کا مطلب یہ نہیں سمجھا تھا کہ آنحضرت ﷺ اپنے بعد کے لئے ان کی خلافت و حاکمیت اور امت کی امامت عامہ کا اعلان فرما رہے ہیں، اگر خود حضرت علی مرتضیٰؓ نے اور ان کے علاوہ جس نے بھی ایسا سمجھا ہوتا، تو ان کا فرض تھا کہ جس وقت خلافت کا مسئلہ طے ہو رہا تھا تو یہ لوگ کہتے کہ ابھی صرف ستر (70) بہتر (72) دن پہلے غدیر خم کے موقعہ پر حضور ﷺ نے حضرت علیؓ کو اپنا خلیفہ اور جانشین بنا دیا تھا اور اہتمام سے اس کا اعلان فرمایا تھا الغرض یہ مسئلہ خود حضورﷺ طے فرما گئے ہیں اور حضرت علیؓ کو اپنے بعد کے لئے خلیفہ نامزد فرما گئے ہیں، اب وہی حضورﷺ کے خلیفہ اور آپﷺ کی جگہ امت کے حکمران اور سربراہ ہیں ....

اس طرح یہ حقیقت میں ناقابل یقین ہے کہ شیعہ اس کا ترجمہ خلیفہ اور امام سے کر سکتے ہیں جبکہ سیاق و سباق کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

الجزری نے النہایہ میں کہا:

حدیث میں لفظ مولا کثرت سے آیا ہے اور یہ ایک ایسا نام ہے جس کا اطلاق بہت سے لوگوں پر ہوتا ہے۔ یہ رب، مالک، آقا، احسان کرنے والے، غلام کو آزاد کرنے والے، حمایتی، دوسرے سے محبت کرنے والے، پیروکار، پڑوسی، چچا زاد بھائی سے مراد ہو سکتا ہے۔ پھوپھی)، حلیف، سسر، غلام، آزاد کردہ غلام، جس پر احسان کیا ہو۔ ان میں سے زیادہ تر معانی مختلف احادیث میں مذکور ہیں، لہٰذا اسے حدیث امامت یا خلافت کا مطلب نکلنا درست نہیں- اتنے اہم عقیده کو  رسول اللہﷺ کھول کر واضح بیان فرماتے نہ کہ مبہم انداز میں، دراصل انہوں صف بات کی جس کو غلط معنی پہنانے کی کوشش بے سود ہے-

علی (رضی الله) کی  طرح کی تعریف دوسرے صحابہ کے لیے

یہ حقیقت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رض کو "مولا" (پیارے دوست) کے طور پر حوالہ دیا ہے، علی رض کی بطور خلیفہ نامزدگی کے ثبوت کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا ۔ اسی طرح بہت سے دوسرے صحابہ کی تعریف کی گئی تھی، لیکن کوئی بھی ان نصوص کو یہ نہیں سمجھتا ہے کہ یہ دوسرے صحابہ کرام الہٰی مقرر کردہ معصوم امام ہیں۔ آئیے مثال کے طور پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے متعلق حدیث کی مثال لیتے ہیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے بعد حق عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہے وہ جہاں کہیں بھی ہیں۔ (حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن الخطاب ہوتا۔ (سنن الترمذی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سب سے پہلے جس سے حق مصافحہ کرے گا وہ عمر رضی اللہ عنہ ہیں" (ابی بن کعب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے امتوں میں الہام ہوئے اور اگر میری امت میں کوئی ہے تو وہ عمر ہیں۔ (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں)

اس طرح کی احادیث  سب صحابہ کی سربلندی، فضائل کے دلائل ضرور ہیں لیکن ان سے خلافت کے لیے پیغمبری کی نامزدگی نہیں ہوتی اور یہ یقینی طور پر اللہ کی طرف سے تقرری کا کوئی احساس نہیں دلاتے ہیں۔

اب ہم حدیث میں دوسرا اضافہ دیکھتے ہیں، یعنی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اس سے دوستی رکھے اس سے دوستی کرو اور جو اس سے دشمنی رکھے اس سے دشمنی کرو۔

شیعہ پھر اس حدیث کو ان صحابہ پر تنقید کرنے کے لیے استعمال کریں گے جنہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے بحث کی تھی ، اور کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے صحابہ کے بارے میں بھی ایسی ہی باتیں کہی ہیں؟ مثال کے طور پر ہم درج ذیل حدیث پڑھتے ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو عمر سے ناراض ہے وہ مجھ سے ناراض ہے۔ جو عمر سے محبت کرتا ہے وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ (طبرانی)

درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات صرف علی رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہی نہیں بلکہ اپنے تمام صحابہ کے بارے میں کہی ہے :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ، اللہ! میرے صحابہ کے بارے میں اس سے ڈرو! میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا! جو ان سے محبت کرتا ہے وہ مجھ سے اپنی محبت کے ساتھ ان سے محبت کرتا ہے۔ اور جو ان سے نفرت کرتا ہے اس نے مجھ سے بغض رکھتے ہوئے ان سے نفرت کی۔ جو ان کے لیے دشمنی رکھتا ہے، وہ میرے لیے دشمنی رکھتا ہے۔ اور جس نے میری دشمنی کی اس نے اللہ کے لیے دشمنی کی۔ جو اللہ کے لیے دشمنی کرے گا وہ ہلاک ہونے والا ہے۔‘‘ (ترمذی نے عبداللہ بن مغفل سے روایت کی ہے، احمد نے اپنی مسند میں تین اچھی سندوں کے ساتھ، البخاری نے اپنی تاریخ میں، بیہقی نے شعب الایمان میں، اور دیگر۔ سیوطی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ جامع الصغیر 1442)۔

شیعہ نے غدیر خم کے واقعہ کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا ہے۔ غدیر خم کی حدیث کا امامت یا خلافت سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو واضح طور پر یہ بیان کرنے سے کوئی چیز نہیں روکتی تھی کہ بجائے اس کے کہ لفظ "مولا" استعمال کیا جائے جسے ہر کوئی جانتا ہے۔ مطلب "پیارے دوست"۔ مزید برآں، اور اس نکتے پر کافی زور نہیں دیا جا سکتا، غدیر خم[277] مکہ سے 250 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو نامزد کرنے کا ارادہ کیا ہوتا تو آپ بڑے اجتماع میں ایسا کرتے۔ عرفات کی چوٹی پر اپنے الوداعی خطبہ کے دوران ہر شہر کے تمام مسلمانوں کے سامنے۔

پورا شیعہ بیانیہ  اس ناقص اور آسانی سے قابل تردید خیال پر مبنی ہے کہ "غدیر خم" ایک مرکزی مقام تھا جہاں تمام مسلمان علیحدگی اور اپنے اپنے گھروں کو جانے سے پہلے اکٹھے ہوتے تھے۔ درحقیقت صرف مدینہ کی طرف جانے والے مسلمان ہی غدیر خم سے گزریں گے، نہ کہ مکہ، طائف، یمن وغیرہ میں رہنے والے مسلمان۔ چند سو سال پہلے عوام کو آسانی سے گمراہ کیا جا سکتا تھا کیونکہ غدیر خم کہاں ہے یہ معلوم کرنے کے لیے نقشے کی دستیابی آسان نہ تھی اور انھوں نے محض اس تصور کو قبول کیا ہوگا کہ یہ مسلمانوں کے الگ ہونے سے پہلے ان کے لیے ملاقات کی جگہ تھی۔ لیکن آج انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے دور میں درست نقشے ہماری انگلیوں پر ہیں اور کسی بھی معقول شخص کو خرافات سے بیوقوف نہیں ہونا چاہیے۔

ہم نے دکھایا ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے علی (رضی اللہ عنہ ) کو غدیر خم میں شیعہ دعویٰ کے طور پر نامزد نہیں کیا تھا (اور نہ ہو سکتا تھا )۔ یہی شیعوں کی بنیاد ہے جس کے بغیر ان کے عقیدے کی کوئی بنیاد نہیں ہے: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ کے لیے نامزد نہ کیا تو پھر شیعہ مزید دعویٰ نہیں کر سکتے۔ کہ ابوبکر (رضی اللہ عنہ ) نے علی (رضی اللہ عنہ) کے خدائی طور پر طے شدہ عہدہ کو غصب کیا ۔ اور اس کے ساتھ ہی پوری شیعیت اپنے آپ پر ٹوٹ پڑتی ہے، یہ سب کچھ غدیر خم کو مکہ سے الگ کرنے اور شیعیت کو حقیقت سے الگ کرنے کے لیے ایک بے حساب 250 کلومیٹر کی وجہ سے ہے-

یہ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ نہ حضرت علیؓ نے یہ بات (مولا ) کہی اور نہ کسی اور نے، سبھی نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو آنحضرت ﷺ کا خلیفہ اور جانشین تسلیم کر کے بیعت کر لی۔

 بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اگر شیعہ علماء کی یہ بات مان لی جائے کہ حضورﷺ نے غدیر خم کے اس خطبہ میں "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ" فرما کر حضرت علی مرتضیٰؓ کی خلافت و جانشینی صاف صاف اعلان فرمایا تھا تو معاذ اللہ حضرت علی ؓ سب سے بڑے مجرم ٹھہریں گے کہ انہوں نے حضور ﷺ کی وصال کے بعد اس کی بنیاد پر خلافت کا دعویٰ کیوں نہیں فرمایا؟

ان کا فرض تھا کہ حضور ﷺ کی اس تجویز کی تنقید اور اس فرمان و اعلان کو عمل میں لانے کے لئے میدان میں آتے اگر کوئی خطرہ تھا تو اس کا مقابلہ فرماتے۔


شیعہ کو امامت کی دلیل بھی قرآن کو چھوڑ کر، ایک  یہودی سےحاصل کرنا بھی قابل حیرت ہے، کہتے ہیں:

"نعثل نامی یہودی نے رسول اللہ(ص) سے عرض کیا: ہمیں اپنے جانشین سے آگاہ کریں، کیونکہ کوئی بھی ایسا پیغمبر نہیں ہے جس کا کوئی جانشین نہ ہو اور ہمارے نبی (موسی) نے یوشع بن نون کو اپنا وصی اور جانشین قرار دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے جواب دیا: بے شک میرے بعد میرے وصی اور خلیفہ علی بن ابی طالب ہیں اور ان کے بعد ان کے دو بیٹے حسن اور حسین اور ان کے بعد نو مزید امام ہیں جو حسین بن علی کی صلب سے ہیں۔ نعثل نے کہا: اے محمد(ص)! ان نو جانشینوں کے نام بھی میرے لیے بیان کریں۔ اور رسول اللہ(ص) نے ان کے نام بھی بیان فرمائے"[1] 

[1]   ا ب پ Madelung، Wilferd. "ḤASAN B. ʿALI B. ABI ṬĀLEB". Encyclopaedia Iranica. اخذ شدہ بتاریخ 06 جولایئی 2012.، https://ur.wikipedia.org/wiki/امامت_(اہل_تشیع) 

 رسول اللہ ﷺ  ںے ایک اہم ترین حکم اپنے قریب ترین جانثار صحابہ کرام کو چھوڑ کر ، حتی کہ حضرت علی (رضی الله )  کو بھی نہیں بتلایا اور ایک یہودی کو بتایا (خفیہ طور پر کہ کسی اور صحابی کو علم نہ ہوا؟) جن کی تقلید سے اتنی نفرت و ممانعت فرمائی کہ صَلَاة‎  جوتوں کے ساتھ پڑھتے تھے کیونکہ یہود جوتے اتا کر پڑھتے تھے ، یہود کے الٹ کرو-  اس دلیل کے باطل و گمراہ کن ہونے  پر مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کہ کذب صاف ظاہر ہے:

[پڑھیں : مسلمان بھی یہود و نصاری کے نقش قدم پر]

عرباض بن ساریہ ؓ کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایسی نصیحت فرمائی جس سے ہماری آنکھیں ڈبدبا گئیں، اور دل لرز گئے، ہم نے کہا: اللہ کے رسول! یہ تو رخصت ہونے والے کی نصیحت معلوم ہوتی ہے، تو آپ ہمیں کیا نصیحت کرتے ہیں؟ 

آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے تم کو ایک ایسے صاف اور روشن راستہ پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے، اس راستہ سے میرے بعد صرف ہلاک ہونے والا ہی انحراف کرے گا، تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سارے اختلافات دیکھے گا، لہٰذا میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت سے جو کچھ تمہیں معلوم ہے اس کی پابندی کرنا، اس کو اپنے دانتوں سے مضبوطی سے تھامے رکھنا، اور امیر کی اطاعت کرنا، چاہے وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ مومن نکیل لگے ہوئے اونٹ کی طرح ہے، جدھر اسے لے جایا جائے ادھر ہی چل پڑتا ہے (ماجہ 43)

الله تعالی کا فرمان ہے :

لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ(قرآن:‎(8:42

تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً اللہ  سُننے والا اور جاننے والا ہے (قرآن : ‎(8:42


 حضرت علی ؓ  کے پڑپوتے کا جواب لاجواب

یہی بات حضرت حسن ؓ کے پوتے حسن مثلث[278] (حضرت ابو علی حسن مثلث بن حسن مثنی بن حسن سبط بن علی بن ابی طالب ہاشمی قریشی (77ھ – 145ھ) نے اس شخص کے جواب میں فرمائی تھی جو حضرت علی مرتضیٰؓ کے بارے میں رافضیوں والا غالیانہ عقیدہ رکھتا تھا اور حضور ﷺ کے ارشاد (من کنت مولاہ فعلی مولاہ) کے بارے میں کہتا تھا کہ اس ارشاد کے ذریعہ آنحضرتﷺ نے حضرت علی مرتضیٰؓ کو خلیفہ نامزد فرمایا تھا، تو حضرت حسن مثلث نے اس شخص سے فرمایا تھا:

ولو كان الامر كما تقولون ان الله جل وعلى ورسوله صلى الله عليه وسلم اختار عليا لهذا الامر والقيام على الناس بعده فان عليا اعظم الناس خطيئة وجر ما اذ ترك امر رسول الله صلى الله عليه وسلم۔

ترجمہ: اگر بات وہ ہو جو تم لوگ کہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام نے علیؓ کو رسول کے بعد خلافت کے لئے منتخب اور نامزد فرما دیا تھا تو علیؓ سب سے زیادہ خطاکار اور مجرم ٹھہریں گے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے حکم کی تعمیل نہیں کی۔ اور جب اس شخص نے حضرت حسن مثلث رح سے یہ بات سن کر اپنے عقیدہ کی دلیل میں رسول اللہ ﷺ کے ارشاد "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ" کا حوالہ دیا تو حضرت حسن مثلث رح  نے فرمایا:

"اما و الله لو" يعني رسول الله صلى الله عليه و سلم بذالك الامر و السلطان و القيام على الناس لا فصح به كما افصح بالصلاة و الزكاة و الصيام و الحج ولقال ايها الناس ان هذا الولي بعدي اسمعوا واطيعوا.

تشریح:  سن لو! میں اللہ کی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ اگر رسول اللہ ﷺ کا مقصد علی مرتضیٰؓ کو خلیفہ اور حاکم بنانا ہوتا تو بات آپ ﷺ اسی طرح صراحت اور وضاحت سے فرماتے جس طرح آپ ﷺ نے نماز، زکوٰۃ، روزوں اور حج کے بارے میں صراحت اور وضاحت سے فرمایا ہے اور صاف صاف یوں فرماتے کہ اے لوگو! یہ علی میرے بعد ولی الامر اور حاکم ہوں گے لہٰذا تم ان کی بات سننا اور اطاعت و فرمانبرداری کرنا۔[279]

حضرت ابو علی حسن مثلث بن حسن مثنی بن حسن سبط بن علی بن ابی طالب ہاشمی قریشی (77ھ – 145ھ) کا فرمان،  (قرآن 3:7)[280] کے عین مطابق ہے، احکام، ذو معنی الفاظ احادیث سے نہیں، قرآن میں  واضح ترین الفاظ میں دیے جاتے ہیں،  رسول اللہ ﷺ ان کی تفصیل بتلاتے ہیں تاکہ کسی قسم کا شک و شبہ نہ رہ جاینے- احکام پرعمل کرنے یا نہ کرنے پر جنت و دوذخ کا فیصلہ ہونا ہے یہ دو ٹوک ہوتے ہیں-  جو کوئی  (قرآن 3:7) کو نظر انداز کرے گا وہ گمراہی سے بچ نہیں سکتا، تمام فرقے، تمام بدعة ، ضلالہ ، فتنہ کی جڑ  (قرآن 3:7) کو نظر انداز کرکہ اپنی تاویلات کرنا ہے-

حضرت علیؓ سے مروی ایک طویل حدیث میں نبی کریم  نے ارشاد فرمایا:

’’جو شخص غیر قرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، وہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط رسی ہے اور وہ ایک محکم اور مضبوط ذکر ہے اور وہ ایک سیدھا راستہ ہے …‘‘(ترمذی 2906)

امامت کا شیعہ عقیده قرآن میں موجود نہیں-

 رسول اللہ ﷺ کا مقصد اس ارشاد سے کیا تھا؟

اس کے بعد یہ بات وضاھت طلب رہ جاتی ہے کہ پھر رسول اللہ ﷺ کا مقصد اس ارشاد سے کیا تھا اور حضرت علی مرتضیٰؓ کے بارے میں اس خطاب میں آپ ﷺ نے یہ بات کس خاص وجہ سے اور کس غرض سے فرمائی؟

جیسا کہ پہلے ذکر کیا، اصل واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حجۃ الوداع سے کچھ عرصہ پہلے حضرت علی مرتضیٰؓ کو قریبا تین سو افراد کی جمیعت کے ساتھ یمن بھیج دیا تھا، وہ حجۃ الوداع میں یمن سے مکہ مکرمہ آ کر ہی رسول اللہ ﷺ سے ملے تھے، یمن کے زمانہ قیام میں ان کے چند ساتھیوں کو ان کے بعض اقدامات سے اختلاف ہوا تھا، وہ لوگ بھی حجۃ الوداع میں شرکت کے لئے ان کے ساتھ ہی مکہ مکرمہ آئے تھے، یہاں آ کر ان میں سے بعض لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے بھی اپنے احساس و خیال کے مطابق حضرت علیؓ کی شکایت کی اور دوسرے لوگوں نے بھی ذکر کر دیا ..... بلا شبہ یہ ان کی بہت بڑی غلطی تھی۔ آنحضرت ﷺ سے جن لوگوں نے شکایت کی،  رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی مرتضیٰؓ کا عنداللہ اور دین میں جو مقام و مرتبہ ہ ان کو بتلا کر اور ان کے اقدامات کی تصویب اور توثیق فرما کر ان کے خیالات کی اصلاح فرما دی، لیکن بات دوسرے لوگوں تک بھی پہنچ چکی تھی، شیطان ایسے موقعوں سے فائدہ اٹھا کر دلوں میں کدورت اور افتراق پیدا کر دیتا ہے۔

آنحضرت ﷺ کو جب اس صورت حال کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے ضرورت محسوس فرمائی کہ حضرت علی مرتضیٰؓ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے محبوبیت اور مقبولیت کا جو مقام حاصل ہے اس سے عام لوگوں کو آگاہ فرما دیں اور اس کے اظہار و اعلان کا اہتمام فرمائیں .... اسی مقصد سے آپ ﷺ نے غدیر خم کے اس خطبہ میں جس کے لئے آپ ﷺ نے اپنے رفقاء سفر صحابہ کرامؓ کو جمع فرما دیا تھا، خاص اہتمام سے حضرت علیؓ کا ہاتھ اپنے دست مبارک میں لے کر ارشاد فرمایا تھا:

"مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ" جیسا کہ تفصیل سے اوپر ذکر کیا جا چکا ہے آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کا مطلب یہی ہے کہ "میں جس کا محبوب ہوں یہ علیؓ بھی اس کے محبوب ہیں لہذا جو مجھ سے محبت کرے اس کو چاہئے وہ ان علی سے بھی محبت کرے"،

آگے آپ ﷺ نے دعا فرمائی، اے اللہ جو بندہ علی سے محبت و موالاۃ کا تعلق رکھے اس سے تو محبت و موالاۃ کا معاملہ فرما اور جو کوئی علی سے عداوت رکھے اس کے ساتھ عداوت کا معاملہ فرما، جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا گیا یہ دعائیہ جملہ اس کا واضح قرینہ ہے کہ اس حدیث میں مولیٰ کا لفظ محبوب ہے اور دوست کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ الغرض رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ ..... الخ" کا مسئلہ امامت و خلافت سے کوئی تعلق نہیں۔

حدیث غدیر خم ... مزید تفصیل لنک[281] ....

امام بطور امام پیدا ہوتے ہیں، پیدائشی معصوم الخطاء (پاک) ہیں

شیعہ الہیات میں ایک اور تضاد یہ ہے کہ شیعہ اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے امام بطور امام پیدا ہوئے ہیں۔ وہ پیدائش سے پاک ہیں اور اپنی زندگی میں کبھی گناہ نہیں کر سکتے۔ یہ شیعہ عقیدہ کا ایک مرکزی حصہ ہے، اور ایک وجہ ان کا دعویٰ ہے کہ غار میں ایک چھوٹا لڑکا امام مہدی ہونا ہے، کیونکہ وہ خالص پیدا ہوا ہے۔ تو پھر آیت 33:33[282] کیوں نازل ہوگی، جو واضح طور پر اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ علی کو اللہ (عزوجل) ان کے گناہوں سے پاک کر رہا ہے-

سوال یہ ہے کہ اگر وہ معصوم امام پیدا ہوا تو پھر کیسے  گناہ گار ہیں؟ ہم عیسائیوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر عیسیٰ ( علیہ السلام) بائبل میں اللہ (عزوجل) سے معافی کیوں مانگتے ہیں تو وہ معصوم ہیں؟ ایسی بہت سی بائبل کی آیات ہیں جن میں حضرت (عیسیٰ علیہ السلام) "باپ" سے مغفرت کی دعا کر رہا ہے۔[283] بے شک معصوموں کے پاس معافی یا تزکیہ طلب کرنے کے لیے کوئی گناہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ پہلے گناہ نہیں کرتے!

(آیت قرآن :33:33) کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تزکیہ ہو چکا ہے، بلکہ یہ واضح طور پر اللہ تعالیٰ کی مرضی پر زور دیتی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخلص بیویوں کو پاک کرے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قریبی رشتہ داروں اور دیگر رشتہ داروں کے لیے تزکیہ کی آیت میں شامل ہونے کی دعا کرنے کے لیے بے چین تھے، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت کا وعدہ کیا گیا ہو۔ اسی طرح انہوں نے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو بھی اپنی اہل بیت میں شامل کیا۔

اور ہم پوچھتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے علی کے خاندان کو پاکیزہ اور بے داغ بنانے کے لیے کتنی بار اللہ تعالیٰ سے دعا کی؟

شیعہ اہل سنت کی حدیث سے بہت سی مثالیں پیش کرتے ہوئے فخر کے ساتھ متعدد بار دکھائیں گے۔ اور اہل سنت اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ ( عز وجل ) سے متعدد بار علی کے خاندان کو پاکیزہ اور بے داغ بنانے کے لیے دعا کی۔ لیکن ہم سوچتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اہل و عیال کی تزکیہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

اس لیے بار بار پوچھا کہ اگر وہ معصوم ہوتے اور ان سے کوئی گناہ شروع نہ ہوتا تو اللہ سے معافی مانگنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی ۔

اس طہارت کے لیے بار بار دعا ، درحقیقت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رشتہ داروں کے لیے "پاک اور بے داغ" بننے کی درخواست کرنا ان بہت سی دعاؤں میں سے ایک تھی جو وہ اللہ سے کرتے ۔ یہ وہ چیز ہے جسے ہم "ہر روز کی دعا" کہیں گے جیسا کہ ہمارا مقامی امام اپنی تمام جماعت کی بخشش اور پاکیزگی کے لیے دعا کرتا ہے، یا کیسے ایک ماں اپنے بچوں کی مغفرت اور پاکیزگی کے لیے دعا کرتی ہے۔ ہم میں سے کتنے لوگوں نے اللہ (عزوجل) سے دعا کی ہے : "اے اللہ مجھے میرے گناہوں سے پاک کر اور میرے گھر والوں کو گناہوں سے پاک کر"۔ ہم میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ سے یہ سوال کرنا چاہیے ۔ ہم میں سے کتنے لوگ روز بہ روز یہی دعا کرتے ہیں جو ظاہر ہے کہ ہمیں اللہ کی رحمت کی ضرورت ہے، یہ نہیں کہ ہم معصوم ہیں۔

بہر حال، اگر شیعہ کسی طرح ہمیں اس بات پر قائل کر لیں کہ آیت (قرآن :33:33) کسی کو معصوم الخطاء قرار دیتی ہے، تو اس آیت کے ذریعے سب سے پہلے جن کو معصوم الخطاء قرار دیا جائے گا، وہ  رسول اللہ ﷺ  کی ازواج مطہرات (رضی اللہ عنہم ) ہوں گی کیونکہ وہ وہ آیت (قرآن :33:33) کی مخاطب ہیں۔

شیعہ برادران- آپشنز

1. وہ عائشہ (رضی اللہ عنہا ) کو معصوم تسلیم کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں انہیں ان کے اس قول کو قبول کرنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بیمار ہونے کی حالت میں نماز کا امام مقرر کیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے نہ کہ علی (رضی اللہ عنہ)۔ شیعہ کی طرف سے اس طرح کی رعایت شیعہ مذہب کی ایک بہت اہم بنیاد کو گرا دے گی جس کی جڑ علی (رضی اللہ عنہ ) کے جانشین میں ہے۔

2. شیعوں کے لیے دوسرا اختیار یہ ہے کہ وہ یہ کہیں  کہ اس آیت سے عائشہ (رضی اللہ عنہا ) اور اہل بیت کو معصوم نہیں بنایا گیا اور یہ بھی شیعہ کے پورے عقیدہ معصوم امامت کو منہدم کر دیتا ہے، جو ان کے عقیدہ کا ایک ستون ہے۔ بہر حال یہ شیعہ  کی مشکل (paradox)  ہے-[284]

سقیفئہ بنی ساعدہ

"سقیفئہ بنی ساعدہ" مدینہ میں ایک عمارت (ڈیرہ) کا نام تھا جہاں بنو خزرج کا ایک فرقہ 'بنی ساعدہ' اپنے اجلاس کیا کرتا تھا اسے "سقیفہ" بھی کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ  کی وفات کے وقت "سقیفہ بنی ساعدہ" میں بنو خزرج کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی کے حوالے سے ایک نیم خفیہ اجلاس جاری تھا۔ اس اجلاس کی خبر حضرت عمر کو پہنچ  گئی اور ساتھ ہی یہ بھی کہ ہو سکتا ہے کہ منافقین اور انصار کے باعث کوئی فتنہ نہ پھیل جائے۔ اس پر عمرفاروق رض  ، حضرت ابوبکر صدیق رض کو لے کر سقیفہ بنی ساعدہ چلے گئے۔ یہاں جا کر معلوم ہوا کہ "بنوخزرج" جانشینی کا دعوے دار ہے اور "بنو اوس" اس کی مخالفت کر رہا ہے۔ ایسے موقع پر ایک انصاری صحابی نے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ قول یاد کرایا کہ ”الائمۃ من لا قریش“ (حکمران قریش ہی ہوں گے)، جو لوگوں کے دل میں اتر گیا، انصار اپنے دعوے سے دستبردار ہو گئے اور سب نے فوراً ہی ابوبکررض کی خلافت پر بیعت کر لی، مگر اس کے باوجود ابوبکر صدیق رض تین دن تک یہ اعلان کراتے رہے کہ آپ سقیفہ بنی ساعدہ کی بیعت سے آزاد ہیں اگر کسی کو اعتراض ہے تو بتا دیں مگر کسی کو اعتراض نہ تھا۔

اس پر شیعہ برادران کو بہت اعترضات ہیں کہ جب حضرت علی رض

تدوففین  رسول اللہ ﷺ کے انتظامات میں مصروف تھے تو ان کو اس اہم معامله سے باہر رکھا گیا-

بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت علی  رضی اللہ تعالی عنہ  کو وصیت فرمائی تھی کہ ان کے علاوہ آپ ﷺ کو کوئی غسل نہ دے اور یہ کہ وہ (حضرت علی) اہلِ بیت کے تعاون سے آپﷺ کو غسل دیں؛   اس لیے غسل وغیرہ کا انتظام اہلِ بیت  رضوان اللہ علیم اجمعین نے سنبھالا ہوا تھا۔  جیساکہ ’’البدایہ والنھایہ‘‘  میں ہے[285]-

سقیفئہ بنی ساعدہ" کی تفصیل البخاری حدیث :3670,3669,3668,3667] میں موجود ہے جو کہ درج ذیل ہے :

مجھ سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی جب وفات ہوئی تو ابوبکر ؓ اس وقت مقام سنح میں تھے۔ اسماعیل نے کہا یعنی عوالی کے ایک گاؤں میں۔ آپ کی خبر سن کر عمر ؓ اٹھ کر یہ کہنے لگے کہ اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ کی وفات نہیں ہوئی۔ عائشہ ؓ نے کہا کہ عمر ؓ کہا کرتے تھے اللہ کی قسم اس وقت میرے دل میں یہی خیال آتا تھا اور میں کہتا تھا کہ اللہ آپ کو ضرور اس بیماری سے اچھا کر کے اٹھائے گا اور آپ ان لوگوں کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیں گے (جو آپ کی موت کی باتیں کرتے ہیں) اتنے میں ابوبکر ؓ تشریف لے آئے اور اندر جا کر آپ کی نعش مبارک کے اوپر سے کپڑا اٹھایا اور بوسہ دیا اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ آپ زندگی میں بھی پاکیزہ تھے اور وفات کے بعد بھی اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اللہ تعالیٰ آپ پر دو مرتبہ موت ہرگز طاری نہیں کرے گا۔ اس کے بعد آپ باہر آئے اور عمر ؓ سے کہنے لگے، اے قسم کھانے والے! ذرا تامل کر۔ پھر جب ابوبکر ؓ نے گفتگو شروع کی تو عمر ؓ خاموش بیٹھ گئے۔

ابوبکر ؓ نے پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ پھر فرمایا: لوگو! دیکھو اگر کوئی محمد ( ﷺ ) کو پوجتا تھا (یعنی یہ سمجھتا تھا کہ وہ آدمی نہیں ہیں، وہ کبھی نہیں مریں گے) تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمد ﷺ کی وفات ہوچکی ہے اور جو شخص اللہ کی پوجا کرتا تھا تو اللہ ہمیشہ زندہ ہے اسے موت کبھی نہیں آئے گی۔ (پھر ابوبکر ؓ نے سورة الزمر کی یہ آیت پڑھی) إنک ميت وإنهم ميتون‏ اے پیغمبر! تو بھی مرنے والا ہے اور وہ بھی مریں گے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل أفإن مات أو قتل انقلبتم على أعقابکم ومن ينقلب على عقبيه فلن يضر الله شيئا وسيجزي الله الشاکرين‏ محمد ﷺ صرف ایک رسول ہیں۔ اس سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ پس کیا اگر وہ وفات پاجائیں یا انہیں شہید کردیا جائے تو تم اسلام سے پھر جاؤ گے اور جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے تو وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور اللہ عنقریب شکر گزار بندوں کو بدلہ دینے والا ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ یہ سن کر لوگ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ راوی نے بیان کیا کہ انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں سعد بن عبادہ ؓ کے پاس جمع ہوگئے اور کہنے لگے کہ ایک امیر ہم میں سے ہوگا اور ایک امیر تم (مہاجرین) میں سے ہوگا (دونوں مل کر حکومت کریں گے) پھر ابوبکر، عمر بن خطاب اور ابوعبیدہ بن جراح ؓ ان کی مجلس میں پہنچے۔ عمر ؓ نے گفتگو کرنی چاہی لیکن ابوبکر ؓ نے ان سے خاموش رہنے کے لیے کہا۔ عمر ؓ کہا کرتے تھے کہ اللہ کی قسم میں نے ایسا صرف اس وجہ سے کیا تھا کہ میں نے پہلے ہی سے ایک تقریر تیار کرلی تھی جو مجھے بہت پسند آئی تھی پھر بھی مجھے ڈر تھا کہ ابوبکر ؓ کی برابری اس سے بھی نہیں ہو سکے گی۔ پھر ابوبکر ؓ نے انتہائی بلاغت کے ساتھ بات شروع کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ ہم (قریش) امراء ہیں اور تم (جماعت انصار) وزارء ہو۔ اس پر حباب بن منذر ؓ بولے کہ نہیں اللہ کی قسم ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے، ایک امیر ہم میں سے ہوگا اور ایک امیر تم میں سے ہوگا۔ ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ نہیں ہم امراء ہیں تم وزارء ہو (وجہ یہ ہے کہ) قریش کے لوگ سارے عرب میں شریف خاندان شمار کیے جاتے ہیں اور ان کا ملک (یعنی مکہ) عرب کے بیچ میں ہے تو اب تم کو اختیار ہے یا تو عمر ؓ کی بیعت کرلو یا ابوعبیدہ بن جراح کی۔ عمر ؓ نے کہا: نہیں ہم آپ کی ہی بیعت کریں گے۔ آپ ہمارے سردار ہیں، ہم میں سب سے بہتر ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے نزدیک آپ ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ عمر ؓ نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی پھر سب لوگوں نے بیعت کی۔ اتنے میں کسی کی آواز آئی کہ سعد بن عبادہ ؓ کو تم لوگوں نے مار ڈالا۔ عمر ؓ نے کہا: انہیں اللہ نے مار ڈالا۔

اور عبداللہ بن سالم نے زبیدی سے نقل کیا کہ عبدالرحمٰن بن قاسم نے بیان کیا، انہیں قاسم نے خبر دی اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی نظر (وفات سے پہلے) اٹھی اور آپ نے فرمایا: اے اللہ! مجھے رفیق اعلیٰ میں (داخل کر) آپ نے یہ جملہ تین مرتبہ فرمایا اور راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ عائشہ ؓ نے کہا کہ ابوبکر اور عمر ؓ دونوں ہی کے خطبوں سے نفع پہنچا۔ عمر ؓ نے لوگوں کو دھمکایا کیونکہ ان میں بعض منافقین بھی تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس طرح (غلط افواہیں پھیلانے سے) ان کو باز رکھا۔

اور بعد میں ابوبکر ؓ نے جو حق اور ہدایت کی بات تھی وہ لوگوں کو سمجھا دی اور ان کو بتلا دیا جو ان پر لازم تھا (یعنی اسلام پر قائم رہنا) اور وہ یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے باہر آئے وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل‏ محمد ( ﷺ ) ایک رسول ہیں اور ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں الشاکرين‏ تک[286] [البخاری- حدیث :3670,3669,3668,3667][287]

اگر کسی بادشاہ کا انتقال ہوجائے تو جب تک اس کا کوئی جانشین نہ ہوجائے اس وقت تک اس کی تجہیز وتکفین  کا انتظام نہیں کیا جاتا،  ایسے وقت میں تجہیز وتکفین کا مسئلہ اتنا اہم نہیں ہوتا جتنا جانشینی کا مسئلہ  اہم ہوتا ہے، خیرخواہانِ حکومت کو یہ  فکر ہوتی ہے کہ انتظامِ مملکت میں خلل نہ آئے، غنیم موقع پاکر بے خبری میں حملہ نہ کر بیٹھے، جس میں تمام ملک کی تباہی اور بربادی کا اندیشہ ہے،  بلکہ بسا اوقات بنظرِ مصلحت بادشاہ کی وفات تک کو چھپالیتے ہیں، اور جانشینی کے بعد اس کا اعلان کرتے ہیں، اور شیعہ حکومتوں میں بھی یہی قاعدہ ہے، اور اگر بادشاہ کے انتقال کے بعد سلطنت کے دو امیر ہوجائیں تو وہ سلطنت ضرور تباہ ہوجاتی ہے، ایک سلطنت کا دو امیر ہوجانا موجبِ خرابی اور باعثِ بربادی ہے، اور آپ ﷺ  کی وفات کے بعد منافقین اور کفار کی طرف سے غدر  اور شور و شر کا احتمال واندیشہ تھا، ایسے وقت میں شیرازۂ اسلام کی حفاظت اولین کام تھا،  بایں نظر شیخین (حضرت ابوبکر اور عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہما) نے یہ گمان کیا کہ تجہیز وتکفین کوئی مشکل کام نہیں ہے اور اہلِ بیت (گھروالوں) سے متعلق ہے، سب صحابہ کرام کا اس میں شریک ہونا ضروری نہیں ، غلامانِ اہلِ بیت بھی یہ خدمت انجام دے سکتے ہیں ۔۔۔  نیز تمام صحابہ کرام کو یہ معلوم تھا کہ وفات سے  انبیاءِ کرام کےاجسامِ مبارکہ میں کوئی تغیر نہیں آتا، اس لیے تاخیر دفن کا کوئی اندیشہ نہ کیا اور کمال دانش مندی سے  فتنہ اور فساد کا دروازہ بند کردیا اور مسلمانوں کو افتراق سے بچالیا‘‘۔(سیرت مصطفی 3/182، ط: کتب خانہ مظہری)[288]

حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر اور دیگر صحابہ کرام بھی واپس تشریف لائے، آپ ﷺ کو غسل حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ نے  حضرت عباس رضی اللہ عنہ، اور ان کے دو صاحبزادے حضرت فضل وحضرت قثم اور حضرت اسامہ وشقران رضی اللہ  عنہم کے تعاون سے دیا۔

تمام واقعات سے معلوم ہوتا ہےکہ چاروں (خلفاء راشدین) اس وقت وہیں موجود تھے، جہاں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کی وصیت اور اہلِ بیت ہونے کے ناطے  آپ ﷺ کی تجہیز وتکفین میں عملاً مصروف تھے، وہیں  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے جانشین ہونے کے ناطے اس کا انتظام سنبھالے ہوئے تھے، جیسا کہ آپ ﷺ کی وفات کا اعلان اور اس کے بعد ایک بلیغ خطبہ اور پھر بعد میں پیش آنے والے دیگر امور (تدفین کی جگہ کا انتخاب، قبر اور جنازے کا طریقہ وغیرہ ) سب  آپ کی راہ نمائی ہی سے کیے گیے-اور جب یہ  معاملہ آیا کہ  آپ ﷺ  کی تدفین کہاں کی جائے؟ اور صحابہ کرام اور اہلِ  بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین اس معاملہ میں مضطرب ہوئےتو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہی اس کی راہ نمائی کی کہ میں نے آپ ﷺ سے سنا ہے کہ نبی علیہ السلام کا جہاں انتقال ہو، اسی جگہ دفن کیا جائے۔  اور آپ رضی اللہ عنہ کی ہدایت کے مطابق آپ ﷺ  کی وفات والی جگہ ہی آپ کی قبر بنائی گئی ۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے آپ کے جنازہ مبارکہ کے سامنے  یہ کہا : ” اے اللہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وہ سب کچھ پہنچادیا جو ان  پر اتارا گیا، اور آپ ﷺ نے امت کی خیر خواہی کی، اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا،  یہاں تک کہ اللہ نے اپنے دین کو غالب کیا، اور اس کا بول بالا ہوا، اور صرف ایک معبود وحدہ لاشریک پر ایمان لایا گیا۔ اے اللہ!  ہم کو ان لوگوں میں سے بنا  جو آپ ﷺ پر نازل کردہ وحی کی اتباع کرتے ہیں، اور ہم کو آپ ﷺ کے ساتھ جمع کر، آپ ہم کو اور ہم آپ کو پہچانیں،  آپ مسلمانوں پر بڑے مہربان تھے،ہم اپنے ایمان کا کوئی معاوضہ اور قیمت نہیں چاہتے “۔ لوگوں نے آمین کہی، جب مرد نماز جنازہ سے فارغ ہوگئے  تو عورتوں نے،عورتوں کے  بعد بچوں نے اس طرح ادا کیا۔[289](البداية والنهاية ط إحياء التراث (5 / 286)

چاروں خلفاء راشدین آپ ﷺ کی تدفین کے وقت موجود تھے اور انہوں  نے آپ ﷺ کے جنازہ میں شرکت بھی فرمائی۔ نیز  بعض اہلِ باطل کی طرف سے یہ مشہور کیا جاتا ہے کہ خلفاء راشدین آپ ﷺ کی تدفین میں شامل نہیں تھے اور انہوں نے آپ ﷺ کے جنازہ میں شرکت نہیں کی ، مذکورہ تفصیل سے ان کی بات کا جھوٹ ہونا بھی ثابت ہوگیا۔

المستدرك على الصحيحين للحاكم

" عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال: لما ثقل رسول الله صلى الله عليه وسلم قلنا: من يصلي عليك يا رسول الله فبكى وبكينا وقال: «مهلاً، غفر الله لكم، وجزاكم عن نبيكم خيراً، إذا غسلتموني وحنطتموني وكفنتموني فضعوني على شفير قبري، ثم اخرجوا عني ساعة، فإن أول من يصلي علي خليلي وجليسي جبريل وميكائيل، ثم إسرافيل، ثم ملك الموت مع جنود من الملائكة، ثم ليبدأ بالصلاة علي رجال أهل بيتي، ثم نساؤهم، ثم ادخلوا أفواجاً أفواجاً وفرادى ولاتؤذوني بباكية، ولا برنة ولا بصيحة، ومن كان غائباً من أصحابي فأبلغوه مني السلام، فإني أشهدكم على أني قد سلمت على من دخل في الإسلام، ومن تابعني على ديني هذا منذ اليوم إلى يوم القيامة» (المستدرك على الصحيحين للحاكم (3 / 62)

ترجمہ :

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بوجھ پڑ گیا تو ہم نے کہا:

 جس نے آپ کے لیے دعا کی اے اللہ کے رسول، وہ رویا اور ہم روئے، اور فرمایا:  ’’رکو، اللہ تمہیں معاف کرے اور تمہارے نبی کی طرف سے تمہیں اچھا بدلہ دے، اگر تم مجھے نہلائیں، مجھے خوشبو لگائیں اور مجھے کفن سے ڈھانپ دیں، پھر مجھے میری قبر کے کنارے پر رکھ دیں، پھر مجھے ایک گھنٹے کے لیے چھوڑ دیں۔  میرے دوست اور بیٹھنے والے کے لیے سب سے پہلے دعا کرنے والے جبرائیل اور میکائیل ہیں، پھر اسرافیل، پھر فرشتوں کے ساتھ موت کا فرشتہ۔  پھر وہ میرے گھر والوں کے مردوں پر، پھر ان کی عورتوں پر صَلَاة‎  پڑھنا شروع کرے، پھر گروہوں، گروہوں اور افراد میں داخل ہو جائے، اور مجھے رونے، گھنٹی یا چیخ و پکار سے نقصان نہ پہنچائے۔

اور میرے ساتھیوں میں سے جو کوئی غیر حاضر ہو تو اس کو میری طرف سے سلام پہنچاؤ کیونکہ میں تمہیں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے اسلام میں داخل ہونے والوں اور اس دین پر میری پیروی کرنے والوں کو آج سے لے کر قیامت تک سلام کیا ہے۔[290] ( فقط واللہ اعلم )

حضرت فاطمہ ؓ ، حضرت عمر ؓ  اور دروازہ کو آگ

"حضرت اسلم سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد جب حضرت ابوبکر ؓ کی بیعت کی گئی تو حضرت علی ؓ اور حضرت زبیر ؓ حضرت فاطمہ ؓ بنت رسول اللہ ﷺ کے پاس آتے اور مشورہ کرتے اور اپنے معاملے میں سوچ بچار کرتے۔ یہ بات حضرت عمر بن خطاب ؓ کے پاس پہنچی تو وہ حضرت فاطمہ ؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اے بنت رسول اللہ! مجھے مخلوق میں تیرے باپ سے زیادہ کوئی محبوب نہیں اور تیرے باپ کے بعد تجھ سے زیادہ ہم کو کوئی محبوب نہیں۔ اللہ کی قسم! یہ کیا معاملہ ہے کہ یہ لوگ تمہارے پاس جمع ہو کر بات کرتے ہیں یہ باز آجائیں ورنہ میں ان کا دروازہ جلادوں گا۔ 

یہ کہہ کر حضرت عمر ؓ وہاں سے نکل آئے پھر مذکورہ حضرات اندر آئے تو حضرت فاطمہ ؓ نے فرمایا:

جانتے ہو، میرے پاس عمر آئے تھے وہ قسم کھا کر گئے ہیں کہ اگر تم دوبارہ ادھر اختلافی باتوں میں شامل ہوئے تو وہ تمہارا دروازہ جلادیں گے۔ اللہ کی قسم وہ جو کہہ کر گئے ہیں کر گزریں گے۔ لہٰذا تم اپنی رائے سے باز آجاؤ اور آئندہ میرے پاس اس لیے نہ آنا۔ چنانچہ وہ حضرات لوٹ گئے اور حضرت فاطمہ سے ان کے متعلق دوبارہ کوئی بات نہ کی حتیٰ کہ انھوں نے حضرت ابوبکر ؓ کی بیعت کرلی۔ مصنف ابن ابی شیبہ[291] (کنزالعمال، کتاب: امارت اور خلافت کا بیان، باب: خلافت ابی بکرالصدیق (رض)، حدیث نمبر: 14138)

اس بات کو طور مروڑکر  من گھڑت داستانیں پھیلائی گیئی ہیں-

حضرت عمر نے ان لوگوں کے خلاف ایک سخت رویہ کیوں اختیار کیا جنہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت قائم ہونے کے بعد مخالفت کی، اسکا سبب یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: ’’ خلیفہ ہونے کے بعد کوئی خلیفہ نہیں ہوسکتا، جب اسکو مسلمانوں نے مقرر کرلیا ہو۔ پس جو اسکا دعویٰ کرے اسکو قتل کردو، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔‘‘ (صحیح مسلم)

اس روایت کے ذریعے کچھ نکات واضح اور صاف ظاہرہوتے ہیں:

جب عمر رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے تو حضرت علی اور حضرت زبیر رضوان اللہ علیہم اجمعین گھر پر نہیں تھے۔اس لئے عمر کی ان سے ملاقات نہیں ہوئی اور کوئی جھگڑا ہوا۔

1) عمر ؓ ، حضرت فاطمہ ؓ کے ساتھ نہایت عزت کے ساتھ پیش آئے انکو یہ بھی بتایا کہ آپ رضی اللہ عنہا انکے بچوں سے زیادہ محبوب ہیں۔

2) عمر ؓ  نےحضرت فاطمہ ؓ  کو کسی طور پر دھمکایا نہیں تھا۔

3) جب عمر نے حضرت فاطمہ ؓ  کا گھر چھوڑا، تو حضرت فاطمہ ؓ  اور انکا گھر بالکل صحیح سالم تھا۔انکو کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا تھا۔ بعد میں جب علی رضی اللہ عنہ گھر پہنچے تو حضرت فاطمہ ؓ  نے یہ شکایت نہیں کی کہ عمر نے ان سے بدتمیزی کی۔ بجائے اسکے حضرت فاطمہ ؓ نے انکو مستقبل میں اپنے گھر میں عمر کی کی مخالفت اور ابوبکر کی خلافت کے خلاف سازش کرنے سے روکا تھا۔

۴) علیؓ  اور زبیرؓ نے ابوبکر ؓ  کے ہاتھوں بغیر کسی مجبوری اور دباؤ کے بیعت کرلی تھی۔

ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب حضرت علی نے آنحضرت ﷺ کو روضہ مبارک میں منتقل کیا کو فرمایا ’’ ایک آدمی کی تدفین کے لئے اسکے اہل خانہ اور قریبی رشتہ دار ذمہ دار ہوتے ہیں۔‘‘ (سنن ابوداؤد ج 2ص 102 ) - (سقیفہ اور مزید تفصیل،[292] [293]،[294])

امامہ: سنی/شیعہ تقسیم کی جڑ

 سنی اور شیعہ کے درمیان زیادہ تر بحث مباحثہ متعہ، ماتم، سقیفہ، غدیر خم، فدک، صحابہ کرام  اور اس طرح کے دیگر ضمنی مسائل کے گرد گھومتی ہے۔ تاہم، بحث کا بنیادی مسئلہ یعنی امامت کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے- اہل سنت اور شیعہ کے درمیان بحث کا مرکز مسئلہ امامت (یعنی امام معصومین) کے گرد گھومتا ہے۔ "امامت" کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ شیعہ علمائے کرام امامت کا انکار کرنے والوں کو کافر سمجھتے ہیں۔ اسی طرح سنی علمائے کرام شیعہ کے عقیدہ امامت کو ماننے والوں کو کافر سمجھتے ہیں ۔

امامت کا تصور اسلام کے مرکزی اصول کی نفی ہے یعنی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ قرآن میں ایک آیت احکام (3:7) بھی نہیں جو ان کے امامت کے عقیدہ کو ثابت کرے,  تاویلات سے بنیادی عقائد نہیں گھڑنے جا سکتے- بہت سے("cop out") نیم جوابات  کے جوابات سے  غیر جانبدار قاری پر یہ بات پوری طرح واضح ہو جائے گی کہ شیعہ کمزوردلائل امامت کے عقیدہ کی نفی پر دلالت کرتے ہیں-

إمام معصوم من الخطأ ؟

شیعہ عقیدے کا مرکزامام العصمة من الخطأ (Infallibility) ہے۔ قرآن اس نظریہ ، عقیدہ کو غلط ثابت کرتا ہے،کہ کوئی انسان معصوم من الخطأ نہیں: (28:16)Quran, 20:121-122) (38:23-24)  (66:1)  (80:1-11) (Quran, 8:67)(5:77 [295] یہ شیعہ مذہب کی نظریاتی بنیاد کوختم کرتا  ہے-

شیخ ابن تیمیہ نے مجموع الفتاوی میں کہا ہے:

 یہ قول کہ انبیاء کبائر گناہوں سے محفوظ تھے لیکن صغیرہ گناہوں سے محفوظ نہیں تھے جمہور علماء کا یہی قول ہے… جمہور علماء کا بھی یہی قول ہے۔ اور حدیث، اور فقہا کی. سلف، ائمہ، صحابہ، تابعین یا ان کے بعد آنے والی نسلوں میں سے کسی سے بھی ایسی کوئی چیز نقل نہیں ہوئی جو اس قول سے متفق نہ ہو۔ جمہور اہل علم سے جو بات نقل ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ (انبیاء علیہم السلام) صغیرہ گناہوں میں معصوم نہیں ہیں، لیکن ان کو اس پر قائم رہنے کے لیے نہیں چھوڑا جاتا۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ ایسا کسی بھی حالت میں نہیں ہوتا۔ پہلا گروہ جن سے نقل کیا گیا ہے کہ وہ ہر حال میں معصوم ہیں، اور جو کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ وہ رافضی (شیعہ) ہیں، جو کہتے ہیں کہ وہ معصوم ہیں اور غلط فہمی سے بھی محفوظ ہیں… (ماخوذ: اسلام-کیو اے)[296]

پیغمبرغلطیاں کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ انہیں ان کی غلطیوں پر قائم نہیں رہنے دیتا، بلکہ وہ ان کی غلطیوں کو ان کے لیے اور ان کی قوموں کے لیے رحمت بنا کر ان کی طرف اشارہ کرتا ہے، اور وہ ان کی خطاؤں کو معاف کرتا ہے، اور اپنے فضل و کرم سے ان کی توبہ قبول کرتا ہے۔ کیونکہ اللہ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے، جیسا کہ ہر اس شخص پر واضح ہو جائے گا جو قرآن کی آیات کا مطالعہ کرتا ہے جو اس کے بارے میں بتاتی ہیں۔ (ماخوذ: اسلام-ق، فتاوٰی اللجنۃ الدائمۃ، 3/194،)

حضرت ابوہریرہ ؓ روای ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے بارگاہ حق میں یوں دعا کی کہ اے میرے پروردگار! میں نے تیری خدمت میں ایک درخواست پیش کی ہے تو مجھے اس کی قبولیت سے نواز اور مجھے ناامید نہ کر۔ یعنی میں امیدوار کرم ہوں کہ میری درخواست ضرور ہی منظور ہوگی اور وہ درخواست یہ ہے کہ میں ایک انسان ہوں لہٰذا جس مومن کو میں نے کوئی ایذاء پہنچائی ہو بایں طور کہ میں نے اسے برا بھلا کہا ہو میں نے اس پر لعنت کی ہو میں نے اسے مارا ہو تو ان سب چیزوں کو تو اس مومن کے حق میں رحمت کا سبب گناہوں سے پاکی کا ذریعہ اور اپنے قرب کا باعث بنا دے کہ تو ان چیزوں کے سبب اس کو قیامت کے دن اپنا قرب بخشے۔ (بخاری ومسلم)  [مشکوٰۃ المصابیح حدیث: 2245]

امامت کا شیعہ نظریہ اصل میں کیا ہے؟

شیعہ عقیدہ امامت: "انبیاء کے علاوہ، اللہ  کے مقرر کردہ افراد کا ایک اور گروہ ہے جسے "امام" کہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اسماء کے مالک ہیں اور ایسے علم تک رسائی رکھتے ہیں جس تک عام لوگوں کی رسائی نہیں ہے۔ دنیا امام سے خالی نہیں ہو سکتی ورنہ فنا ہو جائے گی۔ شیعہ  تناظر میں یہ افراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے بارہ افراد ہیں جنہیں مسلمانوں کی قیادت کے لیے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی نے مقرر نہیں کیا ہے۔ جو بھی ان بارہ کے علاوہ کسی کو پیشوا چنتا ہے وہ گمراہ ہے اور مکمل مومن نہیں ہے۔ اماموں میں سے بارھویں (آخری) مہدی ہیں اور اگرچہ وہ ایک ہزار سال سے زائد عرصے سے غیبت میں ہیں، وہ اس وقت واپس آئیں گے جب اللہ عزوجل)خواہشیں اور پھر انصاف غالب ہوگا"

شیعہ  اصول دین میں  پانچ ارکان کو مذہب کی  بنیادی مانتے ہیں،  فروع دین کا تعلق دین کے معمولات سے ہے، جیسے نماز، روزہ، حج وغیرہ- "یہ امامت کا عقیده ہے جو شیعہ فرقہ کو تمام فرقوں سے علیحدہ  کرتا ہے۔ دیگر اختلافات بنیادی نہیں ہیں؛ وہ فروعی ہیں (یعنی ثانوی)- اصول دین یہ ہیں :

1. توحید (خدا کی وحدانیت)

2. نبوت

3. معاد (قیامت کا دن)

4. عادل (الله تعالی کا انصاف)

5. امامت (مذکورہ بالا عقیدہ)

امام صدوق فرماتے ہیں کہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو امیر المومنین علی علیہ السلام کی امامت اور ان کے بعد کی ائمہ اطہار علیہم السلام کا انکار کرے اس کا وہی مقام ہے جو انبیاء کی رسالت کا انکار کرنے والے کا ہے۔ "

مزید فرماتے ہیں: "اور ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو امیر المومنین علی علیہ السلام کو مانتا ہے لیکن ان کے بعد کسی ایک امام کو رد کرتا ہے، اس کا وہی مقام ہے جو تمام انبیاء کو مانتا ہے اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرتا ہے۔"

 قرآن میں امامت کا عقیدہ کہاں ہے؟

ہم قاری سے پوچھتے ہیں کہ قرآن میں امامت کا عقیدہ کہاں ہے؟ یہ ایک بہت ہی معقول سوال ہے۔ قرآن ہدایت کی کتاب ہے اور ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ جب بھی ہم ک[297]ھوئے ہوئے محسوس کریں تو ہم قرآن سے مشورہ کر سکتے ہیں اور یہ کبھی ہمارے ساتھ خیانت نہیں کرے گا۔ امامت کا شیعہ عقیدہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ بہت اہم ہے اور یہ شیعوں کا بنیادی عقیدہ ہے۔ اس کی اہمیت اس حد تک ہے کہ شیعہ علماء کے نزدیک اس نظریے پر کفر کی وجہ سے 80% مسلمان گمراہ ہیں اور درحقیقت سچے مومن نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ہم قاری سے پوچھتے ہیں کہ قرآن کی کون سی آیات نے ہمیں امامت کا یہ "اہم ترین " نظریہ دیا ہے؟

اگر امامت اسلام میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے اور قرآن اسلام کی مرکزی کتاب ہے تو یقیناً قرآن میں امامت کا عقیدہ ہونا چاہیے۔ اور ابھی تک، سینکڑوں سالوں سے، شیعہ علماء "قرآن چیلنج" کا جواب نہیں دے سکے ہیں۔ اہل سنت والجماعت نے بارہا شیعوں کو چیلنج کیا ہے کہ وہ قرآن میں ایک ایسی آیت بھی پیش کریں جو امامت کے شیعہ تصور کو بیان کرے۔ بار بار، جو کوئی قرآن سے امامت کا ثبوت تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتا ہے۔

قرآن کا چیلنج

یہ شیعوں کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے کہ وہ قرآنی آیات پیش کریں جو امامت کے شیعہ تصور کی وضاحت اور جواز پیش کرتی ہیں۔ کیا شیعہ امامت کا خاکہ پیش کرنے والی ایک آیت بھی بتا سکتے ہیں، بغیر ترجمہ کے بغیر کسی اضافے کے، ترجمے میں قوسین ( ) کے اضافے کے بغیر ، بغیر تفسیر کے، بغیر تفسیر کے، اور ان کی اپنی ذاتی تفسیروں کے بغیر جو ہمیں آیت سے دوسری آیت تک پہنچاتی ہے؟

جب شیعہ کو قرآنی آیات بغیر کسی اضافے کے تیار کرنے پر مجبور کیا جائے گا، تو وہ "قرآن چیلنج" کو پورا کرنے کے قریب پہنچنا بھی ناممکن سمجھے گا۔ قرآن مجید کی کوئی ایک آیت بھی اس کے قریب سے کچھ نہیں کہتی کہ :

’’اے ایمان والو، نبی کے بعد اللہ کے منتخب کردہ بارہ امام ہوں گے اور تم ان کی پیروی کرو۔‘ شیعہ کبھی بھی قرآن میں کوئی ایسی آیت پیش نہیں کر سکتے جو اس سے ملتی جلتی چیز کو ظاہر کرے۔اس کے لیے درحقیقت، شیعہ طویل تفسیر اور منقولہ دلائل پیش کرنے پر مجبور ہوں گے جن میں بعض آیات کے اضافی معانی شامل ہوں گے۔ لیکن اگر ہم شیعوں سے کہیں کہ بغیر کسی داخل کے آیت کو پڑھ لیں تو اچانک وہ امامت کے جواز کے لیے قرآن میں ایک آیت بھی پیش نہیں کر سکتے۔ یہ کہنا کافی ہے کہ شیعہ اگر صرف قرآن اور قرآن کو استعمال کرنے پر مجبور ہو جائے تو وہ سیاسی طور پر معذور ہو جاتا ہے۔

فہم قرآن کی ماسٹر کی (Master Key Ayah 3:7)[298]

هُوَ الَّذِىۡۤ اَنۡزَلَ عَلَيۡكَ الۡكِتٰبَ مِنۡهُ اٰيٰتٌ مُّحۡكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الۡكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ‌ؕ فَاَمَّا الَّذِيۡنَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ زَيۡغٌ فَيَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَهَ مِنۡهُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَةِ وَابۡتِغَآءَ تَاۡوِيۡلِهٖۚ وَمَا يَعۡلَمُ تَاۡوِيۡلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ ؔ‌ۘ وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِى الۡعِلۡمِ يَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِهٖۙ كُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا ‌ۚ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ۞  (القرآن - سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 7)

ترجمہ:: وہی اللہ ہے، جس نے یہ کتاب تم پر نازل کی ہے۔ اس کتاب میں دو طرح کی آیات ہیں: ایک محکمات، جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دُوسری متشابہات۔ جن لوگوں کو دلوں میں ٹیڑھ ہے، وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور اُن کو معنی (تاویلیں) پہنانے کی کو شش کیا کرتے ہیں حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بخلا ف اِ س کے جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ”ہمارا اُن پر ایمان ہے، یہ سب ہمارے رب ہی کی طرف سے ہیں۔“ اور سچ یہ ہے کہ کسی چیز سے صحیح سبق صرف دانشمند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں(القرآن  3:7)

شیعوں نے کہا ہے کہ امامت ایمان کی بنیاد ہے، اس لیے اس موضوع پر قرآن مجید میں بہت سی آیات ہونی چاہیے۔ پھر بھی، "قرآن چیلنج" صرف شیعوں سے کہتا ہے کہ وہ قرآن کی ایک دو آیات بھی نکالیں، پھر بھی یہ ممکن نہیں ہے۔ قرآن کی ایک آیت میں بھی ان کے معصوم اماموں کے ناموں کا ذکر نہیں ہے۔ حتیٰ کہ علی رضی اللہ عنہ کا نام بھی نہیں۔) کا ذکر کبھی قرآن میں آیا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ امامت کے تصور کا ایک بھی ذکر نہیں ہے۔ یہ عجیب ہے، کم از کم کہنا؛ امامت اصول دین (ایمان کا ایک بنیادی رکن) کا حصہ کیسے ہو سکتی ہے اور اس کا قرآن میں ایک مرتبہ بھی ذکر نہیں؟ سچی بات یہ ہے کہ قرآن میں عقیدہ کی تمام بنیادی باتوں کا ذکر ہے، اور اگر کوئی چیز قرآن میں نہیں ہے تو وہ "چیز" ممکنہ طور پر عقیدہ کی بنیاد نہیں ہو سکتی۔

امامہ کا قرآن میں ذکر نہیں ہے۔

اسلام کے ہر ایک بنیادی اصول کا قرآن مجید میں متعدد بار ذکر ہوا ہے۔ توحید اور تصور اللہ (عزوجل ) کا ذکر دو ہزار سے زیادہ مرتبہ آیا ہے۔ رسولوں اور انبیاء کے تصور کا بار بار ذکر کیا جاتا ہے۔ درحقیقت لفظ "رسول" اور "نبی" چار سو سے زائد مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ امامت کے علاوہ باقی تمام اصول دین کا قرآن میں سینکڑوں مرتبہ ذکر آیا ہے۔ اس کے باوجود امامت کے مسئلہ پر قرآن بالکل خاموش ہے۔

شیعہ کہتے ہیں کہ امامت اصول دین میں سے ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں تک کہ فروع دین (دین کے ذیلی اور ثانوی حصے) کا ذکر امامت سے کہیں زیادہ کیا گیا ہے (جس کا حقیقت میں کبھی ذکر نہیں کیا گیا)۔ نماز، اسلام کا دوسرا ستون، قرآن مجید میں 700 مرتبہ ذکر ہوا ہے۔ اسلام کا تیسرا ستون زکوٰۃ کا ذکر 150 سے زائد مرتبہ آیا ہے۔ اور پھر بھی امامہ کہاں ہے؟ [امام کا لفظ قرآن میں (12) بارہ مرتبہ آیا ہے، لیکن جو امامت کا شیعہ عقیده ہے وہ ان میں شامل نہیں، ملاحظه فرمائیں اس لنک پر[299]] قرآن انسانیت کے لیے مکمل رہنما ہے، پھر بھی شیعہ کہہ رہے ہیں کہ بنیادی عقیدہ (یعنی امامت) اس میں نہیں ہے۔

قرآن واضح طور پر کہتا ہے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول کے طور پر مقرر کیے گئے ہیں اور ہمیں ان کی پیروی کرنی چاہیے۔ اگر اس کے بعد کوئی اور الہٰی مقرر کیا گیا تھا جس کی پیروی ہمیں کرنی تھی تو کیا اس کا نام بھی قرآن میں نہیں ہونا چاہیے؟

قرآن میں بارہ اماموں کے نام لینے کا سوال کیوں ہے؟

یا ان میں سے ایک کے بارے میں کیا خیال ہے؟

علی (رضی اللہ) عنہ کا نام بھی قرآن میں نہیں ہے۔ دلیل کی خاطر، ہم نام بھی نہیں مانگیں گے۔

یہاں تک کہ خدائی مقرر کردہ اماموں کے تصور کے بارے میں بھی کیا خیال ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آئیں گے اور ہمیں ان کی پیروی کرنی چاہیے؟

ہم بحث کریں گے کہ اللہ (عزوجل )کتاب کے مکمل ہونے کے لیے ایسے لوگوں کے نام شامل کرنے چاہیے تھے، لیکن ہم قرآن میں ایک بھی آیت نہیں پاتے جو امامت کے تصور کو بھی بیان کرتی ہو۔ شیعہ اس سلسلے میں ایک آیت بھی پیش نہیں کر سکتے۔

قرآن انسانیت کے لیے آخری رہنما ہے۔ اس میں ہمارے ایمان کے تمام بنیادی عقائد موجود ہیں۔

اگر امامت واقعی ہمارے ایمان کا حصہ ہوتی تو قرآن میں ہوتی۔

لیکن امامت قرآن میں نہیں ہے اور جو عقیدہ قرآن میں جائز نہیں ہے ہم اسے رد کرتے ہیں۔

قرآن مجید میں بہت سی آیات ہیں جو کہتی ہیں کہ مومن وہ ہیں جو نماز پڑھتے ہیں، غریبوں کو زکوٰۃ دیتے ہیں، نیک اعمال کرتے ہیں اور اس طرح کے دوسرے کام کرتے ہیں۔ لیکن ایسا کیوں ہے؟  کہ ایک آیت بھی یہ نہیں کہتی کہ مومن وہ ہیں جو معصوم امام کی پیروی اور اطاعت کرتے ہیں؟

حضرت علی رض کا خلافت کو قبول کرنے سے انکار

کتاب نہج البلاغہ ایک معتبر شیعہ ذریعہ (source)  کے مطابق علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان (رضی الله)  کی شہادت کے بعد خلیفہ بننے سے انکار کر دیا جب لوگ ان کے گرد جمع ہوئے اور ان سے خلافت سنبھالنے کی درخواست کی اور ان سے ان کی قیادت قبول کرنے کی التجا کی تو آپ ںے فرمایا :

 "مجھے اکیلا چھوڑ دو؛ کسی اور کی تلاش میں جاؤ.... اگر تم مجھے اکیلا چھوڑ دو تو میں بھی اسلامی ریاست کے ایک عام شہری کے طور پر تمہاری طرح رہوں گا... حقیقت یہ ہے کہ میں تمہاری رہنمائی کرنا اور تمہیں نصیحت کرنا چاہتا ہوں بجانے یہ  میں تم پر حکومت کرنا چاہوں"[300] ، [301]

"تم نے (بیعت کیلئے) میرا ہاتھ (اپنی طرف) پھیلانا چاہا تو میں نے اُسے روکا اور تم نے کھینچا تو میں اُسے سمیٹتا رہا، مگر تم نے مجھ پر اس طرح ہجوم کیا جس طرح پیاسے اونٹ پانی پینے کے دن تالابوں پر ٹوٹتے ہیں..."[خطبہ (۲۲۶)، نہج البلاغہ][302]

"پھر ایک فراوان ہجوم نے مجھے خلافت کو قبول کرنے کے لیے مجبور کیا، ان سب نے مجھے ہر طرف سے گھیرا ہوا تھا، رش کی یہ حالت تھی کہ نزدیک تھا کہ میرے دونوں نور چشم میرے بچے، رسول خدا (ص) کی یادگار حسن و حسین پاؤں تلے روندے جاتے، اس رش کے دھکوں سے میرے دونوں پہلوؤں پر بھی زور پڑا، میری عبا دونوں طرف سے پھٹ گئی، لوگوں نے بھیڑوں کی طرح مجھے اپنے گھیرے میں لیا ہوا تھا، لیکن اسکے باوجود بھی جب میں نے خلافت کو قبول کر لیا..."

امام علی (رضی الله) کا یہ فرمان شیعہ مذہب کو مکمل طور پر منسوخ  کر دیتا ہے، کیوں کہ وہ اس عہدہ سے فارغ ہونے کی درخواست کیسے کر سکتے  ہیں جسے  شیعہ عقیده کے مطابق اللہ کی طرف سے مقرر کیا گیا ہے اور جس کی قبولیت اللہ نے تمام بنی نوع انسان پر لازم کر دی ہے اور جس کا دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ حضرت علی رض  خود حضرت ابوبکر(رضی الله) سے خلافت واپس مانگتے تھے؟

 عبداﷲ بن سبا

عبداﷲ بن سبا علماء یہود میں سے ایک سربر آوردہ عالم تھا اور جب سے سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے یہودیوں کو مدینہ منورہ سے نکال کر فلسطین کی طرف دھکیل دیا تھا۔ اس وقت سے اس کے دل میں مسلمانوں سے انتقام لینے کی آگ سلگ رہی تھی اور وہ اندر ہی اندر ایسی تراکیب سوچتا رہتا تھا جس کے ذریعے مسلمانوں سے بغض و عداوت کی وجہ سے کوئی نہ کوئی مصیبت کھڑی کرسکے۔ انہی تراکیب میں سے ایک ترکیب اسے یہ سوجھی کہ مسلمان ہوکر پھر ان کے رازونیاز سے واقفیت حاصل کی جائے اور کچھ ساتھی ڈھونڈے جائیں تاکہ مستقل گروہ بن جانے پر اسلام کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ چنانچہ وہ یمن سے مدینہ آیا اور مدینہ آکر اپنا مسلمان ہونا ظاہر کیا۔ اس وقت حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ امیر المومنین تھے۔ آپ رضی اﷲ عنہ کی نرم دلی اور خوش خلقی سے اس نے یہ ناجائز فائدہ اٹھایا- وہ اپنی مخفی دشمنی کے لئے راستہ ہموار کرنے کے درپے رہنے لگا اور اپنے ہم خیال لوگوں کی تلاش میں مصروف ہوا۔ ’’جویندہ یابندہ‘‘ کے مطابق اسے ایسے ہمنوا مل گئے جو بظاہر مسلمان تھے لیکن دل سے سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے دشمن تھے۔ ان سے میل جول صلاح و مشورہ شروع ہوا اور خفیہ خفیہ ایک منظم گروہ تیار کرلیا۔ اسی منظم کے ذریعے اس نے اولین کامیابی یہ حاصل کی کہ سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کو شہید کرادیا۔ اس یہودی عالم (عبداﷲ ابن سبا) کی ان خفیہ سرگرمیوں اور اسلام و مسلمانوں کے ساتھ بغض و عداوت کی تفصیلات شیعہ سنی دونوں مکتبہ فکر کے مورخین کے ہاں صراحتاً ملتی ہیں-[303]

عبدللہ بن سبا  اور "یہودی انسکیکلوپیڈیا "

"یہودی انسکیکلوپیڈیا " میں آج بہ تحریر فخریہ موجود ہے ( لنک)[304]

ترجمہ : "ساتویں صدی میں یمن، عرب کا ایک یہودی، جو مدینہ میں آباد ہوا اور اسلام قبول کیا۔ خلیفہ عثمان کی انتظامیہ پر منفی تنقید کرنے کے بعد اسے شہر سے نکال دیا گیا۔ اس کے بعد وہ مصر چلا گیا، جہاں اس نے علی کے مفادات کو فروغ دینے کے لیے ایک "عثمان مخالف" فرقہ قائم کیا۔ اپنی تعلیم کی وجہ سے اس نے وہاں بہت اثر و رسوخ حاصل کیا، اور یہ نظریہ وضع کیا کہ جس طرح ہر نبی کا ایک معاون ہوتا ہے جو بعد میں اس کا جانشین ہوتا تھا، اسی طرح  محمدص کا وزیر علی تھا، جسے دھوکے سے خلافت سے دور رکھا گیا تھا۔ خلافت پر عثمان کا کوئی قانونی دعویٰ نہیں تھا۔ اور اس کی حکومت کے خلاف عام عدم اطمینان نے عبداللہ کی تعلیمات کو پھیلانے میں بہت مدد کی۔ روایت بتاتی ہے کہ جب علی نے اقتدار سنبھالا تو عبداللہ نے ان سے یہ الفاظ کہے کہ "تو ہی تو ہے!" اس کے بعد علی نے اسے مدین میں جلاوطن کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ علی کے قتل کے بعد عبداللہ نے سکھایا تھا کہ علی مردہ نہیں بلکہ زندہ ہے، اور کبھی مارا نہیں گیا تھا۔ کہ اس میں الہ کا ایک حصہ چھپا ہوا تھا۔ اور یہ کہ ایک خاص وقت کے بعد وہ زمین کو انصاف سے بھرنے کے لیے واپس آئے گا۔ اس وقت تک علی کا الٰہی کردار اماموں میں پوشیدہ رہنا تھا، جنہوں نے عارضی طور پر ان کی جگہ کو پر کیا۔ یہ دیکھنا آسان ہے کہ ایلیاہ نبی کے افسانے کے ساتھ مل کر پورا خیال مسیحا پر منحصر ہے۔ علی کی طرف الہی اعزازات کا انتساب شاید بعد کی ارتقاء ایجاد  تھی، اور اس کو پروان اس طرح چڑھایا گیا کہ قرآن میں اللہ کو اکثر "العلی" (سب سے اعلیٰ) کہا گیا ہے۔"[305]

شیعہ مورخین  

شیعہ مورخ  مرزا محمد تقی اپنی کتاب  "ناسخ التواریخ تاریخ خلفاء" میں لکھتا ہے (ترجمہ) :   عبداﷲ بن سبا ایک یہودی عالم  تھا۔ عہد عثمانی میں اسلام لایا اور کتب سابقہ اور مصاحف گزشتہ سے خوف واقف تھا۔ جب مسلمان ہوا تو حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی خلافت اس کو اچھی نہ لگی چنانچہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ محافل میں بیٹھتا اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے خلافت جتنا کچھ قبیح افعال کا ذکر کرسکتا کرتا رہتا تھا۔ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کو یہ خبر ملی تو کہا الٰہی یہ یہودی کون ہے؟ چنانچہ حکم دیا کہ اسے مدینہ شریف سے نکال دیا جائے۔ عبداﷲ بن سبا مصر آپہنچا چونکہ عالم و دانا آدمی تھا۔ اس لئے لوگ اس کے گرد جمع ہونے شروع ہوئے اور اس کی باتیں قبول کرنے لگے۔ تب اس نے کہا! اے لوگو! تم نے سنا نہیں کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ عیسٰی علیہ السلام دنیا میں واپس آئیں گے اور ہماری شریعت کے مطابق بھی یہ بات درست ہے۔ اگر عیسٰی واپس آسکتے ہیں تو حضرت محمدﷺ جوان سے افضل ہیں، کیوں واپس نہیں آسکتے۔ اﷲ تعالی ٰبھی قرآن کریم میں فرماتا ہے (ترجمہ) جس خدا نے تجھے قرآن دیا وہ تجھے لوٹنے کے وقت پر لوٹائے گا۔

جب یہ بات لوگوں کے دلوں میں راسخ ہوگئی (رجعت کا عقیدہ پختہ ہوگیا) تو اب ابن سبا نے کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اس زمین پربھیجے اور ہر پیغمبرکا ایک وزیر اور خلیفہ ہوا ہے۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ایک پیغمبرﷺ دنیا سے جائے جبکہ وہ صاحب شریعت نبی ہو مگر اپنا خلیفہ و نائب لوگوں میں نہ چھوڑ جائے۔ اپنی امت کا معاملہ (مسئلہ خلافت) مہمل چھوڑ جائے۔

لہذا محمدﷺ کے لئے علی علیہ السلام وصی ہیں اور خلیفہ ہیں۔

جیسا کہ آپ نے علی کو خود فرمایا تو میرے لئے یوں ہے جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لئے ہارون علیہ السلام، اسی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ علی علیہ السلام ہی محمدﷺ کے خلیفہ ہیں اور عثمان نے یہ منصب (خلافت) غصب کرکے اپنے اوپر چسپاں کررکھا ہے۔ عمررض نے بھی کسی حق کے بغیر یہ شوریٰ پر ڈال دیا اور عبدالرحمن بن عوف نے نفسانی ہوس سے عثمان کی بیعت کرلی اور علی کا ہاتھ بھی اس نے پکڑ رکھا تھا جب علی نے بیعت کرلی تو اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔

اب جو ہم شریعت محمدی میں ہیں ہم پر واجب آتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے سستی نہ کریں جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے (ترجمہ) "تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے لائی گئی تاکہ انہیں نیکی کا حکم کرے، برائی سے روکے۔"

پھر ابن سبا نے لوگوں سے کہا بھی ہم میں یہ طاقت نہیں کہ عثمان کو خلافت سے اتار سکیں۔ البتہ یہ ہم پر ضروری ہے کہ جتنا ہوسکے عثمان کے عمال (گورنروں) کو جو ظلم و ستم روا رکھے ہیں، کمزور کر ڈالیں۔ ان کے قبیح اعمال اہل دنیا پر واضح کریں اور لوگوں کے دل عثمان اور اس کے عمال سے متنفر کر ڈالیں۔ چنانچہ انہوں نے کئی خطوط لکھے اور والی مصر عبداﷲ بن سعد (کے ظلم) کی شکایت کرتے ہوئے جہاں میں ہر طرف ارسال کردیئے اس طرح انہوں نے لوگوں کو اس بات پر یکدل بنایا کہ وہ مدینہ میں جمع ہوکر عثمان کو امر بالمعروف کریں اور اسے خلافت سے اتاردیں۔

عثمان یہ معاملہ سمجھتے تھے اور مروان بن حکم نے ہر شہر میں جاسوس بھیجے چنانچہ وہ یہ خبر لے کر واپس آئے کہ ہر شہر کے بڑے لوگ عثمان کو اتار دینے میں یک زبان ہیں ناچار عثمان کمزور ہوگئے اور اپنے معاملہ میں عاجز آگئے، قتل ہوگئے۔"[306]

خلاصہ یہ ہوا کہ ننے فرقے کی بنیاد رکھنے والا بہت بڑا یہودی عالم تھا جو بظاہر اسلام لانے کے باوجود درپردہ یہودی ہی رہا جیسا کہ تاریخ روضۃ الصفاء اور فرق شیعہ جیسی معتبر شیعہ کتب سے اس کی نہایت وقباحت ہوچکی، اس یہودی عالم نے اسلام کے متعلق اپنی قلبی شقاوت و عداوت کو تسکین دینے کے لئے  نۓ فرقہ کی بنیاد رکھی اور اسلام کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب ہوا اورشہادت حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ میں کامیاب ہوکر فساد کا وہ دروازہ کھولا جو آج تک بند نہیں ہوسکا۔

اسلامی تاریخ و روایات

عبداﷲ بن سبا نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے بارے میں ’’الہ‘‘ ہونے کا عقیدہ ایجاد کیا۔ اس پر حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے اسے جلاوطن کردیا اور کہا گیا ہے کہ یہ اصل میں یہودی تھا پھر مسلمان ہوگیا۔ یہودیت کے دوران حضرت یوشع بن نون اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کے بارے میں اسی قسم کی باتیں کیا کرتا تھا جیسی حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے متعلق کیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’وجوب امامت‘‘ کا عقیدہ اسی کی اختراع و ایجاد ہے[307]،[308]،[309]

ابان بن عثمان سے مروی ہے وہ کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر رضی اﷲ عنہ سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ اﷲ تعالیٰ عبداﷲ بن سبا پر لعنت کرے کہ اس نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے متعلق خدا ہونے کا دعویٰ کیا۔ حالانکہ قسم بخدا حضرت امیر المومنین خدا کے اطاعت گزار بندے تھے۔ ہم پر افترا بازی کرنے والے کے لئے ہلاکت ہو۔ تحقیق جو قوم ہمارے متعلق وہ بات کہتی ہے جو ہم خود اپنے لئے کہنا روا نہیں سمجھتے۔ ہم اس سے بری الذمہ ہیں۔ ہم اس سے بری الذمہ ہیں۔[310]،[311]

البخاری، حدیث نمبر: 3017

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب نے ‘ ان سے عکرمہ نے کہ  علی ؓ نے ایک قوم کو  (جو عبداللہ بن سبا کی متبع تھی اور علی ؓ کو اپنا رب کہتی تھی)  جلا دیا تھا۔ جب یہ خبر عبداللہ بن عباس ؓ کو ملی تو آپ نے کہا کہ اگر میں ہوتا تو کبھی انہیں نہ جلاتا کیونکہ نبی کریم  ﷺ  نے فرمایا ہے کہ اللہ کے عذاب کی سزا کسی کو نہ دو ‘ البتہ میں انہیں قتل ضرور کرتا کیونکہ نبی کریم  ﷺ  نے فرمایا ہے جو شخص اپنا دین تبدیل کر دے اسے قتل کر دو۔ (البخاری: 3017 )[312]

سنن نسائی، حدیث نمبر: 4065

عکرمہ سے روایت ہے کہ  کچھ لوگ اسلام سے پھرگئے   ١ ؎  تو انہیں علی ؓ نے آگ میں جلا دیا۔ ابن عباس ؓ نے کہا: اگر میں ہوتا تو انہیں نہ جلاتا، رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا ہے:  تم کسی کو اللہ کا عذاب نہ دو ، اگر میں ہوتا تو انہیں قتل کرتا   (کیونکہ)   رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا ہے:  جو اپنا دین بدل ڈالے اسے قتل کر دو ۔  (سنن نسائی: 4065)[313]،  تخریج دارالدعوہ:  انظر ما قبلہ (صحیح )     قال الشيخ الألباني:  صحيح

 وضاحت: ١ ؎: کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ عبداللہ بن سبا کے متبعین و پیروکاروں میں سے تھے، انہوں نے فتنہ پھیلانے اور امت کو گمراہ کرنے کے لیے اسلام کا اظہار کیا تھا۔  

نتیجہ

سنی اور شیعہ دونوں کے ساتھ ساتھ دیگر تمام اسلامی بنیاد پرست فرقوں کے پاس اپنی اپنی حدیث، تفسیر، تاریخی بیانات اور رسومات ہیں۔ تاہم، قرآن کو حق کی طرف مستند رہنما ہونے کے ناطے دونوں فریقوں کی طرف سے متفق ہونا چاہیے۔ سدی ابو صالح کے الفاظ میں، سنی اور شیعہ کے درمیان بات چیت کے نتیجہ خیز ہونے کے لیے، … سب سے کم مشترک ڈینومینیٹر (denominator/ صفة مشتركة) تلاش کیا جائے، ایک ایسا کام جسے اس کے پیغام اور اس کی سالمیت کے لحاظ سے سنی اور شیعہ دونوں طرف سے مکمل طور پر مستند تسلیم کیا جائے گا۔ یہ کتاب یقیناً "قرآن کریم" ہے۔ اس لیے سنی اور شیعہ فرقوں کے درمیان عقیدہ کے بڑے اختلافات کو حل کرنے کے لیے سب سے پہلا اور اہم مقام قرآن ہونا چاہیے۔،

عقائد کی بنیاد قرآن

لہٰذا جس بھی گروہ کے پاس قرآن میں اپنے عقائد کی بنیاد ہے، ہمیں اسی گروہ پر قائم رہنا چاہیے۔ جس گروہ کے عقائد قرآن میں نہیں ہیں اس کی پیروی نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہ اللہ کے کلام کی تردید ہو گی ۔ قرآن اپنی رہنمائی میں مکمل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ہم نے کتاب میں سے کوئی چیز نہیں چھوڑی۔ (قرآن، 6:38)

مسلمان اور شیعوں کے اماموں کی حیثیت؟

پہلے 11گیارہ امام متقی افراد تھے جو اہل سنت والجماعت کا حصہ تھے۔ ان کا شیعہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان میں سے کسی نے امامت کا دعویٰ نہیں کیا جیسا کہ شیعہ دعویٰ کرتے ہیں، کیونکہ یہ ان پر دجال ہونے کا الزام لگائے گا اور وہ اس سے بری الزمہ تھے۔ یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے معاملے سے ملتا جلتا ہے، جو مسلمان تھے عیسائی نہیں تھے۔ عیسائیوں نے اپنے عقائد کے اعتبار سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر طاغوت میں سے ایک ہونے کا الزام لگایا ہے اور پھر بھی ہم جانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس سے بے قصور تھے۔ جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کبھی خدا کا بیٹا ہونے کا دعویٰ نہیں کیا، اسی طرح 11 اماموں نے کبھی اپنے لئے امامت (یعنی خدائی تقرری) کا دعویٰ نہیں کیا۔ مسلمانوں کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر عیسائیوں سے زیادہ حق ہے۔

ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ 11 اماموں میں سے ہر ایک پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے، علی ابن ابی طالب سے لے کر حسن العسکری تک، اللہ ان سے راضی ہو! وہ نہ صرف اہل بیت کی صالح اولاد تھے بلکہ بہترین لوگوں میں سے تھے۔

جہاں تک 12ویں امام کا تعلق ہے تو ان کا کوئی وجود نہیں تھا کیونکہ حسن عسکری رحمۃ اللہ علیہ کا کوئی بیٹا نہیں تھا۔ شیخ جبریل حداد سے شیعوں کے ائمہ کی حیثیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا:

میں نے ڈاکٹر نورالدین عطر کو یہ کہتے ہوئے سنا: "ان میں سے ہر ایک پرہیزگار، نسل نبوی سے سچا مسلمان تھا اور ان میں سے بہت سے اپنے زمانے میں علم کے بہترین لوگوں میں سے بھی تھے۔"

ام القریٰ کے فارغ التحصیل شیخ مقبول احمد المکی سے سوال کیا: گیارہ اماموں کی کیا حیثیت ہے؟ جس کے جواب میں شیخ نے فرمایا:

’’اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ صالح تھے اور مسلمانوں کے متقی روحانی پیشواوں میں سے تھے۔ ان کا شیعہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔[314]

قرآن اللہ کی حجت ہے(علی (رضی الله) نہج البلاغہ)

نہج البلاغہ میں، جسے شیعہ علی (رضی الله)  کے خطبات اور خطوط کو مانتے ہیں، علی (رضی اللہ عنہ ) کہتے ہیں: "قرآن اپنے بندوں کے لیے اللہ کی حجت (ثبوت) ہے… یہ اسلام کی بنیاد ہے… اور ہر اس شخص کے لیے ہدایت ہے جو اس کی پیروی کرتا ہے اور ہر اس شخص کے لیے جواز ہے جو اسے اپنا نقطہ نظر سمجھتا ہے اور ہر اس شخص کے لیے ثبوت ہے جو اسے اپنے مباحثوں میں اپنا حامی سمجھتا ہے اور ہر اس شخص کے لیے جو اسے اپنے دلائل کے لیے استعمال کرتا ہے۔ [نہج البلاغہ، خطبہ 198]

شیعہ حدیث میں امام صادقؑ سے منقول ہے کہ:

"جو شخص قرآن کے علاوہ کسی اور ذریعہ سے حق کو پہچانے گا وہ فتنہ سے نہیں بچ سکے گا۔"

قرآن کی اہمیت کو شیعوں کے معصوم اماموں نے واضح طور پر بیان کیا ہے:

"اگر آپ کو ہم سے روایت کردہ دو حدیثیں نظر آئیں تو ان کا موازنہ اللہ کی کتاب سے کریں۔ جو موافق ہو اسے لے لو اور جو اختلاف ہو اسے رد کر دو۔ (الاستبصار، جلد 1، صفحہ 190) اور پھر: "جو کچھ آپ کو ہماری طرف سے بیان کیا جائے [امام] تو اس کا موازنہ اللہ کی کتاب سے کریں۔ جو اس کے موافق ہو اسے قبول کرو اور جو اس کے خلاف ہو اسے رد کر دو۔ (الاستبصار، جلد 3، صفحہ 158)

یہ احساس کہ امامت قرآن میں ظاہر نہیں ہوتی ہمارے شیعہ بھائیوں کے لیے صدمے کا باعث بن سکتی ہے۔ ہم ان کی ترغیب دیتے ہیں کہ وہ قرآن میں بارہ معصوم اماموں کے بارے میں آیات تلاش کریں، اور یقیناً انہیں کوئی نہیں ملے گا۔ جیسا کہ ایک بھائی نے کہا: "میں نے قرآن میں شیعہ نہیں پایا۔"[315] ان اماموں ںے حکومت کا دعوی کیا وہ میرٹ پر تھا وہ ان لوگوں میں سب سے متقی اور اہل تھے اور بنی ہاشم سے اور  رسول اللہ ﷺ کے اہل بیت سے نہ کہ الله تعالی کی طرف سے نامزد امام ، یہ عقیده بعد کی ایجاد ہے ان کے نام کو استعمال کرتے ہیں-

ولایت فقیه اور امام خمینی

شیعہ کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خلافت کو غلط طریقے سے چھین لیا۔ شیعہ کہتے ہیں کہ لیڈر کا انتخاب لوگ  نہیں کر سکتے، بلکہ اللہ کی طرف سے مقرر ہونا چاہیے۔ ہم حیران ہیں: پھر آیت اللہ خمینی کو قائد کیوں منتخب کیا گیا؟ کیا وہ بھی لوگوں کے ذریعے منتخب نہیں ہوا؟

آیت اللہ خمینی اور باقی شیعہ آیت اللہ اپنی طاقت اور حیثیت کو آگے بڑھانے کے لیے شیعہ مذہب کی تعلیمات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ "آیت اللہ" معصوم اماموں کے تصور کی وضاحت کرتے ہیں اور ایسا کرنے سے وہ بالواسطہ طور پر اپنا مقام اور مرتبہ بڑھاتے ہیں کیونکہ وہ "عبوری امام" ہیں۔ اسے دو ٹوک الفاظ میں کہوں تو آیت اللہ ہمیں بتا رہے ہیں کہ چونکہ پوشیدہ امام آج کام نہیں کر سکے، اس لیے آیت اللہ خمینی ان کے لیے کام کرنے والے ہیں۔

اس تصور کو ولایت فقیہ کہتے ہیں۔ پوشیدہ امام کی غیر موجودگی میں، شیعہ نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک مقبول رہنما، یا نائب امام کا انتخاب کریں گے۔ یہ نائب امام، جیسا کہ آیت اللہ خمینی، مہدی کے "نمائندے" ہوں گے جب وہ غیبت میں ہوں گے۔

ولایت فقیہ کے اس نظام کے تحت آیت اللہ خمینی ایران کے شیعوں کے سپریم لیڈر بنے۔  (1969,70) میں، مرحوم آیت اللہ خمینی نے اپنی تصنیف "اسلامی حکومت" میں اس تصور کی مزید وضاحت کی اور 1979 میں ایرانی آئین میں ولایت فقیہ کا تصور شامل کیا گیا۔ آیت اللہ خمینی نے اعلان کیا کہ نائب امام کو بھی اسی سے نوازا گیا ہے۔ ایک معصوم امام کے طور پر اختیار ، زندگی کے تمام شعبوں پر محیط۔ آیت اللہ خمینی نے اپنے آپ کو ولایت المطلق، یا اللہ کی طرف سے مطلق اختیار کا اعلان کیا۔ آیت اللہ خمینی نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ ولایت فقیہ مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکنے کا حکم بھی دے سکتا ہے اگر اسے یہ معلوم ہو کہ نماز پڑھنے سے اسلام کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

شیعہ علماء نے معصوم اماموں کو خود کو آیت اللہ (اللہ کی نشانیاں) کہنے کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ ہمیں یہ جان کر حیرت نہیں ہوئی کہ خمینی نے بھی یہ لقب اختیار کیا تھا۔ ہم حیران ہیں:

خمینی کس طرح "اللہ کی نشانی" ہیں؟

 درحقیقت ان کا پورا نام آیت اللہ روح اللہ خمینی ایک الجھن ہے۔ روح اللہ کا ترجمہ "روح اللہ"۔ کیا واقعی شیعہ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ خمینی اللہ کی روح ہیں؟

اسی طرح عیسائیوں نے اپنے نبی کے ساتھ کیا۔ شیعہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے معصوم امام اللہ کی حجت (ثبوت) تھے اور پھر ہمیں یہ جان کر کوئی تعجب نہیں ہوا کہ آیت اللہ خمینی نے بھی خود کو اللہ کا حجت قرار دیا۔

ولایت فقیہ اور متلقہ کے تصور کو استعمال کرتے ہوئے شیعہ ائمہ نے بہت جلد اپنے آپ کو ایران کے حکمرانوں اور بادشاہوں کی طرح ایک بلند مقام تک پہنچا دیا ہے۔ یہ ولایت فقیہ دنیا کا سب سے بڑا فراڈ ہے۔ ان شیعہ اماموں نے لاکھوں لوگوں کو اپنی حکمرانی کے تابع ہونے کا جھانسہ دیا ہے۔

خمینی اور باقی شیعہ قائدین نے ولایت فقیہ کے تصور کو استعمال کرتے ہوئے اپنی سیاسی طاقت کو بڑھانے کے لیے امامت کے شیعہ نظریے کو استعمال کیا اور اس کا غلط استعمال کیا۔ شیعہ آیت اللہ اس قدر طاقتور اور سیاسی طور پر بااثر ہو چکے ہیں کہ ان کے لاکھوں شیعہ پیروکار آیت اللہ کی تصویریں لگاتے ہیں جیسے کہ وہ پاپ آئڈل  (Idol Pope) ہوں۔

شیعہ پادریوں نے اپنی طاقت کو بے پناہ دولت حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ خمس کے تصور کی بدولت وہ کافی حد تک پیسے میں تیر رہے ہیں۔ خمس کی ادائیگی (جو کہ آدمی کی آمدنی کا 20% ہے)، اس کا نصف نائب امام کو دینا چاہیے۔ اس طرح ایران میں شیعہ کے آیت اللہ اور امام ارب پتی بن گئے ہیں۔

یہ سراسر ذلت آمیز ہے کہ کس طرح شیعہ امام اپنے مذہب سے بے وقوف عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں جو اپنے قائدین کی بلندی پر سوال اٹھانے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔[316]

شیعہ مذہب اختیار کرنے والے کی مشکلات

آئیے کہتے ہیں کہ میں شیعہ مذہب اختیار کرنا چاہتا تھا... چلو فرض  کرتے ہیں کہ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ ہمیں معصوم اماموں کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے اور میں شیعہ مذہب اختیار کرنا چاہتا تھا۔ اب، شیعہ مذہب میں ایک ممکنہ تبدیلی کے طور پر، شیعہ مذہب کا ہر فرقہ مجھ سے کہہ رہا ہے کہ مجھے ان کے معصوم اماموں کی پیروی کرنی چاہیے۔ شیعہ مذہب کے کم از کم 70 مختلف فرقے ہیں، جن میں سے ہر ایک اپنے اپنے اماموں کے لیے اپنے نسب کی پیروی کرتا ہے۔ یہاں دروز، بوہرہ، نزاری، زیدی، جارودی، سلیمانی، بطرس، اسماعیلی، قیاسانیہ، قداحیہ، غلت، آغا خانی وغیرہ موجود ہیں۔ حتیٰ کہ اتنا اشعری شیعہ میں بھی بہت سے مختلف فرقے ہیں جن میں اصولی، اکابرین اور شائقین۔ مجموعی طور پر ، درجنوں شیعہ فرقے ہیں ، جن میں سے ہر ایک کا اپنا نسب امام ہے۔

سچائی کے متلاشی کے طور پر، میں کیسے جان سکتا ہوں کہ ان میں سے کون سا سلسلہ صحیح ہے؟

یہ ایک اہم ترین فیصلہ ہے۔ شیعہ مسلک کے مطابق کسی شخص پر جھوٹی امامت کا دعویٰ کفر ہے۔

 لہٰذا اگر میں غلط نسب کا انتخاب کروں تو میں کافر ہو جاؤں گا جس کا مقدر جہنم ہے۔ اس لیے مجھے بہت احتیاط کرنی ہوگی جب میں یہ چنتا ہوں کہ میں ان میں سے کس کی پیروی کرنا چاہتا ہوں اور اماموں میں سے کون صحیح ہے؟

ان فرقوں میں سے ہر ایک کے پاس اپنی حدیثوں کا مجموعہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اماموں کا مجموعہ صحیح ہے۔ ان میں سے بعض فرقوں کے عقائد بہت مختلف ہیں، لیکن بہت سے فرقے ایسے بھی ہیں جو کسی دوسرے امام کی پیروی، یا کسی دوسرے مقام پر نسب کی شاخیں چھوڑ کر تقریباً ایک جیسے ہیں [یعنی تیسرے کی بجائے دوسرے بیٹے کو امام بنانا، وغیرہ]

براہِ کرم مجھے بتائیں کہ میں صحیح راستہ تلاش کرنے کے لیے کیسے آگے بڑھوں؟ 

کاش میں جوابات کے لیے قرآن کے پاس جاؤں، کیونکہ اللہ نے اسے حتمی ہدایت کی کتاب کہا ہے۔ بدقسمتی سے، قرآن میں کسی امام کے نام کا ذکر نہیں ہے، جو کہ عجیب ہے، کیونکہ کیا یہ کتاب ہدایت میں ڈالنے کے لیے اہم چیز نہیں ہوگی؟ قرآن نے واضح طور پر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی کرنے کا کہا جو اللہ کے رسول ہیں، اور پھر بھی مجھے ان اماموں میں سے کسی کی پیروی کے بارے میں ایک آیت بھی نہیں ملتی، ان کے ناموں کو چھوڑ دیں۔

اس لیے اب میں مختلف فرقوں کی "حدیث" کو دیکھنے پر مجبور ہوں۔ ان میں سے ہر ایک کی اپنی اپنی حدیث ہے اور ان میں سے ہر ایک دوسرے فرقے کو غلط امام اور جھوٹی حدیث پر عمل کرنے پر منحرف قرار دیتا ہے۔ میں بہت الجھن میں ہوں! میں سائنسی طور پر یہ کیسے طے کروں گا کہ کون سی حدیث صحیح ہے اور کون سی من گھڑت ہے؟ کیا اللہ واقعی مجھ سے ایسا کرنے کی امید رکھتا ہے؟

میں جانتا ہوں کہ اتھنا اشعری اس وقت سب سے زیادہ آبادی والا شیعہ گروپ ہے۔ لیکن کچھ سرسری تحقیق نے مجھے دکھایا کہ یہ صرف ایک حالیہ واقعہ تھا:

شاہ اسماعیل اول صفوی سلطنت کے دوران اقتدار میں آیا اور وہ صرف اتھنا اشعری فرقہ میں تبدیل ہوا، اور پھر اس نے تمام فارسیوں کو جرمانے کے ذریعے مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا موت کے ڈر سے-

اس سے پہلے دوسرے شیعہ فرقے تھے جو زیادہ بااثر تھے۔ اگر میں فاطمی سلطنت میں رہتا (جو اسماعیلی شیعہ تھا) تو یہ اسماعیلیت ہوتی جو شیعہ کی اکثریت تھی۔ بات یہ ہے کہ ہم محض اعتنا اشعری فرقہ کی پیروی نہیں کر سکتے کیونکہ یہ سب سے بڑا فرقہ ہے، یعنی ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔

اگر آپ اعتنا اشعری امامی اصولی فرقے کا حصہ ہیں تو میں شرط لگاتا ہوں کہ آپ شاید اسی طرح پیدا ہوئے ہیں۔ اگر شاہ اسماعیل اول نے شیعہ مذہب کا ایک مختلف فرقہ اختیار کر لیا ہوتا اور اماموں کے دوسرے مجموعے کی پیروی کی ہوتی تو شاید آپ اس فرقے میں پیدا ہوتے۔ بہر حال، صرف اس وجہ سے کہ اعتنا اشعری کی اکثریت ہے، کیا اس کا مطلب ہے کہ میں اس کی پیروی کروں؟

تاریخی طور پر، شیعہ کا عقیدہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت نے امام کو رد کیا اور صرف مٹھی بھر لوگ ان کے وفادار تھے۔ اگر امام کے حقیقی پیروکار واقعی ایک چھوٹا اور غیر واضح شیعہ فرقہ ہے تو کیا ہوگا؟

پھر میں انہیں کیسے تلاش کروں؟

درجنوں شیعہ فرقوں میں سے کس کا تعلق صحیح ہے؟

میں کھو گیا ہوں. رہنمائی کے لیے میں کہاں سے رجوع کر سکتا ہوں؟ اگر میں شیعہ مذہب اختیار کرنا چاہتا ہوں تو مجھے کس فرقے کی پیروی کرنی چاہیے اور امام کا کون سا سلسلہ صحیح ہے؟ کیا اثنا عشری مجھے کوئی وجہ بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے دوسرے فرقے کے ائمہ کے مقابلے میں اپنے اماموں کا انتخاب کیوں کیا؟

اس معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ کسی شخص کے لیے یہ فیصلہ کرنے کا قطعاً کوئی طریقہ نہیں ہے کہ اماموں کا صحیح مجموعہ کون سا ہے، کیونکہ قرآن میں ائمہ کا ذکر نہیں ہے۔ قرآن میں جس چیز کا ذکر ہے وہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنا، اور ہمیں یہی کرنا چاہیے۔ چونکہ امامت کا عقیدہ قرآن سے غائب ہے اس لیے ہمیں اسے رد کرنا چاہیے۔[317]

[ یہ کھا جا سکتا ہے کہ اہل سنت میں بھی بہت فرقے ہیں، لیکن ہمارے پاس قرآن موجود ہے فرقان ، جس سے کس بھی فرقہ کے عقائد کو چیک کر سکتے ہیں جو آپ کو قرآن کے مطابق لگے اس کو قبول کر لیں، ویسے سنی فرقوں میں اختلافات اصول میں نہیں فروعی ہیں جو زیادہ اہم نہیں- چار بڑے سنی مسلک ایک دوسرے کو درست مانتے ہیں کسی میں شامل ہو سکتے ہیں ]

قرآن کے بعد احادیث کو چیک کر سکتے ہیں :

 علم الحديث کے سنہری اصول[318] :  https://bit.ly/Hadith-Basics 

 یہ بہت طویل موضوع ہے جو اس کتاب کے دائرہ کار سے باہر ہے، تفصیل ملاحضہ کریں اس لنک پر- ۔

مزید تفصیل غدیر خم .....[319]

تضاد / Paradox

اگر علی رضی اللہ عنہ کو اس بات کا علم تھا کہ وہ نص قطعی کی بنیاد پر اللہ تعالی کی طرف سے  امام یا خلیفہ متعین ہیں تو انہوں نے ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین کے ہاتھوں بیعت خلافت کیوں کی؟

اگریہ کہیں کہ وہ مجبور تھے، تو عاجز اور مجبور شخص خلافت کے لیے کیونکر موزوں ہوسکتا ہے؟

پھر جب حضرت عثمان (رضی الله) کی شہا دت کے بعد لوگوں  ۓ ان کو خلافت کے لئے منتخب کیا تو انہوں  ۓ پہلے انکار کیوں کیا؟[320] جبکہ وہ اللہ کی طرف سے نامزد تھے شیعہ عقیده کے مطابق؟

کیونکہ خلافت اسی کے لائق ہے جو خلافت کے بوجھ اور ذمہ داریوں کو اپنے کاندھوں پر اُٹھا سکتا ہے۔ اور اگر یہ کہیں کہ وہ خلافت کے بوجھ اُٹھانے کی استطاعت رکھتے تھے لیکن انہوں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا تو یہ قول خیانت ہے اور خائن کو امامت کے منصب پر فائز نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی رعایا کے بارے میں اس پر اعتماد اور بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔

جب کہ ہمارا ایمان ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات ان تمام عیوب سے منزہ اور مبرا ہے۔ آپ کا جواب کیا ہے؟

امام حسن اور امام حسین (رضی الله) کی متضاد حکمت عملی، دونوں درست نہیں ہو سکتیں؟ اس سوال کا شیعہ کے پاس کوئی جواب نہیں ہے کیونکہ اگر وہ یہ کہیں کہ حسنین رضی اللہ عنہما دونوں ہی حق پر تھے تو انہوں نے اجتماع ضدین کا ارتکاب کیا۔ اور اگر ایک درست ہے تو پھر دوسرے کی امامت پر حرف آتا ہے-

امیرالمومنین علی (رض)  خلفائے راشدین کے  راستہ پر

علی رضی اللہ عنہ نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد اپنے پیش رو خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین ہی کا راستہ اختیار کیا بلکہ آپ رضی اللہ عنہ منبر خلافت سے برابر یہی کلمات دہراتے "خیر ھذہ الامۃ بعدنبیھا ابوبکر وعمر"

"اس اُمت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد افضل ترین ابوبکر اور عمر ہیں"

لطف کی بات یہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نےحج تمتع نہیں فرمایا، اور فدک کا مال بھی نہیں حاصل کیا ایام حج میں لوگوں پر متعہ واجب نہیں کیا اور نہ ہی اذان میں "حی علی خیر العمل" کے کلمہ کو رواج دیا اور نہ اذان سے "الصلاۃ خیر من النوم" کا جملہ حذف کیا۔

اگر شیخین رضی اللہ عنہما کافر ہوتے اور انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے خلافت زبردستی غصب کی ہوتی تو اس چیز کو علی رضی اللہ عنہ نے کھول کر بیان کیوں نہیں کیا؟ جبکہ حکومت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں تھی۔ بلکہ زمینی حقائق سے علی رضی اللہ عنہ کا ذاتی عمل اس کے برعکس نظر آتا ہے کہ انہوں نے شیخین {ابوبکر و عمر} کی تعریف کی ہے اور دل کھول کر ان کی مدح سرائی کی ہے۔

خلافت راشدہ کی قرآن اور حضرت علی (رضی الله) سے تصدیق

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿55﴾

"تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالٰی وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو [321]مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کے لئے وہ پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف و خطر کو وہ امن امان سے بدل دے گا ، وہ میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وہ یقیناً فاسق ہیں" (قرآن 24:55)[322]

اس ارشاد سے مقصود منافقین کو متنبہ کرنا ہے کہ اللہ نے مسلمانوں کو خلافت عطا فرمانے کا جو وعدہ کیا ہے اس کے مخاطب محض مردم شماری کے مسلمان نہیں ہیں بلکہ وہ مسلمان ہیں جو صادق الایمان ہوں ، اخلاق اور اعمال کے اعتبار سے صالح ہوں ، اللہ کے پسندیدہ دین کا اتباع کرنے والے ہوں ، اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہو کر خالص اللہ کی بندگی و غلامی کے پابند ہوں ۔ ان صفات سے عاری اور محض زبان سے ایمان کے مدعی لوگ نہ اس وعدے کے اہل ہیں اور نہ یہ ان سے کیا ہی گیا ہے ۔ لہٰذا وہ اس میں حصہ دار ہونے کی توقع نہ رکھیں ۔

اس بات کا تاریخی ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ ابو بکر صدیق ، عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے زمانے میں پورا کر دیا ۔ اس کے بعد کوئی انصاف پسند آدمی مشکل ہی سے اس امر میں شک کر سکتا ہے کہ ان تینوں حضرات کی خلافت پر خود قرآن کی مہر تصدیق لگی ہوئی ہے اور ان کے مومن صالح ہونے کی شہادت اللہ تعالیٰ خود دے رہا ہے ۔ اس میں اگر کسی کو شک ہو تو نہج البلاغہ میں سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی وہ تقریر پڑھ لے جو انہوں نے حضرت عمر (رضی الله)  کو ایرانیوں کے مقابلے پر خود جانے کے ارادے سے باز رکھنے کے لیے کی تھی ۔

سیدنا علی(رض) کی عمر (رض) کے حق میں  تقریر اور حمایت

سیدنا علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں :

"اس کام کا فروغ یا ضعف کثرت و قلت پر موقوف نہیں ہے ۔ یہ تو اللہ کا دین ہے جس کو اس نے فروغ دیا اور اللہ کا لشکر ہے جس کی اس نے تائید و نصرت فرمائی ، یہاں تک کہ یہ ترقی کر کے اس منزل تک پہنچ گیا ۔ ہم سے تو اللہ خود فرما چکا ہے ( وَعَدَ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ) ............ اللہ اس وعدے کو پورا کر کے رہے گا اور اپنے لشکر کی ضرور مدد کرے گا ۔

اسلام میں قیم کا مقام وہی ہے جو موتیوں کے ہار میں رشتے کا مقام ہے۔ رشتہ ٹوٹتے ہی موتی بکھر جاتے ہیں اور نظم درہم برہم ہو جاتا ہے ۔ اور پراگندہ ہو جانے کے بعد پھر جمع ہونا مشکل ہو جاتا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ عرب تعداد میں قلیل ہیں ۔ مگر اسلام نے ان کو کثیر اور اجتماع نے ان کو قوی بنا دیا ہے ۔

سیدنا علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں :

آپ (عمر) یہاں قطب بن کر جمے بیٹھے رہیں اور عرب کی چکی کو اپنے گرد گھماتے رہیں اور یہیں سے بیٹھے بیٹھے جنگ کی آگ بھڑکاتے رہیں ۔ ورنہ آپ اگر ایک دفعہ یہاں سے ہٹ گئے تو ہر طرف سے عرب کا نظام ٹوٹنا شروع ہو جائے گا اور نوبت یہ آ جائے گی کہ آپ کو سامنے کے دشمنوں کی بہ نسبت پیچھے کے خطرات کی زیادہ فکر لاحق ہو گی ۔ اور ادھر ایرانی آپ ہی کے اوپر نظر جما دیں گے کہ یہ عرب کی جڑ ہے ، اسے کاٹ دو تو بیڑا پار ہے ، اس لیے وہ سارا زور آپ کو ختم کر دینے پر لگا دیں گے ۔ رہی وہ بات جو آپ نے فرمائی ہے کہ اس وقت اہل عجم بڑی کثیر تعداد میں امنڈ آئے ہیں ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی ہم جو ان سے لڑتے رہے ہیں تو کچھ کثرت تعداد کے بل پر نہیں لڑتے رہے ہیں ، بلکہ اللہ کی تائید و نصرت ہی نے آج تک ہمیں کامیاب کرایا ہے "

دیکھنے والا خود ہی دیکھ سکتا ہے کہ اس تقریر میں جناب امیر کس کو آیت استخلاف کا مصداق ٹھہرا رہے ہیں ۔ کفر سے مراد یہاں کفران نعمت بھی ہو سکتا ہے اور انکار حق بھی ۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس کے مصداق وہ لوگ ہوں گے جو نعمت خلافت پانے کے بعد طریق حق سے ہٹ جائیں اور دوسرے معنی کے لحاظ سے اس کے مصداق منافقین ہوں گے جو اللہ کا یہ وعدہ سن لینے کے بعد بھی اپنی منافقانہ روش نہ چھوڑیں (تفہیم القرآن)[323]

خلفائےراشدین کا دور

جن حضرات کا خیال ہے کہ خلفائےراشدین کافر تھے ان کے ہاتھوں پر اللہ تعالی نے اسلامی فتوحات کا دروازہ کھول کر اسلام اور مسلمانوں کو عزت و سربلندی عطا فرمائی تھی اور مسلمانوں کو تاریخ میں ایسا دورمشاہدہ کرنے کو نہیں ملا۔ کیا یہ بات اللہ تعالی کے اس دوٹوک فیصلے کے موافق ہے جس کی رو سے اللہ تعالی نے کفار اور منافقین کو ذلیل و رسوا کیا ہے؟ اس کے بالمقابل دوسرا رخ مشکلات کا تھا-

مزید اشتباهات

امیر معاویہ اور کفر

شیعہ کا دعوی ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کافر تھے، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہ نے ان کے حق میں خلافت سے دست برداری کا اعلان کیا، حالانکہ حسین امام معصوم ہیں لہذا یہاں پر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انہوں نے ایک کافر کے لیے خلافت سے دستبرداری کا اعلان کیا حالانکہ یہ چیز حسین رضی اللہ عنہ کی عصمت کے خلاف ہے یا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہیں ، ان دو صورتوں میں ایک صورت کو بہرحال تسلیم کرنا ہے۔​

صحابہ کا ارتاد؟

شیعوں کا دعوی ہے کہ صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مرتد ہوگئے تھے اور وہ پہلی کیفیت پر آگئے تھے۔   شیعہ حضرات سے سوال ہے کہ کیا اصحاب رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے قبل شیعہ اثنا عشریہ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اہل سنت والجماعت ہوگئے تھے۔ یا لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے قبل اہل سنت والجماعت تھے اور بعد از وفات شیعہ اثنا عشریہ ہوگئے ؟

کیونکہ ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہونے کو ہی انقلاب، تغیر اور تبدل کہا جاتا ہے؟

صحابہ کرام  کے آپس کے اختلافات ، کدورت دورکرنے کے متعلق مضامین کی آیات کے بارے میں حضرت علی (رض) کا یہ قول بھی (خاص طور پر سورة الحجر ‘ آیت ٤٧ کے شان نزول میں ) منقول ہے کہ یہ میرا اور معاویہ (رض) کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں جنت میں داخل کرے گا تو دلوں سے تمام کدورتیں صاف کر دے گا۔ ظاہر بات ہے کہ حضرت علی (رضی الله)  اور حضرت امیر معاویہ (رضی الله)  کے درمیان جنگیں ہوئی ہیں تو کتنی کچھ شکایتیں باہمی طور پر پیدا ہوئی ہوں گی۔ ایسی تمام شکایتیں اور کدورتیں وہاں دور کردی جائیں گی[324]

اسی سلسلے میں سیدنا علی (رضی الله) نے یہ بھی فرمایا تھا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ میرے عثمان طلحہ اور زبیر کے درمیان بھی صفائی کرا دے گا۔ واضح رہے کہ یہ صحابہ کرام (رض) ان چھ رکنی کمیٹی کے ممبر تھے جو سیدنا عمر نے اپنے وفات سے پیشتر نئے خلیفہ کے انتخاب کے سلسلہ میں تشکیل دی تھی اور یہ رنجش بعض غلط فہمیوں کی بنا پر پیدا ہوگئی تھی۔[325]

وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ ۖ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ ۖ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ ۖ وَنُودُوا أَن تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ‎﴿٤٣﴾‏

 اور جو کچھ ان کے دلوں میں کدورت ہوگی ہم اسے باہر نکال دیں گے ان کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی۔ اور وہ شکر کرتے ہوئے کہیں گے ہر قسم کی تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں اس منزلِ مقصود تک پہنچایا اور ہم کبھی یہاں تک نہیں پہنچ سکتے تھے اگر وہ ہمیں نہ پہنچاتا۔ یقینا ہمارے پروردگار کے رسول حق کے ساتھ آئے اور انہیں ندا دی جائے گی کہ یہ بہشت ہے جس کے تم اپنے ان اعمال کی بدولت وارث بنائے گئے ہو۔ جو تم انجام دیا کرتے تھے۔ (7:43)

حضرت ابن عباس (رض) کا قول

کہ مذکورہ آیت میں حضرت ابوبکر (رض) ، حضرت عمر (رض) ، حضرت عثمان (رض) ، حضرت علی (رض) ، حضرت طلحہ (رض) ، حضرت زبیر (رض) ، حضرت ابن مسعود (رض) ، حضرت عمار بن یاسر (رض) ، حضرت سلمان (رض) اور حضرت ابو ذر (رض) کی طرف اشارہ ہے اور ہوسکتا ہے کہ عام اہل جنت کی حالت کا اظہار مقصود ہو کہ وہاں کسی پر کسی کو حسد نہیں ہوگا اور نہ آپس میں کوئی جھگڑا ہوگا آواز دی جائے گی یعنی فرشتے یا کوئی خاص فرشتہ اہل جنت سے کہے گا۔ ورثہ اس لئے فرمایا کہ بہرحال جنت آدم کی میراث ہے جو ان کی مسلمان اولاد کو میراث میں دی جائے گی اور نیز اس لئے کہ تملیک کے لئے مضبوط اور بےکھٹکے طریقہ میراث ہی کا ہے۔[326] 

وَنَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ : ابوہریرہ (رض) سے مروی اہل جنت کے اوصاف میں ایک لمبی حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ان کے دل ایک آدمی کے دل کی طرح ہوں گے، نہ ان میں کوئی اختلاف ہوگا نہ باہمی بغض۔ “ [ بخاری، بدء الخلق، باب ما جاء فی صفۃ الجنۃ : ٣٢٤٦ ] دنیا میں اگر ان کے درمیان کوئی بغض تھا تو وہ صاف ہونے کے بعد جنت میں داخلہ ہوں گے-

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :

” مومن آگ سے بچ کر نکلیں گے تو انھیں جنت اور آگ کے درمیان ایک پل پر روک لیا جائے گا، پھر وہ ایک دوسرے سے ان زیادتیوں کا قصاص لیں گے جو دنیا میں ان سے ہوئیں یہاں تک کہ جب وہ تراش خراش کروا کر بالکل صاف ستھرے ہوجائیں گے تو انھیں جنت میں داخلے کی اجازت ملے گی۔ “ [ بخاری، المظالم، باب قصاص المظالم : ٦٥٣٥، عن أبی سعید الخدری (رض) ] 

سینوں میں موجود کینے میں صحابہ کرام اور تابعین عظام کی باہمی رنجشیں بھی شامل ہیں، جو دنیا میں سیاسی یا دوسری وجوہات کی بنا پر پیدا ہوئیں۔

وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ هَدٰىنَا۔۔ : یعنی یہ ہدایت جس سے ہمیں ایمان اور عمل صالح کی توفیق عطا ہوئی، پھر انھیں قبولیت کا شرف حاصل ہوا، یہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت اور اس کا فضل ہے، اگر یہ نہ ہوتا تو ہم یہاں تک نہ پہنچ پاتے۔

اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : یہ باء سببیہ ہے، باء عوض نہیں، یعنی اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ یہ جنت میرے فضل سے تمہارے کسی عوض یا قیمت اداکیے بغیر تمہیں بطور ہبہ دی جا رہی ہے، جیسا کہ میراث بغیر کسی عوض کے دی جاتی ہے اور تمہاری اس عزت افزائی کا سبب دنیا میں تمہارے اعمال صالحہ ہیں۔

ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا :

” تم میں سے کسی کو اس کا عمل جنت میں ہرگز داخل نہیں کرے گا۔ “ لوگوں نے کہا : ” یا رسول اللہ ! آپ کو بھی نہیں ؟ “ فرمایا : ” نہیں، مجھے بھی نہیں، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے فضل اور رحمت سے ڈھانپ لے۔ “ [ بخاری، الرقاق، باب القصد والمداومۃ علی العمل : ٦٤٦٣، ٦٤٦٤ ] آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ کی رحمت انسانی اعمال کی بنیاد پر ہوگی، یعنی اس کے اعمال صالحہ ہی رحمت کا سبب بنیں گے (تفسیر عبد السلام بھٹوی )[327]

تفسیر مظہری میں ہے کہ یہ پل بظاہر پل صراط کا آخری حصہ ہوگا، جو جنت سے متصل ہے، علامہ سیوطی رحمة اللہ علیہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ اور اس مقام پر جو حقوق کے مطالبات ہوں گے ان کی ادائیگی ظاہر ہے کہ روپیہ پیسہ سے نہ ہوسکے گی، کیونکہ وہ وہاں کسی کے پاس مال نہ ہوگا، بلکہ بخاری و مسلم کی ایک حدیث کے مطابق یہ ادائیگی اعمال سے ہوگی، حقوق کے بدلہ میں اس کے عمل صاحب حق کو دیدئے جائیں گے، اور اگر اس کے اعمال اس طرح سب ختم ہوگئے اور لوگوں کے حقوق ابھی باقی رہے تو پھر صاحب حق کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے۔ ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے شخص کو سب سے بڑا مفلس قرار دیا ہے جس نے دنیا میں اعمال صالحہ کئے لیکن لوگوں کے حقوق کی پروا نہیں کی، اس کے نتیجہ میں تمام اعمال سے خالی مفلس ہو کر وہ گیا۔ اس روایت حدیث میں ادائے حقوق اور انتقام کا عام ضابطہ بیان کیا گیا ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ سب کو یہی صورت پیش آئے، بلکہ ابن کثیر اور تفسیر مظہری کی روایت کے مطابق وہاں یہ صورت بھی ممکن ہوگی کہ بدوں انتقام لئے آپس کے کینے کدورتیں دور ہوجائیں۔ جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ یہ لوگ جب پل صراط سے گزر لیں گے تو پانی کے ایک چشمہ پر پہنچیں گے اور اس کا پانی پئیں گے، اس پانی کا خاصہ یہ ہوگا کہ سب کے دلوں سے باہمی کینہ و کدورت دھل جائے گی-

 امام قربطی رحمة اللہ علیہ نے آیت کریمہ (آیت) وسقھم ربھم شرابا طھورا کی تفسیر بھی یہی نقل کی ہے کہ جنت کے اس پانی سے سب کے دلوں کی رنجشیں اور کدورتیں دھل جائیں گی۔

شیعہ اور امام علیؑ کے احکام کی خلاف درزی

ذیل میں کچھ روایات اور حقائق شیعہ کتب سے پیش ہیں- سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیعہ حضرات کیوں حق کی مخالفت پر آمادہ ہیں؟ اب آپ ہی بتلائیں کہ کس کی تصدیق کریں اللہ کی، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اور اہل بیت کی یا شیعہ کے ذاکرین کی؟؟۔[328]

1.علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: " اے نفس!اگر تجھے جزع و فزع اور نوحہ و ماتم سے نہ منع کیا گیا ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کی تلقین نہ کی ہوتی تو میں رو رو کر آنکھوں کا پانی خشک کر لیتا۔"{نہج البلاغہ اور مستدرک الوسائل}۔

2.یہ روایت بھی مروی ہے کہ علی علیہ السلام نے فرمایا ہے " جس نے مصیبت کے وقت اپنی رانوں پر ہاتھ مارا تو اس کا عمل ضائع اور برباد ہوئے گا۔{الخصال للصدوق اور وسائل الشیعہ}۔

3.حسین رضی اللہ عنہ نے حادثہ کربلا میں اپنی بہن زینب کو مخاطب کرکے فرمایا تھا میری پیاری بہن! میں تم کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں اگر میں قتل کر دیا جاوں تو تم مجھ پر گریبان چاک نہ کرنا اور اپنے ناخنوں سے اپنے چہرے کو نہ چھیدنا اور میری شہادت پر ہلاکت و تباہی کی دہائی نہ دینا۔

4.ابو جعفر القمی نے نقل کیا ہے امیر المومنین علیہ السلام کو جب اپنے ساتھیوں کے متعلق معلوم ہوا فرمایا: "تم کالا لباس زیب تن مت کیا کرو کیونکہ یہ فرعون کا لباس ہے۔ " {من لا یحضرہ الفقیہ اور کتاب وسائل الشیعہ}

5.تفسیر صافی میں اس آیت { وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ۔۔﴿١٢﴾ سورۃ الممتحنۃ} کے ضمن میں یہ ہی کہا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے اس بات پر بیعت لی کہ وہ بطور سوگ کالا لباس نہیں پہنیں گی اور نہ گریبان چاک کریں گی اور نہ ہلاکت وبربادی کی پکار لگائیں گی۔

6.کلینی کی کتاب فروع الکافی میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو وصیت کی تھی کہ جب میرا انتقال ہوجائے تو نہ تو اپنے چہرے کو نوچنا اور نہ ہی مجھ پر بال لٹکا لٹکا کر غم کا اظہار کرنا اور نہ ہی ہلاکت و بربادی کی دہائی دینا اور نہ میرے لیے کسی نوحہ کناں کو مقرر کرنا۔ {ملاحظہ ہو:فروع الکافی}۔

7.شیعہ کے علماء المجلسی، النوری اور البردجردی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" نوحہ و ماتم اور گانے بجانے کی آوازیں اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں۔"{بحارالانوار، مستدرک الوسائل، جامع احادیث الشیعہ اور من لایحضرہ الفقیہ}

8.بدعات،  قمہ زنی (خونی ماتم)  

 اگر زنجیر زنی، نوحہ خوانی اور سینہ کوبی میں عظیم اجروثواب ہے جیسا کہ شیعہ حضرات کا دعوی ہے  (دیکھیے ارشاد السائل اور صراط النجاۃ)۔ تو شیعوں کے مذہبی رہنما اور ان کے ملاں و ذاکر زنجیر زنی کیوں نہیں کرتے ہیں؟

مزید پڑھیں :

  1. شیعہ علماء کےاہل سنت کے مقدسات کی توہین، بدعات،  قمہ زنی (خونی ماتم)  کے خلاف فتوے اور  شیعہ اصلاحی تحاریک[329] ....
  2. عزاداری کے متعلق 40 احادیث:[330] بشکریہ : آیت اللہ برقعی اسلامک مشن

 صحابہ کرام میں اختلاف, جگھڑا

حضرت علی (رضی الله) اور عبداللہ بن عبّاس (رضی الله) کے اختلافات؛

ابن عباس (رض) کو حضرت علی (رض) کی جانب سے بصرہ کا گورنر معین کیا گیا تھا۔  بعض نقل قول کے مطابق امام علی (رض) کی حکومت کے اواخر میں آپ پر بیت المال میں خرد برد کا الزام لگا اور آپ نے بصرہ کو اس کے حال پر چھوڑ دیا اور مکہ روانہ ہو گئے۔ (حوالہ: بلاذری، جمل من انساف الاشراف، جلد ۴، صفحہ ۳۹) /تفصیل:  تاریخ طبری)

فئی کے حکم کے بیان میں

حضرت عبّاس (رض)  اور حضرت علی (رض) کی توہین

عبداللہ بن محمد بن اسماء ضبعی، جویریہ، مالک، حضرت زہری ؓ سے روایت ہے کہ حضرت مالک بن اوس ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ بن خطاب نے مجھے پیغام بھیج کر بلوایا میں دن چڑھے آپ کی خدمت میں آگیا حضرت مالک فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ گھر میں خالی تخت پر چمڑے کا تکیہ لگائے بیٹھے ہیں (فرمایا کہ اے مالک) تیری قوم کے کچھ آدمی جلدی جلدی میں آئے تھے میں نے ان کو کچھ سامان دینے کا حکم کردیا ہے اب تم وہ مال لے کر ان کے درمیان تقسیم کردو میں نے عرض کیا اے امیر المومنین! آپ میرے علاوہ کسی اور کو اس کام پر مقرر فرما دیں آپ نے فرمایا اے مالک تم ہی لے لو اسی دوران (آپ کا غلام) یرفاء اندر آیا اور اس نے عرض کیا اے امیر المومنین! حضرت عثمان، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت زبیر اور حضرت سعد رضوان اللہ علیھم اجمعین حاضر خدمت ہیں حضرت عمر ؓ نے فرمایا ان کے لئے اجازت ہے وہ اندر تشریف لائے پھر وہ غلام آیا اور عرض کیا کہ حضرت عباس ؓ اور حضرت علی ؓ تشریف لائے ہیں حضرت عمر ؓ نے فرمایا اچھا انہیں بھی اجازت دے دو حضرت عباس کہنے لگے اے امیر المومنین میرے اور اس جھوٹے گناہ گار دھوکے باز خائن کے درمیان فیصلہ کر دیجئے لوگوں نے کہا ہاں اے امیر المومنین ان کے درمیان فیصلہ کردیں اور ان کو ان سے راحت دلائیں حضرت مالک بن اوس کہنے لگے کہ میرا خیال ہے کہ ان دونوں حضرات یعنی عباس اور حضرت علی ؓ نے ان حضرت کو اسی لئے پہلے بھیجا ہے

حضرت عمر ؓ نے فرمایا میں تمہیں اس ذات کی قسم دیتا ہوں کہ جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہم (پیغمبروں) کے مال میں سے ان کے وارثوں کو کچھ نہیں ملتا جو ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے سب کہنے لگے کہ جی ہاں پھر حضرت عمر ؓ، حضرت عباس ؓ اور حضرت علی ؓ کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے کہ میں تم دونوں کو قسم دیتا ہوں کہ جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم دونوں جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں بنایا جاتا جو ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا جی ہاں حضرت عمر ؓ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ سے ایک خاص بات کی تھی کہ جو آپ ﷺ کے علاوہ کسی سے نہیں کی حضرت عمر ؓ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو جو دیہات والوں کے مال سے عطا فرمایا وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا ہی حصہ ہے مجھے نہیں معلوم کہ اس سے پہلے کی آیت بھی انہوں نے پڑھی ہے یا نہیں پھر حضرت عمر ؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے تم لوگوں کے درمیان بنی نضیر کا مال تقسیم کردیا ہے اور اللہ کی قسم آپ ﷺ نے مال کو تم سے زیادہ نہیں سمجھا اور ایسے بھی نہیں کیا کہ وہ مال خود لے لیا ہو اور تم کو نہ دیا ہو یہاں تک کہ یہ مال باقی رہ گیا تو رسول اللہ ﷺ اس مال میں سے اپنے ایک سال کا خرچ نکال لیتے پھر جو باقی بچ جاتا وہ بیت المال میں جمع ہوجاتا پھر حضرت عمر ؓ نے فرمایا میں تم کو اس اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم کو یہ معلوم ہے انہوں نے کہا جی ہاں پھر اسی طرح حضرت عباس ؓ اور حضرت علی ؓ کو قسم دی انہوں نے بھی اسی طرح جواب دیا لوگوں نے کہا کیا تم دونوں کو اس کا علم ہے انہوں نے کہا جی ہاں

حضرت عمر ؓ نے فرمایا جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا میں رسول اللہ ﷺ کا والی ہوں اور تم دونوں اپنی وراثت لینے آئے ہو حضرت عباس ؓ تو اپنے بھتیجے کا حصہ اور حضرت علی ؓ اپنی بیوی کا حصہ ان کے باپ کے مال سے مانگتے تھے حضرت ابوبکر ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہمارے مال کا کوئی وراث نہیں ہوتا جو کچھ ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور تم ان کو جھوٹا، گناہ گار، دھوکے باز اور خائن سمجھتے ہو؟

اور اللہ جانتا ہے کہ وہ سچے نیک اور ہدایت یافتہ تھے اور حق کے تابع تھے پھر حضرت ابوبکر ؓ کی وفات ہوئی اور

میں رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کا ولی بنا اور تم نے مجھے بھی جھوٹا، گناہ گار، دھوکے باز اور خائن خیال کیا

اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں سچا، نیک، ہدایت یافتہ ہوں اور میں اس مال کا بھی والی ہوں اور پھر تم میرے پاس آئے تم بھی ایک ہو اور تمہارا معاملہ بھی ایک ہے تم نے کہا کہ یہ مال ہمارے حوالے کردیں میں نے کہا کہ میں اس شرط پر مال تمہارے حوالے کر دوں گا کہ اس مال میں تم وہی کچھ کرو گے جو رسول اللہ ﷺ کیا کرتے تھے اور تم نے یہ مال اسی شرط سے مجھ سے لیا پھر حضرت عمر ؓ نے ان سے فرمایا کیا ایسا ہی ہے ان دونوں حضرات نے کہا جی ہاں حضرت عمر ؓ نے فرمایا تم دونوں اپنے درمیان فیصلہ کرانے کے لئے میرے پاس آئے ہو اللہ کی قسم میں قیامت تک اس کے علاوہ اور کوئی فیصلہ نہیں کروں گا اگر تم سے اس کا انتظار نہیں ہوسکتا تو پھر یہ مال مجھے لوٹا دو۔ [صحيح مسلم : 1757,4577[331] ، صحيح البخاري : 3094، مختصرا]

الکافی حدیث : انبیاء کی وراثت صرف علم

الکافی میں درج ذیل شیعہ حدیث ملتی ہیں، جو حدیث کی چار شیعہ کتب میں شیعہ کے درمیان سب سے زیادہ معتبرسمجھی جاتی ہے:

"انبیاء کرام نے دینار اور درہم کو وراثت میں نہیں چھوڑا بلکہ علم کو چھوڑا ہے۔" (الکافی، جلد 1 صفحہ 42)[332]

الکافی میں یہ شیعہ حدیث دو الگ الگ روایات پر مشتمل ہے، اور شیعہ اسے صحیح مانتے ہیں۔ اس کی تصدیق آیت اللہ خمینی سے ہوتی ہے، جنہوں نے ولایت فقیہ کے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے اس حدیث کو استعمال کیا۔ خمینی نے حدیث کے بارے میں کہا:

"اس روایت کے راوی سب ثقہ اور ثقہ ہیں۔ علی بن ابراہیم [یعنی ابراہیم بن ہاشم] کے والد نہ صرف قابل اعتماد ہیں، [بلکہ درحقیقت] وہ سب سے زیادہ قابل اعتماد اور ثقہ راویوں میں سے ایک ہیں۔ (خمینی، الحکمۃ الاسلامیہ، ص 133، شائع شدہ مرکز بقیات اللہ الاعظم، بیروت)

مزید تفصیل : باغ فدک[333] .....

کیا عمر (ر) نے فاطمہ (ر) کے گھر پر حملہ کیا اور انکے رحم کے بچے کا اسقاط کیا؟ [334]>>

شیعہ علماء کے فتوے ذاکرین مسترد  کرتے

آیت اللہ العظمی  شیخ محمد یعقوبی نے کہا کہ اہل بیت (ع) کی تعلیمات کا سنی مسلمانوں کے مقدس شخصیات  کی بے حرمتی کرنے والوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں طرف (شیعہ اور سنی) کے ایسے گروہ ہو سکتے ہیں جو (اختلاف کے) شعلوں کو بھڑکاتے ہیں اور ایسی جاہلانہ حرکتوں کو ہوا دیتے ہیں۔ حال ہی میں ایک ویڈیو کلپ آن لائن آئی ہے جس میں طائر الدارجی نامی ایک شخص اور کچھ دیگر صحابہ کرام کی توہین کر رہا ہے۔ اس اقدام پر عراقی شیعہ علماء اور شخصیات کی جانب سے شدید تنقید کی گئی ہے۔ آیت اللہ علی السیستانی نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ صحابہ کی بے حرمتی کرنا اہل بیت(ع) کی تعلیمات کے منافی ہے۔عراقی وزیر اعظم اور شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر نے بھی اس اقدام کی مذمت کی۔[335]

اہلسنت کے مقدسات کی توہین پر  سید علی خامنائی کا فتوی :

اہلسنت برادران کے مقدسات کی توہین اور اہانت حرام ہے اور پیغمبر اسلام (ص) کی زوجہ پر الزام اس سےکہیں زیادہ سخت و سنگین ہے اور یہ امر تمام انبیاء (ع) کی ازواج بالخصوص پیغمبر اسلام (ص) کی ازواج کے لئے ممنوع اور ممتنع ہے۔ ( سید علی خامنائی)[336]

فرمان امام علیؑ  مسترد  

"میں تمہارے لئے اس بات کو نا پسند کرتا ہوں کہ تم گالیاں دینے والے ہو جائو۔ بہترین بات یہ ہے کہ تم ان کے اعمال اورحالات کاتذکرہ کرو تاکہ بات بھی صحیح رہے اورحجت بھی تمام ہو جائے اور پھر گالیاں دینے کے بجائے یہ دعا کرو کہ؛

یا اللہ! ہم سب کے خونوں کومفحوظ کردے اور ہمارے معاملات کی اصلاح کردے اور انہیں گمراہی سے ہدایت کےراستہ پر لگادے تاکہ ناواقف لوگ حق سے با خبر ہو جائیں اور حرف باطل کہنے والے اپنی گمراہی اور سرکشی سے بازآجائیں"  [نہج البلاغہ خطبہ : 206][337]

پاکستانی شیعہ حضرات قرآن ، فرامین  رسول اللہ ﷺ ، امام اول علی (ع) کے احکام اور اس دور کے ایرانی علماء کے فتووں پر عمل کیوں نہیں کرتے؟  

کیوں متعصب ، فرقہ پرست جاہل علماء اور ذاکرین جن کی معیشت کا انحصار گالی گلوچ ، تضحیک، نفرت کے فروغ سے وابستہ ہے ان کو  آئمہ (ع) اہل بیت  پر کیوں ترجیح دیتے؟

قرآن کو چھوڑنے اور گمراہی پھیلانے والے بدترین علماء

وَعَنْ عَلِیِّ رَضِیَ اﷲُعَنْہُ قَالَ:

قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ یُوْشِکُ اَنْ یَّاْتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَبْقَی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اسْمُہۤ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ اِلَّا رَسْمُہ، مَسَاجِدُ ھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی عُلَمَآءُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ اٰدِیْمِ السْمَآءِ مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان)

اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ عنقریب لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اسلام میں صرف اس کا نام باقی رہ جائے گا اور قرآن میں سے صرف اس کے نقوش باقی رہیں گے۔ ان کی مسجدیں (بظاہر تو) آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے کی مخلوق میں سے سب سے بدتر ہوں گے۔ انہیں سے (ظالموں کی حمایت و مدد کی وجہ سے ) دین میں فتنہ پیدا ہوگا اور انہیں میں لوٹ آئے گا (یعنی انہیں پر ظالم) مسلط کر دیئے جائیں گے۔" (بیہقی)[338]

اسی طرح وہ علماء جو اپنے آپ کو روحانی اور دنی پیشوا کہلائیں گے۔ اپنے فرائض منصبی سے ہٹ کر مذہب کے نام پر امت میں تفرقے پیدا کریں گے، ظالموں اور جابروں کی مدد و حمایت کریں گے۔ اس طرح دین میں فتنہ و فساد کا بیج بو کر اپنے ذاتی اغراض کی تکمیل کریں گے۔ (مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 263)

افتراق کی سبب دو چیزیں ہیں، عہدہ کی محبت یا مال کی محبت۔ سیدنا کعب بن مالک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا: ”ماذئبان جائعان أرسلا في غنم بأفسد لھا من حرص المرء علی المال و الشرف لدینہ”

 دو بھوکے بھیڑئیے ، بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیئے جائیں تو وہ اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال اور عہدہ کی حرص کرنے والا اپنے دین کے لئے نقصان دہ ہے۔   (الترمذی:۲۳۷۶ وھو حسن)

اختتامیه (حصہ سوئم )

الله تعالی  ںے صحابہ کی غلطیوں (اختلافات،جھگڑوں، بدزبانی)  کو معاف بھی فرمایا جب یقینی طور پر انہوں نے الله تعالی سے مغفرت کی دعا ہر صَلَاة‎  میں مانگی،  رسول اللہ ﷺ بھی صحابہ ، امت اور مومنین کی بخشش کے لیے دعا مانگتے تھے-

آیۓ مل کر دعا کریں :

رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ (قرآن 59:10)[339]

 اے ہمارے پروردگار ! تو ہمارے اور ہمارے ان بھائیوں کے گناہ معاف فرما دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور اہل ایمان میں سے کسی کے لیے بھی ہمارے دل میں کوئی کدورت باقی نہ رہنے دے ‘ بیشک تو رؤف اور رحیم ہے۔  (آمین )

حضرت حسین (رضی الله)  سے کسی نے حضرت عثمان غنی کے بارے میں سوال کیا ( جبکہ ان کی شہادت کا واقعہ پیش آ چکا تھا) تو انہوں نے سوال کرنے والے سے پوچھا کہ تم مہاجرین میں سے ہو؟ اس نے انکار کیا پھر پوچھا کہ انصار میں سے ہو؟ اس نے اس کا بھی انکار کیا تو فرمایا بس اب تیسری آیت (والَّذِيْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ) کی رہ گئی، اگر تم عثمان غنی (رضی الله) کی شان میں شک و شبہ پیدا کرنا چاہتے ہو تو اس درجہ سے بھی نکل جاؤ گے۔

حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سب مسلمانوں کو اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے استغفار اور دعا کرنے کا حکم دیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ ان کے آپس میں جنگ وجدال کے فتنے بھی پیدا ہوں گے ( اس لئے کسی مسلمان کو مشاجرات صحابہ کی وجہ سے ان میں سے کسی سے بدگمان ہونا جائز نہیں)

حضرت صدیقہ عائشہ نے فرمایا کہ میں نے تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ یہ امت اس وقت تک ہلاک نہیں ہوگی جب تک اس کے پچھلے لوگ اگلوں پر لعنت و ملامت نہ کریں گے۔

حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ جب تم کسی کو دیکھو کہ کسی صحابی کو برا کہتا ہے تو اس سے کہو کہ جو تم سے زیادہ برا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت، یہ ظاہر ہے کہ زیادہ برے صحابہ تو ہو نہیں سکتے یہی ہوگا جو ان کی برائی کر رہا ہے-

خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ کرام میں سے کسی کو برا کہنا سبب لعنت ہے اور عوام بن شب نے فرمایا کہ اس نے اس امت کے پہلے لوگوں کو اس بات پر مستقیم اور مضبوط پایا ہے کہ وہ لوگوں کو یہ تلقین کرتے تھے کہ صحابہ کرام کے فضائل اور محاسن بیان کیا کرو تاکہ لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت پیدا ہو اور وہ مشاجرات اور اختلافات جو ان کے درمیان پیش آئے ہیں ان کا ذکر نہ کیا کرو جس سے ان کی جرات بڑھے ( اور وہ بےادب ہوجاویں) [340]

صَلَاة‎، تشہد میں "صالحین" پر سلامتی اور پھر "مومنین" کی مغفرت کی دعا  رسول اللہ ﷺ سے آج تک جاری ہے جو قرآن میں ہے جسے سب فرقہ شیعہ ، اہل سنّه  مسلمان تلاوت بھی کرتے رہتے  ہیں:

 رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ ‎﴿٤١﴾

پروردگار مجھے اور میرے والدین کو اور تمام مومنین کو اس دن بخش دینا جس دن حساب قائم ہوگا (قرآن 14:41)

اس دعا میں کوئی شیعہ ، سنّه نہیں صرف "مومنین" ہیں ، کون بحالت ایمان (مومن) فوت ہوا اور کون کافر یا مرتد مرا ، باطنی حقیقت صرف الله تعالی ہی جانتا ہے ہمارے فتووں، نفرتوں کی یوم آخرت میں کوئی فائدہ مند حثیت نہیں- اللہ ہمارے دلوں کی کدورتیں اس دنیا میں بھی دورفرما دے - ( آمین)

مزید :

پوسٹ لسٹ