رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

دلیل روشن کے ساتھ ہلاک یا زندہ -( سورة الأنفال 42)



جو انسان سب کے بھلے کے لیے ایک بات بےغرضی کے ساتھ پیش کرے کھلے دل سے اس کی بات سنو، دل کو لگتی ہو تو مانو، نہ لگتی ہو نہ مانو- معقول انسان اگر بحث کرتے ہیں تو اس لیے کہ اگر حق ثابت ہوجائے تو اسے مان لیں گے، مگر وہ لوگ جو اپنا منہ مانگا ثبوت مل جانے پر بھی نہیں مانتے تو وہ خود اپنی گمراہی سے جہنم کے راستہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ 

 قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ‎﴿١١١﴾‏

پنی دلیل پیش کرو، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو (2:١١١)

 لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ(قرآن : ‎(8:42

تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً اللہ  سُننے والا اور جاننے والا ہے (قرآن : ‎(8:42

جب  حق ہونا ظاہر ہوجائے اس سے حجت تام ہوگئی اس کے بعد جو گمراہ ہوگا وہ وضوح حق کے بعد ہوگا کہ جس میں عذاب کا پورا استحقاق ہوگیا اور عذر کی گنجائش ہی نہ رہی اسی طرح جس کو ہدایت ہونا ہوگا وہ حق قبول کرلے گا۔
(لِّیَہْلِکَ مَنْ ہَلَکَ عَنْم بَیِّنَۃٍ ) یعنی حق کے واضح ہوجانے میں کوئی ابہام نہ رہ جائے-

 اگرواضح دلائل کے بعد بھی کسی کی آنکھیں نہیں کھلتیں اور وہ احکام قرآن ،سنت اور حدیث رسول الله (صلعم) اورسنت  خلفاء راشدین مہدین جسے رسول الله (صلعم) نے دانتوں سے پکرنے کا حکم دیا (ابی داوود 4607, ترمزی 266 ) کو مسترد کرکہ اصحاب سبت (2:65) کی طرح تاویلیں گھڑ کہ مذہبی پیشواؤں کی طرف سے دین کامل اسلام میں شامل کردہ بدعات کو ترجیح دیتا ہے اور اسلام کے کمال کو زوال کے راستہ پر ڈالنے میں ان کا ممدگار بنتا ہے تو وہ اپنا اپنی ہلاکت کا سامان خود کر رہا ہے - 

 ہلاکت کے راستے پر ہی گامزن رہنے کو ترجیح دیتا ہے تو یہ اس کی مرضی ‘ مگر ہم چاہتے ہیں کہ اگر ایسے لوگوں کو ہلاک ہی ہونا ہے تو ان میں سے ہر فرد حق کے پوری طرح واضح ہونے کے بعد ہلاک ہو۔ (وَّیَحْیٰی مَنْ حَیَّ عَنْم بَیِّنَۃٍط وَاِنَّ اللّٰہَ لَسَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ) ۔ جو سیدھے راستے پر آنا چاہتا ہے وہ بھی اس بَیِّنَہ کی بنا پر سیدھے راستے پر آجائے اور حیات معنوی حاصل کرلے-

حق کو  چھپانا سنگین گناہ ہے ۔ حق بیان کرنے میں مخالفت کی پرواہ نہیں کر نا چاہئے !
بیشک جو لوگ اس کو چھپاتے ہیں جو ہم نے واضح دلیلوں اور ہدایت میں سے اتارا ہے، اس کے بعد کہ ہم نے اسے لوگوں کے لیے کتاب میں کھول کر بیان کردیا ہے، ایسے لوگ ہیں کہ ان پر اللہ لعنت کرتا ہے اور سب لعنت کرنے والے ان پر لعنت کرتے ہیں۔ (القرآن2:159)

 حقانیت کھل کر سامنے آجائے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص انکار کرکے بربادی کا راستہ اختیار کرے تو دلیل کے واضح ہونے کے بعد اِختیار کرے، اور جو شخص اسلام کی  باعزت زندگی اختیار کرے، وہ بھی  واضح  دلیل کی روشنی میں کرے

 یعنی دلیل روشن ظاہر ہوگئی۔ حق و باطل کی تمیز کھلم کھلا سامنے آگئی۔ باطل . جھوٹ  کو واضح کردیا۔ اچھا اور برا راستہ معلوم ہوگیا۔ اب اگر کوئی جان بوجھ کر باطل، جھوٹ  اختیار کرکے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دینا چاہتا ہے تو ڈال دے (کیونکہ کفر، انکار ہلاکت ہے) ویحیی من حی عن بینۃ۔ اور جسے زندہ رہنا ہے تو وہ اب حق کی فتح کو دیکھ کر یقین محکم سے حق پر زندہ رہے (حق زندگی ہے)
 حق واضح ہوجانے کے بعد ہر طرح کی غلط فہمی کا احتمال ختم ہوگیا، اتمام حجت پورا ہوا -

وَمَاۤ  اَكۡثَرُ النَّاسِ وَلَوۡ حَرَصۡتَ بِمُؤۡمِنِيۡنَ ۞ وَمَا تَسۡـئَلُهُمۡ عَلَيۡهِ مِنۡ اَجۡرٍ‌ؕ اِنۡ هُوَ اِلَّا ذِكۡرٌ لِّـلۡعٰلَمِيۡنَ ۞
ترجمہ:
*مگر تم خواہ کتنا ہی چاہو اِن میں سے اکثر لوگ مان کر دینے والے نہیں ہیں ۞ حالانکہ تم اس خدمت پر ان سے کوئی اجرت بھی نہیں مانگتے ہو یہ تو ایک نصیحت ہے جو دنیا والوں کے لیے عام ہے۞*
(القرآن - سورۃ نمبر 12 يوسف ، آیت نمبر 103-104)

مشرکین کی ہٹ دھرمی کا عجیب حال ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آزمائش کے لیے بہت سوچ سمجھ کر اور مشورے کر کے جو سوال انہوں نے کیا تھا اسے آپ نے بھری محفل میں برجستہ دلیل سے پورا کردیا، 
اب  متوقع تھا کہ اس کے بعد تو انہیں یہ تسلیم کرلیتے ہیں کوئی تامل نہ رہے گا کہ قرآن وحی ہے ، 
مگر
یقین جانو کہ یہ اب بھی نہں مانتے اور اپنے انکار پر جمے رہنے کے لیے کوئی دوسرا بہانہ ڈھونڈ نکالیں گے کیونکہ ان کے نہ ماننے کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ تمہاری صداقت کا اطمینان حاصل کرنے کے لیے یہ کھلے دل سے کوئی معقول دلیل چاہتے تھے اور وہ ابھی تک انہیں نہیں ملی، بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ تمہاری بات یہ ماننا چاہتے ہیں ہیں، اس لیے ان کو تلاش دراصل ماننے کے لیے کسی دلیل کی نہیں بلکہ نہ ماننے کے لیے کسی بہانے کی ہے۔

معقول انسان اگر امتحان لیتے ہیں تو اس لیے لیتے ہیں کہ اگر حق ثابت ہوجائے تو اسے مان لیں گے، مگر تم وہ لوگ ہو جو اپنا منہ مانگا ثبوت مل جانے پر بھی نہیں مانتے تو وہ خود اپنی گمراہی سے جہنم کے راستہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ 

اللہ کے بندو غور کرو، تمہاری یہ ہٹ دھرمی کس قدر بےجا ہے، اگر اپنے کسی ذاتی مفاد کے لیے دعوت و تبلیغ کا یہ کام جاری کیا ہوتا یا اس نے اپنی ذات کے لیے کچھ بھی چاہا ہوتا تو بیشک تمہارے لیے یہ کہنے کا موقع تھا کہ ہم اس مطلبی آدمی کی بات کیوں مانی، مگر تم دیکھ رہے ہو کہ، 
یہ شخص بےغرض ہے،
تمہاری اور دنیا بھر کی بھلائی کے لیے نصیحت کر رہا ہے
اور اس میں اس کا اپنا کوئی مفاد پوشیدہ نہیں ہے، 
پھر اس کا مقابلہ اس ہٹ دھرمی سے کرنے میں آخر کیا معقولیت ہے؟
 جو انسان سب کے بھلے کے لیے ایک بات بےغرضی کے ساتھ پیش کرے اس سے کسی کو خواہ مخواہ ضد کیوں ہو ؟ 
کھلے دل سے اس کی بات سنو، دل کو لگتی ہو تو مانو، نہ لگتی ہو نہ مانو۔

إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّـهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ﴿٢٢﴾
یقیناً اللہ کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (قرآن 8:22)

ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ اللہ کے حکم  (دین)  پر قائم رہنے والا ہوگا، اس کی مخالفت کرنے والا اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا ۔   (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 7)
 _تخریج دارالدعوہ:  تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف: ١٤٢٧٨، ومصباح الزجاجة: ٣)، وقد أ خرجہ: مسند احمد (٣/٤٣٦، ٤/٩٧) (حسن صحیح  )
اسلام پہلی صدی کے دن کامل کو واپسی کی جدوجہد دعوه ، مکالمہ سے کریں -

 أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ

حدیث  کے بیان و ترسیل  کا مجوزہ طریقہ

کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے-  ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83]  رسول اللہ ﷺ  ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89 اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ  جب تک "اجماع"  قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود  (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]

پوسٹ لسٹ