رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

علماء ، مذہبی پیشواؤں کو رب ماننا (Q 18, 19)



Q-18...19.  يهود ونصارى نے مذہبی پیشواؤں کو رب بنا لیا  

Religious Lords, Deviant Preachers>>>  [see near end]

ASJ said

18.-قرآن نے نهين فرمايا يهود ونصارى .... الله الله كہان كي بات كہان ملا رہين ہين كيسے استدالال كر رہين ہين كتابت حديث روايت سنت جب الله تعالى كے حبيب صلى الله عليه وآله وسلم اجازت دي رہين ہين تو حلال حرام كا مسئلا يہان كيسے داخل كر ليا الله الله .

19- كيا مسلمان بهى قرآن كے اس وارننگ ... اگر مذهبي پيشوا قرآن سنت كے خلاف ہون اور پهر انكي باتین قبول كرين تو يہ شرك ہے مگر قرآن وسنت كے موافق ہو تو كيسا؟

ايسا نهين كه هر پيشوا غلط هو ؟ ہماري لئے اصول قرآن سنت اتباع صحابه  واجماع علماء امت دليل، نقل واصل، عقل راسخ، فهم قابل، حجت ہين. 

----------------------------

Response 


اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (9:31)


انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں (9:31)


یہود ونصاریٰ نے اپنے علماء کو بذات خود احکام وضع کرنے کا اختیار دے رکھا تھا کہ وہ آسمانی کتاب کی تشریح کے طور پر نہیں،؛ بلکہ اپنی مرضی سے جس چیز کو چاہیں، حلال اور جس چیز کو چاہیں، حرام قرار دے دیں، خواہ ان کا یہ حکم اللہ کی کتاب کے مخالف ہی کیوں نہ ہو- ان کی تحریروں کورسول کی وحی کے ساتھ مقدس کتب میں شامل رکھا ہے-


مزید تفصیل : علماء حق اور علماء سوء، عالموں کو رب بنانا>>>

https://bit.ly/UlemaAsRab https://quransubjects.blogspot.com/2020/07/ulema.html

………………………………………………..

یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمۡ وَ یَہۡدِیَکُمۡ سُنَنَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَ یَتُوۡبَ عَلَیۡکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۲۶﴾ وَ اللّٰہُ یُرِیۡدُ اَنۡ یَّتُوۡبَ عَلَیۡکُمۡ ۟ وَ یُرِیۡدُ الَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الشَّہَوٰتِ اَنۡ تَمِیۡلُوۡا مَیۡلًا عَظِیۡمًا ﴿۲۷﴾ يُرِيدُ اللَّـهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُمْ ۚ وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا ﴿٢٨﴾


اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں کو واضح کرے اور انہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے ۔ وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجّہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی- ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ. اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے (4:26,27,28]   


ان خواہشات نفس کی پیروی کرنے والوں سے مراد وہ ہر طرح کے لوگ ہیں جو اللہ کی ہدایات پر اپنے آباؤ اجداد کے رسم و رواج کو مقدم سمجھتے اور انہی چیزوں سے محبت رکھتے ہیں خواہ وہ یہود و نصاریٰ ہوں یا منافق یا دوسرے مشرکین ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے معاشرتی برائیوں کے خاتمہ کے لیے بیشمار ایسے احکامات نازل فرمائے جن پر عمل کرنا اکثر لوگوں کو ناگوار تھا … [عبدلرحمان کیلانی]


تفہھم القرآن-- سے ...

اس طرح یہ نادان لوگ اس اصلاح کے کام میں رکاوٹیں ڈال رہے تھے جو اس وقت احکام الہٰی کے تحت انجام دیا جا رہا تھا ۔ دوسری طرف یہودی تھے جنہوں نے صدیوں کی موشگافیوں سے اصل خدائی شریعت پر اپنے خود ساختہ احکام و قوانین کا ایک بھاری خول چڑھا رکھا تھا ۔ بے شمار پابندیاں اور باریکیاں اور سختیاں تھیں جو انہوں نے شریعت میں بڑھالی تھیں ۔ بکثرت حلال چیزیں ایسی تھیں جنہیں وہ حرام کر بیٹھے تھے ۔ بہت سے اوہام تھے جن کو انہوں نے قانون خداوندی میں داخل کر لیا تھا ۔


اب یہ بات ان کے علماء اور عوام دونوں کی ذہنیت اور مذاق کے بالکل خلاف تھی کہ وہ اس سیدھی سادھی شریعت کی قدر پہچان سکتے جو قرآن پیش کر رہا تھا ۔ وہ قرآن کے احکام کو سن کر بے تاب ہو جاتے تھے ۔ ایک ایک چیز پر سو سو اعتراضات کرتے تھے ۔ ان کا مطالبہ تھا کہ یا تو قرآن ان کے فقہاء کے تمام اجتہادات اور ان کے اسلاف کے سارے اوہام و خرافات کو شریعت الہٰی قرار دے ، ورنہ یہ ہرگز کتاب الہٰی نہیں ہے- 


….. یہ اشارہ ہے منافقین اور قدامت پرست جہلاء اور نواحی مدینہ کے یہودیوں کی طرف ۔ منافقین اور قدامت پرستوں کو تو وہ اصلاحات سخت ناگوار تھیں جو تمدن و معاشرت میں صدیوں کے جمے اور رچے ہوئے تعصبات اور رسم و رواج کے خلاف کی جارہی تھیں ۔

قرآن کی طرف واپسی - تحقیقی مقالہ

 Comeback to Quran- A Research

-----------------


A GENERAL POST  - A WORD OF CAUTION AND CLARIFICATION

ضروری  وضاحت 

السلام علیکم !

مکالمہ کا تھیم ایسا ہے کے طویل مکالمہ ...سوال .. جوابات … جوابات در جوابات …

ممکن ہے کہ قاری کو غلط فہمی ہو کہ سارا زور احادیث کی مخالفت پر  ہے …  ایسا تاثر اگر ہو تو اس  غلط فہمی  کو دور کرنا  negate کرنا ضروری ہے…


ایک مسلمان کے لیے  رسول الله صلی الله علیہ وسلم  سے محبت  اس کے ایمان اور زندگی کا کل سرمایہ ہے .. ہم ان سے اپنی زندگی اور اولاد سے بھی زیادہ محبت کرتے ہیں … ان کی وجہ سے ہم کفر ، شرک جیسی لعنت سے محفوظ ہوے اور الله کے راستہ پر اسلام میں چل پڑے … قرآن جو کہ الله کا کلام ہے وہ  رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کی زبان مبارک سے ادا ہوا .. اس کو الله نے "حدیث"  بھی کھا … ہم نے قرآن کو اللہ کا کلام مانا کیونکہ  رسول الله صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا کہ یہ الله کا کلام ہے … طرح ہم الله کے کلام کو مقدس سمجھتے ہیں اسی طرح  رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کے کلام کو بھی مقدس اور عمل کرنے کو فرض سمجھتے ہیں …


فرق تب اتا ہے جب کلام اللہ کو خاص طور پر لکھوا کر محفوظ ترین طریقہ سے تواتر سے نسل در نسل منتقل کروایا گیا … کہ کچھ عرصۂ قبل جب برطانیہ میں قدیم ترین قرآن کا نسخہ ملا تو وہ آج کے قرآن کی طرح ہے … 


رسول الله صلی الله علیہ وسلم  قرآن کا عملی نمونہ تھے جس کو ہزاروں ،لاکھوں لوگوں نے دیکھا اور عمل کیا .. جسے سنت کہتے ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوتی آ رہی ہے …  رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کا کلام ، جو قرآن نہیں وہ احادیث  کہلاتا ہے .. ایک ، دو یا چند لوگوں کے زریعہ منتقل ہوا .. اس کی کتابت ، یعنی محفوظ مستند کتابت جس طرح قرآن کی کی گی نہ ہو سکی .. اس وجہ سے احادیث کی درجہ بندیاں ہیں بہت بڑی تعداد میں … کیونکہ جو مشکوک ہیں .. کسی علمی مکلمه میں کوئی حدیث قبول کرتا ہے کسی کو رد کرتے ہیں تو وہ کیا منکر حدیث ہوے ؟ ان کو منکر حدیث نہیں کہتے … اسی طرح جب احادیث کو مستند طریقہ سے خلفاء راشدہ کی طرف سے کتابت نہ ہوئی تو اس معامله کو ڈیکس کرنا حدیث یا کلام   رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کا انکار  یا توہین نہیں بلکہ  غیر مستند کتابت پر بحث ہے .. اس طرح کوئی فتنہ پسند اپنی طرف سے من گھڑت حدیث پیش کرے تو اس کو بلا تحقیق کیسے قبول کر سکتے ہیں ..اگر ایسا کرتے ہیں تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کے کلام کی خلاف \ورزی ہو گی ، آپ نے فرمایا :

مسند احمد میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جب تم میری کسی حدیث کو سنو جسے تمہارے دل پہچان لیں تمہارے جسم اس کی قبولیت کے لئے تیار ہو جائیں اور تمہیں یہ معلوم ہو کہ وہ میرے لائق ہے تو میں اس سے بہ نسبت تمہارے زیادہ لائق ہوں اور جب تم میرے نام سے کوئی ایسی بات سنو جس سے تمہارے دل انکار کریں اور تمھارے جسم نفرت کریں اور تم دیکھو کہ وہ تم سے بہت دور ہے پس میں بہ نسبت تمھارے بھی اس سے بہت دور ہوں ۔ اس کی سند بہت پکی ہے [صحیح مسند احمد 497/3, شیخ البانی صحیح السلسلہ الصحیحہ 732/2 تفسیرکثیر١١:٨٨].


عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : ” سَيَأْتِيكُمْ عَنِّي أَحَادِيثُ مُخْتَلِفَةٌ، فَمَا جَاءَكُمْ مُوَافِقًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَهُوَ مِنِّي، وَمَا جَاءَكُمْ مُخَالِفًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي ”

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی صلے اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ میری طرف سے کچھ اختلافی احادیث آئینگی، ان میں سے جو “کتاب اللہ” اور “میری سنّت” کے موافق ہونگی، وہ میری طرف سے ہونگی۔ اور جو “کتاب اللہ” اور “میری سنّت” کے خلاف ہونگی وہ میری طرف سے نہیں ہونگی۔


[سنن الدارقطني: كِتَابٌ فِي الأَقْضِيَةِ وَالأَحْكَامِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، كتاب عمر رضي اللہ عنہ إلى أبي موسى الأشعري، رقم الحديث: 3926(4427) الكفاية في علم الرواية للخطيب:التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ، رقم الحديث: 311(5٠٠4)؛ذم الكلام وأهلہ لعبد اللہ الأنصاري:الْبَابُ التَّاسِعُ، بَابٌ : ذِكْرُ إِعْلَامِ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ ۔.۔ رقم الحديث: 589(٦٠٦)؛الأباطيل والمناكير والمشاهير للجورقاني: كِتَابُ الْفِتَنِ، بَابُ : الرُّجُوعِ إِلَى الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ رقم الحديث:2٧٧(29٠5) الكامل في ضعفاء الرجال  » من ابتدا أساميهم صاد » من اسمہ صالح؛ رقم الحديث: 4284٦) التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ » التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ؛ رقم الحديث: 311]


ایک مسلمان کے لیے  رسول الله صلی الله علیہ وسلم  سے محبت  اس کے ایمان اور زندگی کا کل سرمایہ ہے .. ہم ان سے اپنی زندگی اور اولاد سے بھی زیادہ محبت کرتے ہیں … ان کی وجہ سے ہم کفر ، شرک جیسی لعنت سے محفوظ ہوے اور الله کے راستہ پر اسلام میں چل پڑے … قرآن جو کہ الله کا کلام ہے وہ  رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کی زبان مبارک سے ادا ہوا .. اس کو الله نے "حدیث"  بھی کھا … ہم نے قرآن کو اللہ کا کلام مانا کیونکہ  رسول الله صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا کہ یہ الله کا کلام ہے … طرح ہم الله کے کلام کو مقدس سمجھتے ہیں اسی طرح  رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کے مستند ، اصل  کلام کو بھی جو تواتر سے منتقل ہوا، مقدس اور اس پر عمل کرنے کو فرض سمجھتے ہیں …

احادیث کا ذخیرہ علمی خزانہ ہے ، اسوہ حسنہ، سنت  اور اس دور کی تاریخ ،قرآن کی تفسیر، بہت کچھ موجود ہے اس سے مثبت طور پرمسلمانوں کی یکجہتی، محبت ، اخلاق ، بہتری کے لیے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے- حدیث اگر قابل اعتراض نہ ہو، ضعیف بھی ہو تو قابل احترام ہے کہ رسول  صلی الله علیہ وسلم  سے منسوب ہے ممکن ہے کہ درست ہو اور اصول و ضوابط پر پوری نہ اتر سکی ہو-

الله ہم کو قرآن اور سنت رسول  صلی الله علیہ وسلم  پر عمل کی توفیق عطا ا فرمایے - آمین 

جزاک اللہ 


لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّـهَ كَثِيرًا ﴿٢١﴾

در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے (33:21) 

!!!!!!!!!!!

Religious Lords, Deviant Preachers

Some individuals within the Muslim community refrain from explicitly claiming prophethood to avoid the dire consequences, but they instead establish separate sects or deviant cults. They often hold or are given titles such as Imam[39], Wali Allah, Mujadid (reformer), spiritual leader, pious, holy, saint, pir, teacher, scholar, maulana, or are given other esteemed designations. The genuine can easily be differentiated from deviant, by observation. The genuine religious leaders will never contradict Quran and Sunnah, will always adhere to Command Verses (آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ) and fundamentals of faith as explained through Hadith Jibreel whereas the misguided deviants indulge in interpretations (taweel) of  elusive verses. In doing so, they introduce perverted beliefs, doctrines, practices, and rituals into the Perfected faith of Islam.

He is the One Who has revealed to you ˹O Prophet˺ the Book, of which some verses are precise—they are the foundation of the Book—while others are elusive. Those with deviant hearts follow the elusive verses seeking ˹to spread˺ doubt through their ˹false˺ interpretations...(Quran;3:7)

Allah says:

“They have set up their religious leaders and scholars as lords, instead of GOD....”.[Quran;9:31] 

The Prophet Muhammad(ﷺ) himself elucidated the true essence of this verse. According to a tradition, when Adi bin Hatim, formerly a Christian, approached the Prophet Muhammad(ﷺ) with the intention of understanding Islam, he posed several questions to dispel his doubts. One of these questions concerned a verse that accused Christians of taking their scholars and monks as lords, which puzzled him because they didn't view them as such. In response, the Holy Prophet ﷺ asked a counter-question: "Do you not consider unlawful what they declare as unlawful and lawful what they declare as lawful?" Adi admitted, "Yes, sir, that is true." The Prophet(ﷺ) replied, "This is equivalent to taking them as your lords."[40]

This tradition illustrates that those who presume to define what is lawful and unlawful without the authority of Allah's Book, or introduce new beliefs, doctrines, practices, and rituals not sanctioned by Allah or His Last Messenger(ﷺ), essentially elevate themselves to the status of divine authority.

Those who follow them end up taking them as their lords, which constitutes shirk (polytheism). It underscores that their claim to be Muslims is false, even though they may believe in some fundamental aspects of Islam, as their erroneous concepts render their belief meaningless. Unfortunately, many Muslim religious authorities ignore the following verses:

“No one can change  His words, and you shall not find any other source beside it.(Quran;18:27) 

Nor shall you obey one whose heart we rendered oblivious to our message; one who pursues his own desires, and whose priorities are confused.(Quran;18:28)


[40]  (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ التوبۃ، ۵ / ۶۵، الحدیث: ۳۱۰۶)

~~~~~~~~~

 أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ

حدیث  کے بیان و ترسیل  کا مجوزہ طریقہ

کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے-  ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83]  رسول اللہ ﷺ  ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89 اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ  جب تک "اجماع"  قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود  (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]

~~~~~~~~~
🌹🌹🌹
قرآن آخری کتاب یا کتب؟ تحقیق و تجزیہ 🔰
 🔰 ?The Last Book Quran or Books

"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]
The messenger said, "My Lord, my people have deserted this Quran." (Quran 25:30)
~~~~~~~~~
اسلام دین کامل کو واپسی ....
"اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں  کو واضح کرے اور انہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے- وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجّہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی- ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ. اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے." (قرآن  4:26,27,28]
اسلام کی پہلی صدی، دین کامل کا عروج کا زمانہ تھا ، خلفاء راشدین اور اصحابہ اکرام، الله کی رسی قرآن کو مضبوطی سے پکڑ کر اس پر کاربند تھے ... پہلی صدی حجرہ کے بعد جب صحابہ اکرام بھی دنیا سے چلے گیے تو ایک دوسرے دور کا آغاز ہوا ... الله کی رسی, "قرآن" کو بتدریج پس پشت ڈال کر تلاوت تک محدود کر دیا ... احادیث کی کتب  کے زریعہ قرآن کو پس پشت ڈال کر کہ مشرکوں کی طرح فرقہ واریت سے دین کامل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے-  ہمارے مسائل کا حل پہلی صدی کے اسلام دین کامل کی بزریعہ قرآن بحالی میں ہے  ..تفصیل  >>>>>>

پوسٹ لسٹ