قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...
کتابت حدیث کی تاریخ – نخبة الفکر – ابن حجرالعسقلانی – ایک علمی جایزہ Hadith Compilation History – An Overview
اسلام ؛ قرآن اور سنت پر عمل کرنے کا نام ہے۔اسلام کی بنیاد صرف رسول اللہﷺ سے نقل وسماع ہے، قرآن کریم بھی رسول اللہﷺ ہی کے ذریعہ ملا ہے؛ انھوں نے ہی بتلایا اور آیات کی تلاوت کی ،جوبطریقۂ تواتر ہم تک پہنچا ہے-
تِلْكَ آيَاتُ اللَّـهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۖ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّـهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ ﴿٦﴾ یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو ہم حق کے ساتھ آپ کو پڑھ کر سنا رہے ہیں تو آخر اللہ اور اس کی آیتوں کے بعد وہ کونسی (حدیث) بات ہے جس پر وہ ایمان لائیں گے؟ (45:6 الجاثية)قرآن مجید کے متعلق الله نے واضح کر دیا کہ :
قرآن مجید رب العالمین کا نازل کردہ کلام حق ہے (آل عمران 3:60)
قرآن سے ملنے والا علم وہ حق ہے جس کے مقابلے میں ظن و گمان کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ (النجم 53:28)
قرآن مجید کلام الٰہی ہے اور اس کے کلام الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں۔ یہ اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرہ 2:2)
اس کلام کو اللہ نے نازل کیا ہے اور وہی اس کی حفاظت کرے گا۔(الحجر15:9)
.قرآن ایسا کلام ہے جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں جو بالکل سیدھی بات کرنے والا کلام ہے (الکہف 18:1,2)
قرآن کو واضح عربی کتاب کہا گیا کہ لوگ سمجھ سکیں (یوسف18:1,2)۔
باطل نہ اس کلام کے آگے سے آ سکتا ہے نہ پیچھے سے۔ (الفصلت 41:42)
یہ کتاب میزان ہے۔ یعنی وہ ترازو ہے جس میں رکھ کر ہر دوسری چیز کی قدر وقیمت طے کی جائے گی۔ (الشوریٰ42:17)
یہ کتاب فرقان یعنی وہ کسوٹی ہے جو کھرے اور کھوٹے کا فیصلہ کرتی ہے۔(الفرقان 25:1)
تمام سلسلہ وحی پر مہیمن یعنی نگران ہے۔ (المائدہ5:48)
قرآن کریم لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرنے کے لیے اتاری گئی ہے۔ (البقرہ2:213)
یہی وہ کتاب ہدایت ہے جس کو ترک کر دینے کا مقدمہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مخاطبین کے حوالے سے پیش کریں گے۔ (الفرقان25:30)
اب اس قرآن کے بعد کس حدیث پر ایمان ﻻئیں گے؟ ( المرسلات 77:50)14.فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (الأعراف 7:185)پھر(قرآن) کے بعد کس حدیث پر یہ لوگ ایمان لائيں گے (الأعراف 7:185)15.تِلْكَ آيَاتُ اللَّـهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۖ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّـهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ(الجاثية45:6)یہ الله کی آیات ہیں جو ہم آپ کو بالکل سچی پڑھ کر سناتے ہیں پھر اللہ اور اس کی آیتوں کو چھوڑ کر کونسی حدیث پر ایمان لائیں گے، (الجاثية45:6)16.وَيْلٌ لِّكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ ﴿٧﴾ يَسْمَعُ آيَاتِ اللَّـهِ تُتْلَىٰ عَلَيْهِ ثُمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا ۖ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (الجاثية45:7)ہر سخت جھوٹے گناہگار کے لیے تباہی ہے (-جو آیات الہیٰ سنتا ہے جو اس پر پڑھی جاتی ہیں پھر نا حق تکبر کی وجہ سے اصرار کرتا ہے گویاکہ اس نے سنا ہی نہیں پس اسے دردناک عذاب کی خوشخبری دے دو (الجاثية45:7,8)17.هَـٰذَا هُدًى ۖوَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَهُمْ عَذَابٌ مِّن رِّجْزٍ أَلِيمٌ (الجاثية45:11)"یہ (قرآن) تو ہدایت ہے اور جو اپنے رب کی آیتوں کے منکر ہیں ان کے لیے سخت دردناک عذاب ہے"(الجاثية45:11)اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں قرآن مجید کی حیثیت بیان کی ہے- جو کچھ قرآن مجید کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے کہا ہے وہ کسی دوسری کتاب کے بارے میں نہیں کہا۔ قرآن مجید کے سوا کسی اور مذہبی کتاب، کسی پیغمبرسے منسوب کلام، کسی عالم اور محقق کی رائے کے بارے میں اللہ تعالیٰ اس طرح کی کوئی بات نہیں کہتے۔ اس لیے جو کوئی بھی قرآن کی آیات مبارکہ کے بارے میں شک شبہ ، تامل کرے ، اگر مگراور من گھڑت تاویلوں سے ان کو بے اثر کرنے کی کوشش کرے تو وہ اچھی طرح سمجھ لے کہ وہ الله کی نافرمانی کی جرأت کر رہا ہے۔ اصحاب سبت کا واقعہ ایک سبق ہے- (قرآن 7:163,166, 2:65,66).کتاب اللہ کے بعد رسول اللہؐ کی سنت شریعت کا دوسرا سرچشمہ اور اصل واساس ہے، یہ قرآن کریم کی تشریح اور اس کے اصول کی توضیح اور اجمال کی تفصیل ہے-قرآن میں کئی جگہ واضح طور پر رسول اللہﷺ کی اطاعت کا حکم ہے:
جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جاؤ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے (سورة الحشر 59:7)
لیکن الله کا نے (أَطِيعُوا الرَّسُولَ) رسول الله ﷺکی اطاعت کا حکم بھی دیا ہے :وَمَآاَرْسَلْنَامِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ (قرآن 4:64)"اور ہم نے جو پیغمبر بھیجا ہے اس لئے بھیجا ہے کہ خدا کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے"(قرآن 4:64)مزید آیات (أَطِيعُوا الرَّسُولَ):
کلام الله پرایمان عمل مسلمان پرفرض ہے:وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ (2:256قرآن )ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی (2:256قرآن )وَاتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن كِتَابِ رَبِّكَ ۖ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَلَن تَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا (قرآن18:27اور اپنے پروردگار کی کتاب جو تمہارے پاس بھیجی جاتی ہے پڑھتے رہا کرو۔ اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں۔ اور اس کے سوا تم کہیں پناہ کی جگہ بھی نہیں پاؤ گے(18:27قرآن)وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا (قرآن18:28)اور جس شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے اور اس کا کام حد سے بڑھ گیا ہے اس کا کہا نہ ماننا (18:28قرآن)وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا (قرآن25:73)"اور جب انہیں ان کے پروردگار کی آیتوں کے ذریعہ سے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ بہرے اور اندھے ہوکر ان پر گر نہیں پڑتے (بلکہ ان میں غور و فکر کرتے ہیں)۔ (قرآن25:73)
اصطلاح کے مطابق احادیث سے مراد وہ تمام اقوال ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمائے ہیں۔ احادیث کو لکھنے اور یاد کرنے کا کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے شروع ہو گیا تھا۔ عربوں کو چونکہ اپنے حافظہ پر ناز تھا اس لیے وہ تمام باتوں کو یاد کر لیتے تھے۔ قران کی طرح احادیث کی کتابت کا اہتمام خلفاء راشدین اور ان کے بعد کی صدی تک کے حکمرانوں نے نہ کیا- حضرت عمر فاروق رضی الله نے سختی سے احادیث کو لکھنے سے منع فرمایا ، جس پر بعد میں بھی کوئی تبدیلی نہ ہوئی- ان کا قول "القرآن حسبنا كتاب الله" (ہمارے لیے تو اللہ کی کتاب بس کافی ہے)(صحیح بخاری # 4432)، بہت مشہور ہے-رسول اللہ ﷺ نے خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنے کا حکم دیا ہے (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة). رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر کے بعد حضرت عمر ہی کی جانب رجوع کرنے کا حکم دیا۔ نام لے کر صرف یہ دو صحابی ہی ہیں جن کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے-(صحیح ابن ماجہ#٩٧،و انظر الحدیث ٤٠٦٩ ، صحیح ااصحیحہ ١٢٣٣، و تراجیع البانی ٣٧٧،صحیح الضعیف سنن ترمزی #٣٨٠٥). نزول قرآن کے وقت صرف احادیث لکھنے سے دونوں کے آپس میں مل جانے کا اندیشہ تھا اس لیے احتیاط لازم تھی مگر بعد میں حضرت عمر رضی الله کے اصرار پر حضرت ابو بکر صدیق رضی الله کے دور میں قرآن کی تدوین کے بعد پھر حضرت عثمان رضی اللہ کے دور میں سرکاری اہتمام سے قرآن کے نسخوں کی اشاعت کے بعد بھی کسی حکمران نے احادیث کو اکٹھا کر کہ کتابی شکل دینے کی ضرورت محسوس نہ کی- ان کے نزدیک کتاب الله ، قرآن کی اہمیت اتنی زیادہ تھی کہ کسی اور کتاب سے قرآن پر توجہ کم ہونے کا امکان تھا ، جیسا کہ بعد میں ایسا ہی ہوا کہ لوگوں نے قرآن کو پس پشت ڈال دیا .... اور قرآن کو ترک کر دینے کا مقدمہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مخاطبین کے حوالے سے پیش کریں گے۔ (الفرقان25:30)ہو سکتا ہے کہ ان کے مدنظر یہ بھی ہو کہ قرآن کی وہ آیات جن میں قرآن کو حدیث کہا گیا اور اس کے علاوہ کسی اور حدیث (کلام ) سے منع کر دیا گیا- (و اللہ اعلم)دوسری طرف قرآن (أَطِيعُوا الرَّسُولَ) کا حکم کم از کم بارہ آیات میں دیتا ہے- یہ سنت رسول ﷺ ہی ہو سکتی ہے جس پر عمل کا حکم ہے- سنت رسول ﷺ پر زبانی اور عملی طور رسول ﷺ کی حیات اور بعد میں بھی متواتر، تسلسل سے عمل ہوتا آیا ہے حتی کہ سنت رسول ﷺ کو کتب حدیث کی شکل میں مرتب کر دیا گیا-
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:
"تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَاتَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ رَسُوْلہِ"۔(مشکوٰۃ شریف:۲۹)میں تمہارے درمیان دوچیزوں کو چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں کومضبوطی سے تھامے رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ ہے۔ “لفظ حدیث ، جس کی قرآن سے ممانعت ظاہر ہے استعمال نہ کیا گیا بلکہ زیادہ عملی "سنت رسولﷺ" ہے-
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : " سَيَأْتِيكُمْ عَنِّي أَحَادِيثُ مُخْتَلِفَةٌ، فَمَا جَاءَكُمْ مُوَافِقًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَهُوَ مِنِّي، وَمَا جَاءَكُمْ مُخَالِفًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي "
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی صلے اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ میری طرف سے کچھ اختلافی احادیث آئینگی، ان میں سے جو "کتاب اللہ" اور "میری سنّت" کے موافق ہونگی، وہ میری طرف سے ہونگی۔ اور جو "کتاب اللہ" اور "میری-سنّت" کے خلاف ہونگی وہ میری طرف سے نہیں ہونگی۔
سنن الدارقطني: كِتَابٌ فِي الأَقْضِيَةِ وَالأَحْكَامِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، كتاب عمر رضي اللہ عنہ إلى أبي موسى الأشعري، رقم الحديث: 392٦(442٧)
الكفاية في علم الرواية للخطيب:التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ، رقم الحديث: 311(5٠٠4)؛
ذم الكلام وأهلہ لعبد اللہ الأنصاري:الْبَابُ التَّاسِعُ، بَابٌ : ذِكْرُ إِعْلَامِ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ ۔.۔ رقم الحديث: 589(٦٠٦)؛
معلوم نہیں کہ اقوال اور سنت رسولﷺ کو تحریر کرنے والوں نے قرآن کے واضح الفاظ کو مد نظر کیوں نہ رکھا ؟اس معاملہ کا مزیدکا جائزہ لینے کی ضرورت ہے-" اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی بخش دے جنہوں نے ایمان لانے میں ہم پر سبقت کی اور ہمارے دلوں میں اہلِ ایمان کے لئے کینہ پیدا نہ کر۔ اے ہمارے پروردگار یقیناً تو بڑا شفقت کرنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔" (الحشر59:10)واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب یا حیثیت کو کسی پہلو سے کم کرنے کی کوئی جسارت قابل قبول نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی دین کا ماخذ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کی ہوئی ہر چیز قرآن ہی کی طرح حجت ہے۔ لیکن آپ نے جو دین قرآن کی طرح اجماع و تواتر سے ہم تک منتقل کیا ہے وہ سنت یا دین کا عملی ڈھانچہ ہے۔ باقی جو ذخیرہ حدیث ہمارے سامنے موجود ہے وہ بڑا قیمتی ہے مگر اسے لوگوں نے اپنی صوابدید پر جتنا چاہا اور جس نے چاہا آگے منتقل کیا۔ اس کی حفاظت کا وعدہ اور اہتمام نہ اللہ نے کیا، نہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی اہتمام کیا نہ خلفائے راشدین نے خود یہ کام باہتمام کیا نہ اپنی حکومت کے ذریعے سے اس حوالے سے ایسا کوئی کام کیاجیسا انھوں نے حفاظت قرآن کے لیے کیا تھا۔ یہ ایک ناقابل ترید تاریخی حقیقت ہے۔ قرآن مجید کی وہ حیثیت مان لی جائے جو اللہ تعالیٰ نے خود بیان کی ہے۔ یعنی یہ حکم ہے جو ہر اختلاف کا فیصلہ کرنے آئی ہے، یہ میزان ہے، فرقان ہے، یہ الحق ہے، کتاب محفوظ ہے، باطل کی دراندازی سے پاک ہے، تمام سلسلہ وحی پر نگراں ہے، صاف، واضح، سیدھی اور روشن ہدایت ہے۔ اس کے بعد ہر مذہبی معاملہ قرآن کی روشنی میں سمجھا جائے گا ۔ اس کا امکان پھر بھی رہے گا کہ پانچ لوگ قرآن کی بات کے پانچ مختلف مفاہیم بیان کریں۔ مگر سب لوگ بیک وقت ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ زبان وبیان کے مسلمہ دلائل کی روشنی میں غلطی کو واضح کیا جا سکتا ہے۔ کسی کو اپنی غلطی کا ادراک نہیں ہوپاتا اور وہ نیک نیتی سے نہ کہ بغض سے اپنے نقطہ نظر پر قائم رہتا ہے تو گرچہ اس کی غلطی پھر بھی غلطی ہی رہے گی ، مگر قیامت کے دن وہ نیک نیتی کی وجہ سے غلطی کے باوجود ایک اجرکا مستحق ہو گا۔ حدیث کے خزانہ کی اہمیت سے انکار گمراہی کا راستہ ہے قرآن کے ساتھ ساتھ اس سے بھی فائدہ اٹھانے میں ہی بہتری ہے-موجودہ دور میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے ایک صحیفہ ہمام بن منبہ کے نام سے جرمنی کے میوزم سے دریافت کیا ہے جسے حضرت ابوہریرہ کے شاگرہ سے لکھا تھا۔ اس میں حضرت ابو ہریرہ کے ارشادات نقل کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد کئی سو سالوں تک احادیث کو جمع کرنے کا کام کیا جاتا رہا ہے۔ احادیث کے مجموعے مختلف اصحاب و علماء و محدثین کے ناموں سے مشہورہویے- صحاح ستہ؛ یعنی کہ چھ مستند کتابیں (١)صحیح بخاری (٢) صحیح مسلم(٣) سنن نسائی(٤) سنن ابی داؤد (٥) سنن ابن ماجہ(٦) سنن ابن ماجہ صحاح ستہ (٢٢٥ -٣٠٣ ھ) کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان چھ کتابوں میں جتنی روایات ہیں، سب صحیح ہیں اور نہ یہ نظریہ درست ہے کہ صرف ان ہی کتبِ ستہ کی روایات صحیح ہیں۔ باقی کتب حدیث کی روایات درجہٴ صحت تک نہیں پہنچتی ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ نہ صحاح ستہ کی ہر حدیث صحیح ہے اور نہ اُن سے باہر کی ہر حدیث ضعیف ہے حقیقت یہ ہے کہ ان کتابوں کی روایات زیادہ تر صحیح ہیں، اس لیے انہیں صحاح ستہ کہا جاتا ہے۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں: ”چھ کتابیں جو اسلام میں مشہور ہیں، محدثین کے مطابق وہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ ہیں۔ ان کتابوں میں حدیث کی جتنی قسمیں ہیں صحیح، حسن اور ضعیف، سب موجود ہیں اور ان کو صحاح کہنا تغلیب کے طور پر ہے۔“ محدثین کی ان کتابوں میں ایک طرف دینی معلومات جمع کی گئیں اور دوسری طرف ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے کے صحیح تاریخی واقعات جمع کیے گئے ہیں۔ اس طرح احادیث کی یہ کتابیں دینی و تاریخی دونوں اعتبار سے قابل بھروساہو سکتی ہیں- "کتابت حدیث" - " نخبة الفکر" کی شرح کے خلاصہ و ترجمہ سے انتخاب ہے جو حدیث کی کتابت سے متعلق اصحابہ کرام رضی الله کی دو مختلف آراء پر روشنی ڈالتا ہے - " نخبة الفکر"علامہ ابن حجرالعسقلانی کی تصنیف ہے- قرون وسطیٰ کے محدثین میں علامہ ابن حجرالعسقلانی کا نام سر فہرست ہے ، آپ کا عہد چودہویں صدی عیسوی کے نصفِ اول کے آخرسے لے کر پندرہویں صدی عیسوی کے نصفِ اول تک کا ہے۔ آپ نامور مؤرخ ، فقیہ تھے۔مصر میں پیدا ہوئے۔ علوم حدیث میں سند شمار ہوتے ہیں۔ آپ کو شیخ الاسلام کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی کتابوں کی تعداد 150 سے اوپر بتائی جاتی ہے۔ مشہور کتابوں میں الاصابہ فی تمييز الصحابہ : اصحاب رسول کے متعلق ایک جامع انسائیکلوپیڈیا ہے جو اب اُردو میں بھی شائع ہوچکا ہے۔ فتح الباری شرح صحیح البخاری : علامہ ابن حجر عسقلانی یہ عظیم تصنیف ایک شاہکار سمجھی جاتی ہے، یہ کتاب عقائد، فقہ، اور حدیث کا شاہکار ہے۔" نخبة الفکر" اقتباسات :
کتابت حدیث کا تاریخی و دینی جایزہ، ابن حجرالعسقلانی کی شہرہ آفاق کتاب "نخبة الفکر"کی شرح سے پڑھنے کے بعداب رسول الله صلی علی وسلم کے فرامین کی روشنی میں ان کے قریب ترین ساتھیوں ، اصحاب ، خلفه راشدین راضی الله عنہ اجمعین کے اقدام کا جایزہ لیتے ہیں تاکہ دین اسلام کے صحیح راستہ سے بھٹک نہ جاییں. اس سلسلے میں حضرت ابو بکر صدیق اورحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اقدامات پرخصوصی توجہ کی ضرورت ہے خاص طور پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ...خلاصہ ، تفصیل کے لیے <<یھاں کلک کریں >>
فرمانِ رسالت مآب ﷺ ہے :
” انما انا بشر اذا امرتکم بشئ من دینکم فخذوا به و اذا امرتکم بشئ من رائ فانما انا بشر۔”
” بلاشبہ میں انسان ہوں اگر میں دین میں کسی بات کا حکم دوں کو اسے مضبوطی سے تھام لو ، لیکن اگر اپنی رائے سے فیصلہ دوں تو میں انسان ہی ہوں۔”
(صحیح مسلم ٦٠٢٢، کتاب الفضائل ، بَاب وُجُوبِ امْتِثَالِ مَا قَالَهُ شَرْعًا دُونَ ما ذکره من معایش الدنیا علی سبیل)
اسی طرح ایک اور موقع پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
” انما ظننت ظنا و لا تواخذنی باظن و لکن اذا حدثتکم عن الله شیئاً فخذوا به فانی لم اکذب علی الله۔”
” میں نے ایک گمان کیا تھا ، اس لیے میرے گمان پر نہ جاؤ لیکن جب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بات کہوں تو اس کو لازم پکڑو کیونکہ میں اللہ پر جھوٹ نہیں باندھتا۔”( صحیح مسلم ، کتاب الفضائل ، بَاب وُجُوبِ امْتِثَالِ مَا قَالَهُ شَرْعًا دُونَ ما ذکره من معایش الدنیا علی سبیل)
رسول اللہ ﷺ نے خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنے کا حکم دیا ہے ، اور حضرت عمر رضی الللہ عنہ بلا شبہ خلیفہ راشد تھے۔ فرمان رسالت مآب ﷺ ہے :
” فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بعدی فَسَيَرَى اخْتِلافًا كَثِيرًا ، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ، فَتَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ ۔” (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة) ” تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔ پس میری سنت اور خلفائے راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑو ۔ اس سے تمسک کرو اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو۔ خبردار ( دین میں ) نئی باتوں سے بچنا کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ہے۔” (سنن ابی داوود 4607)
تخریج دارالدعوہ: « سنن الترمذی/العلم ۱۶ (۲۶۷۶)، سنن ابن ماجہ/المقدمة ۶ (۴۳، ۴۴)، (تحفة الأشراف: ۹۸۹۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۲۶)، سنن الدارمی/المقدمة ۱۶ (۹۶) (صحیح) » قال الشيخ الألباني: صحيح
Narrated Irbad ibn Sariyah: Abdur Rahman ibn Amr as-Sulami and Hujr ibn Hujr said: We came to Irbad ibn Sariyah who was among those about whom the following verse was revealed: "Nor (is there blame) on those who come to thee to be provided with mounts, and when thou saidst: "I can find no mounts for you. " We greeted him and said: We have come to see you to give healing and obtain benefit from you. Al-Irbad said: One day the Messenger of Allah ﷺ led us in prayer, then faced us and gave us a lengthy exhortation at which the eyes shed tears and the hearts were afraid. A man said: Messenger of Allah! It seems as if it were a farewell exhortation, so what injunction do you give us? He then said: I enjoin you to fear Allah, and to hear and obey even if it be an Abyssinian slave, for those of you who live after me will see great disagreement. You must then follow my sunnah and that of the rightly-guided caliphs. Hold to it and stick fast to it. Avoid novelties, for every novelty is an innovation, and every innovation is an error.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4590
” اللہ تعالیٰ آسمان پر اس بات کو پسند نہیں فرماتا کہ ابوبکر سے خطا ہو۔”
[ تاریخ الخلفاء میں یہ روایت طبرانی کے حوالے سے نقل کی گئی ہے۔ ( 1/42)]
نصِ قرآنی کے مطابق ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اللہ اور اس کے رسول کی معیت میں داخل ہو چکے تھے۔ لَا تَحۡزَنۡ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَنَاۖ ( التوبۃ : 40 ) کہہ کر زبان رسالت ﷺ نے صدیق اکبر کو اللہ اور اپنی دائمی معیت کی سند عطا کر دی-
رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر کے بعد حضرت عمر ہی کی جانب رجوع کرنے کا حکم دیا۔ نام لے کر صرف یہ دو صحابی ہی ہیں جن کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے-
(صحیح ابن ماجہ#٩٧،و انظر الحدیث ٤٠٦٩ ، صحیح ااصحیحہ ١٢٣٣، و تراجیع البانی ٣٧٧،صحیح الضعیف سنن ترمزی #٣٨٠٥)
سیدنا صدیق اکبر کے بعد امت کی راہنمائی کا فریضہ سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے انجام دیا۔
"میں نے اپنے والد (علی رضی اللہ عنہ) سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل صحابی کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ میں نے پوچھا پھر کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا، اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔ مجھے اس کا اندیشہ ہوا کہ اب (پھر میں نے پوچھا کہ اس کے بعد؟) کہہ دیں گے کہ عثمان رضی اللہ عنہ اس لیے میں نے خود کہا، اس کے بعد آپ ہیں؟ یہ سن کر وہ بولے کہ میں تو صرف عام مسلمانوں کی جماعت کا ایک شخص ہوں(صحیح بخاری :٣٦٧١)
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت عمر کا مقام کیا ہے۔ ایک روایت کے مطابق نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
” لو کان بعدی نبیا لکان عمر۔” اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے۔”
( یہ حدیث مسند احمد ، ترمذی اور حاکم میں روایت ہوئی ہے۔ حاکم کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے لیکن ان کے تساہلِ حدیث سے حدیث کے طالب علم بخوبی واقف ہیں۔ ترمذی کے مطابق حسن غریب ہے ، البانی حسن قرار دیتے ہیں ، بعض نے حسن لذاتہ قرار دیا ہے اور بعض اہل علم نے اس حدیث کے بعض راویوں کو منکر اور سخت ضعیف قرار دیا ہے۔ تاہم یہ ایک ایسی ضعیف حدیث ہے جس کے شواہد و متابعات موجود ہیں جس کی وجہ سے ترمذی کی اصطلاح کے مطابق یہ حدیث حسن غریب اور عام اصطلاح کے مطابق حسن لذاتہ کے درجے تک پہنچتی ہے۔ مناقب میں اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے۔)
گو یہ روایت استنادی اعتبار سے بعض کے نزدیک ضعیف ہے تاہم اسے فضائل و مناقب کے باب میں روایت کیا جاتا ہے۔ ایک صحیح روایت میں نبی کریم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے :
” لقد کان فیمن كان قبلکم من بني اسرائيل رجال ، یکلمون من غیر ان یکونوا انبیاء ، فان یکن من امتی منهم احد فعمر۔”
” تم سے پہلے بنی اسرائیل میں ایسے لوگ گزر چکے ہیں جن سے ( پردہ غیب سے ) کلام ہوا کرتا تھا ، اگرچہ وہ نبی نہیں تھے اگر میری امت ایسا کوئی ہوا تو وہ عمر ہوں گے۔” ( صحیح بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ ، باب مناقب عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اگرچہ خود بہت بڑے فقیہ و مجتہد اور بزبانِ رسالت محدث و ملہم تھے۔ انہیں منصب خلافت بھی حاصل تھی تنہا ان کی رائے بھی فتویٰ کے لیے کافی ہو سکتی تھی۔ لیکن مفادِ عامہ اور احتیاط کے پیشِ نظر وہ اکثر مسائل کو عموماً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مجلس میں پیش کرتے تھے اور ان مسائل پر نہایت آزادی ، دقت نظری اور نکتہ سنجی کے ساتھ بحثیں ہوتی تھیں۔ بقول علامہ بلاذری : حضرت عمر نے کسی ایسے مسئلہ کو جو ان سے پہلے طے نہیں ہوا تھا، بغیر صحابہ کے مشورہ کے فیصلہ نہیں کیا ( کتاب الاشراف)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں : ” کان من سیرة عمر انه کان یشاور الصحابة و یناظر هم حتی تنکشف الغمة و یاتیه الثلج فصار غالب قضایاه و فتاواه متبعةً مشارق الارض و مغاربها۔“
” حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عادت تھی کہ صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سے مشورہ اور مناظرہ کرتے تھے یہاں تک کہ پردہ اٹھ جاتا تھا اور یقین آ جاتا تھا۔ اسی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے فتوؤں کی تمام مشرق و مغرب میں پیروی کی گئی ہے۔” ( حجۃ اللہ البالغہ)
حضرت صدیق اکبر و فاروق اعظم رضی اللہ عنہما کے اجتہادات کو صحابہ کرام کی کثیر تعداد نے قبول کیا۔ بعض اجتہادات سے اصحاب کرام نے اختلاف بھی کیا اور انہیں اس اختلاف کا حق بھی حاصل تھا ، اور یہ وہی اختلاف ہے جو امت کے حق میں رحمت کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن جن مسائل میں اختلاف ہوا وہ خالصتاً اجتہادی نوعیت کے امور تھے ، جن میں ایک سے زائد رائیں ممکن تھیں جن امور کا تعلق تکمیلِ شریعت سے تھا اس پر تمام صحابہ یک زبان و ہمنوا تھے-
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ مبارکہ میں ہے : آپ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفید کپڑا اوڑھے سو رہے تھے۔ میں دوبارہ حاضر ہوا اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سو رہے تھے۔ پس میں تیسری بار حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہو چکے تھے، میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص لا الٰہ الا اﷲ کہے، اسی اعتقاد پر اس کا خاتمہ ہو جائے تو وہ جنت میں جائے گا۔مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب من مات لا يشرک باﷲ شيئًا دخل الجنة و من مات مشرکا دخل النار، 1 : 95، رقم : 94لیکن اس حدیث میں کلمہ طیبہ پڑھنے سے مراد احوال و اعمال کی اصلاح کے ساتھ کلمہ طیبہ پڑھنا ہے۔ کلمہ طیبہ پڑھنے کے بعد احوال و اعمال کی اصلاح کو نظرانداز کرنا اﷲ کی گرفت کا باعث بنتا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلاَ يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللّهِ وَلِيًّا وَلاَ نَصِيرًاo’’جو کوئی برا عمل کرے گا اسے اس کی سزا دی جائے گی اور نہ وہ اللہ کے سوا اپنا کوئی حمایتی پائے گا اور نہ مددگارo‘‘( النساء، 4 : 123)
ایک حدیث مسلم بمطابق حضرت ابوحریرہ ، جس میں رسول اللہﷺ دل سے کلمہ گو (مسلمانوں) کو جنت کی خوشخبری دیتے ہیں، حضرت عمر(رضی اللہ) کی درخواست پر کہ مسلمان ظاہری الفاظ سے غلط مطلب سمجھ لیں گنے، ان کو اچھے اعمال کرنے دیں، آپ نے فرمایا کرنے دیں (اچھے عمل کرنے دیں) (مسلم حدیث 50 ، کتاب الایمان). حضرت عمر(رضی اللہ) کی اس پیغام کو عام کرنے سے منع کرنے کی درخواست رسول اللہﷺ نے قبول کر لی.
رسول اللہﷺ نے جس بات کو عام کرنے سے منع فرما دیا پھر رسول اللہﷺ کے ارشاد کے خلاف آج تک اس کی تشسہیرکرکہ کنفیوژن پھیلایا جاتا ہے؟
حدثنا إسماعيل ، قال حدثني مالك ، عن عمرو بن يحيى المازني ، عن أبيه ، عن أبي سعيد الخدري ، رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال يدخل أهل الجنة الجنة ، وأهل النار النار ، ثم يقول الله تعالى أخرجوا من كان في قلبه مثقال حبة من خردل من إيمان. فيخرجون منها قد اسودوا فيلقون في نهر الحيا ـ أو الحياة ، شك مالك ـ فينبتون كما تنبت الحبة في جانب السيل ، ألم تر أنها تخرج صفراء ملتوية . قال وهيب حدثنا عمرو الحياة . وقال خردل من خير .(صحیح بخاری #22)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل ہو جائیں گے۔ اللہ پاک فرمائے گا، جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر (بھی) ایمان ہو، اس کو بھی دوزخ سے نکال لو۔ تب (ایسے لوگ) دوزخ سے نکال لیے جائیں گے اور وہ جل کر کوئلے کی طرح سیاہ ہو چکے ہوں گے۔ پھر زندگی کی نہر میں یا بارش کے پانی میں ڈالے جائیں گے۔ (یہاں راوی کو شک ہو گیا ہے کہ اوپر کے راوی نے کون سا لفظ استعمال کیا) اس وقت وہ دانے کی طرح اگ آئیں گے جس طرح ندی کے کنارے دانے اگ آتے ہیں۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ دانہ زردی مائل پیچ در پیچ نکلتا ہے۔ وہیب نے کہا کہ ہم سے عمرو نے ( «حياء» کی بجائے) «حياة»، اور ( «خردل من ايمان») کی بجائے (خردل من خير») کا لفظ بیان کیا۔(صحیح بخاری #22)
اس حدیث سے ظاہر ہے کہ گنہگاروں کو سزا ملے گی ، جو کہ قران سے بھی ظاہر ہے-حضرت عمر (رضی اللہ) نے جس خدشہ کا اظھار کیا تھا وھی کھلم کھلا ہو رہا ہے.لوگ ظاہری طور پر اپنی مرضی کا مطلب نکال کر اچھےاعمال کرنا ضروری نہیں سمجھتے بس کلمہ ادا کرنا نجات کے لیے کافی سمجھتے ہیں جو درست نہیں. کیا یہ اللہ کے فرمان (سورة الحشر 59:7) کی کھلی خلاف درزی نہیں؟ أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ(29:2 سورة العنكبوت) کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ "ہم ایمان لائے " اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟(29:2 سورة العنكبوت)
اسلام ؛ قرآن اور سنت پر عمل کرنے کا نام ہے۔اسلام کی بنیاد صرف رسول اللہﷺ سے نقل وسماع ہے، قرآن کریم بھی رسول اللہﷺ ہی کے ذریعہ ملا ہے؛ انھوں نے ہی بتلایا اور آیات کی تلاوت کی ،جوبطریقۂ تواتر ہم تک پہنچا ہے-
کتاب اللہ کے بعد رسول اللہؐ کی سنت شریعت کا دوسرا سرچشمہ اور اصل واساس ہے، یہ قرآن کریم کی تشریح اور اس کے اصول کی توضیح اور اجمال کی تفصیل ہے- آپ نے فرمایا کہ: "تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَاتَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ رَسُوْلہِ"۔(مشکوٰۃ شریف:۲۹)” :میں تمہارے درمیان دوچیزوں کو چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں کومضبوطی سے تھامے رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ ہے۔ “
جب حج الوداع کے موقع پر المائدہ کی آیات ٣ ، نازل ہوئی جس میں دین کے کامل ہونے کا اعلان کر دیا گیا:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس دین اسلام کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے کامل کر دیا ہے اور اپنے نبی اور مومنوں کو اس کا کامل ہونا خود اپنے کلام میں فرما چکا ہے اب یہ رہتی دنیا تک کسی زیادتی کا محتاج نہیں ، اسے اللہ نے پورا کیا ہے جو قیامت تک ناقص نہیں ہوگا۔ اس سے اللہ خوش ہے اور کبھی بھی ناخوش نہیں ہونے والا ۔ حج اکبر والے دن جبکہ یہ آیت اتری تو حضرت عمر رونے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سبب دریافت فرمایا تو جواب دیا کہ ہم دین کی تعمیل میں کچھ زیادہ ہی تھے ، اب وہ کامل ہو گیا اور دستور یہ ہے کہ کمال کے بعد نقصان شروع ہو جاتا ہے ، آپ نے فرمایا سچ ہے ، اسی معنی کی شہادت اس ثابت شدہ حدیث سے ہوتی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ اسلام غربت اور انجان پن سے شروع ہوا اور عنقریب پھر غریب انجان ہو جائیگا ، پس غرباء کیلئے خوشخبری ہے۔
امام مالک نے کہا ابن شہاب زہری کے پاس ایک ایک کتاب کے سوا جس میں ان کی قوم کا نسب لکھا تھا کوئی کتاب نہ تھی۔ لوگوں میں لکھنے کا نہیں، حفظ کرنے کا رواج تھا، جو لکھتا تھا وہ حفظ کرنے کی نیت سے لکھتا تھا جب حفظ کر لیتا تحریر مٹا دیتا ۔
[ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 77]
اس وقت قرآن اور سنت رسول اللہﷺ تواتر میں موجود تھی مثلاً نماز، روزہ ، زکات ، حج اور دوسرے احکام و معاملات پر لاکھوں مسلمان عمل درآمد کر رہے تھے، قران حفاظ صحابہ اکرام کے دماغ میں اور مختلف طریقوں پر تحریر کی شکل میں موجود تھا جس کو کتاب کی شکل میں اکٹھا کر دیا گیا، اور پھر حضرت عثمان رضی الله نے تو سرکاری طور پر اس قرآن کوتحقیق کے بعد اہل قریش کی قرات میں تحریرکروا کرعالم اسلام میں بھجوا دیا اور باقی ذاتی غیر سرکاری نسخوں کو جلا دیا- نماز میں قران مسلسل تلاوت کیا جاتا تھا- پوری توجہ قرآن پر تھی- ٩٠ سال گزر گئے .....
حضرت عمر بن عبدالعزیز کے عہدِ خلافت میں تدوینِ حدیث اورامام ابوحنیفہ:خلیفہ حضرت عمر بن عبد العزیز ( ۶۱ھ-۱۰۱ھ) کے خاص اہتمام سے وقت کے دو جید محدِّث شیخ ابوبکر بن الحزم (متوفی ۱۲۰ھ) اور محمد بن شہاب زُہری (متوفی ۱۲۵ھ) کی زیر نگرانی احادیثِ رسول کو کتابی شکل میں جمع کیا گیا؛ اب تک یہ احادیث منتشر حالتوں میں سینوں میں محفوظ چلی آرہی تھیں۔ اسلامی تاریخ میں ان ہی دونوں محدث کو حدیث کا مدوِّنِ اوَّل کہا جاتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ طیبہ میں عمومی طور پر احادیث لکھنے سے منع فرمادیا تھا؛تاکہ قرآن وحدیث ایک دوسرے سے مل نہ جائیں؛ البتہ بعض فقہاءِ صحابہ (جنہیں قرآن وحدیث کی عبارتوں کے درمیان فرق معلوم تھا) کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں بھی احادیث لکھنے کی محدود اجازت تھی۔ خلفاء راشدین کے عہد میں جب قرآن کریم تددین کے مختلف مراحل سے گزرکر ایک کتابی شکل میں امتِ مسلمہ کے ہر فرد کے پاس پہونچ گیاتو ضرورت تھی کہ قرآنِ کریم کے اصل مفسر و خاتم النّبیین وسید المرسلین حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احایث کو بھی مدون کیا جائے؛ چنانچہ احادیثِ رسول کا مکمل ذخیرہ جو منتشر اوراق اور زبانوں پر جاری تھا، انتہائی احتیاط کے ساتھ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی عہدِ خلافت (۹۹ھ-۱۰۱ھ)میں مرتب کیا گیا۔ احادیثِ نبویہ کے اس ذخیرہ کی سند میں عموماًدو راوی تھے ایک صحابی اور تابعی، بعض احادیث صرف ایک سند یعنی صحابی سے مروی تھیں۔ ان احادیث کے ذخیرہ میں ضعیف یا موضوع ہونے کا احتمال بھی نہیں تھا۔ نیز یہ وہ مبارک دور تھا، جس میں اسماء الرجال کا علم باضابطہ وجود میں نہیں آیا تھا اور نہ اس کی ضرورت تھی؛ کیونکہ حدیثِ رسول بیان کرنے والے صحابہٴ کرام اور تابعین عظام یا پھر تبع تابعین حضرات تھے اور ان کی امانت ودیانت اور تقوی ٰ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم (سورہٴ التوبہ آیت نمبر ۱۰۰) میں فرمایا ہے۔حضرت امام ابوحنیفہ کو انھیں احادیث کا ذخیرہ ملا تھا؛ چنانچہ انہوں نے قرآنِ کریم اور احادیث کے اس ذخیرہ سے استفادہ فرماکر امتِ مسلمہ کو اس طرح مسائلِ شرعیہ سے واقف کرایا کہ ۱۳۰۰ سال گزرجانے کے بعد بھی تقریباً ۷۵ فیصد امت مسلمہ اس پر عمل پیرا ہے اور ایک ہزار سال سے امتِ مسلمہ کی اکثریت امام ابوحنیفہ کی تفسیر وتشریح اور وضاحت وبیان پر ہی عمل کرتی چلی آرہی ہے۔ امام ابوحنیفہ کو احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم صرف دو واسطوں (صحابی اور تابعی) سے ملی ہیں؛ بلکہ بعض احادیث امام ابوحنیفہ نے صحابہٴ کرام سے براہ راست بھی روایت کی ہیں۔ دو واسطوں سے ملی احادیث کو احادیث ثنائی کہا جاتا ہے، جو سند کے اعتبار سے حدیث کی اعلیٰ قسم شمار ہوتی ہے۔ بخاری ودیگر کتبِ حدیث میں ۲ واسطوں کی کوئی بھی حدیث موجود نہیں ہے، ۳ واسطوں والی یعنی احادیث ثلاثیات بخاری میں صرف ۲۲ ہیں، ان میں سے ۲۰احادیث امام بخاری نے امام ابوحنیفہ کے شاگردوں سے روایت کی ہیں۔حجت دین کے بارے میں قرآن و حدیث میں فرق یہ ہے کہ قرآن کی نقل بہ طریقۂ تواتر ہے، جوہرطرح کے شک وشبہ سے بالاتر ہے اور علم قطعی کی موجب ہے اور حدیث اس حیثیت سے کہ ارشاد رسول اللہﷺ ہے، حجت قطعی ہے؛ البتہ رسول اللہﷺ سے ہم تک پہونچنے میں جودرمیانی وسائط ہیں، ان کی وجہ سے احادیث کا ثبوت اس درجہ قطعی نہیں ہے، جس درجہ کی قطعیت قرآن کو حاصل ہے۔
The Test of Authenticity of any Hadith:
The Prophet (peace be upon him) is reported to have said that if you hear such an Hadiths attributed to him to which your heart refuse to accept and your body and hair do not get inspired, then be sure that it is far off form you and also far off from me (Prophet Muhammad, pbuh) [Quoted in Tafseer Ib Kathir in explanation of Quran11:88, Translation of Hadith from "Masnad Ahmad" 3/497, 5/425 Tbqat ibn Saad, 2/387 Majmaa Alzwaid 1/149,150, Masnad Hazaar 187, Ibn jahan 63. This Hadith is graded as Saheeh by Shaikh Albani (Al Silsilah Al Sahihah 2/732. Shaikh Mustafa Alsayed, Skhaikh Rashad, Shaikh Ajmawi, Shaikh Ali Ahmad and Shaikh Hasan Abbas also grade it as Saheeh]
اسی لیے احادیث کے مختلف درجات ہیں، صحیح، مرسل، ضعیف ، مگر قرآن کی آیات محکم ہیں ان کے متعلق ارشاد ہے :
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ (2:1)یہ (قرآن) وہ کتاب ہے جس (کے کلام اللہ ہونے) میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ مگرکیا حدیث کی کسی کتاب کے لیے ایسا دعوی کیا جا سکتا ہے؟سنت کیوں کہ تواترسے لا تعداد افراد کی وساطت عمل سے منتقل ہوئی اس لیے اس کی درجہ بندی حدیث کی طرح نہیں-
اس کی مختلف وجوہات بیان کی جاتی ہیں جو ایک طویل بحث ہے-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’حسبنا کتاب اللہ‘ یعنی ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے ۔
( بحوالہ : صحیح بخاری ، کتاب المرضی ، باب قول المريض قوموا عني ، حدیث : 5731 )
امام مالک بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حدیثیں یا ان کی کتابیں لکھنے کا ارادہ کیا، پھر فرمایا کتاب اللہ کے ساتھ کوئی کتاب تحریر نہیں ہوسکتی۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی فضیلت، بصیرت اور ان کے متعلق رسول اللہﷺ کے ارشادات کی وجہ سے ان کے اس فیصلے کی اہمیت کو نظر انداز کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے-
قرآن اور روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کلام بھی شرع بیان کرنے کے لیے کیا ہے وہ حق ہے، حجت ہے، وحی ہے اور قابل اتباع ہے۔لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ آپ کا ہر قول کسی شرعی حکم کو بیان کرنے کے لیے نہیں ہوتا تھا۔ بعض اوقات آپ ہماری طرح دنیاوی اُمور میں بھی گفتگو کرتے تھے اور آپ کایہ کلام کسی شرعی حکم کے استنباط کے لیے مصدر کی حیثیت نہیں رکھتا ہے ۔الدکتور عبد الکریم زیدان لکھتے ہیں : وأقوال النبی نما تکون مصدرا للتشریع، اذا کان المقصود بھا بیان الأحکام أو تشریعھا، أما ذا کانت فی أمور دنیویة بحتہ لا علاقة لھا بالتشریع، ولا مبنیة علی الوحی، فلا تکون دلیلا من أدلة الأحکام، و لا مصدرا تستنبط منہ الأحکام الشرعیة، و لا یلزم اتباعھا، ومن ذلک ما روی: أنہ علیہ السلام رأی قوما فی المدینة یؤبرون النخل،فأشار علیھم بترکہ، ففسد الثمر،فقال لھم: ((اَبِّرُوْا' اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاُمُوْرِ دُنْیَاکُمْ)) (٢٣) ''اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال صرف اُس وقت مصدرِ شریعت ہوں گے جب ان سے آپ کامقصود احکامِ شرعیہ کو بیان کرنا ہو۔لیکن اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض دنیاوی امور کے بارے میں کچھ گفتگوایسی فرمائی جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہ ہو تو آپ کا ایسا کلام احکامِ شرعیہ کے لیے کوئی دلیل نہیں بنے گا اور نہ ہی وہ مصدر شریعت ہو گاکہ جس سے احکام نکالے جائیں،اور نہ ہی آپ کے ایسے اقوال کی پیروی لازمی ہے ۔اس کی ایک مثال یہ روایت ہے کہ آپ نے مدینہ کے بعض لوگوں کو دیکھا کہ وہ نر کھجور کے ساتھ مادہ کھجور کی پیوند کاری کرتے تھے ۔آپ نے لوگوں کو ایسا کرنے سے اشارتاً منع کر دیا جس کہ وجہ سے اگلی فصل کم ہوئی تو آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ :''پیوند کاری کرو ،کیونکہ دنیاوی امور کو تم زیادہ بہتر جانتے ہو''۔اس موضوع پر کہ ''آپ کا ہر قول ہمارے لیے شریعت نہیں ہے '' شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی کتاب ' حجة اللہ البالغة' میں ' المبحث السابع: مبحث استنباط الشرائع من حدیث النبی' کے تحت مختصر لیکن بہت عمدہ بحث کی ہے ۔ شاہ ولی اللہ صاحب کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اقوال جو تبلیغِ رسالت کے باب سے نہیں ہیں(یعنی دنیاوی امور سے متعلق ہیں) ، بعض حضرات کے مناقب سے متعلق اقوال،طب سے متعلق بعض اقوال ،آپ کے دور میں کسی جزئی مصلحت کے حصول کے لیے آپ کے جاری کردہ احکامات،آپ کے عادی امور، آپ کے فیصلے(یعنی قضاء) اور آپ کے بعض احکامات کا آپ کی قوم کے بعض لوگوں کے لیے خاص ہوناوغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ شاہ صاحب نے اس موقف کی دلیل کے طور پرکہ آپ کاہر قول ہمارے لیے شریعت نہیں ہے، ایک حدیث کو بیان کیا ہے۔حضرت خارجہ بن زید بن ثابت سے روایت ہے: دَخَلَ نَفَر عَلٰی زَیْدٍ بْنِ ثَابِتٍ فَقَالُوْا حَدِّثْنَا بَعْضَ حَدِیْثِ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَقَالَ وَمَا أُحَدِّثُکُمْ؟ کُنْتُ جَارُہ فَکَانَ ِذَا نَزَلَ الْوَحْیُ أَرْسَلَ ِلَیَّ فَکَتَبْتُ الْوَحْیَ وَکَانَ ِذَا ذَکَرْنَا الْآخِرَةَ ذَکَرَھَا مَعَنَا وَذَا ذَکَرْنَا الدُّنْیَا ذَکَرَھَا مَعَنَا وَذَا ذَکَرْنَا الطَّعَامَ ذَکَرَھُ مَعَنَا' فَکُلُّ ھٰذَا أُحَدِّثُکُمْ عَنْہُ؟ (٢٤)
''اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال صرف اُس وقت مصدرِ شریعت ہوں گے جب ان سے آپ کامقصود احکامِ شرعیہ کو بیان کرنا ہو۔لیکن اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض دنیاوی امور کے بارے میں کچھ گفتگو ایسی فرمائی جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہ ہو تو آپ کا ایسا کلام احکامِ شرعیہ کے لیے کوئی دلیل نہیں بنے گا اور نہ ہی وہ مصدر شریعت ہو گاکہ جس سے احکام نکالے جائیں، اور نہ ہی آپ کے ایسے اقوال کی پیروی لازمی ہے ۔اس کی ایک مثال یہ روایت ہے کہ آپ نے مدینہ کے بعض لوگوں کو دیکھا کہ وہ نر کھجور کے ساتھ مادہ کھجور کی پیوند کاری کرتے تھے ۔آپ نے لوگوں کو ایسا کرنے سے اشارتاً منع کر دیا جس کہ وجہ سے اگلی فصل کم ہوئی تو آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ :''پیوند کاری کرو ،کیونکہ دنیاوی امور کو تم زیادہ بہتر جانتے ہو''۔ امام ہیثمی رحمہ اللہ نے اس روایت کو 'حسن' کہا ہے۔(٢٥)امام ابن حجررحمہ اللہ نے اس روایت کو'حسن' کہا ہے۔(٢٦) حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت سے حجت پکڑی ہے ۔جبکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو 'ضعیف 'کہا ہے(٢٧)۔ 'سنن البیہقی' کی ایک روایت میں 'أَوَکُلَّ ھٰذَا نُحَدِّثُکُمْ عَنْہُ'؟ کے الفاظ بھی ہیں ۔ بعض دوستوں کا خیال یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر قول پر عمل ضروری ہے ۔ان حضرات کا کہنا یہ ہے کہ قرآن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا اور آپ کی اطاعت اُمت پر لازم ہے،لہٰذا جہاں بھی آپ کا کوئی قول آ جائے، چاہے وہ دنیا سے متعلق ہو یا دین سے ، تو اس پر عمل کرنا لازم ہو گا،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال آپ کی اطاعت میں داخل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا اور آپ کی اطاعت ہر اُمتی پر فرض ہےلیکن کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ہر قول یا ہر ہر بات، چاہے وہ دین سے متعلق ہو یا دنیا سے ، اطاعت کی تعریف میں داخل ہے ؟ اگر کوئی شخص ایسا سمجھتا ہے تو یہ موقف درست نہیں ہے۔
حدیث اور سنت میں فرق:
کچھ لوگوں میں عام غلط فہمی ہے کہ حدیث اور سنت ایک ہی چیز ہے۔ فی الحقیقت ؛ حدیث اور سنت دونوں ایک دوسرے سے ناصرف لسانی اعتبار سے بلکہ شریعت میں اپنے استعمال کے لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
اسلام ؛ قرآن اور سنت پر عمل کرنے کا نام ہے۔ سنت کی تشکیل میں احادیث اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن سنت صرف احادیث سے نہیں بنی ہوتی ہے؛ سنت میں رسول اللہﷺ کی زندگی کا وہ حصہ بھی شامل ہے جو الفاظ کی شکل میں نہیں مثال کے طور پر تقریر اور یا کسی عبادت کا طریقہ ، تقریر کو محدثین حدیث میں بھی شمار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سنت میں قرآن اور حدیث میں بیان کردہ ہدایات پر عمل کرنے کا نمونہ پایا جاتا ہے؛ یہ طریقہ یا عملی نمونہ محمد رسول اللہﷺ کے زمانے میں موجود اس عہد کی نسل سے اجتماعی طور پر اگلی اور پھر اگلی نسل میں منتقل ہوتا رہتا ہے اور اس کی اس اجتماعی منتقلی کی وجہ سے اس میں نقص یا ضعف آجانے کا امکان حدیث کی نسبت کم ہوتا ہے کیونکہ حدیث ایک راوی سے دوسرے راوی تک انفرادی طور پر منتقل ہوتی ہے اور اس منتقلی کے دوران اس راوی کی حیثیت ، اعتبار اور اس کی یاداشت کا دخل ہوتا ہے۔
نکاح کرنا سنّت ہے، حدیث نہیں؛ قربانی کرنا سنّت ہے، حدیث نہیں؛ مسواک کرنا سنّت ہے، حدیث کوئی نہیں کہتا. کسی حدیث کو سنت سے پرکھا جا سکتا ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ : " سَيَأْتِيكُمْ عَنِّي أَحَادِيثُ مُخْتَلِفَةٌ , فَمَا جَاءَكُمْ مُوَافِقًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَهُوَ مِنِّي , وَمَا جَاءَكُمْ مُخَالِفًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي " [(١) سنن الدارقطني: كِتَابٌ فِي الأَقْضِيَةِ وَالأَحْكَامِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، كتاب عمر رضي الله عنه إلى أبي موسى الأشعري، رقم الحديث: ٣٩٢٦(٤٤٢٧) ؛حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ، نبی صلے الله علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ میری طرف سے کچھ اختلافی احادیث آئینگی، ان میں سے جو "کتاب الله" اور "میری سنّت" کے موافق ہونگی، وہ میری طرف سے ہونگی. اور جو "کتاب الله" اور "میری-سنّت" کے خلاف ہونگی وہ میری طرف سے نہیں ہونگی. (٢) الكفاية في علم الرواية للخطيب:التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ، رقم الحديث: ٣١١(٥٠٠٤)؛ (٣) ذم الكلام وأهله لعبد الله الأنصاري:الْبَابُ التَّاسِعُ، بَابٌ : ذِكْرُ إِعْلَامِ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ ...رقم الحديث: ٥٨٩(٦٠٦)؛ (٤) الأباطيل والمناكير والمشاهير للجورقاني: كِتَابُ الْفِتَنِ، بَابُ : الرُّجُوعِ إِلَى الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ رقم الحديث:٢٧٧(٢٩٠ ٥) الكامل في ضعفاء الرجال » من ابتداء أساميهم صاد » من اسمه صالح؛ رقم الحديث: 4284 ٦) التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ » التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ؛ رقم الحديث: ٣١١] دلیل_فقہ ١) کھڑے ہوکر پیشاب کرنا[صحیح بخاری، کتاب الوضو، حدیث#٢٢١] اور کھڑے ہوکر پانی پینا [صحيح البخاري » كِتَاب الْأَشْرِبَةِ » باب الشُّرْبِ قَائِمًا، رقم الحديث: ٥٢١٣(٥٦١٥)] حدیث سے ثابت ہے، مگر یہ سنّت (عادت) نہ تھی، بلکہ سنّت (عادت) بیٹھکر پیشاب کرنا [صحيح البخاري » كِتَاب الْوُضُوءِ » بَاب التَّبَرُّزِ فِي الْبُيُوتِ، رقم الحديث: ١٤٧(١٤٩)] اور بیٹھکر پانی پینا تھی، کھڑے ہوکر پینے سے منع فرمایا.[صحيح مسلم » كِتَاب الْأَشْرِبَةِ » بَاب كَرَاهِيَةِ الشُّرْبِ قَائِمًا، رقم الحديث: ٣٧٧٨(٢٠٢٥)] سنت کا نمونہ رسول اللہﷺ نے پیش کیا اور پھر اس کے بعد اصحاب اکرام اور تابعین سے ہوتا ہوا موجودہ زمانے تک پہنچا ہے اسی ليے اس میں امت کے اجتماعی درست طریقۂ کار یا راہ کا مفہوم بھی شامل ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ عموماً اس کے ساتھ الجماعت کا لفظ لگا کر سنت و الجماع بھی کہا جاتا ہے۔حدیث اور سنت کا فرق مفہوم کے لحاظ سے اسلامی شریعت میں پایا جاتا ہے لیکن اس فرق سے کسی ایک کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ دونوں ہی اپنی جگہ مسلم ہیں اور حدیث کے بغیر سنت اور شریعت کا علم ، دونوں سے کوئی ایک تشکیل نہیں پاسکتا۔ حدیث کو رد کرنے کا رحجان مغرب کی استعماریت سے مقابل آنے کے ليے اس سے متصادم اسلامی نظریات کو رد کرنے والے جدت پسندوں کی جانب سے بیسویں صدی کے اوائل میں بھی سامنے آیا، ان ہی میں سے ایک شخص عبداللہ چکرالوی نے احادیث کو یکسر رد کر کہ اہل القرآن کی بنیاد ڈالی۔ دوسری جانب اہل حدیث بھی انتہا پر پہنچے ہوۓ ہیں؛ ان کے نزدیک حدیث کی متابعت ، قرآن شریف کی آیات کے اتباع کے برابر ہے کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالٰی نے خود رسول اللہﷺ (کی دین سے متعلق) ہر بات کو اللہ کی اجازت سے ہونے کی ضمانت دی ہے اور اس سلسلے میں سورت النجم کی ابتدائی 15 آیات بکثرت حوالے کے طور پیش کی جاتی ہیں، اس سورت کے حوالے میں ایک قابل غور بات یہ ہے کہ سورت میں اللہ تعالٰیٰ کا اشارہ ، محمد رسول اللہﷺ کے اس قول کی جانب ہے جو قرآن کی صورت نازل ہو رہا تھا۔ سنت اور حدیث کا لفظ امامیان اور وفقہا مختلف مفہوم رکھتا ہے؛ حدیث ، سنت کا حصہ ہوتی ہے لیکن سنت صرف حدیث نہیں ہوتی۔ امام شافعی رح نے کہا: "میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو تمام سنت اور احادیث کو جانتا ہو۔ اگر احادیث کا علم رکھنے والے علما کے علم کو یکجا کیا جاۓ تو صرف اسی حالت میں تمام سنت آشکار ہوسکتی ہے۔ چونکہ ماہرین حدیث دنیا کے ہر گوشے میں پھیلے ہیں اس وجہ سے بہت سی احادیث ایسی ہوں گی جن تک ایک عالم حدیث کی رسائی نہ ہوگی لیکن اگر ایک عالم ان سے نا آشنا ہے تو دوسروں کو ان کا علم ہوگا"قران و سنت کے علاوہ اسلام کی تیسری اور چوتھی اصل وبنیاد، اجماع امت اور قیاس ہے اور ان چاروں اصولوں کا مرجع خود رسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی ہے-
سوال: جس زمانے میں احادیث کی کتابت منع تھی، کیا اس زمانے میں احادیث دین نہیں ہوا کرتی تھیں؟ کیا اب اجازت عام ہے کہ کتابت احادیث کی جائے؟
جواب: اس زمانے میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گفتگوؤں میں دین ہی بیان کرتے ہوں گے۔ منع کرنے کی وجہ قرآن کی حفاظت ہے۔ جب یہ مقصد حاصل ہو گیا، پھر اس پابندی کی کوئی وجہ نہیں تھی۔احادیث میں دین کا بیان ہوناایک الگ امر ہے اور ان کا دین کا ماخذ ہونا ایک دوسری چیز ہے۔ چونکہ انھیں دین کے ماخذ کی حیثیت حاصل نہیں ہونا تھی، اس لیے ان کی حفاظت کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ (لنک)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حدیث لکھنے کی ممانعت
اعتراض:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود احادیث لکھنے سے منع فرمایا تھا اس بناپر موجودہ کتب حدیث عجمی سازش کا نتیجہ ہیں-
جواب: بلاشبہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میری طرف سے کچھ نہ لکھو اور جس نے قرآن کے سوا کچھ لکھا ہو تو وہ اسے مٹادے-"(صحیح مسلم،الزھد، باب التثبت فی الحدیث و حکم کتابہ العلم، حدیث:3004)
کیا منکریں حدیث کو اپنے عقیدے کی رو سےبطور دلیل حدیث پیش کرنا جائز ہے؟ کیا وہ اپنے اس فعل پر شرم محسوس نہیں کرتے؟ اپنی مقصد برآری کے لیے حدیث پیش کرنا جائز لیکن اتباع رسول میں حدیث کی طرف رجوع ناجائز- آخر یہ کہاں کا انصاف ہے؟
تاہم واضح رہے کہ کتابت حدیث کی ممانعت ابتدائے اسلام میں تھی تاکہ احادیث تاکہ احادیث کا مضمون قرآن کریم کے مصامین سے خلط ملط نہ ہوجائے- چنانچہ ایک روایت میں اس کی وضاحت موجود ہے- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات قلمبند کررہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےتشریف لائے، دریافت فرمایا:" تم کیا لکھ رہے ہو؟" ہم نے عرض کیا وہی کچھ جو ہم آپ سے سنتے ہیں- آپ نے فرمایا:
" کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ ایک اور کتاب بھی لکھی جارہی ہے اللہ کی کتاب کو علحیدہ کرلو اور اسے خالص رکھو-"
(مسند احمد: 3/12، حدیث:11092)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کو ایک ساتھ لکھنے کی ممانعت تھی تاکہ احادیث قرآن سے خلط ملط نہ ہوجائيں- جب یہ خطرہ ٹل گیا تو ممانعت بھی ختم ہوگئی، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جم غفیر کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اور آپ کی وفات کے بعد احادیث تحریر کرنا متعدد احادیث سے ثابت ہے جیسا کہ پہلے عرض ہوچکا ہے-
پھر اس حدیث کے آگے یہ الفاظ بھی ہیں: [ تحدّثو عنّی ولا حرج] "مجھ سے احادیث بیان کرو اس میں چنداں حرج نہیں"
اس جملے سے واضح ہوا کہ حدیث کو قرآن کے ساتھ مخلوط کرنے سے روکا جارہا تھا، حدیث بیان کرنے سے منع نہیں کیا جارہا تھا بلکہ احادیث بیان کرنے کا حکم دیا جارہا تھا، اب یہ کہاں کی دیانت اور قرآنی اتباع ہے کہ ایک ہی روایت کا وہ حصہ تو بیان کردیا جائے جس سے اپنا مطلب برآمد ہو اور باقی حصہ اس لیے نظر انداز کردیا جائے کہ وہ ان کے باطل عقیدے کی نفی کرتا ہے-
باقی موجود کتب حدیث پر عجمی سازش کی پھبتی بھی خوب ہے! صدیوں کے بعدان حضرات نے اس سازش کا سراغ لگایا ہے لیکن یہ سازش کہاں تیار ہوئی؟ کس نے تیار کی؟ اس بارے میں یہ لوگ کوئی مدلل بات نہیں بتاتے-
بتا بھی نہیں سکتے کیونکہ یہ من گھڑت بات ہے، اسی لیے اس بارے میں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے- شاید یہ حصرات خود کسی سازش کا شکار ہیں- ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جو (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی جو نبی امی ہیں پیروی کرتے ہیں۔ جن (کے اوصاف) کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ انہیں نیک کام کا حکم دیتے ہیں اور برے کام سے روکتے ہیں اور پاک چیزوں کو ان کے لئے حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام تھیراتے ہیں اور ان پر سے بوجھ اور طوق جو ان (کے سے) پر (اور گلے میں) تھے اتار تے ہیں۔ تو جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی رفاقت کی اور انہیں مدد دی اور جو نور ان کے ساتھ نازل ہوا ہے اس کی پیروی کی وہی مراد پانے والے ہیں ۔
تفسیر ابن كثیر
مسند احمد میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جب تم میری کسی حدیث کو سنو جسے تمہارے دل پہچان لیں تمہارے جسم اس کی قبولیت کے لئے تیار ہو جائیں اور تمہیں یہ معلوم ہو کہ وہ میرے لائق ہے تو میں اس سے بہ نسبت تمہارے زیادہ لائق ہوں اور جب تم میرے نام سے کوئی ایسی بات سنو جس سے تمہارے دل انکار کریں اور تمھارے جسم نفرت کریں اور تم دیکھو کہ وہ تم سے بہت دور ہے پس میں بہ نسبت تمھارے بھی اس سے بہت دور ہوں ۔ اس کی سند بہت پکی ہے ۔ اسی کی ایک اور روایت میں حضرت علی کا قول ہے کہ جب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول کوئی حدیث سنو تو اس کے ساتھ وہ خیال کرو جو خوب راہ والا بہت مبارک اور بہت پرہیزگاری والا ہو (تفسیر ابن کثیر)
ہ حدیث شریف میں ہے کہ میں ایک طرف آسان دین دے کر معبوث کیا گیا ہوں ۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت معاذ بن جبل کو جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم یمن کا امیر بنا کر بھیجتے ہیں تو فرماتے ہیں تم دونوں خوش خبری دینا، نفرت نہ دلانا ، آسانی کرنا، سختی نہ کرنا، مل کر رہنا ، اختلاف نہ کرنا ۔ آپ کے صحابی ایوبرزہ اسلمی فرماتے ہیں میں حضور کے ساتھ رہا ہوں اور آپ کی آسانیوں کا خوب مشاہدہ کیا ہے پہلی امتوں میں بہت سختیاں تھیں لیکن پروردگار عالم نے اس امت سے وہ تمام تنگیاں دور فرما دیں ۔ آسان دین اور سہولت والی شریعت انہیں عطا فرمائی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری امت کے دلوں میں جو وسوسے گذریں ان پر انہیں پکڑ نہیں جب تک کہ زبان سے نہ نکالیں یا عمل نہ لائیں ۔ فرماتے ہیں میری امت کی بھول چوک اور غلطی سے اور جو کام ان سے جبراً کئے کرائے جائیں ان سے اللہ تعالٰی نے قلم اٹھا لیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس امت کو خود اللہ تعالٰی نے یہ تعلیم فرمائی کہ کہو کہ اے ہمارے پروردگار تو ہماری بھول چوک پر ہماری پکڑ نہ کر ۔ اے ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ لاؤ جو ہم سے پہلوں پر تھا۔ اے ہمارے رب ہمیں ہماری طاقت سے زیادہ بوجھل نہ کر ۔ ہمیں معاف فرما ، ہمیں بخش ، ہم پر رحم فرما۔ تو ہی ہمارا کار ساز مولیٰ ہے ۔ پس ہمیں کافروں پر مدد عطا فرما ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ جب مسلمانوں نے یہ دعائیں کیں تو ہر جملے پر اللہ تعالٰی نے فرمایا میں نے یہ قبول فرمایا ۔ پس جو لوگ اس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور آپ کا ادب عزت کریں اور جو وحی آپ پر اتری ہے اس نور کی پیروی کریں وہی دنیا آخرت میں فلاح پانے والے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر)
"جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور کئی فرقے بن گئے، ان سے آپ کو کچھ سروکار نہیں۔ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ پھر وہ خود ہی انہیں بتلا دے گا کہ وہ کن کاموں میں لگے ہوئے تھے"ا۔(قرآن 6:159)
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری خطبہ حج الوداع میں فرمایا، آخری خطبہ ہزاروں صحابہ نے توجہ سےسنا مگر ایک اہم ترین حکم پراختلاف، تین مختلف احادیث :
’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تم میں ایسی دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے انہیں مضبوطی سے تھامے رکھا تو میرے بعد ہر گز گمراہ نہ ہوگے۔ ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے۔ اﷲتعالیٰ کی کتاب آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی رسی ہے اور میری عترت یعنی اہلِ بیت اور یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گی یہاں تک کہ دونوں میرے پاس (اکٹھے) حوض کوثر پر آئیں گی پس دیکھو کہ تم میرے بعد ان سے کیا سلوک کرتے ہو؟‘‘ [ رَوَاهُ التِّرمِذِيُّ وَحَسَنَّهُ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.]
’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے سنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے : اے لوگو! میں تمہارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم انہیں پکڑے رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ (ان میں سے ایک) اﷲ تعالیٰ کی کتاب اور (دوسری) میرے اہلِ بیت (ہیں)۔‘‘ [رَوَاهُ التِرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ وَالطَّبَرَانِیُّ]
تجزیہ :
تینوں احادیث میں "قرآن" کا تذکرہ شامل ہے، مگر فرقے اپنی پسندیدہ حدیث کو قبول کرکہ دوسری احادیث پر اعتراضات لگا کر مسترد کرتے ہیں.
قابل غور بات ہے کہ حج الوداع آخری خطبہ ہزاروں صحابہ نے توجہ سےسنا مگر ایک اہم ترین حکم پراختلاف، تین مختلف احادیث سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ:
1. قرآن نے احادیث کاانکار کیوں کیا؟
2. رسول اللهﷺ نے احادیث لکھنے سےکیوں منع فرمایا ؟
3. خلفاء راشدین نے احادیث کواکٹھا کرکہ کتابت کابندوبست کیوں نہ کیا بلکہ اس کو منع فرمایا ؟
4.اور ایک صدی تک اس فیصلہ پرعمل ہوا جب صحابہ اکرام بھی دنیا سے چلے گے تو الله تعالی رسول اللهﷺ خلفاء راشدین اورصحابہ اکرام کے احکام کو مسترد کرکہ اسلام کو مسخ کرنے ابتدا ہوئی جو اب تک جاری ہے قرآن کو چھوڑدیا
خلفائے راشدین کا احادیث کی کتابت نہ کرنے کا فیصلہ , حکم , قرآن اورسنت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق تھا ، جس پر پہلی صدی ہجری کے اختتام تک سختی سے عملدرآمد ہوتا رہا- جب تمام صحابہ اکرام وفات چکے توخلفاء راشدین , قرآن ، اور سنت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ، احادیث کی مشہور کتابیں تیسری صدی میں مرتب کی گئیں ، تاریخی اہمیت کےعلاوہ لہذا ان کی شرعی , قانونی حیثیت پرسوالیہ نشان ہے۔
وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴿سورة الفرقان25:30﴾اور(روز قیامت) رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بےشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا ﴿سورة الفرقان25:30﴾
وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ ( آل عمران،3 :103)
’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔‘‘( آل عمران،3 :103)
“جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے یقیناً ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں، ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے، وہی ان کو بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے-
آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین...[Continue reading...].3.سنت اور حدیث کی اہمیت اور فرق : اسلام ؛ قرآن اور سنت پر عمل کرنے کا نام ہے۔اسلام کی بنیاد صرف رسول اللہﷺ سے نقل وسماع ہے، قرآن کریم بھی رسول اللہﷺ ہی کے ذریعہ ملا ہے؛ انھوں نے ہی بتلایا... [Continue reading...]سنت ، حدیث متواتر..… متواتر وہ حدیث … [Continue Reading...]4..حدیث میں تحریف اور اہمیت ...حدیث کی شرعی حیثیت: کتاب اللہ کے بعد رسول اللہؐ کی سنت شریعت کا دوسرا سرچشمہ اور اصل واساس ہے، یہ قرآن کریم کی تشریح اور اس کے اصول کی توضیح اور اجمال کی تفصیل ہے، ان دونوں کے...[Continue reading...].5.حدیث***
حدیث کی کتابت کے متعلق معلومات حدیث کی کتب سے ہی ملتی ہیں، 250-200 ھجری کے عرصہ میں علماء محدثین نے بہت محنت اور تحقیق سے حدیثوں کے بکھرے …[Continue Reading...]
5A.حدیث کی کتابت قران کی طرح خلفاء راشدین نے کیوں نہ کی ؟حادیث کے وحی ہونے یا نہ ہونے کی جہت سے بعض علماءِ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے دو حصے مقرر کر دیئے اور کہا کہ آپؐ کا ہر قول و فعل تو وحی نہیں البتہ آپؐ...[Continue reading...]6.فرقہ واریت, 73 فرقوں والی حدیث:’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے کہ: بنی اسرائیل میں سے لوگ بہتر(72) فرقوں میں تقسیم ہوئے اور امت مسلمہ تہتر(73)فرقوں میں تقسیم ہو گی اِن میں سے بہتر فرقے جہنم میں جائیں گے اور ایک فرقہ جنّت...[Continue reading...]7.مقلدین اورغیر مقلدین: مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ ﴿30:32﴾ (اور نہ) اُن لوگوں میں (ہونا) جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور (خود) فرقے فرقے ہو گئے۔ سب فرقے اسی سے خوش...[Continue reading...]7.a.تقلید کی شرعی حثیت 8.اسلام میں فرقہ واریت – تاویلیں، دلائل اور تجزیہهُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَـٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ ( سورة الحج22:78) اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام “مسلم” رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ رسول تم... [Continue reading...].9.انسداد فرقہ واریتانسداد فرقہ واریت مختصر تاریخ اورعملی اقدامات: وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ ’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔‘‘( آل عمران،3 :103) وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا...[Continue reading...]10.فرقہ وارانہ مذہبی بیانیوں پر مختصر تبصرہ :آپ کا مسلک کیا ہے؟” جواب .. “کچھ نہیں”۔ کہنے لگے “پھر بھی”۔ کہا “الحمدللہ میں مسلمان ہوں اور یہ نام الله کا دیا ہوا ہے۔ طنزیہ فرمانے لگے کہ “کہیں بھی جانا ہو، بندے کا کوئی ایک راستہ...[Continue reading...]11. بدعت، بدا :کسی شے کے عدم سے وجود میں آنے کو بدعت کہتے ہیں۔ اس طرح بدعت کرنے والے فاعل کو مبتدع یا بدعتی اور عربی میں “بَدِيع” کہا جاتا ہے۔ لغوی اصطلاح میں بدعت کسی مفعول کے عدم سے وجود میں آنے اور مبتدع اُسے وجود میں لانے والے فاعل کیلئے استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا: بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ (قرآن ٢:١١٧). ترجمہ: (وہی اللہ) موجد (نیا پیدا کرنے والا) ہے آسمانوں اور زمین کا [Continue reading...]12..فرقہ واریت کا خاتمہ : پہلا قدم:آج کے دور میں مسلمان کئی فرقوں میں بٹ چکے ہیں اگرچہ ان کی اکثریت اسلام کے بنیادی عقائد اور عبادات پر متفق ہے مگر فروعی اختلافات کی شدت نے نفاق کے بیج اس طرح بو دیئےہیں کہ انتشار...[Continue reading...]13: وحی متلو (قرآن ) اور غیر متلو (حدیث ) – تحقیقی جائزہ Revelations – Quran and Hadith
انسداد فرقہ واریت مختصر تاریخ اورعملی اقدامات وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ ’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔‘‘( آل عمران،3 :103) وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ... [Continue reading...]
What is the difference between Sunnah and Hadith? Quran is the primary source of Islam, What about Sunnah and Hadith?
Are Sunnah and Hadith Synonymous Terms?
The word Hadith is often understood to be a synonym for the word Sunnah. This is not correct. There is a great difference between the two not only regarding the extent of their authenticity, but also their content.
A narrative of the words, deeds or tacit approvals of the Prophet (sws) is called Hadith. It does not add anything to the content of Islam stated in the Qur’anand Sunnah, the two original sources of Islam. Ahadith (plural of Hadith) only explain and elucidate what is contained in these two sources and also describe the exemplary way in which the Prophet (sws) followed Islam. The scholars of Hadith Employ the term, khabr for Hadith. A khabr bears the possibility of being either right or wrong. In other words, the scholars of Hadith Believe that a khabr may be true or it may be false. For this very reason, Ahadith are also called dhanni (presumptive or indefinite).
On the other hand, the word Sunnah literally means “busy path”, “trodden path”, “beaten path”. As a term, it refers to the practices of the Prophet Abraham (sws) to which the Prophet Muhammad (sws) gave religious sanction among his followers after reviving and reforming them and after making certain additions to them.[1] The Qur’anhas directed the Prophet (sws) to obey these Abrahamic practices in the following words:
Then We revealed to you to follow the ways of Abraham, who was true in faith and was not among the polytheists. (16:123)
The following three aspects further bring out the difference between Hadith and Sunnah.
Firstly, while Ahadith Can be inauthentic or spurious, the Sunnahcannot be so. The Sunnahis in fact as authentic as the Qur’an. This is because of the difference in the nature of transmission. Ahadith have been transmitted by a few individuals and therefore become dependent on their character, memory and intellect – all of which can falter even if the person in question is very pious. On the other hand, the Sunnah has been transmitted by whole generations to the next. Such is the vast number of people who have adhered to certain practices that there is no possibility of any error. The memory, intellect and character of a few persons can falter but when thousands of people deliver the same thing, any faulty transmission is ruled out. Furthermore, not only have a large number of people transmitted these practices, but also there is a consensus in the ummah regarding the authenticity of these practices. In other words, people not adhering to these practices also vouch for their veracity.
Secondly, Sunnahis purely related to the practical aspects of Islam such as the prayer, hajj, nikah, wuduand tayammum. Issues that pertain to belief, history, occasion of revelation and explanation of Qur’anic verses lie outside its domain. On the other hand, Ahadithare not confined to a certain sphere of Islam. Their content ranges from the practical issues of religion to intellectual ones and from historical episodes to explanations of the Qur'an and of the Sunnah Itself.
Thirdly, the Sunnah Is not based on Ahadith. For instance, we have not adopted the prayer, pilgrimage, etc in all their details because a few narrators explained them to us; on the contrary, we have adopted them because every person in our surroundings is either adhering to it or vouching for its veracity. In other words, Sunnah is an entirely independent source of Islam. However some Hadith May contain a record of the Sunnah just as they may contain the record and explanation of certain verses of the Qur’an. But just as having a record of the Quran Does not make Ahadith the same as the Qur’an, having a record of the Sunnahdoes not make Ahadith Equivalent to the Sunnah.
کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے- ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83] رسول اللہ ﷺ ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89 اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ جب تک "اجماع" قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]
"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25 آیت: 30]
The messenger said, "My Lord, my people have deserted this Quran." (Quran 25:30)
~~~~~~~~~
اسلام دین کامل کو واپسی ....
"اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں کو واضح کرے اور انہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے- وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجّہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی- ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ. اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے." (قرآن 4:26,27,28]
اسلام کی پہلی صدی، دین کامل کا عروج کا زمانہ تھا ، خلفاء راشدین اور اصحابہ اکرام، الله کی رسی قرآن کو مضبوطی سے پکڑ کر اس پر کاربند تھے ... پہلی صدی حجرہ کے بعد جب صحابہ اکرام بھی دنیا سے چلے گیے تو ایک دوسرے دور کا آغاز ہوا ... الله کی رسی, "قرآن" کو بتدریج پس پشت ڈال کر تلاوت تک محدود کر دیا ... احادیث کی کتب کے زریعہ قرآن کو پس پشت ڈال کر کہ مشرکوں کی طرح فرقہ واریت سے دین کامل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے- ہمارے مسائل کا حل پہلی صدی کے اسلام دین کامل کی بزریعہ قرآن بحالی میں ہے ..تفصیل >>>>>>