رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تین جھوٹ: حدیث اور اسرائیلیات

  

حدیث  میں اسرائیلی روایت کی آمیزش 

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَالُوۡٓا ءَاَنۡتَ فَعَلۡتَ هٰذَا بِاٰلِهَتِنَا يٰۤاِبۡرٰهِيۡمُؕ ۞ قَالَ بَلۡ فَعَلَهٗ ‌‌ۖ  كَبِيۡرُهُمۡ هٰذَا فَسۡــئَلُوۡهُمۡ اِنۡ كَانُوۡا يَنۡطِقُوۡنَ ۞ (القرآن - سورۃ نمبر 21 الأنبياء، آیت نمبر 62-63)

ترجمہ:

(ابراہیمؑ کے آنے پر) اُنہوں نے پوچھا "کیوں ابراہیمؑ، تو نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے؟" ۞ اُس نے جواب دیا "بلکہ یہ سب کچھ ان کے اس سردار نے کیا ہے، اِن ہی سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں" ۞


تفسیر، تفہیم القرآن، مفسر: مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی

یہ آخری فقرہ خود ظاہر کر رہا ہے کہ پہلے فقرے میں حضرت ابراہیم نے بت شکنی کے اس فعل کو بڑے بت کی طرف جو منسوب کیا ہے اس سے ان کا مقصد جھوٹ بولنا نہ تھا، بلکہ وہ اپنے مخالفین پر حجت قائم کرنا چاہتے تھے۔ یہ بات انہوں نے اس لیے کہی تھی کہ وہ لوگ جواب میں خود اس کا اقرار کریں کہ انکے یہ معبود بالکل بےبس ہیں اور ان سے کسی فعل کی توقع تک نہیں کی جاسکتی۔ ایسے موقع پر ایک شخص استدلال کی خاطر جو خلاف واقعہ بات کہتا ہے اس کو جھوٹ قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ نہ وہ خود جھوٹ کی نیت سے ایسی بات کہتا ہے اور نہ اس کے مخاطب ہی اسے جھوٹ سمجھتے ہیں۔ کہنے والا اسے حجت قائم کرنے کے لیے کہتا ہے اور سننے والا بھی اسے اسی معنی میں لیتا ہے۔ 

بدقسمتی سے حدیث کی ایک روایت [  صحيح البخاري. 3358 ] میں یہ بات آگئی ہے کہ حضرت ابراہیم اپنی زندگی میں تین مرتبہ جھوٹ بولے ہیں۔ ان میں سے ایک " جھوٹ " تو یہ ہے، اور دوسرا " جھوٹ " سورة صافات میں حضرت ابراہیم کا قول اِنِی سَقِیْمٌ ہے، اور تیسرا " جھوٹ " ان کا اپنی بیوی کو بہن کہنا ہے جس کا ذکر قرآن میں نہیں بلکہ بائیبل کی کتاب پیدائش میں آیا ہے۔ 

ایک گروہ روایت پرستی میں غلو کر کے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اسے بخاری و مسلم کے چند راویوں کی صداقت زیادہ عزیز ہے اور اس بات کی پروا نہیں کہ اس سے ایک نبی پر جھوٹ کا الزام عائد ہوتا ہے دوسرا گروہ اس ایک روایت کو لے کر پورے ذخیرہ حدیث پر حملہ آور ہوجاتا ہے اور کہتا ہے کہ ساری ہی حدیثوں کو اٹھا کر پھینک دو کیونکہ ان میں ایسی ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں۔ 

حالانکہ نہ ایک یا چند روایات میں کسی خرابی کے پائے جانے سے یہ لازم آتا ہے کہ ساری ہی روایات ناقابل اعتماد ہوں اور نہ فن حدیث کے نقطۂ نظر سے کسی روایت کی سند کا مضبوط ہونا اس بات کو مستلزم ہے کہ اس کا متن خواہ کتنا ہی قابل اعتراض ہو مگر اسے ضرور آنکھیں بند کر کے صحیح مان لیا جائے۔ 

سند کے قوی اور قابل اعتماد ہونے کے باوجود بہت سے اسباب ایسے ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے ایک متن غلط صورت میں نقل ہوجاتا ہے اور ایسے مضامین پر مشتمل ہوتا ہے جن کی قباحت خود پکار رہی ہوتی ہے کہ یہ باتیں نبی ﷺ کی فرمائی ہوئی نہیں ہو سکتیں۔ اس لیے سند کے ساتھ ساتھ متن کو دیکھنا بھی ضروری ہے، اور اگر متن میں واقعی کوئی قباحت ہو تو پھر خواہ مخواہ اس کی صحت پر اصرار کرنا صحیح نہیں ہے۔ 

حدیث، جس میں حضرت کے تین " جھوٹ 

یہ حدیث، جس میں حضرت کے تین " جھوٹ " بیان کیے گئے ہیں، صرف اسی وجہ سے قابل اعتراض نہیں ہے۔ کہ :یہ ا


1.یک نبی کو جھوٹا قرار دے رہی ہے بلکہ

2. اس بنا پر بھی غلط ہے کہ اس میں جن تین واقعات کا ذکر کیا گیا ہے وہ تینوں ہی محل نظر ہیں۔


 ان میں سے ایک " جھوٹ " کا حال ابھی آپ دیکھ چکے ہیں کہ کوئی معمولی عقل و خرد کا آدمی بھی اس سیاق وسباق میں حضرت ابراہیم کے اس قول پر لفظ " جھوٹ " کا اطلاق نہیں کرسکتا، کجا کہ ہم نبی ﷺ سے معاذ اللہ اس سخن نا شناسی کی توقیر کریں۔

رہا اِنِّی سَقِیْمٌ والا واقعہ تو اس کا جھوٹ ہونا ثابت نہیں ہوسکتا جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ حضرت ابراہیم فی الواقع اس وقت بالکل صحیح و تندرست تھے اور کوئی ادنیٰ سی شکایت بھی ان کو نہ تھی۔ یہ بات نہ قرآن میں کہیں بیان ہوئی ہے اور نہ اس زیر بحث روایت کے سوا کسی دوسری معتبر روایت میں اس کا ذکر آیا ہے۔

 اب رہ جاتا ہے بیوی کو بہن قرار دینے کا واقعہ تو وہ بجائے خود ایسا مہمل ہے کہ ایک شخص اس کو سنتے ہی یہ کہہ دے گا کہ یہ ہرگز واقعہ نہیں ہوسکتا۔ 

قصہ اس وقت کا بتایا جاتا ہے جب حضرت ابراہیم اپنی بیوی حضرت سارہ کے ساتھ مصر گئے ہیں بائیبل کی رو سے اس وقت حضرت ابراہیم کی عمر 75 اور حضرت سارہ کی عمر 65 برس سے کچھ زیادہ ہی تھی اور اس عمر میں حضرت ابراہیم ؑ کو یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ شاہ مصر اس خوبصورت خاتون کو حاصل کرنے کی خاطر مجھے قتل کر دے گا۔ چناچہ وہ بیوی سے کہتے ہیں کہ جب مصری تمہیں پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے جانے لگیں تو تم بھی مجھے اپنا بھائی بتانا اور میں بھی تمہیں اپنی بہن بتاؤں گا تاکہ میری جان تو بچ جائے (پیدائش، باب 12) 

حدیث کی زیر بحث روایت میں تیسرے " جھوٹ " کی بنیاد اسی صریح لغو اور مہمل اسرائیلی روایت پر ہے۔ کیا یہ کوئی معقول بات ہے کہ جس حدیث کا متن ایسی باتوں پر مشتمل ہو اس کو بھی ہم نبی ﷺ کی طرف منسوب کرنے پر صرف اس لیے اصرار کریں کہ اس کی سند مجروح نہیں ہے ؟ اسی طرح کی افراط پسندیاں پھر معاملے کو بگاڑ کر اس تفریط تک نوبت پہنچا دیتی ہیں جس کا مظاہرہ منکرین حدیث کر رہے ہیں۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب رسائل و مسائل، جلد دوم، ص 35 تا 39)۔

تفسیر، تفہیم القرآن، مفسر: مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی

نوٹ:

جب قرآن  رسول اللہ ﷺ کی سنت کو نظر انداز کریں گے تو اس طرح کی مشکلات پیش آییں گی،  رسول اللہ ﷺ نے :

1.یہود و  نصاری  کی طرح احادیث کی کتب بننا نے سے منع فرمایا، 

2.خلفا راشدین کو اختلآفات میں فیصلہ کا اختیار دے کہ ان کی سنت کو دانتوں سے پکڑنے  اور ...

3.  بدعة سے دور رہنے کیونکہ  بدعة  گمراہی ہے کا حکم دیا 4. یہ  رسول اللہ ﷺ کی وصیت اور حکم‮ ہے جو آج بھی قائم ہے ( 4607 اَلتِّرْمِذِيُّ 266 سنن ابی داود) اور قیامت تک قائم رہے گا،

5. کوئی بدعتی رسول اللہ ﷺ کے اس حکم کو "اصحاب سبت" کی طرح حیلے، بہا نوں تاویلوں ، جھوٹی حکمتوں

" اصحاب سبت والے یہودیوں" کی طرح تبدیل، منسوخ ، معطل، غیر موثرنہیں کر سکتا -

سبت (ہفتہ) کے دن یہودیوں کو مچھلی کا شکار بلکہ کوئی بھی دنیاوی کام کرنے سے منع کیا گیا تھا لیکن انہوں نے

ایک حیلہ (جسے اب حکمت بھی کہتے ہیں؟ ) اختیار کر کے حکم الٰہی سے تجاوز کیا۔ ہفتے کے دن (بطور امتحان) مچھلیاں

زیادہ آتیں انہوں نے گڑھے کھود لئے، تاکہ مچھلیاں اس میں پھنسی رہیں اور پھر اتوار کے دن ان کو پکڑ لیتے،

ان کا انجام قرآن میں موجود ہے : " اور یقیناً تمہیں ان لوگوں کا علم بھی ہے جو تم میں سے "سبت" کے بارے میں حد سے

بڑھ گئے اور ہم نے بھی کہہ دیا کہ تم ذلیل بندر بن جاؤ (2:65 القرآن ) 

6.بدعتی یہ حیلہ بھی کر سکتے ہیں کہ یہ اللہ کے حکم عدولی تھی ، پیغبر کی نہیں ، تو یاد رکھ اللہ نے فرمایا : 

اس رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)  کی جو اطاعت کرے اسی نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی اور جو منھ پھیر لے تو ہم نے آپ کو کچھ ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا (القرآن  4:80 )

7. رسول اللہ ﷺ اور خلفاء راشدین کی" سنت " میں کوئی حدیث کی کتاب مدون  نہیں کی گیئی ، بلکہ ممنوع قرار پایا - صرف قرآن کی تدوین جلد میں ہوئی -. سنت عمل کا نام ہے جو نسل در نسل تواتر سٹے منتقل ہوتی ہے ، سنت کسی کتاب میں تحریر منحصر/ محتاج نہیں- ایک مدرسہ کے بچے کو بھی معلوم ہے کہ حدیث کی کتب کب  اور کس نے مدون کیں- 

https://quran1book.blogspot.com/2020/05/Last-Will.html 

8. رسول اللہ ﷺ نے احدیث کی صداقت (authenticity) چیک کرنے کا ایک معیار مقرر فرما دیا جس کا تعلق حدیث کے

متن سے ہے اور یہ احادیث میں موجود بھی ہے (مفھوم : جو حدیث قرآن ، سنت اور عقل کے مطابق ہو صرف اسے قبول کرو)

9.جب  رسول اللہ ﷺ کے حکم کو چھوڑ کر بدعة ایجاد کر کہ اپنی طرف سیے اسناد کا میعار مقرر کر دیں اور پھر اس پر مضر
ہوں چاہے  انبیاء علیہ السلام کی توہین ہو جایے -

بہت سی  ایسی احادیث ہیں جو کہ دین اسلام اور  رسول اللہ ﷺ کی توہین کی طرف جاتی ہیں اور ان کا ھدایت سے بھی کوئی تعلق نہیں جو کہ  رسول اللہ ﷺ کا مشن تھا - مثلا اونٹ کا پیشاب بطور علاج (صحيح البخاري 233) ،مکھی کو ڈبونا (صحيح البخاري 3320) وغیرہ - ( http://bit.ly/3a92u7B ) اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض ائمہ اونٹ کا پیشاب پینے کو جائز کہتے ہیں جب کہ فقہاءِ احناف کے نزدیک  اونٹ سمیت تمام جانوروں کا پیشاب انسان کے پیشاب کی طرح ناپاک ہے اور اس کا پینا ناجائز ہے؛ کیوں کہ دیگر صحیح احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر قبر کا عذاب پیشاب کی وجہ سے ہوتا ہے۔

حدیث کا میعاراور عقل و دانش / کامن سینس

حضرت ابوحمید ؓ اور ابو اسید ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میرے حوالے سے کوئی ایسی حدیث سنو جس سے تمہارے دل شناسا ہوں تمہارے بال اور تمہاری کھال نرم ہوجائے اور تم اس سے قرب محسوس کرو تو میں اس بات کا تم سے زیادہ حقدار ہوں اور اگر کوئی ایسی بات سنو جس سے تمہارے دل نامانوس ہوں تمہارے بال اور تمہاری کھال نرم نہ ہو اور تم اس سے دوری محسوس کرو تو میں تمہاری نسبت اس سے بہت زیادہ دور ہوں۔ [مفھوم - مسند احمد حدیث نمبر: 22505]

کیا کس بدعتی نے پیشاب خود پیا؟ مکھی کو ڈبویا ؟ کیا یہ سنت تھی؟ اگر یہ درست ہوتا تو آج اونٹ کے پیشاب کی بوتلیں میڈیکل سٹورز پر ملتیں، اور میڈیکل پر طب نبوی (عرب رواج اور علاج پرمشتمل ہے، جیسے کھجور کی پیوندکاری) /حدیث آخری میڈیکل کتاب ہوتی، مگر ایسا نہیں ہے. جیسے قرآن آخری کتاب ھدایت ہے، میڈکل یا سائنس کی کتاب نہیں)- حدیث قرآن، سنت  اور عقل کے خلاف نہیں ہو سکتی-

یہ  ہے فرامین  رسول اللہ ﷺ  کی ایمیت ان کی نظر میں جو  رسول اللہ ﷺ
سے محبت اور اطاعت کے زبانی دعوے دار ہیں مگر عملی طور پر ان کے نا فرمان اور دشمن؟
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا ۚ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ
وَمَا يَفْتَرُونَ ‎ (قرآن : 6:112)
"اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے شیطان پیدا کئے تھے کچھ آدمی اور کچھ جن، جن میں سے بعض بعضوں کو
چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے تاکہ ان کو دھوکہ میں ڈال دیں اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو یہ ایسے کام نہ کر
سکتے سو ان لوگوں کو اور جو کچھ یہ افترا پردازی کر رہے ہیں اس کو آپ رہنے دیجئے"  (قرآن : 6:112)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ ‎﴿٢٠﴾‏ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ قَالُوا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ ‎﴿٢١﴾‏
۞ إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ‎﴿٢٢﴾‏ وَلَوْ عَلِمَ اللَّهُ فِيهِمْ خَيْرًا لَّأَسْمَعَهُمْ ۖ وَلَوْ أَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّوا وَّهُم مُّعْرِضُونَ ‎﴿٢٣﴾‏
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ ‎﴿٢٤﴾‏
وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةً ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ( ‎(8:25قرآن )
10. "اے ایمان لانے والو، اللہ اور اُس کے رسُول کی اطاعت کرو اور حکم سُننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو (20)
اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے کہا کہ ہم نے سُنا حالانکہ وہ نہیں سُنتے (21)
یقیناً اللہا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (22)
اگر اللہ کو معلوم ہوتا کہ ان میں کچھ بھی بھلائی ہے تو وہ ضرور انہیں سُننے کی توفیق دیتا (لیکن بھلائی کے بغیر) اگر وہ
ان کو سُنواتا تو وہ بے رُخی کے ساتھ منہ پھیر جاتے (23)
اے ایمان لانے والو، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جبکہ رسُول تمہیں اس چیز کی طرف بُلائے جو تمہیں
زندگی بخشنے والی ہے، اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے
(24) اور بچو اُس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف اُنہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں
سے گناہ کیا ہو اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے" (8:25قرآن )
اسلام کی پہلی صدی، دین کامل کا عروج کا زمانہ تھا ، خلفاء راشدین اور اصحابہ اکرام، الله کی رسی قرآن کو مضبوطی سے
پکڑ کر اس پر کاربند تھے ... پہلی صدی حجرہ کے بعد جب صحابہ اکرام بھی دنیا سے چلے گیے تو ایک دوسرے دور کا آغاز
ہوا ... الله کی رسی, "قرآن" کو بتدریج پس پشت ڈال کر تلاوت تک محدود کر دیا ...  قرآن کو پس پشت ڈال کر کہ مشرکوں کی
طرح فرقہ واریت سے دین کامل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے-  ہمارے مسائل کا حل پہلی صدی کے اسلام دین کامل کی بحالی
میں ہے >>>>>

https://quran1book.blogspot.com/2020/06/frontpage.html



~~~~~~~~~
🌹🌹🌹
اسلام : دین کامل کی بحالی- تحقیق و تجزیہ 🔰
 اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ

آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لیے بحیثیت دین، اسلام کو پسند کیا ہے (قرآن :5:3)

یہ "آیت کمال دین " حجتہ آلودا ع کو نازل ہوئی، کمال کے بعد زوال شروع ہوا- بدعات اور فرقہ واریت اسلام میں داخل ہوتی گیئں- ایک سچنے مسلم کی خواہش اور کوشش ہونا چاہیے  کہ وہ اصل "دین کامل- اسلام"  کی بحالی کی عملی جدوجہد کرے جو کہ ان خرابیوں سے پاک ہو- دین اسلام کی بنیاد اللہ کی آخری کتاب، قرآن پر ہے جورسول اللہ ﷺب ہترین نمونہ  کی اطاعت کا حکم دیتا ہے- رسول اللہ ﷺ کی متواتر سنت (عمل)  اوراحادیث (اقوال ) موجود ہیں - حدیث کا میعاررسول الله  ﷺ نے مقرر فرمایا اور محدثین نے بھی[1] لیکن جو احادیث اس میعار پر پورا نہ بھی اتریں، ان کا احترم کرنا چاہیے، فضائل، سیره اور تاریخی اہمیت سے فائدہ اٹھانا چاہیے- قرآن مجید آخری رسول محمد صلی الله علیہ وسلم  پر تئیس سالوں میں نازل ہوا ، جو حفظ و تحریر کے ذریعہ محفوظ  کیاگیا- پہلے دوخلفاء راشدین مہدیین کی کوششوں کے نتیجہ میں  ،. کتاب کی شکل میں قرآن مجید کو اکٹھا کرکہ بعد میں دوبارہ جانچ پڑتال کے بعد ، تیسرے خلیفہ حضرت عثمان (رضی الله) نے قرآن کی مستند مجلد کاپیاں تیار کرواکہ امت میں قسیم کردیں ۔  قرآن مستند ترین محفوظ کتاب الله، راہ هدایت ہے-مسلمانوں کو  دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے "دین کامل: اسلام" کو بحال کرنے کی  پرامن انداز میں  کوشش کرنی ضروری ہے۔
اسلام کی پہلی صدی، دین کامل کا عروج کا زمانہ تھا ، خلفاء راشدین اور اصحابہ اکرام، الله کی رسی قرآن کو مضبوطی سے پکڑ کر اس پر کاربند تھے ... پہلی صدی حجرہ کے بعد جب صحابہ اکرام بھی دنیا سے چلے گیے تو ایک دوسرے دور کا آغاز ہوا ... الله کی رسی, "قرآن" کو بتدریج پس پشت ڈال کر تلاوت تک محدود کر دیا ... احادیث کی کتب  کے زریعہ قرآن کو پس پشت ڈال کر کہ مشرکوں کی طرح فرقہ واریت سے دین کامل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے-  ہمارے مسائل کا حل پہلی صدی کے اسلام دین کامل کی بزریعہ قرآن بحالی میں ہے  ..تفصیل  >>>>>>

"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]
The messenger said, "My Lord, my people have deserted this Quran." (Quran 25:30)
~~~~~~~~~

پوسٹ لسٹ